فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۶(کتاب الصلٰوۃ) |
اقول: وھوکلام نفیس واین تحری جزاف لایکاد یرجع الی اثارۃ علم من الظن الغالب الحاصل بتلک القواعد ولو لا مکان اطوال البلاد و عروضھا فی امر تعیین القبلۃ ومجال الظنون فی اکثرھا لکان مایحصل بھا قطعیا لامساغ لریبۃ فیہ بل لو حققت لالفیت جل المحاریب المنصوبۃ بعد الصحابۃ والتابعین رضی اﷲ عنہم انما بنیت بناء علی تلک القواعد و علیھا اُسّست لھا القواعد فکیف یحل اعتماد تلک المحاریب دون الذی بنیت علیہ نعم عندالتعارض ترجح القدیم خلافاللشا فعیۃ لئلایلزم تخطئۃ السلف الصالح و جماھیر المسلمین۱؎ کما ذکرہ الشامی وغیرہ ولان علم الجمیع اقوی من علم الآحادو للسلف مزیۃ جلیۃ علی الخلف، ولر بما یخطی النظر فی استعمال القواعد والاٰلات کما ھومرئی مشاھد فہو اولی بالخطاء منھم ولذاقال فی الفتاوٰی الخیریۃ واما الاجتہاد فیھا ای فی محاریب المسلمین بالنسبۃ الی الجھۃ فلا یجوز حیث سلمت من الطعن لانھا لم تنصب الابحضرۃ جمع من المسلمین اھل معرفۃ بسمت الکواکب والادلۃ فجری ذلک مجری الخیر فتقلد تلک المحاریب۱؎اھ۔
اقول: (میں کہتا ہوں) یہ نفیس گفتگو ہے علم کے کسی پہلو کو نہ چھونے والے بے اصل اندازے کو ان آلات سے حاصل شدہ ظنِ غالب سے کیا تعلق ، اگر تعیین قبلہ کے معاملہ میں طول البلد اور عرض البلد اور ان کے اکثر معاملات میں ظن کا دخل نہ ہوتا تو ان آلات سے حاصل شدہ علم قطعی ہوتا جس میں شک کی گنجائش نہ ہوتی۔بلکہ اگر تُو تحقیق کرے تجھے معلوم ہوگا کہ وہ بڑے بڑے محراب جو صحابہ و تابعین رضی اﷲ عنہم کے بعد بنائے گئے ہیں اور انہی قواعد کی بنا پر اور انہیں ضوابط پر ان مساجد کے ستون بنائے گئے ، تو یہ کیسے درست ہوگا کہ ان محرابوں پر تو اعتماد کیا جائے مگر ان قواعد پر نہ کیا جائے جن کی بنا پر وہ محراب معرض وجود میں آئے ہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ جہاں (قاعدہ و محراب ) قدیم میں تعارض ہوگا وہاں محراب قدیم کو ترجیح ہوگی بخلاف شوافع کے تاکہ سلف صالحین اور جمہور مسلمانوں کوغلط ثابت قرار دینا لازم نہ آئے جیسا کہ امام شامی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بات بھی ہے کہ جماعت کا علم احاد کے علم سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ اور سلف کو خلف پر واضح فضیلت حاصل ہے نیزبعض دفعہ استعمالِ قواعد و آلات میں نظر سے خطا بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ مشاہدہ و ملاحظہ میں آیا ہے لہذا واحد کا خاطی ہونا جماعت کے خاطی ہونے سے زیادہ قریب ہے، اسی لئے فتاوٰی خیریہ میں کہا کہ جہتِ قبلہ کی تعیین کے معاملہ میں مسلمانوں کے قدیم محرابوں میں اجتہاد اور غورو فکر اس لئے جائز نہیں تاکہ طعن سے محفوظ رہا جاسکے کیونکہ یہ محراب مسلمانوں کی اُن جماعتوں نے قائم کئے ہیں جو کواکب کی سمت اور دلائل کی معرفت رکھتی تھیں ، تو چونکہ خیرو بھلائی اسی میں ہے لہذا ان محرابوں کی تقلید کی جائے اھ(ت)
(۱؎ ردالمحتار مبحث فی استقبال القبلۃ مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر ۱/۳۱۷) (۱؎فتاوٰی خیریہ کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۷)
اقول: وبہ ظھران الحکم لایختص بالمفاوز فانھم انما نصبوا فی الامصار بناء علی تلک الادلۃ لاجرم ان قال العلامۃ البرجندی فی شرح النقایۃ ان امرالقبلۃ انما یتحقق بقواعد الھندسۃ والحساب بان یعرف بعد مکۃ عن خط الاستواء وعن طرف المغرب ثم بعد البلد المفروض کذلک ثم یقاس بتلک القواعد لتحقیق سمت القبلۃ ونحن قدحققنابتلک القواعدسمت قبلۃ ھر اۃ ۲؎ الٰی اٰخر ماسیأتی ونقلہ الفتال فی حاشیتہ مقرا علیہ۔
اقول: (میں کہتا ہوں) اس سے یہ بھی آشکارا ہوگیا کہ یہ حکم محض ویرانے اور جنگل کے ساتھ ہی مخصوص نہیں کیونکہ شہروں میں بھی مسلمانوں نے انہی قواعد و ضوابط کی بنا پر محراب قائم کئے ہیں، چنانچہ علامہ برجندی نے شرح نقایہ میں کہا کہ قبلہ کا معاملہ قواعدِ ہندسہ و حساب کی بناء پر حل ہوتا ہے بایں طور کہ پہلے خط استوا سے مغرب کی جانب سے مکّہ کا بُعد پہچانا جائے پھر مفروض شہر کے بعد کو اسی طرح پہچانا جائے پھر ان قواعد کے مطابق قیاس کیا جائے تاکہ سمتِ قبلہ معلوم ہو سکے اور ہم ان قواعد کے ذریعے قبلہ ہرات کی سمت یونہی ثابت کر چکے ہیں آخر تک جس کا بیان آئیگا، اور اس کو علّامہ فتال نے اپنے حاشیہ میں ثابت رکھتے ہوئے نقل کیا ہے۔(ت)
(۲؎ شرح النقایۃ للبر جندی باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ منشی نو لکشور لکھنؤ ۱/۸۹ )
اور اتنا تو اکابر نے بھی فرمایا کہ جو مسجد مدتوں سے بنی ہو اور اہلِ علم و عامہ مسلمین اس میں بلا نکیر نمازیں پڑھتے رہے ہوں جیسا کہ عید گاہ مذکورہ کی نسبت سوال میں مسطور ہے اگر کوئی فلسفی اپنے آلات و قیاسات کی رُو سے اس میں شک ڈالا چاہے اُس کی طرف التفات نہ کیا جائے گا کہ صد ہا سال سے علماء وسائر مسلمین کو غلطی پر مان لینا نہایت سخت بات ہے، بلکہ تصریح فرماتے ہیں کہ ایسی قدیم محرابیں خود ہی دلیلِ قبلہ ہیں جن کے بعد تحری کرنے اور اپنا قیاس لگانے کی شرعاً اجازت نہیں ، ایسی تشکیک بعض مدعیانِ ہیأت نے بعض محرابات نصب کردہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں بھی پیش کی حالانکہ بالیقین صحابہ کرام کا علم زائد تھا اُس کے بعد فلسفی ادعا کا سننا بھی حلال نہیں ،ہاں بتحقیق معلوم ہوکہ فلاں محراب کسی جاہل نا واقف نے یُونہی جزافاً قائم کردی ہے تو البتہ اُس پر اعتماد نہ ہوگا۔ علّا مہ خیرالدین رملی استادِ صاحبِ دُرمختار رحمھما اﷲ تعالٰی فتاوٰی خیریہ میں فرماتے ہیں:
نحن علی علم بان الصحابۃ رضی اﷲعنہم اعلم من غیرھم فاذاعلمنا انھم وضعوا محرابالایعارضھم من ھودونھم واذاعلمنا ان محرابا وضع من غیرھم بغیر علم لانعتمدہ، واذالم نعرف شیئا وعلمنا کثرۃ المارین و تو الی المصلین علی مرور السنین علمنا بالظاھر وھوالصحۃ۱؎۔
ہمیں یقین ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم دیگر تمام افراد امّت سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ محراب صحابہ نے قائم کئے ہیں تو ان کے مقابل کسی دوسرے کی با ت کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا(لہذا اس محراب پر اعتماد کیا جائے گا) اور جب ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ کے علاوہ کسی جاہل ناواقف نے یہ محراب بنائی تو اس پر ہم اعتماد نہیں کریں گے ، اور اگر کسی محراب کے بارے میں ہمیں کچھ معلومات نہ ہوں صرف اتنا جانتے ہوں کہ یہاں کئی سالوں سے کثیر راہگیر اور نمازی مسلسل نماز پڑھتے رہے ہیں تو ہم اسی ظاہر صورت پر عمل کریں گے اور یہی درست ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریۃ کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۹)
اسی میں ہے:
مذھب الحنفیۃ یعمل بالمحاریب المذکورۃ ولا یلتفت للطعن المذکورۃ۲؎۔
احناف کا مسلک یہی ہے کہ ان محاریب مذکورہ پر عمل پیرا ہوں اور مخالف کے طعن و اعتراض مذکورہ کی طرف توجہ نہ کی جائے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی خیریۃ کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۸)
اُسی میں ہے
:نھایۃ الفلکی المذکوران یطعن بالانحراف الیسیر الذی لا یجاوز الحد المذکور وھوعلی تقدیر صدقہ لایمنع الجواز ولھذا قال الشارح الزیلعی لا یجوز التحری مع المحاریب۱؎۔
قول فلکی(ماہر فلکیات ) مذکور کی نہایۃ یہ ہے کہ وہ ا س تھوڑے انحراف کے ساتھ جوحد مذکورسے تجاوز نہ کرتا ہو طعن (اعتراض) کریگا حالانکہ اگر اسکا قول سچّا بھی ہو تاہم جوازِ نماز کے منافی نہیں اس لئے شارح امام زیلعی نے فرمایا محاریب کے ہوتے ہوئے اجتہاد اور غوروفکر کی ضرورت نہیں۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریۃ ، کتاب الصلوٰۃ ، مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت، ۱/۷)
اُسی میں ہے:
الکلام فی تحقق ذلک (یعنی الانحراف الکثیر) ولایقع علی وجہ الیقین مع البعد باخبار المیقاتی کما لا یخفی عندالفقہاء۲؎۔
لیکن کلام انحراف کثیر کی تحقیق کے بارے میں ہے اور یہ بات بُعد کی صورت میں ماہر فلکیات کی رائے سے یقینی طور پرحاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ فقہاء پر مخفی نہیں۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریۃ کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۹)