Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ)
16 - 185
فاوّلاً : لا امکان لمقابلۃ طرف بکلہ ا لا مجازا۔
پس اوّلاً تو یہ ہے کہ ایک طرف کا مقابلہ کُلی طورممکن ہی نہیں البتہ مجازاً ہو سکتا ہے۔
و ثانیاً : اذتقابل طرف من قوس مسطحا استحال ان یقابلہ شیئ من طرفھا الآخر لما قدمنا ان الاعمدۃ الخارجۃ من مماسات القوس لا یکون اثنان۔ منھا الی جھۃ واحدۃ قط الم تعلم ان تلک الا عمدۃ کلھا ھی الخطوط الخارجۃ من المرکز الی نقاط القوس اوعلی سموتھا وکلھا تلتقی علی المرکز فان اتصل اثنان منھا بمقابل کالکعبۃ او الخط الماربھا عرضا الی الافق واحدث کل علیہ قائمتین ووصلنا بینھما اجتمع فی مثلث قائمتان وھومحال فتبصر۔
وثانیاً جب ایک طرف قوس مسطح کے مقابل ہو تو اس کی دوسری طرف کے کسی حصے کا اس کے مقابل ہونا محال ہے جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر آئے کہ مماساتِ قوس سے جو نکلنے والے خارجی عمود ہیں ان میں سے فقط دو جہت واحدہ کی طرف متصل نہ ہوں گے، آپ کو یہ معلوم نہیں کہ وہ تمام کے تمام عمود مرکز سے نقاطِ قوس کی طرف یا ان کی سمتوں پر نکلنے والے خطوط ہی ہیں اور تمام کے تما م مرکز پر مل رہے ہیں، ان میں سے اگر دو مقابل کے ساتھ متصل ہو جائیں جیسے کعبہ یا وُہ خط جو کعبہ کے ساتھ عرضاً افق کی طرف گزر رہا ہے اورہرایک اس پر دو قائمے پیدا کردے اور ہم ان کے درمیان اتصال کردیں تو ایک مثلث میں دو قائموں کا اجتماع لازم آئیگا جو محال ہے پس تدبّر کرو(ت)
سوم ۳  : وسط راس مقابل ہر دو چشم سے ایک زاویہ بنا تے آنکھوں پر گزرتے دو خط نکلیں یہ جہاں تک پھیلیں کعبہ جب تک ان کے اندر ر ہے جہت باقی ہے اور دونوں سے باہر واقع ہو تو نہیں۔ یہ امام حجۃ الاسلام غزالی قدس سرہ العالی پھر علّامہ تفتازانی نے شرح کشاف پھر علّامہ مولٰی خسرو نے درر میں افادہ فرمایا ان دونوں نے اُس زاویہ کی مقدار نہ بتائی جو وسطِ سر میں التقائے خطین سے بنے گا اور امام حجۃ الاسلام نے تصریح فرمائی کہ قائمہ ہو ،درر میں اصابت جہت کی ایک وجہ بیان کرکے فرمایا:
اونقول ھوان تقع الکعبۃ فیما بین خطین یلتقیان فی الدماغ فیخرجان الی العینین کساقی مثلث کذا قال النحریر التفتازانی فی شرح الکشاف۱؎۔
یا ہم کہتے ہیں جہت قبلہ یہ ہے کہ کعبہ واقع ہو درمیان ان دو خطوں کے جو وسط رأس (دماغ) میں ملتے ہوئے ۔

دونوں آنکھوں پر گزریں جیسے مثلث کی دو۲ ساقیں ہوتی ہیں اسی طرح علّامہ تفتازانی نے شرح کشاف میں بیان کیاہے۔(ت)
 (۱؎ الدررالحکام شرح غررالاحکام     باب شروط صلوٰۃ     مطبوعہ احمد کامل الکائنہ دارسعادت بیروت        ۱/۶۰)
شرح نقایہ علامہ برجندی میں ہے:
معنی التوجہ الی جھۃ الکعبۃ ھوان تقع الکعبۃ بین خطین یخرجان من العینین و یلتقی طرفاھما داخل الرأس بین العینین ویلتقی طرفاھما داخل الرأس بین العینین علی زاویۃ قائمۃ کذاذکرہ الامام الغزالی فی الاحیاء ثم قال البرجندی فعلی ھذا لو وصل الخط الخارج من العینین الی جدار الکعبۃ یقع علی حادۃ او منفرجۃ لم یکن مقابلا للکعبۃ وھو لا یخلو عن بعد۲؎اھ۔
جہت کعبہ کی طرف توجہ (منہ) کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ کعبہ ایسے دو خطوں کے درمیان واقع ہو جو دونوں آنکھوں سے نکلیں اور جہاں ان کی دونوں طرفیں وسط راس میں دونوں آنکھوں کے درمیان زاویۃ قائمہ پر ملاقی ہوں۔امام غزالی نے احیاء العلوم میں اسے اسی طرح ذکر کیا پھر علامہ برجندی نے کہا اس بنا پر اگر آنکھوں سے نکلنے والا خط کعبہ کی دیوار کی جانب ملے گا تو زاویہ حادہ یا زاویہ منفرجہ پر واقع ہوگاتو یہ کعبہ کے مقابل نہ ہوگا اور وہ بعد سے خالی نہیں اھ
(۲؎ شرح النقایۃ للبرجندی    باب شروط صلوٰۃ     مطبوعہ احمد کامل الکائنہ دارسعادت بیروت        ۱/۸۹)
اقول:  ھذا عجیب من مثل ذلک الجھبذ المبرز فی الفنون الھندسیہ۔
اقول:  (میں کہتا ہوں) فنون ہندسہ کے ایسے عظیم اور ماہر شخص سے ایسا قول بڑا تعجب خیز ہے۔
فاوّلاً: انما قال الامام ان تقع الکعبۃ بین الخطین لا ان یصل شیئ منھما الی جدار الکعبۃ۔
فاوّلاً: اس لئے کہ امام غزالی نے صرف یہ کہا کہ کعبہ دوخطوں کے درمیان واقع ہو، یہ نہیں کہاکہ آنکھوں سے نکلنے والاخط دیوارِ کعبہ سے متصل ہو۔
وثانیاً انما قال یلتقیان بین العینین علی قائمۃ لا علی ان یتصل احدھما بالکعبۃ فیحدث ھنالک قائمتین ولذلک افردالقائمۃ۔
ثا نیاً اس لئے کہ انہوں نے یہ کہا کہ دونوں خطوں کا اتصال دونوں آنکھوں کے درمیان زاویہ قائمہ پر ہو، یہ نہیں کہا کہ ان میں سے ایک کا اتصال کعبہ کے ساتھ ہوپھر وہاں سے دو زاویے قائمے پیدا ہوں، اسی وجہ سے ''قائمہ'' بطور مفرد ذکر کیا۔
اقول: وبما قررنا ظھرقلق ما قال الفاضل الحلیمی افندی فی حاشیتہ الدرر ان حاصلہ ان تقع الکعبۃ بین خطین یخرجان من العینین وان کان احد الخطین طویلاکماھوالمشاھد عندانحراف التوجہ۱؎ اھ فان الخطین یمتدان الی الافق فلامساغ ثمہ لطول و قصر ولاد اعی الی قطعھما علی حد و انما النظر الی الفضاء الحاصل بینھما ان تقع الکعبۃ فیہ۔
اقول: (میں کہتا ہوں) ہماری اس تقریر سے وہ اضطراب اور پیچیدگی بھی ظاہر ہو گئی جو کہ فاضل حلیمی آفندی نے اپنے حاشیہ درر میں پیدا کی ہے انہوں نے کیا: اس کاحاصل یہ ہے کہ کعبہ ایسے دو خطوں کے درمیان واقع ہو جو دونوں آنکھوں سے نکلتے ہوں اگر چہ ان دوخطوں میں ایک طویل ہو جیسا کہ انحراف توجہ کے وقت مشاہدہ میں آتا ہے ۔اھ کیونکہ دونوں خط جب افق کی طرف ممتد ہوتے ہیں تو وہاں نہ طول وقصر رہتا ہے اور نہ ہی کسی حد پر دونوں کے قطع کا کوئی داعی ملتا ہے اس صورت میں ان دونوں کے درمیان حاصل ہونے والی فضا میں نظر اس طرح ہوتی ہے گویا کعبہ اسی فضاء میں واقع ہے۔(ت)
 (۱؎ حاشیۃ الدُرر الی الغر رللفاضل الحلیمی باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ مطبع عثمانیہ دارسعادت بیروت ، ۱/۵۲)
اقول:  اس قول پر یہ خط جو وسطِ دماغ محاذی عینین سے زاویہ قائمہ بناتے نکلے ان کے اندر کعبہ کسی طرح واقع ہونا مطلقاً حصولِ جہت کو کافی ہے اگرچہ ایک خط کعبہ سے ملا ہوا گزرے ، اب اگر یہ معنی لئے جائیں کہ یہ دونوں خط جہاں تک پھیلیں ان کے اند ر اندر جو کچھ ہے جہتِ کعبہ ہے ا س کی طرف توجہ توجہ بجہت کعبہ ہے جیسا کہ احیاء امام حجۃ الاسلام سے نقل کیا گیاولم ارہ فیہ ولا فی شرحہ اتحاف السادۃ فی کتاب اسرار الصلاۃ(حالانکہ یہ بات مجھے احیاء العلوم اور اس کی شرح اتحاف السادہ کی کتاب اسرار الصلاۃ میں نہیں ملتی۔ت)کہ ان دونوں خطوں کا بیان کرکے فرمایا۔
فما یقع بین الخطین الخارجین من العینین فھود اخل فی الجھۃ
 (پس جو دونوں آنکھوں سے نکلنے والے خطوط کے درمیان واقع ہوگا وہ جہت قبلہ میں داخل ہے۔ت)تو اس تقدیر پر یہ قول بھی مثل دو قول پیشیں اُتنی ہی وُسعتِ بعیدہ رکھے گا جب زاویۃ قائمہ ہے اور اُس کے ایک خط سے کعبہ متصل ہو سکتا ہے تو دونوں طرف تقریباً نوےّ درجے انحراف جائز ہُوا اور وہی ایک خفیف ناقابل احساس مقدار کم ایک سو اسّی۱۸۰ درجے تک جہت پھیل گئی اور وہی مخالفت نص و اجماع لازم آئی یہ لا جرم مراد ہے کہ وقت نماز جب تک کعبہ معظمہ ان دونوں خطوں کے اندر ہے وہاں تک انحراف میں جہت باقی ہے تو یہ نہ ہوگا مگر عین کعبہ سے دونوں طرف ۴۵-۴۵ درجے انحراف تک ٹھیک جہت توجہ کا خط اس زاویہ قائمہ کی تنصیف کرتا ہے تو اگر نصف قائمہ سے زیادہ انحراف ہوا کعبہ دونوں خطوں سے باہر ہو جائے گا کمالا یخفی۔ (جیسا کہ ظاہرہے۔ت) بالجملہ حاصل یہ کہ آدمی ٹھیک محاذی کعبہ کھڑا ہو اُس وقت جو یہ خطوط نکل کر پھیلیں اُن کے اندر اندر دونوں طرف کو انحراف روا ہے اب یہ عبارت آئندہ پنجم کی طرف راجع ہو جائے گا اور طرفین میں پینتالیس ۴۵ پینتالیس۴۵ درجے تک انحراف جائز ہوگا اور یہ صاف وصحیح بے غبار ہے۔
Flag Counter