Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ)
14 - 185
حلیہ میں ہے:
المحراب فی حق المصلی قد صارکعین الکعبۃ ولھذالا یجوز للشخص ان یجتہد فی المحاریب فایاک ان تنظر الی ما یقال ان قبلۃ اموی دمشق واکثر مساجدھا المبنیۃ علی سمت قبلۃ فیھا بعض انحراف اذلا شک ان قبلۃ الاموی من حین فتح الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم ومن صلی منھم الیھا وکذامن بعدھم اعلم و اوثق من فلکی لاندری ھل اصاب ام اخطأبل ذلک یرجع خطأہ وکل خیر من اتباع من سلف ۳؎۔
نمازی کے لئے محراب عین کعبہ کی طرح ہے اسی لئے کسی شخص کو روا نہیں کہ وہ محاریب میں اجتہاد یا غور و فکر کرے اس بات سے تو دُور رہ(جو کہا جاتا ہے) کہ جامع اموی دمشق اور اسکی اکثر دیگر مساجد جو اسکی سمت پر بنائی گئی ہیں ان کی سمت قبلہ کچھ منحرف ہے کیونکہ جامع اموی کے قبلہ کا تعیّن اس وقت ہوا جب صحا بہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنھم نے اس علاقہ کو فتح کیا تھا صحابہ کرام خود بھی اسی رُخ نماز ادا کرتے رہے اور اُن سے بعد کے لوگ بھی اور وہ حضرات اس فلکی سے زیادہ عالم اور ثقہ تھے اس فلکی کے بارے میں ہمیں کیا معلوم کہ اسکی رائے درست ہے یاغلط بلکہ اس کا خاطی ہونا ہی راجح ہے اور تمام خیر اسلاف کی اتباع میں ہے۔(ت)
 (۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
پھر علماء کے یہ ارشادات اس بارے میں تھے جو فنِ ہیأت کا ماہر کامل عامل فاضل ثقہ عادل ہو یہ نئی روشنی والے نہ فقہ سے مس نہ ہئیات سے خبر ، اور دین و دیانت کاحال روشن تر ، ان کی بات کیا قابلِ التفات، ان کی ہیأت دانی اس اعتراض ہی سے پیدا ہے کہ قطب شمالی شانہ راست سے جانب پشت مائل ہونے کو دلیل انحراف بتایا اور دیوار توڑ کر ٹھیک محاذاتِ قطب میں بنانا چاہتے ہیں ، علم ہیأت مین ادراک سمت قبلہ کےلئے دوطریقے ہیں: ایک تقریبی کہ عامہ کتب متداولہ میں مذکور ، دوسرا تحقیقی کہ زیجات میں مسطور۔ یہاں سے واضح کہ یہ حضرات اُن دونوں سے محجور ، اگر وُہ طریقہ تقریبی جانتے اُن پر معترض نہ ہوتے کہ اُس کی رو سے سمت قبلہ علی گڑھ نکالیں تو ضرور قطبِ شمالی شانہ راست سے جانبِ پشت ہی پھرا رہے گا کہ اس طریقہ پر علی گڑھ کا خط قبلہ نقطہ مغرب سے ساڑھے دس درجے جانبِ جنوب جھُکا ہُوا ہے۔ ظاہر ہے کہ نقطہ مغرب کی طرف منہ کرتے تو قطب محاذات شانہ پر رہتا اب کہ مغرب سے دس درجے جنوب کو پھرے ، قطب ضرور جانبِ پشت میلان کرے گا ، اور اگر طریقہ تحقیقی سے آگاہ ہوتے ہر گز دیوار جدید محاذی قطب بنانی نہ چاہتے کہ طریق تحقیقی میں بھی خط قبلہ علی گڑھ نقطہ مغرب سے جنوب ہی کو مائل ہے اگرچہ نہ اُتنا کہ ہم دونوں طریق تقریب و تحقیق ان شاء ا ﷲ آخر کلام میں ذکر کریں گے۔
پھر علماء کے یہ ارشادات اس بارے میں تھے جو فنِ ہیأت کا ماہر کامل عامل فاضل ثقہ عادل ہو یہ نئی روشنی والے نہ فقہ سے مس نہ ہئیات سے خبر ، اور دین و دیانت کاحال روشن تر ، ان کی بات کیا قابلِ التفات، ان کی ہیأت دانی اس اعتراض ہی سے پیدا ہے کہ قطب شمالی شانہ راست سے جانب پشت مائل ہونے کو دلیل انحراف بتایا اور دیوار توڑ کر ٹھیک محاذاتِ قطب میں بنانا چاہتے ہیں ، علم ہیأت مین ادراک سمت قبلہ کےلئے دوطریقے ہیں: ایک تقریبی کہ عامہ کتب متداولہ میں مذکور ، دوسرا تحقیقی کہ زیجات میں مسطور۔ یہاں سے واضح کہ یہ حضرات اُن دونوں سے محجور ، اگر وُہ طریقہ تقریبی جانتے اُن پر معترض نہ ہوتے کہ اُس کی رو سے سمت قبلہ علی گڑھ نکالیں تو ضرور قطبِ شمالی شانہ راست سے جانبِ پشت ہی پھرا رہے گا کہ اس طریقہ پر علی گڑھ کا خط قبلہ نقطہ مغرب سے ساڑھے دس درجے جانبِ جنوب جھُکا ہُوا ہے۔ ظاہر ہے کہ نقطہ مغرب کی طرف منہ کرتے تو قطب محاذات شانہ پر رہتا اب کہ مغرب سے دس درجے جنوب کو پھرے ، قطب ضرور جانبِ پشت میلان کرے گا ، اور اگر طریقہ تحقیقی سے آگاہ ہوتے ہر گز دیوار جدید محاذی قطب بنانی نہ چاہتے کہ طریق تحقیقی میں بھی خط قبلہ علی گڑھ نقطہ مغرب سے جنوب ہی کو مائل ہے اگرچہ نہ اُتنا کہ ہم دونوں طریق تقریب و تحقیق ان شاء ا ﷲ آخر کلام میں ذکر کریں گے۔
ثامنا:  محاذات قطب چاہنا بھی ان صاحبوں کے خیال میں علمائے اسلام رحھم اﷲ تعالٰی کا صدقہ ہے جن کا منشا اگران کے خیال میں ہوتا ،مسجد کا ڈھانا فرض نہ کرتے ،زمانہ اقدس صحابہ کرام بلکہ حضو پُر نور سید الانام صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے غیر مکّی کیلئے جہتِ کعبہ قبلہ قرار پائی ہے اصابت عین کی ہر گز تکلیف نہیں و لہذا صحابہ وتابعین رضی اﷲ تعالٰی عنھم نے بلادِ متقاربہ بلکہ ملک بھر کیلئے ایک ہی قبلہ قرار دیا، ملک عراق کے واسطے باتباع ارشادِ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم و فرمانِ فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ صحابہ نے بین المشرق والمغرب قبلہ مقرر فرمایا، ائمہ کرام نے بخارا، سمرقند ،نسف،ترمذ ، بلخ ، مرو ، سرخس وغیرہا کا قبلہ مسقط راس العقرب بنایا، بیت المقدس ،حلب، دمشق، رملّہ، نابلس وغیرہا تمام ملکِ شام کا قبلہ ستارہ قطب کو پس پشت لینا ٹھرایا۔ کوفہ ،بغداد، ہمدان ، قزوین، طبرستان ، جرجان وغیرہا میں نہر شاش تک قطب کو داہنے کان کے  پیچھے ہلکہ عراق میں سیدھے (دائیں) شانے ،ملک مصر میں بائیں کندھے ، ملک یمن میں منہ کے سامنے بائیں کو ہٹا ہُوا فرمایا۔ امام فقیہ ابو جعفر ہندوانی نے بغداد مقدس و بخارا شریف کا قبلہ ایک بتایا۔ علماء نے خراسان و سمر قند وغیرہا بلادِ مشرقیہ کےلئے جن میں ہندوستان بھی داخل بین المغربین قبلہ ٹھہرایا۔ امام اجل فقیہ النفس قاضی خا ن رحمہ اﷲ تعالٰی نے مشائخ کرام رحم اﷲ تعالٰی سے دربارہ قبلہ چھ ۶ قول نقل فرمائے : بنات النعش ؎۱صغری کو جس کی نعش کا سب سے روشن ستارہ قطب ہے دہنے کان پر لےکر قدرے بائیں کو پھرنا۔ستارہ قطب کو سیدھے (دائیں ) کان کے پیچھے لینا،مسقط راس العقرب کی طرف مُنہ کرنا آفتاب جب برج جوزا میں ہو آخر وقت ظہر میں اسکی سمت دیکھ کر ملحوظ رکھنا ،مسقط دونسر طائر و واقع کے درمیان بین المغربین کے فاصلے سے دو ثلث دہنے ایک بائیں کو رکھنا۔ اور فرمایا کہ یہ سب ا قوال باہم قریب ہیں ان تمام احکام کا مبنٰی وہی ہے کہ اعتبارِجہت میں بڑی وسعت ہے فلسفی بیچارا،آلات کا پٹارا،خیالات کا پشتارا کھول کر بیٹھے تو ہر گز نہ اُن شہروں کا قبلہ ایک پاسکتا ہے نہ ملک بھر کی ایک سمت ٹھہرا سکتا ہے مگر وُہ نہیں جانتا کہ یہ دین تدقیقی آلات پر مبنی نہیں یہ محمد رسول اﷲصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دین سمح سہل ہے۔ الحمدﷲ رب العٰلمین قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اِنَّااُمّۃ اُمیۃ لا نکتب ولا نحسب ۱؎۔(تمام خوبیاں اﷲ کیلئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے،نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہم اُمّی امّت ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب رکھتے ہیں۔ت)
 (۱؎ صحیح مسلم باب وجوب صوم رمضان الرؤیۃ الہلال الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۳۴۷)
فتاوٰی خانیہ میں ہے:
جہۃ الکعبۃ تعرف بالدلیل والدلیل فی الامصار والقری المحاریب التی نصبتھا الصحابۃ والتابعون رضی اﷲ عنھم فحین فتحوا العراق جعلوا قبلۃ اھلھا بین المشرق والمغرب لذلک قال ابو حنیفۃ رضی اﷲ عنہ ان کان بالعراق جعل المغرب عن یمینہ والمشرق عن یسارہ وھکذا قال محمد رحمہ اﷲ تعالٰی وانما قال ذلک لقول عمر رضی اﷲتعالٰی عنہ اذا جعلت المغرب عن یمینک والمشرق عن یسارک فما بینھما قبلۃ لاھل العراق وحین فتح خراسان جعلوا قبلۃ اھلھا مابین مغرب الصیف ومغرب الشتاء فعلینا اتباعھم وعن ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی انہ قال فی قبلۃ اھل الری اجعل الجُدَیَّ عہ علی منکبک الایمن واختلف المشائخ رحمھم اﷲ تعالٰی فیما سوی ذلک من الامصار ، قال بعضھم اذا جعلت بنات نعش الصغرٰی علی اذنک الیمنی یمینک وانحرفت قلیلا الی شمالک فتلک القبلۃ ،وقال بعضھم اذاجعلت الجُدَیّ خلف اذنک الیمنی فتلک القبلۃ وعن عبداﷲ المبارک و ابی مطیع و ابی معاذ وسلم بن سالم و علی ابن یونس رحمھم اﷲ تعالٰی انھم قالوا قبلتنا العقرب وعن بعضھم اذاکانت الشمس فی برج الجوزاء ففی اٰخر وقت الظھراذا استقبلت الشمس بوجھک فتلک القبلۃ وعن الفقیہ ابی جعفر رحمہ اﷲ تعالٰی انہ قال اذا قمت مستقبل المغارب فالنسر الواقع بسقوطہ یکون بحذاء منکبک الایمن والنسر الطائر سقوطہ فی وجھک بحذاء عینک الیمنی فالقبلۃ مابینھما ،قال قبلۃ بخارا ھی علی قبلتنا ، وعن القاضی الامام صدرالاسلام قال القبلۃ مابین النسرین ، وعن الشیخ الامام ابی منصور الماتریدی رحمۃ اﷲ علیہ انظر الی مغرب الشمس فی اطول ایام السنۃ ثم فی اقصر ایام السنۃ دع الثلثین عن یمینک والثلث عن یسارک فالقبلۃ عند ذلک وھذہ الاقاویل بعضھا قریب من بعض۱؎ اھ مختصرا۔
جہت کعبہ دلیل کے ذریعہ پہچانی جاسکتی ہے اور دلیل شہروں اور دیہاتوں میں وہ محراب ہیں جو صحابہ کرام و تابعین رضی اﷲ عنھم اجمعین نے قائم کئے ، صحابہ نے جب عراق کا علاقہ فتح کیا تو اُنہوں نے وہاں کے لوگوں کےلئے مشرق و مغرب کے درمیان جہت کعبہ مقر ر کی اس لئے اما م ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا عراقی مغرب کو اپنی دائیں طرف اور مشرق کو اپنی بائیں طرف کر لے۔ اسی طرح امام محمد رحمہ اﷲ نے فرمایا ، یہ انھوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے اس قول کی اتباع میں کہا ہے جس میں ہے کہ جب تم مغرب کو اپنی دائیں اور مشرق کو اپنی بائیں طرف کرلے تو ان کے درمیان اہل عراق کا قبلہ ہے۔ اور جب صحابہ نے خراسان فتح کیا تو وہاں کے رہنے والوں کے لئے موسم گرما کے مغرب اور موسم سرما کے مغرب کے درمیا ن کو قرار دیا۔پس ہم پر ان کی اتباع لازم ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ سے یہ مروی ہے کہ اُنہوں نے اہل رے کے لئے قبلہ کا تعین کرتے ہوئے فرمایا : جدّی (ستارہ) کا اپنے بائیں کاندھے پر کرو۔ ان کے علاوہ دیگر شہروں کے بارے میں مشائخ کرام رحمھم  اﷲ تعالٰی کا اختلاف ہے۔ بعض کا قول یہ ہے کہ جب بنات نعش صغرٰی کو اپنے دائیں کان پر کرتے ہوئے تھوڑا سا اپنی بائیں طرف پھر جاؤ یہی تمہارا قبلہ ہے۔ اور بعض کا قول یہ ہے کہ جدّی(ستارہ) کو جب اپنے بائیں کان کے پیچھے کرلے تو یہ تیرا قبلہ ہے اور حضرت عبداﷲ ابن مبارک ،ابو مطیع ،ابو معاذ،سلم بن سالم اور علی بن یونس رحمھم اﷲ عنھم فرماتے ہیں کہ ہمارا قبلہ عقرب(ستارہ) ہے۔ اوربعض کا کہنا یہ ہے کہ سورج بُرج جوزا میں ہو تو ظہر کے آخری وقت میں جب تو سورج کی طرف اپنے چہرے کو پھیر لے تو یہی تمھارا قبلہ ہے۔ اور فقیہ ابو جعفر رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا: جب تم چہرہ مغارب کے سامنے کی طرف کرو تونسر واقع تمھارے دائیں کاندھے کے برابر اورنسر طائرچہرے میں تمھاری دائیں آنکھ کے مقابل ہوگا جو ان کے درمیان ہو وہ قبلہ ہے۔فرمایا اور بخارا کا قبلہ ہمارے ہی قبلہ پر ہے اور امام قاضی صدرالاسلام کا قول ہے کہ قبلہ دونوں نسروں کے درمیان ہے۔ شیخ الاسلام ابومنصور ماتریدی رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ تم سال کے بڑے دنوں میں سورج کے مغرب کی طرف دیکھو اس طرح سال کے چھوٹے دنوں میں دیکھو پھر اپنی دائیں جانب سے دو تہائی اور بائیں جانب سے ایک تہائی چھوڑ دو تو یہ سمت قبلہ ہے۔ یہ تمام اقوال ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں اھ مختصراً(ت)
عـہ بضم الجیم و فتح الدال و تشدید الیاء ای جُدَیَّ الفرقداسم النجم الثاقب السابع فی اٰخرالنعش الصغرٰی ۱۲ العلامۃ حامد رضا خان رحۃ اﷲ علیہ۔
جیم پر پیش ، دال پر زبر،یا مشدّد کے ساتھ جُدَیَّ الفرقدیہ اس ساتویں ثاقب ستارے کا نام ہے جو نعش صغرٰی کے آخر میں ہے۔۱۲ علامہ حامد رضارحمۃ اﷲ علیہ۔
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ        ۱/۳۳)
معراج الدرایہ و فتح القدیر و حلیہ میں ہے:
ولذا وضع العلماء قبلۃ بلدین و بلاد علی سمت واحد فجعلوا قبلۃ بخاری وسمرقند ونسف وترمذ وبلخ و مرو و سرخس موضع الغروب اذاکانت الشمس فی اٰخرالمیزان وأول العقرب کما اقتضتہ الدلائل الموضوعۃ لمعرفۃ القبلۃ ولم یخرجوا لکل بلد سمتا لبقاء المقابلۃ والتوجہ فی ذلک القدر و نحوہ من المسافۃ ۱؎۔
اسی لئے علماء نے ایک شہر ، دو شہر بلکہ متعدد شہروں کا قبلہ ایک ہی سمت مقرر کیا ہے مثلاً بخارا، سمرقند ، نسف ، ترمذ، بلخ ، مرو ، سرخس کا قبلہ موضع غروب (مسقط رأس العقرب) قرار دیا جبکہ شمس آخر میزان اور اوّل عقرب میں ہو جیسا کہ معرفت قبلہ کے لئے وضع کردہ دلائل اسی کا تقاضا کرتے ہیں اور ہر شہر کے لئے الگ الگ سمت مقرر نہ کی کیونکہ اس قدر اور اسی جیسی مسافت میں مقابلہ اور توجہ الی الکعبہ باقی رہتی ہے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر        باب شروط الصلوۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۲۳۵)
مبتغی اور حلیہ و بحر و ردالمحتار وغیرہا میں ہے:
لجُدَیَّ اذا اجعلہ الواقف خلف اذنہ الیمنی کان مستقبل القبلۃ ان کان بناحیۃ الکوفۃ و بغداد و ھمدان و قزوین و طبرستان و جرجان وما والاھاالی نھر الشاش و یجعلہ من بمصر علی عاتقہ الیسر ومن بالعراق علی عاتقہ الایمن وبالیمن قبالۃ المستقبل ممایلی جانبہ الایسر وبالشام وراء ہ۲؎۔
جب کھڑا ہونے والا جدّی (قطب ستارہ) کو اپنے دائیں کان کے پیچھے کرلے تو اب اس کے سامنے جہت قبلہ ہے اگر وہ کوفہ، بغداد، ہمدان ، قزوین ،طبرستان، جرجان اور اس کے قرب و جوار نہر شاش تک کے علاقے میں رہنے والاہو (تمام علاقوں کا قبلہ یہی ہے) مصر میں رہنے والا جدّی(ستارہ قطب) اپنے بائیں کاندھے پر کرلے ، عراقی دائیں کاندھے پر کرلے ، یمنی اپنے سامنے کی اس جانب کرے جو بائیں جانب سے متصل ہے اور شامی اپنے پیچھے کی طرف کرلے۔(ت)
(۲؎ البحرالرائق    باب شروط الصلوۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱/۲۸۵)
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
وذکر بعضھم ان اقوی الادلۃ القطب فیجعلہ من بالشام ورائہ والرملۃ ونابلس و بیت المقدس من جملۃ الشام کدمشق وحلب و جوز للکل الاعتماد علی القطب و جعلہ خلفہ ولا بد فی ذلک من نوع انحراف لاھل ناحیۃ منھا لکنہ لا یضر کما قررناہ ۱؎۔
بعض علماء نے فرمایا کہ سب سے قوی دلیل قطب (ستارہ) ہے تو اہلِ شام اسے پشت کی طرف کریں ۔رملہ ،نابلس،بیت المقدس سب ملک شام کے حصے ہیں جیسا کہ دمشق اور حلب اور ان کے بعض حضرات نے ان تمام کے لئے قطب ستارے پر اعتماد کو جائز قرار دیا ہے جبکہ وہاں کے رہنے والا اسے اپنے پیچھے کرے حالانکہ اس صورت میں یہاں سے ایک جانب رہنے والوں کیلئے کچھ نہ کچھ انحراف ضرور لازم آتا ہے ، لیکن یہ انحراف نقصان دہ نہیں جیسے کہ ہم اس کو بیان کر آئے ۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریۃ    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۱/۷)
اسی حکم کی بنا پر ہندوستان میں ستارہ قطب داہنے شانے پر لیا گیا ہے اور قدیم سے عام مساجد اسی سمت پر بنیں کہ بین المغربین کا اوسط مغرب اعتدال تھا اور اس کی طرف توجہ میں قطب سیدھے ہی شانے پر ہوتا ہے اس کی پہچان آسان اور اُس میں انحراف بقدرعـہ(قدرے انحراف) مضر نہیں و لہذا اسی پر تعامل ہوا،
عـہ ھھنا سقط ۱۲ العلامۃ حامد رضا رحمہ اللہ تعالی     یہاں کچھ عبارت ساقط ہوگئی ۱۲ علامہ حامد رضا رحمہ اللہ تعالی (ت)
یہ مدعیان ہیأت سمجھے کہ عام بلادِ ہندیہ شاید خاص علی گڑھ کا یہی قبلہ تحقیقی ہے حالانکہ وہ محض ناواقفی ہے۔ ہندوستان آٹھ درجے عرض شمال سے پینتیس ۳۵ درجے تک آباد ہے طولِ شرقی چھیاسٹھ ۶۶ درجے سے بانوے ۹۲ تک ۔یہ بھی ہندوستان کی خوش نصیبی ہے ۶۶ عدد ہیں اسمِ جلالت اﷲ کے اور ۹۲ نامِ پاک محمد کے جل جلا لہ وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ۔ہم نے اپنے رسالے کشف العلۃ عن سمت القبلۃ (۱۳۰۴ھ) میں براہینِ ہندسیہ سے ثابت کیا ہے کہ شروع جنوبی ہند جزیرہ سرندیپ وغیرہا سے تئیس ۲۳درجے چونتیس۳۴دقیقے عرض تک جتنے بلاد ہیں جن میں مدراس، حاطہ بمبئی ،حیدرآباد کا علاقہ وغیرہا داخل ہیں، سب کا قبلہ نقطہ مغرب سے شمال کو جھکا ہوا ہے ستارہ قطب داہنے شانے سے سامنے کی جانب مائل ہوگا اور انتیسویں۲۹ درجہ عرض سے اخیر شمالی ہند تک جس میں دہلی ، بریلی ، مراد آباد، میرٹھ ، پنجاب ، بلوچستان، شکار پور ، قلات ، پشاور ، کشمیر وغیرہا داخل ہیں سب کا قبلہ جنوب کو جھکا ہوا ہے ، قطب سیدھے کندھے سے پشت کی طرف میلان کرے گا۔ دلیل کی رو سے یہ عام حکم ساڑھے بتیس درجے سے ہوتا تھا مگر ۲۸کے بعد ۳۲ تک عدم انحراف کے لئے جتنا طول درکار ہے ہندوستان میں اُس طول و عرض پر آبادی نہیں۔۲۳-۳۴سے ۲۸ تک جتنے بلاد کثیرہ ہیں اُن میں کسی کا قبلہ مغربی جنوبی، کسی خاص نقطہ مغرب کی طرف ،علی گڑھ اسی قسمِ دوم میں ہے جس کا قبلہ جنوب کو مائل ہے۔ ہم نے اس رسالے میں عرض الح ل سے عرض الح ہاتک ایک ایک دقیقے کے فاصلے سے ایک جدول دی ہے کہ اتنے عرض پر جب اتنا طول ہو تو قبلہ ٹھیک مغرب اعتدال کی طرف ہو گا اس کے ملاحظہ سے واضح ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں کتنے شہروں کا تحقیقی قبلہ اس حکم مشہور کے مطابق ہے یا اینہمہ عام عملدرآمد اُسی حکم واحد پر ہے اور کچھ مضر نہیں کہ حدود شرع سے باہر نہیں ،بالجملہ یہ ناواقف لوگ اگر سمت حقیقی چاہتے ہیں تو محاذات قطب چاہنا باطل اور جہت پر قانع ہیں تو جہت اب بھی حاصل،بہرحال مسجد شہید کرنے کی فرضیت باطل ، اُس میں نماز کی تحریمی کراہت باطل ۔ غرض اُس بے معنی فتوے کی جہالت کہاں تک گنئے ہم اصل حکمِ شرع بتوفیق اﷲ تعالٰی واضح کریں کہ عید گاہ مذکورضرور حدودِ شرعیہ کے اندر ہے اس کا بیان چند افادوں پر موقوف ، فاقول وماتوفیقی الّا باﷲ علیہ توکّلت والیہ انیب(میں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں اسی پر بھروسہ اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ت)
افادہ اولٰی: جہت قبلہ کی حد کیا ہے کہ جب اس سے باہر ہو جہت سے باہر ہو ، اس بارے میں عباراتِ علماء متعدد وجوہ پر پائی گئیں:
اوّل جب مشارق مغارب نہ بدلیں جہت نہ بدلے گی۔ فتح القدیر و بحرالرائق وخیریہ و طحطاوی و ردالمحتار وغیرہا کُتب کثیرہ میں یہاں اور نیز مسئلہ اقتداء بالشافعی میں ہے:
الانحراف المفسدان یجاوز المشارق الی المغارب ۱؎ وفی الخیریۃ بعد ما قدمنا عنہ فی الایرادالسابع وعند تحققنا بالخطاء زال الغطاء وھو فی اختلاف الجھۃ بحیث یکون متجاوز المشارق الی المغارب۲؎۔
مفسد نماز وُہ انحراف جومشارق سے مغارب کی طرف متجاوز ہو اور فتاوٰی خیریہ میں اس کی گفتگو کے بعد جو پہلے ایرادسابع میں بیان کرچکے ) ہے ۔ جب ہمیں خطاء کا تحقیقی ثبوت مل گیا تو پردہ اُٹھ گیا یعنی کوئی اشکال نہ رہا ، وہ یہ ہے کہ جہت قبلہ مختلف ہوجاتی ہے جب مشارق و مغارب سے متجاوز ہوں (یعنی مشارق مغارب بدل جائیں) ۔(ت)

(۱؎ البحر الرائق     باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۸۵)

(۲؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۹)
Flag Counter