Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ)
15 - 185
اور اسکی تائید اُس حدیث سے کی گئی کہ ترمذی و ابن ماجہ و حاکم نے ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کی کہ ترمذی نے کہا حسن صحیح ہے حاکم نے کہا برشرط بخاری و مسلم صحیح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ما بین المشرق والمغرب قبلۃ۳؎ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ۔امام ملک مؤطا اور ابو بکر ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق مصنفات اور بیہقی سنن اور ابولعباس اصم اپنے جُزءِ حدیثی میں راوی امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا :مابین المشرق والمغرب قبلۃ۱؎(مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔ت)
 (۳؎ جامع الترمذی    باب ماجاء ان بین المشرق والمغرب قبلۃ        مطبوعہ امین کمپنی دہلی     ۱/۴۶)

(۱ ؂ سنن الکبری                   کتاب الصلٰوۃ                                 مطبوعہ دار صادر بیروت ۲/۹)
جامع ترمذی میں یہ قول متعدد صحابہ کرام مثل امیرالمؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ ، و حضر ت عبداﷲ بن عباس وغیرہما رضی اﷲ عنہما سے مروی ہونا بیان کیا اور کہا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں۔
اذاجعلت المغرب عن یمینک والمشرق عن یسارک فما بینھما اذا استقبلت القبلۃ۲؎
جب تو مغرب کو داہنے ہاتھ پر لے اور مشرق کو بائیں ہاتھ پر، تو ان دونوں کے اندر قبلہ ہے۔اس وقت روبقبلہ ہولیا۔
(۲؎ جامع الترمذی     باب ماجاء ان بین المشرق والمغرب قبلۃ        مطبوعہ امین کمپنی دہلی    ۱/۴۶)
اقول:  عبارت مذکورہ علماء سے ظاہر اًیہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک منہ کرنے کے عوض پیٹھ کرنا نہ ہو کہ قبلہ مغرب کو ہے یہ مشرق کو منہ کرے یا بالعکس ، اُس وقت تک استقبال فوت نہ ہوگا، یہاں تک کہ اگر مغربی قبلہ والا جنوب یا شمال کو منہ کرکے کھڑا ہو یعنی کعبہ معظمہ کو ٹھیک دہنی یا بائیں کروٹ پڑے تو جہت ہنوز باقی رہی اور یہ ظاہر الفساد ہے پہلو کرنے کو کوئی منہ کرنا نہ کہے گا۔یہ فَوَّلِّ وَجھَکَ(پس اپنا چہرہ اقدس پھیر یے۔ت) کے عوض وَلِّ جَنبَکَ(اپنا پہلو مبارک پھیریے۔ت) رہے گا اور وہ بالاجماع باطل ہے لہذا قولِ ظہیریہ اذا تیا من اوتیا سر تجوز۳؎( اگر دائیں یا بائیں ہوگیا تو جائز ہے۔ت)
(۳؎ ردالمحتار        مبحث فی استقبال القبلۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۱۵)
کی تاویل کی طرف دُرمختار میں اشارہ فرمایا ردالمحتار میں اسکی شرح کی: ای لیس المراد منہ ان یجعل الکعبۃ عن یمینہ اویسارہٖ اذلا شک حینئذ فی خروجہ عن الجھۃ بالکلیۃ بل المرادالانتقال عن عین الکعبۃ الی الیمین اوالیسار۴؎ اھ ملخصاً۔

یعنی اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ کعبہ کو دائیں یا بائیں کرے کیونکہ اس صورت میں وہ بلا شک جہتِ کعبہ سے نکل جائے گا بلکہ اس مراد یہ ہے کہ وہ عین کعبہ سے دائیں یا بائیں طرف منتقل ہوجائے اھ ملخصاً(ت)
 (۴؎ ردالمحتار        مبحث فی استقبال القبلۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۳۱۶)
اگر چہ یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ اپنے یہاں کے نقاطِ اربعہ جہاتِ اربعہ کے اعتبار سے افق بلد کے دو نصف کئے جائیں ، قبلہ اگر وہاں سے جنوب یا شمال کو ہے (جیسے مدینہ طیبہ کہ اس کا قبلہ میزابِ رحمت ہے)تو جنوبی شمالی ، اور اگر شرق یا غرب کوہے (جیسے ہندوستان میں اس کا قبلہ بابِ کعبہ و مقامِ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ہے) تو شرقی غربی، پھر جس نصف میں کعبہ ہے مصلّی اس میں کسی طرف منہ کرلے استقبال ہو جائے گا اور دوسرے نصف کی طرف منہ کیا تو جہت سے نکل جائے گا یہ پہلے سے بھی زیادہ ظاہر البطلان ہے کہ اس پر استقبال قبلہ میں نماز فاسد اور استدبار قبلہ میں صحیح ٹھہرتی ہے۔فرض کرو
6_1_1.jpg
 اب حء شہری کا دائرہ افق ہے جس میں ا نقطہ مغرب ء نقطہ مشرق تو ب ا ح قوسِ غربی ہوئی ر کعبہ معظّمہ اسی نصف میں واقع تو مصلی نقطہ ط کی طرف منہ کرے تو اسکی توجہ اسی نصف کی طرف واقع ہوئی مگرقطعاً اُس کی پشت کعبہ کو ہے اور ح کی طرف استقبال کرے تو نماز نہ ہو کہ نصف بدل گیا حا لانکہ وہ قطعاً استقبال میں ہے بلکہ معنی یہ ہیں کہ ایک خطِ مستقیم موضع مصلی و محلِ کعبہ میں وصل کیا جائے اور دوسرا خط کہ اس پر عمود ہو جانبین میں دائرہ افق تک ملا دیا جائے اس عمود سے جو افق کے دو نصف ہوئے اُن میں قبلہ اُس حصہ میں ہےجس کے ٹھیک وسط میں کعبہ ہے پس صورت مفروضہ میں تصویر سمت یہ ہے
6_1_2.jpg
 خط ی ک خط قبلہ تحقیقی اور ح ط اُس پر عمود قوس ح ک ط میں قبلہ ہے ح ط سے وہ استحالے تو اُٹھ گئے مگر ایراد اوّل ہنوز باقی ہے کہ ظاہریہ کہ نقطتین ح ط کے اندر اندر ساری قوس جہت ہے اور شک نہیں کہ ح ط درکنار ال کی طرف منہ کرنا بھی یقیناتیامن تیا سر ہے نہ استقبال و لہذا علماء نے اسے مشکل جانا اور تاویل و تقلید کی طرف متوجہ ہوئے کہ اس سے مراد صرف وہ حصہ قوس ہے جس کی طرف توجہ میں ہوائے کعبہ سے کچھ بھی محاذات و مسامتت باقی ہے اگر چہ تقریباً نہ یہ کہ جس نقطے کو چاہو منہ کر لو ۔
منحۃ الخالق میں ہے:
: م قبلۃ اھل المشرق المغرب عندنا ، ش ھذافی الذخیرۃ (الی ان قال) ثم الظاھر ان ھذا انما یستقیم فیما اذا کان التوجہ من المشرق الی المغرب وبالعکس مسامتا لھواء الکعبۃ اما تحقیقا او تقریبا علی ماذکرنا لاعلی ای وجہ کان ذلک التوجہ من احدی الجھتین الی الاخری فتنبیہ لہ وکان للعلم بہ لم یفصحوا بہ۱؎۔
م (متن) اہل مشرق کا قبلہ ہمارے نزدیک مغرب ہے ش(شرح) یہ ذخیرہ میں ہے (آگے چل کر کہا ) پھر ظاہر یہ ہے یہ اس صورت درست ہوگا جب توجہ مشرق سے جانب مغرب یا بالعکس ہوائے کعبہ کی سمت حقیقتاً یا تقریباً باقی رہے جیسے کہ ہم نے ذکر کیا یہ نہیں کہ ہر صورت میں درست ہوگا یعنی جب دونوں جہتوں میں سے ایک کی توجہ دوسری کی طرف ہو۔ یہ اس کے لئے تنبیہ ہے اور گویا اس بات کا علم تھا اس لئے اُنھوں نے وضاحت نہیں کی۔(ت)
 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
یوں ہی ردالمحتار میں اسے موؤل کیا کما سیأتی وللعبد الضعیف فیہ کلام ستعر فہ ان شاء اﷲ تعالٰی (جیسے کہ عنقریب آئیگا اور عبدضعیف کو اس میں کلام ہے جس سے ان شاء اﷲ تعالٰی آگاہی ہوگی۔ت)
دوم کہ عامہ کُتب میں شہرت وافیہ رکھتا ہے کہ اتنا پھر سکتا ہے جس میں منہ یعنی وجہ کا کوئی حصہ مقابل کعبہ معظمہ رہے دو مسطح چیزوں میں مقابلا تھوڑے انحراف سے زائل ہوجاتا ہے مگر قوس کا مقابلہ بے انحراف کثیر زائل نہ ہوگا اور حق جل و علا نے انسان کا چہرہ مقوس بنایا ہے جب تک کوئی حصہ رُخ مقابل رہے گا استقبال بالوجہ حاصل رہے گا اور فول وجھک شطرالمسجد الحرام (پس اپنا چہرہ اقدس مسجد حرام کی طرف پھیر لو۔ت)کا امتثال ہو جائے گا۔

اقول اُس کی وجہ یہ ہے کہ سطح مستوی پر جتنے خط عمود ہوں گے سب کی سمت ایک ہی ہوگی جب ان میں ایک مقابلہ سے منحرف ہوا سب منحرف ہوگئے بخلاف قوس کہ اُس کے ہر نقطہ کے خطِ مماس پر نقطہ تماس سے جو عمود قائم ہوگا جُدا جہت رکھے گا تو اُس کا مقابلہ زائل ہوا دوسرے کا ہوگا اُس کا نہ رہا اور کا ہوگا یہاں تک کہ قوس ختم ہو جائے۔
معراج الدرایہ و فتح القدیر و زادالفقیر و حلیہ و غنیہ و بحرالرائق و فتاوٰی خیریہ و درمختار و ردالمحتار وغیرہا میں ہے۔
وھذا لفظ الاخیر ثم اعلم انہ ذکر فی المعراج عن شیخہ ان جہۃ الکعبۃ ھی الجانب الذی اذا توجہ الیہ الانسان یکون مسامتا للکعبۃ او ھوا ئھا تحقیقا او تقریبا و معنی التقریب ان یکون منحرفا عنھا اوعن ھوائھا بما لاتزول بہ المقابلۃ بالکلیۃ بان یبقی شئی من سطح الوجہ مسامتا لھا ولھوائھا ملخصا۔
آخری کتا ب کے الفاظ یہ ہیں : پھر جان لے کہ معراج الداریہ میں اپنے شیخ سے ذکر کیا ہے کہ جہتِ کعبہ سے مراد وہ جانب ہے کہ انسان جب اس کی طرف توجہ کرے تو انسان کا چہرہ کعبہ یا ہوائے کعبہ کی جانب تحقیقاً یا تقریباً باقی رہے تقریب کا معنی یہ ہے کہ کعبہ یا ہوائے کعبہ سے تھوڑا منحرف ہو جس سے بالکلیہ مقابلہ زائل نہ ہو بایں طور کہ چہرہ کی سطح کعبہ یا ہوائے کعبہ کی سمت باقی رہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار، مبحث فی استقبال القبلۃ    مطبوعہ مجتبائی د ہلی، ۱/۲۸۷)
جامع الرموز میں ہے:
لابأس بالانحراف انحرافا لاتزول بہ المقابلۃ بالکلیۃ بان یبقی شئی من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ۲؎۔
ایسے انحراف میں کوئی حرج نہیں جس سے تقابل بالکلیہ ختم نہ ہو بایں طور کہ سطحِ چہرہ کا کچھ حصہ کعبہ کی جانب باقی رہے۔(ت)
 (۲؎ جامع الرموز        باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ گنبد قاموس ایران            ۱/۱۳۰)
جامع الرموز میں ہے:
لابأس بالانحراف انحرافا لاتزول بہ المقابلۃ بالکلیۃ بان یبقی شئی من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ۲؎۔
ایسے انحراف میں کوئی حرج نہیں جس سے تقابل بالکلیہ ختم نہ ہو بایں طور کہ سطحِ چہرہ کا کچھ حصہ کعبہ کی جانب باقی رہے۔(ت)
(۲؎ جامع الرموز        باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ گنبد قاموس ایران            ۱/۱۳۰)
درر میں ہے
: فیعلم منہ انہ لو انحرف عن العین انحرافا لا یزول بہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز یؤ یدہ ماقال فی الظہیریۃ اذاتیا من اوتیاسر یجوز لان وجہ الانسان مقوس فعندالتیا من او التیا سریکون احد جوانبہ الی القبلۃ۳؎۔
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عین کعبہ سے اتنا تھوڑا منحرف ہو جس سے باکلیہ مقابلہ ختم نہ ہوتا ہو تو نماز جائز ہو، ظہیریہ کا یہ قول بھی اس کی تائید کرتا ہے: جب انسان متیامن متیا سر ہوگیا تو نماز جائز ہے کیونکہ انسان کا چہرہ کمان کی طرح گول ہے تھوڑا سا دائیں بائیں ہونے سے اس کی کوئی ایک جانب قبلہ رُخ باقی رہے گی۔(ت)
(۳؎ الدرر الحکام شرح غررالاحکام  باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مطبع احمد کامل الکائنۃ فی دار السعادت بیروت ۱/۶۰ )
فعلم ان الانحراف الیسیر لایضر وھوالذی یبقی معہ الوجہ او شیء من جوانبہ مسامتا لعین الکعبۃ اولھوائھا بان یخرج الخط من الوجہ اومن بعض جوانبہ ویمر علی الکعبۃ اوھواء ھا مستقیما ولا یلزم ان یکون الخط الخارج علی استقامۃ خارجا من جبھۃ المصلی بل منھا اومن جوانبھا کما دل علیہ قول الدررمن جبین المصلی فان الجبین طرف الجبھۃ وھما جبینان وعلی ما قررناہ یحمل مافی الفتح والبحر عن الفتاوٰی من ان الانحراف المفسدان یجاوز المشارق الی المغارب ؎۱
تو اس سے معلوم ہُوا کہ تھوڑا انحراف نقصان دہ نہیں وہ تھوڑا انحراف یہ ہے کہ چہرہ یا چہرہ کی کوئی ایک جانب عین کعبہ ہوائے کعبہ کے مقا بل باقی رہے بایں طو ر کہ چہرے اس کی کسی ایک جانب سے نکلنے والا خط کعبہ یا ہوائے کعبہ کی طرف مستقیم (سیدھا ) ہو کر گزرے یہ ضروری نہیں کہ نکلنے والا خط سیدھانمازی کی پیشانی سے خارج ہو بلکہ پیشانی یا پیشانی کے کسی ایک حصہ سے خارج ہو جیسے کہ اس پر درر کے یہ الفاظ دال ہیں ، وہ خط نمازی کے جبین سے خارج ہو، کیونکہ جبین پیشانی کی ایک طرف کو کہتے ہیں اوراس کے دونوں طرف دو جبینیں ہوئے۔ یہ جو ہم نے گفتگو کی ہے اسی پر اس کو محمول کیا جائے جو فتح القدیر اور بحرالرائق میں فتاوٰی سے منقول ہے : یعنی مفسدِ نماز وہ انحراف ہے جس سے مشارق مغارب بدل جائیں(ت)
 (۱؂ردالمحتار، مبحث فی استقبال القبلۃ، مطبو عہ مجتبائی دہلی ۱/۲۸۸)
اقول: وباﷲ التوفیق (میں اﷲ کی توفیق سے کہتا ہوں۔ت) تمام کتب مذکورہ میں شئی من سطح الوجہ(سطحِ چہرہ کا کُچھ حصہ ۔ت) کا لفظ ہے اور ہمارے مذہب میں ایک کان سے دوسرے تک سب سطحِ وجہ ہے و لہذا مابین العذارو الاذن (رخسار اور کان کا درمیانی حصہ۔ت) کا دھونا بھی وضو میں فرض ہُوا اور قطعاً معلوم ہے کہ جب کوئی کسی نقطہ افق کی محاذات پر کھڑا ہو تو اس کی سطح وجہ کی محاذات نصف دائرہ افق کو گھیر لے گی تو ربع دور تک پھرنا روا ہوگا اور ٹھیک جنوب یا شمال کو منہ کئے سے مستقبل کعبہ قرار پائے گا کہ کان کے متصل جو سطحِ وجہ یعنی کنپٹی کا حصہ ہے ضرور محاذی کعبہ ہے حالانکہ وہ بداہۃً متیامن یا متیاسر نہ کہ مستقبل ، تو اس قول کے ظاہر پر بھی وہی استبعادِ شدید لازم جو عبارت اولٰی پر تھا اور حلیہ و ردالمحتار کے اول کو دوم کے ساتھ تاویل کرنا۔
حیث قال فی الحلیۃ او تقریبا علی ما ذکرناہ وماذکر ھو ھذا القول الثانی من بقاء شیئ من سطح الوجہ مسامتا، وسمعت اٰنفاقول الشامی۔
جہاں حلیہ میں کہا: یا وہ تقریباً محاذی ہو جیسے کہ ہم ذکر کر آئے ، اور جو انھوں نے ذکر کیا وہ قولِ ثانی یہی ہے کہ سطحِ وجہ کا کوئی حصہ سمتِ کعبہ میں باقی رہے۔اور شامی کا قول ابھی آپ نے سُنا۔(ت)
اصلاً نافع نہ ہوا کہ کلام بھی اپنے ظاہر پر اُتنا ہی وسیع ہے جتنا قولِ اوّل تھا اور یہ زنہار نہ قابلِ اعتبار نہ مرادِ علماء ہونے کا سزا وار ، مثلاً جہا ں کعبہ خاص سمت قبلہ مغرب ہو اگر کوئی شخص ٹھیک نقطہ جنوب و شمال کو منہ کرے یا نہ سہی بلکہ دو تین درجے مغرب کو پھرا ہی مانیے کہ مسافات بعیدہ میں اتنا انحراف فرق محسوس نہیں دیتا تو یقینا یہی کہا جائے گا کہ اُس کا منہ جنوب یا شمال کو ہے نہ کہ کعبہ معظمہ کو، حالانکہ اُس کی سطح کی وجہ سے بعض جُز بلا شُبہ مسامت کعبہ ہے۔
نعم رأیت الفاضل عبدالحلیم الرومی من علماء الدولۃ العثمانیۃ ذکر فی حاشیتہ علی الدرر تقیید عبارتھا حیث قال(قولہ یکون احد جوانبہ الی القبلۃ )لا یرید بہ زوال الطرف الاخر عن المقابلۃ بالکلیۃ کماظن بل المراد مقابلۃ طرف بکلہ مقابلۃ شئی من سطح الاخر مسامتا کماھو المفہوم من المنبع۱؎ اھ اقول لم یذکر عبارۃ المنبع حتی ینظر فیھا وھو مع مخالفتہ لظاھر الدرر لایلائمہ نص عامۃ الکتب المذکورۃ من الاجتزاء ببقاء شئی من سطح الوجہ مسامتا فانہ صریح فی عدم الحاجۃ الی مسامتۃ ما فی الباقی اصلابل اقول لعلک ان امنعت النظرلم ترہ یرجع الی صحۃ فان المسامتۃ لا بدلھا من مقابلۃ حقیقیۃ فی حقیقیۃ لوسط الجبھۃ وفی التقریبیۃ شئی من الاطراف امااذا فاتت مقابلۃ الحقیقیۃ اصلا فلامسامتۃ فلا استقبال فلا صلوٰۃ والمقابلۃ انما تکون باتصال الخط قوائم ، الا تری اِحِ ہِ ان سطح ایقابل ب و ح یواجہ ء اماہ فلا یسامت رلعدم الاتصال علی قوائم بَ ءَ رَ وھو لایکون لمقوس قط مع مسطح الامن نقطۃ واحدۃ تحقیقا و بعض نقاط مجاورۃ اخری تقریبا۔
ہاں میں نے دور عثمانی کے علماء میں سے عبدالحلیم رومی کو دیکھا جنہوں نے درر پر اپنے حاشیہ میں ان کی عبارت کو مقیدذکر کیا ان کی عبارت یہ ہے قولہ یکون احد جوانبہ الی القبلۃ(کوئی ایک قبلہ کی طرف ہو) اس سے ان کی مرا د یہ نہیں کہ دوسری جانب بالکل مسامتت قبلہ سے ختم ہوجائے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف کلیۃً محاذی ہو اور دوسری کی سطح کا کچھ مسامت رہے جیسا کہ منبع سے یہی مفہوم ہوا ہے اھ
(۱؎ حاشیۃ الدررعلی غررلعبد الحلیم الرومی باب شروط صلوٰۃ  مطبوعہ مطبع عثمانیہ دار سعادت بیروت    ۱/۵۲)
اقول:  (میں کہتا ہوں ) انہوں نے منبع کی عبارت ذکر نہیں کی تاکہ اس پر غور کیا جا سکے اور انکا یہ قول ظاہر درر کے مخالف ہے اور اس سے مناسبت بھی نہیں رکھتا نیز عامہ کتب مذکورہ کے نصوص کے بھی خلاف ہے کیونکہ کتب مذکورہ نے سطحِ وجہ کے کسی حصّہ کے سمت قبلہ میں ہونے کو کافی قرار دیا ہے یہ اس بات کی صراحت ہے کہ باقی حصہ کا مسامت و محاذی ہونا قطعاً ضروری نہیں۔بل ا قول (بلکہ میں کہتا ہوں) اگرتو غور وفکر کرے توتُواس قول کو صحیح نہیں پائے گا کیونکہ مسامتت حقیقی کے لئے حقیقۃً وسط پیشانی کا مقابل ہونا ضروری ہے اور مسامتت تقریبی کے لئے چہرے کی کسی ایک طرف کا مقابل ہونا کافی ہے۔پس جب ،مقابلہ حقیقی اصلاً ختم ہو گیا تو اب نہ مسامتت رہی نہ استقبالِ قبلہ رہا نہ نماز درست ہوگی۔ اور مقابلہ قائموں پر خط کے اتصال سے بنتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے اِ حِ ہِ میں کہ سطح ا مقابل ہے ب کے اور ح ء کے موجہ ہے لیکن ہ ِ بَ ءَ رَ کے قائموں پر عدمِ اتصال کی وجہ سے ر کے مسامت نہیں ہے اور یہ بات مسطح کے ہوتے ہوئے مقوس میں قطعاً نہیں ہوگی مگر نقطہ واحدہ سے تحقیقاً اور بعض دوسرے نقاطِ متصلہ سے تقریباً ۔
Flag Counter