اسی طرح اُس سے اور نیز ملتقط سے حلیہ امام ابن امیر الحاج میں ہے: شرح زاد الفقیر للعلامۃ الغزی و شرح الخلاصہ للقھستانی۔ پھر ردالمحتار میں وہی دو ثلث جانب راست اور ایک ثلث جانب چپ رکھنا بیان کرکے فرمایا :
ولولم یفعل ھکذا وصلی فیما بین المغربین یجوز۔۲؎
اگر کسی نے اس طرح نہ کیا اور مغربین کے درمیان نماز پڑھ لی تو جائز ہوگی۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر ۱/۳۱۶)
تو ایک امر مستحب کے لئے مسلمانوں کو تردد میں ڈالنا اور صفوف مسجد کو ناقص و نا تمام کر دینا ہر گز مناسب نہیں۔شرع مطہر میں تکمیل نہایت امر مہتم بالشان ہے جس کا پتاا س حدیث سے چلتا ہے کہ رسول اﷲفرماتے ہیں :
من وصل صفاوصلہ اﷲ ومن قطعہ قطعہ اﷲ ۳؎
جس نے صف کو ملایا اﷲ تعالٰی اسے ملائے گا اور جس نے صف کو قطع اﷲ تعالٰی اسے قطع فرمائے گا(ت)
(۳؎ سنن ابو داؤد باب تسویۃ الصفوف مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۹۷)
یہاں اگر قطع صف موجود نہیں صف بروجہ قطع ہے کہ دیواریں حائل ہوکر تکمیل نہ کرنے دیں گی فکان کالصف بین السواری وقد نھی عنہ بنحو ذلک کما ذکر نافی فتاوٰنا (یہ اس صف کی طرح ہے جو ستونوں کے درمیان ہو حالانکہ اس سے اور اس طرح کی دوسری صورتوں سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ اسے ہم نے اپنے فتاوٰی میں بیان کیا۔(ت)
بیانِ سوال اگر صحیح ہے تو یہ انحراف ثابت کر چکے ہیں کہ جب تک ۴۵ درجے انحراف نہ ہو نماز بلا شبہ جائز ہے اور یہ کہ قبلہ تحقیقی کو منہ کرنا نہ فرض نہ واجب صرف سنتِ مستحبہ ہے لہذا مسجد میں نماز بلا شبہ جائز ہے اور اس میں اصلاً نقصان نہیں ، نہ دیوار سیدھی کرنا فرض البتہ بہترو افضل ہے، ردالمحتار میں ہے:
لو انحرف عن العین انحرافا لا تزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز ویؤ یدہ ماقال فی الظھیریۃ اذاتیا من اوتیا سرتجوز۱؎ ۔
اگر عین کعبہ سے اتنا منحرف ہوا کہ اس سے بالکلیہ مقابلہ ختم نہ ہو تو نماز جائز ہے اس کی تائید ظھیریہ کی اس عبارت سے ہوتی ہے کہ جب وہ تھوڑا دائیں یابائیں ہو جائے تو نماز جائز ہوگی۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب شروط الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۱۵)
حلیہ میں ملتقط سے:
ھذا استحباب والاول للجواز اھ یرید ان عدم الانحراف مع عدم الخروج عن الجھۃ بالکلیۃ جائز۲؎۔
یہ استحباب کے لئے ہے اور پہلا جواز کے لئے ہے اھ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی قدر بھی انحراف نہ ہو یہ مستحب ہے اور اس طرح کا انحراف کہ جہت کعبہ سے بالکل خروج نہ ہو یہ بھی جائز ہے۔ (ت)
(۲؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
پھر اگر اس افضل کو اختیار کرنا چاہیں تو دیوار سیدھی قطب سے مشرق کو ہٹی ہوئی بنائیں اور اس کا وہ طریقہ جس میں زاویہ ناپنے کی حاجت نہ پڑے یہ ہے کہ اس دیوار قبلہ کا جنوبی گوشہ جس پر حرف ''ب'' لکھا ہے قائم رکھیں اور صحیح قطب نما سے ایک خط ب سے سیدھا قطب کو اتنا بڑا کھینچیں جس کا طول اس دیوار کے برابر ہو ایک رسی لیں اوراسکا ایک سرا حرف ب پر خوب جمائے رہیں کہ سرکے نہیں اوردوسرا سرا حرف ح سے ملاکر مشرق کی طرف اس طرح کھینچیں کہ رسی میں جھول نہ پڑنے پائے ، اس کی کشش سے کمان کی شکل میں زمین پر بن جائے اور پھر ایک سیدھی لکڑی سوا چھ قبضہ کی ناپ کر اس کاایک سرا حرف ح پر رکھیں اور دوسرا اس کمان سے ملادیں جہاں ملے اس ملنے کی جگہ کا نام حرف ء رکھیں ۔ء سے ب تک سیدھا خط ملا دیں، یہ ٹھیک دیوارِ قبلہ ہو گی۔
وذٰلک لان فی مثلث ح ب ع، ساقا ح ب،ع ب-کل ۱۰۶۔ وزاویۃ ب= مح الح فکل من زوایتی القاعدۃ مح ح ل فلوجیبھا۹۹۹۸۱۰۷ء۹ ولو جیب ح صہ الح ۷۷۰۹۶۹۷ء۸ ولو۱۰۶=۰۲۵۰۳۰۵۹ء۲مجموع ھذین=۷۹۶۲۷۵۶ء۱۰-۹۹۹۸۱۰۷=۷۹۶۴۶۴۹۔ء عددہ،=۲۵۸ء۶ھذہ قبضات خط ح ء وذلک مااردناہ۔
اور یہ اس لئے کہ مثلث ح ب ء میں ح ب ، ء ب کی دو ساقیں ہے کل ۱۰۶ ہوئے اور زاویہ ب=ح صہ الح ہے تو قاعدہ کے دونوں زاویوں کا مح ح ل ہوگا اسکا اگرجیب ۹۹۹۸۱۰۷ء۹ ہوا اوراگر جیب ح صہ الح کا ۷۷۰۹۶۹۷ء۸ ہے اور لو ۱۰۶=۰۲۵۳۰۵۹ء ۲، ان دونوں کا مجموعہ =۷۹۶۲۷۵۶ء۱۰-۹۹۹۸۱۰۷=۷۹۶۴۶۴۹ء ۰ جس کا عدد=۲۵۸ء۶ ہے یہ خط حء کے قبضے ہیں اور یہی ہماری مراد ہے(ت)
اور اگر پہلے صحیح جانچ کر لی ہو تو دوبارہ قطب نما لگانے اور بیچ کا خط یعنی ح ب بنانے کی حاجت نہیں بلکہ دیوار کے ناپ کی رسّی لیں اور اس کا ایک سرا حرف ب کی جگہ خوب جما کر رسی میں بے خم پڑے دوسرا سِرا دیوار کے حرف او پر رکھ کر دوسرا سرا جہاں ملے کمان سے ملا دیں ، اس ملنے کی جگہ دیوار کے کنارہ ب تک سیدھا خط کھینچ دیں دیوار قبلہ اس خط پراُٹھائیں کہ صحیح ہوگی۔
لان زاویۃ ا ب ء = وصہ لرکماتقدم فکل زاویۃ القاعدۃ و صہ مال جیبھا ۹۹۹۳۷۵۷ء۹وجیب ؤ صہ لر ۰۶۱۵۵۰۹ء فاذاجمع فیہ ۱۰۶ صار ۰۹۶۸۵۶۸ء۱۱-۹۹۹۳۰۵۷ء۹=۰۸۷۵۸۱۱ء۱ عددہ=۲۳۴ء۱۲ وذالک ما اردناہ۔
کیونکہ زاویہ ا ب ء =وصہ لر کے ہے جیسا کہ گزرا تو قاعدہ کے زاوریہ کا کل وصہ مال ہوگا جس کا جیب ۹۹۹۳۷۵۷ء۹ اور جیب وصہ لر کا ۰۶۱۵۵۰۹ء ہے تو جب اس میں اگر ۱۰۶ کو جمع کیا جائے تو یہ ۰۸۶۸۵۶۸ء۱۱-۹۹۹۳۰۵۷ء۹=۰۸۵۸۱۱ء۱ ہو گا جس کا عدد =۲۳۴ء۱۲ ہے اور یہی ہماری مراد ہے(ت)
مگر ان صورتوں میں ایک لحاظ لازم ہے جبکہ مسلمان اُسے مسجد کرچکے تو یہ گلی جو دیوار سیدھی کرنے میں چھوٹے گی اسے ضائع چھوڑ دینا جائز نہیں کہ وہ مسجد ہی کا ٹکڑا ہے اور اس کی بے حرمتی حرام۔ تو یا تو سیدھی دیوار ہی اور چن کر اس سے ملا دیں کہ زمین چھوٹی نہ رہے یا ممکن ہو تو دیوار کا گوشہ الف برقرار رکھیں اور گوشہ ب سے سوا بارہ قبضہ زمین مغرب کو حرف ر تک بڑھا کر ا اور ر میں خط ملا کر دیوار جدید اٹھائیں کہ اگلی دیوار کی زمین شامل مسجد رہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ نمبر ۳۹۵: ازحیات نگر ڈاکخانہ سرائے ترین ضلع مراد آباد مرسلہ سید حبیب شاہ صاحب ۸جمادی الاخری ۱۳۳۶ھ ہادی مراحلؔ تحقیق جناب مولٰینا صاحب دامت برکاتکم ، اسلام علیکم ورحمۃ اﷲ جناب عالی اس قصبہ حیات نگرکی مسجد سمت مغرب سے متجاوز ہے اسکا نقشہ علیحدہ ایک پرچہ کاغذ کی پشت پر اور تمام حال کاغذ کی پیشانی پر لکھ کر حضور کے ملاحظہ کے واسطے ارسال کرتا ہوں باعث اس کا یہ ہے کہ یہاں چند اشخاص ایسے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اس مسجد میں سیدھے مسجد کے رُخ نماز نہیں ہوتی کمترین نے ایک صاحب کے پاس مسجد کا نقشہ بھیج کر اُن سے دریافت کیا تھا انہوں نے ردالمحتار سے یہ نشان دے کر(ج ا ص۴۴۶) کچھ عربی کی عبارت لکھ کر اُس کاخلاصہ اردو میں کیا تھا کہ اس انحراف قلیل جانب کعبہ سے مصلٰی کو مضر نہیں ہے اور انحراف قلیل کی حد یہ ہے کہ چہرہ اور چہرے کے اطراف میں کوئی جزو کعبہ کے مقابل باقی رہے اس طرح کہ چہرہ یا اُس کے بعض اطراف سے کعبہ تک خطِ مستقیم کھینچا جاسکے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ خط مستقیم پیشانی سے ہی خارج ہو بلکہ عام ہے خواہ پیشانی سے خارج ہو یا اس کے دونوں طرف میں کسی طرف سے خارج ہوا ہو اس صورت میں بہت بڑی وسعت ہے، جو نقشہ مسجد کا آپ نے بھیجا ہے اس مسجد کے رُخ پر نماز پڑھنا بے شبہ جائز ہے لہذا مسجد کے رُخ پر نماز پڑھایئے، بعض صاحب اس جواب کو پزیرا نہیں کرتے اور وہ حضور ہی پر اسکا انحصار رکھتے ہیں لہذا گزارش یہ ہے کہ حضور اس کاغذ کو جس پر مسجد کا نقشہ ہے ہر دو جانب سے ملاحظہ فرماکر اگر ممکن ہو تو کاغذ مذکورکے ذیل ہی میں جو دریافت طلب گزارشیں کاغذکی پیشانی پر عرض کی گئی ہیں ان کاجواب ارقام فرما کر کمترین کو معزز فرمایا جائے۔ واجباً گزارش ہے کہ اس مسجد کا رُخ نقشہ مذکور سے بخوبی نمایاں ہے، یہ قصبہ حیات نگر ۲۸ درجے ۳۰ دقیقے عرض شمالی پر واقع ہے اور مکہ معظمہ ۲۱درجے ۴۰دقیقے عرض شمالی پر ، لہذا دریافت طلب امر یہ ہی کہ اس مسجد میں جماعت سیدھی مسجد کے رُخ پر کی جائے یا مسجد کا خیال چھوڑ کر کعبہ شریف کا خیال کرکے ٹیڑھی اور اگر مسجد کے رُخ پر سیدھی جماعت کی جائے تو نماز ہوگی یا نہیں؟
الجواب ا ب ء مثلث قائم الزاویہ ہے ب موضع قیام مصلی ء سمت نقطہ مغرب کے اسمت قطب شمالی ہے نقطہ ب سے مسجد کی دیوار قبلہ اء پر عمود ب ح قائم کیا تو مثلث ا ب ء کا مشابہ ہو اُس کا زاویہ ب اُس کے زاویہ ا کے مساوی ہے کہ ہر ایک زاویہ ء سے مل کر ا قائمہ کے برابر ہے تو زاویہ ا زاویہ انحراف یعنی اس کے مساوی ہوا، یہ وہ مقدار ہے کہ مسجد نقطہ مغرب سے جس قدر شمال کو جھکی ہوئی ہے یہ زاویہ پیمائش میں ۱۸ درجے ہے۔اب یہ معلوم کرنا ہے کہ حیات پور میں قبلہ نقطہ مغرب سے کتنا جدا ہے اس کےلئے صرف عرض بلد کافی نہیں ہوتا طول بھی درکار ہے۔ وہ سوال میں نہ لکھا نہ یہاں اطالس میں حیات پور کا نام نکلا مگر ضلع مرادآباد کی عام آبادیاں ۷۸،۷۹ درجے کے اندر ہیں ۲۸درجے عرض پر اگر طول ۷۸ درجے ہو تو عمود قبلہ سمت الر اس سے جنوب کو تین درجے جُھکے گا،دوسری میں دو۲ درجے ،ستائیس۲۷درجے ، بہرحال حیات پور میں قبلہ جنوب کو تقریباً ۲ درجے مائل ہے اور مسجد ۱۸درجے شما ل کو ہے تو مسجد قبلہ واقعہ حیات پور سے اکیس درجے کم شمال کو جھکی ہوئی ہے اور ہم نے اپنے رسالہ ھدایۃ المتعال فی حد الاستقبال میں ثابت کیا ہے کہ جب تک پینتالیس ۴۵درجے انحراف نہ ہو سمت قبلہ باقی رہتی ہے۔عبارت ردالمحتار وغیرہاعبارات کثیرہ مختلفہ اسی طرف راجح ہیں نہ وہ اطلاق کہ سوال میں کسی سے حکایت کیا تو یہ مسجد ضرور حدِ قبلہ کے اندر ہے بلکہ اس سے دوچند جھکی ہوتی تب بھی حد سے نہ نکلتی ، تو مسجد ہی کے رُخ پر نماز پڑھی جائے ضرور صحیح ہو جائے گی مگر بعد اطلاع قبلہ سے اتنا انحراف مکروہ و خلاف سنت ہے، لہذا سمتِ مسجد کا خیال نہ کریں بلکہ سمتِ قبلہ کا ، یعنی خط ب ء ہی کی سیدھ پر پڑھیں حرج نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔