نوٹ : بدائع میں یہ عبارت معناً مذکور ہے الفاظ بعینہ موجود نہیں۔ نذیر احمد سعیدی
جامع الرموزمیں امام زندویسی سے ہے :
الجہۃ قبلۃ کالعین۲؎
(جہت کعبہ عین قبلہ کی طرح ہے ۔ت)
(۲؎ جامع الرموز فصل شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱/۱۳۰)
ہاں حتی الوسع اصابت عین سے قرب مستحب۔ اس بارے میں ملتقط و حلیہ وغیرہما کے نصوص بعونہ تعالٰی آگے آتے ہیں، اور خیریہ میں فرمایا: ھوافضل بلاریب ولامین۳؎ الخ(یہ بغیر کسی شبہ کے افضل ہے۔ت)
(۳؎ فتاوٰی خیریہ کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت ۱/۹)
اگر عین کعبہ سے باکلیہ انحراف نہ ہو( یعنی معمولی انحراف ہوا)تو نماز جائز ہے۔ اسکی تائید ظہیریہ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے:جب نمازی ذرا دائیں یا بائیں ہوگیا تو نماز جائز ہوگی۔(ت)
(۴؎ ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر ۱/۳۱۵)
اور ترک مستحب مستلزم کراہت تنزیہ بھی نہیں کراہت تحریم تو بڑی چیز ، بحر الرائق باب العیدین میں ہے:
لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃاذلابدلھامن دلیل خاص۵؎۔
ترکِ مستحب سے کراہت لازم نہیں آتی کیونکہ اس کے ثبوت کے لئے مستقل دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔(ت)
(۵؎ البحر الرائق باب العیدین مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/۱۶۳)
تو اس میں نماز مکروہ تحریمی ٹھہرانا نئی روشنی کی محض ظلماتی ساخت ہے۔
سادساً : عبارت ہدایہ کہ فتوٰی مذکورہ نے نقل کی اسکی مُدعا سے اصلاً مس نہیں رکھتی بلکہ حقیقۃً وہ اس کا رد ہے ، عبارت کا مطلب یہ ہے کہ غیر مکی کو ہر گز ضرور نہیں کہ اس کی توجہ عین کعبہ معظّمہ کی طرف ہو بلکہ اس جہت کی طرف منہ ہونا بس ہے جس میں کعبہ واقع ہے تکلیف بقدر وسعت اور طاعت بحسبِ طاقت ہے اس سے خود ثابت ہوا کہ غیر مکہ مکرمہ میں اتنا انحراف کہ جہت سے خارج نہ کرے مضر نہیں اور اسکی تصریح نہ صرف ہدایہ بلکہ عامہ کتب مذہب میں ہے پھر مسافتِ بعیدہ میں ایک حد تک کثیرانحراف بھی جہت سے باہر نہ کرے گا اور در حق نماز قلیل ہی کہلائے گا اور جتنا بُعد بڑھتا جائےگا انحراف زیادہ گنجائش پائے گا۔ بحرالرائق و طحطاوی علی الدر وغیرہما میں ہے:
المسامتۃ التقریبیۃ ھوان یکون منحرفا عن القبلۃ انحرافالاتزول بہ المقابلۃ بالکلیۃ، والمقابلۃ اذا وقعت فی مسافۃ بعیدۃ لاتزول بما تزول بہ من الانحراف لو کانت فی مسافۃ قریبۃ۱؎۔
مسامتت تقریبی یہ ہے کہ انحراف عن القبلہ اس طرح ہو کہ جہت کعبہ سے مقابلہ بالکلیۃ ختم نہ ہو اور مقابلہ جب مسافتِ بعیدہ کی صورت میں ہو تو وہ اتنے انحراف سے ختم نہیں ہوتا جتنے سے مسامت قریبیہ میں مقابلہ ہو تو ختم ہو جاتا ہے۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۹۷)
معراج الدرایہ وفتح القدیر و حلیہ شرح منیہ و بحر شرح کنز و فتاوٰی خیریہ وغیرہا میں ہے۔
ویتفاوت ذلک بحسب تفاوت البعد و تبقی المسامتۃ مع انتقال مناسب لذلک البعد۲؎۔
انحراف بُعد کے اعتبار سے متفاوت ہوتا ہے اور اس بُعد کے مناسب انتقال کے ساتھ مسامتت (سمت) باقی رہتی ہے۔(ت)
(۲؎ البحرالرائق شرح کنز الدقائق باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۸۴)
فتوٰی میں عبارتِ ہدایہ سے استناد کے لئے یہ ثبوت دینا کہ مکہ معظّمہ سے علی گڑھ کو یہ ہزاروں میل کا بُعد ، نقطہ مغرب سے تیس۳۰ گز انحراف کی گنجائش نہیں رکھتا اتنا تفاوت جہت سے باہر لے جائے گا بے اس ثبوت کے، ذکر عبارت محض تغلیط عوام ہے اور حقیقت امر دیکھئے تو عبارت مستدل کے لئے صرف نامفید ہی نہیں بلکہ صاف مضر ہے، ہم عنقریب بعونہٖ تعالٰی ثابت کریں گے کہ عید گاہ مذکورہ ضرور حدودِ جہت کے اندر ہے۔
سابعاً: ہمارے بعض علماء تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اس باب میں ہیأت قیاسات و آلات کا اعتبار ہی نہیں ، جامع الرموز نے اسی بحث سمتِ قبلہ میں لکھا:
منھم من بناہ علی بعض العلوم الحکمیۃ الاان العلامۃ البخاری قال فی بحث القیاس من الکشف ان اصحابنالم یعتبروہ وبہ یشعرکلام قاضی خان ۱؎ اھ وایدہ فی النھر بان علیہ اطلاق المتون۲؎ اھ وردہ فی ردالمحتار قائلالم ارفی المتون مایدل علی عدم اعتبارھا ولنا تعلم مانھتدی بہ علی القبلۃ من النجوم وقال تعالٰی والنجوم لتھتدوا بھا الخ واستظہر ان الخلاف فی عدم اعتبارھا انما ھو عند وجود المحاریب القدیمۃ اذلایجوز التحری معھا کما قدمناہ لئلایلزم تخطئۃ السلف الصالح وجما ھیر المسلمین بخلاف ما اذاکان فی المفازۃ فینبغی وجوب اعتبار النجوم و نحو ھا فی المفازۃ لتصریح علمائنا وغیرھم بکونھا علامۃ معتبرۃ فینبغی الاعتماد فی اوقات الصلاۃ وفی القبلۃ علی ماذکرالعلماء الثقات فی کتب المواقیت وعلی ماوضعوہ لھا من الالات کالربع والاصطر لاب فانھا ان لم تفد الیقین تفید غلبۃ الظن للعالم بھا ، وغلبۃ الظن کا فیۃ فی ذلک۳؎ الخ۔
فقہاء میں سے بعض نے اس مسئلہ کی بنیاد بعض علومِ حکمیہ پر رکھی ہے مگر علّامہ بخاری نے کشف الاسرار میں قیاس کی بحث کے تحت لکھا ہے کہ ہمارے علماء نے اس کا اعتبار نہیں کیا ، قاضی خان کی گفتگو بھی اسی طرف رہنمائی کرتی ہے اھ نھر میں اس کی تائید یوں کی ہے کہ اسی پر متون کا اطلاق ہے اھ ردالمحتارمیں یہ کہتے ہوئے اس کا ردکیا کہ میں نے متون میں ایسی کوئی دلیل نہیں دیکھی جوان کے عدم اعتبار پر دال ہو ، حالانکہ ہم پر اس چیز کا تعلم ہے جس کے ساتھ ستاروں کے ذریعے ہم قبلہ پر رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اﷲ تعالٰی کا یہ ارشاد بھی دلیل ہے والنجوم لتھتدو ابھا الخ(اس نے ستارے اس لئے بنائے تاکہ تم ان سے رہنمائی حاصل کرو) اس سے ظاہرکیا کہ ان کے عدم اعتبار میں اختلاف اس صورت میں ہے جب وہاں قدیم محراب موجود ہوں کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے تحری جائز نہیں جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ، تاکہ سلف صالحین اور جمہور مسلمانوں کو غلط ثابت قرار دینا لازم نہ آئے بخلاف اس صورت کے جب مصلی جنگل اور ویران جگہ میں ہو تو وہاں ستاروں وغیرہم نے ان چیزوں کے علامتِ معتبرہ ہونے کی تصریح کی ہے، لہذا اوقاتِ نماز اور تعیینِ قبلہ کے متعلق ثقہ علماء کے کتب مواقیت میں بیان کردہ قواعد و ضوابط پر اعتماد کرنا مناسب ہے ، اور آلات مثلاً ربع، اصطرلاب وغیرہ جو اوقات کی پہچان کے لئے انھوں نے بنائے ہیں ان پر بھی اعتماد کیا جائے۔ کیونکہ اگر ان آلات سے یقین کا درجہ حاصل نہ ہو تو کم از کم غلبہ ظن تو اسی شخص کو جوان آلات سے متعلق معلومات رکھتا ہو حاصل ہو جائےگا۔ اور اس مسئلہ میں ظنِ غالب ہی کافی ہے الخ(ت)
(۱؎ جامع الرموز فصل شروط الصلوٰۃ مطبوعہ گنبد قاموس ایران ۱/۱۳۰)
(۲؎ ردالمحتار بحوالہ النہر مبحث فی استقبال القبلۃ مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر ۱/۳۱۷)
(۳؎ ردالمحتار بحوالہ النہر مبحث فی استقبال القبلۃ مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر ۱/۳۱۷)