ھدایۃ المتعال فی حد الاستقبال
(استقبالِ قبلہ کی تعیین میں اﷲ تعالٰی جل شانہ کی رہنمائی)
مسئلہ نمبر ۳۹۶ : ازعلی گڑھ معرفت مولوی بشیر احمد صاحب مدرس مدسہ اہلسنت ۲۴ذی الحجہ ۱۳۲۴ھ
شہر علی گڑھ کی عید گاہ کہ صد ہا سال سے بنی ہوئی ہے اورحضرات علماء متقدمین میں بلاکراہت اس میں عیدین کی نمازیں پڑھتے پڑھاتے رہے، آج کل نئی روشنی والوں نے اپنے قیاسات اور نیز آلات انگریز سے یہ تحقیق کیا ہے کہ سمت قبلہ سے منحرف ہے اور قطب شمالی داہنے کونے کی پشت پر واقع ہے جس سے نوّے فٹ کے قریب مغرب سے پھری ہوئی ہے لہذا اس کوتوڑ کر سمت ٹھیک کرنا مسلمانانِ شہر پر برتقدیر استطاعت کے لازم اور فرض ہے ورنہ نماز اس میں مکروہ تحریمی ہے، اور۱۰ دسمبر ۱۹۰۶ء کو اس میں ایک فتوٰی چھاپا جس کی عبارت جواب یہ ہے:''اگر وہاں کے مسلمانوں میں اس قدر مالی طاقت ہے کہ اس کو شہید کرکے ٹھیک سمتِ قبلہ پر بناسکتے ہیں تو ان کے ذمّے فرض ہے کہ وہ ایسا ہی کرے اگر ان میں ٹھیک سمت قبلہ بنانے کی طاقت نہیں تو ان کے ذمہ فرض ہے کہ وہ اس مسجد یا عید گاہ میں ٹھیک سمتِ قبلہ کی خطوط کھینچ لیں اور اُن خطوط پر کھڑے ہوکر نماز پڑھا کریں،چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے: ومن کان غائباففرضہ اصابتہ جھتھا ھوالصحیح لان التکلیف بحسب الوسع۱؎ انتہی
جوشخص کعبہ سے دور ہو اس پر نماز کے دوران سمتِ کعبہ کی طرف رُخ کرنا فرض ہے یہی صحیح ہے کیونکہ تکلیف حسبِ طاقت ہوتی ہے انتہی(ت)
(۱؎ الہدایۃ باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ المکتبۃ العربیہ کراچی ۱/۱۰۰)
کتبِ معتبرہ سے یہ ارشاد ہو کہ اب ہندوستان کا قبلہ مابین المغربین ہونا چاہیئے یا کیا؟ اور اسکا سمتِ قبلہ درست کرنا ضروری ہے یا کیا؟ بینوا تو جروا
الجواب
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمدﷲ الذی جعل لنا الکعبۃ قبلۃ وامانا والصلوٰۃ والسلام علی من الی افضل قبلۃ ولّانا ، رسول الثقلین وامام القبلتین جعل اﷲ تعالٰی بابہ الکریم فی الدارین قبلۃ امالنا وکعبۃ منانا وعلی اٰلہ وصحابتہ و سائر اھل قبلتہ الذین ولواالیہ وجوھھم تصدیقا و ایمانا اٰمین اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
تمام تعریف اﷲ تعالٰی کے لئے جس نے کعبہ کو ہمارا قبلہ اور پناہ گاہ بنایا اور صلوٰۃ سلام ان پر کہ جس نے ہمیں اچھے قبلہ کی طرف پھیرا جن و انس کے رسول اور دونوں قبلوں کے امام جن کے باعزت دروازے کو اﷲ تعالٰی نے جنہیں دنیا و آخرت میں ہماری تمام امیدوں کا قبلہ اور آرزؤں کا کعبہ بنایا ،آپ کی آل، اصحاب اور اُن کے اہل قبلہ پر جنہوں نے حالتِ ایمان و تصدیق میں اس کعبہ کی طرف رُخ کیا آمین:اے اﷲ!حق و صواب کی ہدایت فرما(ت)
فتوائے مذکورہ محض باطل اور حلیہ صدق و صحت سے عاطل اور منصب افتا پر نرا اجترا بلکہ شریعت مطہرہ پر کُھلا افتراء ہے۔
اولااگر بفرض باطل یہ عید گاہ جہت قبلہ سے بالکل خارج ہوتی بلکہ مشرق و مغرب بدل گئے ہوتے جب بھی یہ جبروتی حکم کہ بحالت استطاعت اسے توڑ کر ٹھیک سمت قبلہ بنانا فرض ہے، دل سے نئی شریعت ایجاد کرنا تھا ، اس حالت پر غایت یہ کہ اگر بے انہدام کوئی چارہ کارممکن نہ تھا منہدم کرنا مطلوب ہوتا ٹھیک ،سمت پر بنانا کس نے فرض مانا ، عید گاہ میں کوئی عمارت ہونا ہی سرے سے خدا اور رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرض کیا نہ واجب نہ سنّت، زمانہ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں مصلائے عید کفِ دست میدان تھا جس میں اصلاً کسی عمارت کا نام نہ تھا، جب حضورپُرنور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نمازِ عید کو تشریف لے جاتے مواجہ اقدس میں سُترہ کے لئے ایک نیزہ نصب کردیاجاتا ، زمانہ خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اجمعین میں بھی یوں ہی رہا۔عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ نے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے سب مواضع میں تبرک کے لئے مسجدیں بناکیں ظاہراً اُنہیں کے وقت میں مصلائے عید میں بھی عمارت بنی کما استظھرہ السید نورالدین السمھودی قدس سرہ فی تاریخ المدینۃ(جیسا کہ سیّد نورالدین سمہودی قدس سرہ نے اپنی کتاب تاریخ المدینہ المنورہ میں اس بات کی تصریح کی ہے۔ت)
صحیح بخاری شریف میں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے ہے:
ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان تر کزلہ الحربۃ قد امہ یوم الفطروالنحرثم یصلی۱؎۔
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مواجہہ اقدس کے سامنے عید الفطر کے موقع پر نیزہ نصب کیا جاتا پھر آپ نماز پڑھاتے۔(ت)
قال کان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یغدو الی المصلّی والعنزۃ بین یدیہ تحمل و تنصب بالمصلّی بین یدیہ فیصلی الیھا۲؎۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عید گاہ کی طرف تشریف لے جاتے تو آپ کے آگے نیزہ اُٹھا کر لایا جاتا اور عید گاہ میں آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا تھا،پھر اس کی طرف رُخ کرکے نمازپڑھاتے تھے۔(ت)
(۲؎ صحیح بخاری باب حمل العنزۃ اوالحربۃ الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ اصح المطابع کراچی ۱/۱۳۳)
سنن ابن ماجہ میں و صحیح ابن خزیمہ و مستخرج اسمٰعیلی میں زائد کیا:
وذلک ان المصلی کان فضاء لیس فیہ شیء یستتربہ۳؎۔
یہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ عید گاہ فضاء میں تھی وہاں کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے سُترا بنایا جاسکے۔(ت)
(۳؎ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی الحربۃ یوم العید مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ص ۹۳)
افسوس کہ نئی روشنی کا یہ فرض ، زمانہ رسالت و زمانہ خلافت و زمانہ رسالت سب میں متروک رہا۔
ثانیاً اس عید گاہ کی عمارت موجودہ سے دین الہٰی کو کوئی ایسا ضرر شدید پہنچتا ہے جس کے سبب اس کا ڈھانا فرض ہو، یا نہیں اگر نہیں تو بحال استطاعت مالی اُس کا ہدم کیوں فرض ہوا اور اگر ہاں تو بحال عدم استطاعت مالی کیوں فرض نہیں، استطاعت مالی بنانے کو چاہیئے ،ڈھانے میں ایسا کیا درکار ہے جس سے مسلمانانِ شہر عاجز ہوں۔
ثالثاً خطوط سمت قبلہ ڈال لینے سے کار براری ممکن اور وہ ضرر مندفع ہے یا نہیں ، اگر نہیں تو بحال عدم استطاعت یہ لغو حرکت کیوں فرض ہوئی اور کس نے فرض کی، اور اگر ہاں تو بحال استطاعت یوں کاربراری کس نے حرام کی کہ باتعیین ڈھا دینا ہی فرض ہوگیا، کیا یہاں متعدد ضرر مفترض الازالہ مختلف الحالہ ہیں کہ توزیع ممکن ہو۔
رابعاً یہ عید گاہ سمت سے یکسر خارج ہے یا حدود جہت کے اندر ہے اگرچہ عین محاذات سے منحرف ہے بر تقدیر اول اس میں نماز مکروہ تحریمی کیوں ہوئی باطل محض ہونی لازم تھی ، بر تقدیر ثانی اس کا ڈھانا کیوں فرض ہوا جبکہ وہ حدود مشروع کے اندر ہے۔