Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
98 - 157
رسالہ

(۱۳۰۱) منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین (۱۳۰۱)

(انگوٹھے چُومنے کے سبب آنکھوں کا روشن ہونا)
مسئلہ (۳۸۶) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذان میں کلمہ اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ سُن کر انگوٹھے چُومنا آنکھوں سے لگانا کیسا ہے؟ بینّوا تؤجرُوا۔
فتوٰی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط

الحمدللّٰہ الذی نورعیون المسلمین بنورعین اعیان المرسلین،والصّلاۃ والسلام علی نورالعیون سرورالقلب المحزون محمدنالرفیع ذکرہ فی الصلاۃ والاذان،والجیب اسمہ عند اھل الایمان، وعلی اٰلہ وصحبہ والمشروحۃ صدورھم لجلال اسرارہ والمفتوحۃ عیونھم بجمال انوارہ، واشھد ان لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ،وان محمّداعبدہ ورسولہ بالھدی ودین الحق ارسلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہ وصحبہ اجمعین،وعلینا معھم وبھم ولھم یاارحم الراحمین اٰمین،قال العبدالذلیل للمولی الجلیل عبدالمصطفٰی احمدرضاالمحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی،نوراللّٰہ عیونہ واصلح شیونہ مستعیذا برب الفلق من شرما خلق وحامداللّٰہ علٰی ماالھم ووفق۔
تمام خُوبیان اللہ کے لئے جس نے گروہِ انبیاء ومرسلین کے سربراہ کے نور سے تمام مسلمانوں کی آنکھوں کو روشنی بخشی، صلاۃ وسلام ہو اس پر جو آنکھوں کا نور، پریشان دلوں کا سرور یعنی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جن کاذکر اذان ونماز میں بلند ہے۔ جس کا اسم گرامی اہلِ ایمان کے ہاں نہایت ہی محبوب ہے اور آپ کی آل واصحاب پرجن کے مبارک سینے آپ کے اسرار ورموز کے جلال کیلئے کھول دئے، اور ان کی آنکھوں کو آپ کے انوار جمال سے منور فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں وہ وحدہ، لاشریک ہے اور حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں جن کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث کیا، اور ہم پر بھی رحمت ہو ان کے ساتھ، ان کے سبب اور ان کے صدقہ میں یاارحم الراحمین، مولٰی جلیل کا عبدِ ذلیل عبدالمصطفٰی احمد رضا محمدی، سُنّی، حنفی، قادری، برکاتی، بریلوی کہتا ہے اللہ تعالٰی اس کی آنکھوں کو منور فرمائے اور اس کے تمام احوال کی اصلاح کرے درانحالیکہ وہ رب الفلق کی پناہ میں آتا ہے تمام مخلوق کے شر سے اور حمد کرتا ہے اللہ کی اس پر جو اس نے عطا کی اور اس کی توفیق دے۔ (ت)
الجواب

حضور پُرنور شفیع یوم النشور صاحبِ لولاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک اذان میں سُنتے وقت انگوٹھے یا انگشتانِ شہادت چُوم کر آنکھوں سے لگانا قطعاً جائز، جس کے جواز پر مقام تبرع میں دلائل کثیرہ قائم، اور خود اگر کوئی دلیل خاص نہ ہوتی تو منع پر شرع سے دلیل نہ ہونا ہی جواز کے لئے دلیل کافی تھا، جو ناجائز بتائے ثبوت دینا اُس کے ذمّہ ہے کہ قائل جواز متمسک باصل ہے اورمتمسک باصل محتاجِ دلیل نہیں، پھر یہاں تو حدیث وفقہ وار شاد علما وعمل قدیم سلف صلحا سب کچھ موجود۔ علمائے محدثین نے اس باب میں حضرت خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر وحضرت ریحانہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا امام حسن وحسین وحضرت نقیب اولیائے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا ابوالعباس خضر علی الحبیب الکریم وعلیہم جمیعا الصلاۃ والتسلیم وغیرہم اکابر دین سے حدیثیں روایت فرمائیں جس کی قدرے تفصیل امام علّامہ شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب مستطاب مقاصد حسنہ میں ذکر فرمائی اور جامع الرموز شرح نقایتہ، مختصر الوقایۃ وفتاوٰی صوفیہ وکنز العباد وردالمحتار حاشیہ درمختار وغیرہا کتبِ فقہ میں اس فعل کے استحباب واستحسان کے صاف تصریح آئی، ان میں اکثر کتابیں خود مانعین اور ان کے اکابر وعمائد مثل متکلم قنوجی وغیرہ کے مستندات سے ہیں اور اُن حدیثوں کے بارے میں اُن محدثین کرام ومحققین اعلام نے جو تصحیح وتضعیف وتجریح وتوثیق میں دائرہ اعتدال سے نہیں نکلتے اور راہِ تساہل وتشدّد نہیں چلتے حکمِ اخیر وخلاصہ بحث وتنقیریہ قرار دیا کہ خود حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جو حدیثیں یہاں روایت کی گئیں باصطلاحِ محدثین درجہ صحت کو فائز نہ ہوئیں، مقاصد میں فرمایا:
لایصحّ فی المرفوع مِنْ کُلّ ھٰذا شیئٌ ۱؎۔
بیان کردہ مرفوع احادیث میں کوئی بھی درجہ صحت پر فائز نہیں۔ (ت)
 (۱؎ المقاصد الحسنہ    حرف المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ص ۳۸۵)
مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعاتِ کبیر میں فرماتے ہیں:
کل مایروی فیئ ھذٰا فلایصح رفعہ البتۃ ۲؎۔
اس بارے میں جو بھی روایات بیان کی گئی ہیں ان کا مرفوع ہونا حتمی صحیح نہیں۔ (ت)
 (۲؎ الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ (موضوعات کبرٰی)    حدیث ۸۲۹ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ص ۲۱۰)
علامہ ابن عابدین شامی قدس سرّہ السامی ردالمحتار میں علّامہ اسمٰعیل جراحی رحمہ اللہ تعالٰی سے نقل فرماتے ہیں:
لَمْ یصِحَّ فیِ الْمَرْفُوْعِ مِنْ کُلِّ ھٰذَا شَیئٌ ۳؎۔
بیان کردہ مرفوع احادیث میں کوئی بھی درجہ صحت پر فائر نہیں۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار        باب الاذان        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/۲۹۳)
پھر خادمِ حدیث پر روشن کہ اصطلاحِ محدثین میں نفیِ صحت نفیِ حسن کو بھی مستلزم نہیں نہ کہ نفی صلاح وتماسک وصلوح تمسک، نہ کہ دعوٰی وضعِ کذب، تو عندالتحقیق ان احادیث پر جیسے باصطلاحِ محدثین حکمِ صحت صحیح نہیں یونہی حکمِ وضع وکذب بھی ہرگز مقبول نہیں بلکہ بتصریح ائمہ فن کثرتِ طُرق سے جبر نقصان متصوّر اور عملِ علمأ وقبولِ قُدما حدیث کے لئے قوی، دیگر اور نہ سہی تو فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف بالاجماع مقبول، اور اس سے بھی گزرے تو بِلاشُبہہ یہ فعل اکابرِ دین سے مروی ومنقول اور سلف صالح میں حفظ صحتِ بصر وروشنائی چشم کے لئے مجرب اور معمول، ایسے محل پر بالفرض اگر کچھ نہ ہوتو اسی قدر سند کافی بلکہ اصلاً نقل بھی نہ ہوتو صرف تجربہ وافی کہ آخر اُس میں کسی حکم شرعی کا ازالہ نہیں، نہ کسی سنّتِ ثابتہ کا خَلاف، اور نفع حاصل تو منع باطل، بلکہ انصاف کیجئے تو محدثین کا نفی صحت کو احادیث مرفوعہ سے خاص کرناصاف کہہ رہا ہے کہ وہ احادیثِ موقوفہ کو غیر صحیح نہیں کہتے پھر یہاں حدیث موقوف کیا کم ہے، ولہذا مولٰنا علی قاری نے عبارتِ مذکورہ کے بعد فرمایا:
قلت واذاثبت رفعہ الی الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فیکفی للعمل بہ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ۱؎۔
یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہی اس فعل کا ثبوتعمل کو بس ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تم پر لازم کرتا ہُوں اپنی سنّت اور اپنے خلفائے راشدین کی سنت۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔
 (۱؎ الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ (موضوعات کبرٰی)    حدیث ۸۲۹ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت     ص ۲۱۰)
تو صدیق سے کسی شَے کا ثبوت بعینہٖ حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثبوت ہے اگرچہ بالخصوص حدیث مرفوع درجہ صحت تک مرفوع نہ ہو، امام سخاوی المقاصد الحسنۃ فی الاحادیث الدائرۃ علی الالسنۃ میں فرماتے ہیں:
حدیث:مسح العینین بباطن انملتی السبابتین بعد تقبیلھما عندسماع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ مع قولہ اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ رضیت باللّٰہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نبیا ذکرہ الدیلمی فی الفردوس من حدیث ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ لماسمع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ قال ھذا وقیل باطن الانملتین السبابتین ومسح عینیہ فقال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مَنْ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ خَلِیْلِیْ فَقَدْ حَلَّتْ عَلَیہِ شَفَاعَتِیْ وَلَایصِحَّ ۲؎۔
یعنی مؤذن سے اشھد انّ محمداً رسول اللّٰہ سُن کر انگشتانِ شہادت کے پورے جانبِ باطن سے چُوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ دُعا پڑھنا اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، رَضِیتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیناً وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ نَبِیا ط اس حدیث کو دیلمی نے مسند الفردوس میں حدیث سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ جب اس جناب نے مؤذن کو اشھد انّ محمداً رسول اللّٰہ کہتے سُنا یہ دُعا پڑھی اور دونوں کلمے کی انگلیوں کے پورے جانب زیریں سے چُوم کر آنکھوں سے لگائے، اس پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جو ایسا کرے جیسا میرے پیارے نے کیا اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائے، اور یہ حدیث اس درجہ کو نہ پہنچی جسے محدثین اپنی اصطلاح میں درجہ صحت نام رکھتے ہیں۔
 (۲؎ المقاصد الحسنۃ    حروف المی   حدیث ۱۰۲۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۳۸۴)
پھر فرمایا: وکذامااوردہ ابوالعباس احمد بن ابی بکرنالرداد الیمانی المتصوف فی کتابہ ''موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ'' بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام انہ قال من قال حین یسمع المؤذن یقول اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ، مرحبا بجیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ثم یقبل ابھا میہ ویجعلھما علی عینیہ لم یرمد ابدا ۱؎۔
یعنی ایسے ہی وہ حدیث کہ حضرت ابوالعباس احمد بن ابی بکررداد یمنی صوفی نے اپنی کتاب ''موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرہ'' میں ایسی سند سے جس میں مجاہیل ہیں اور منقطع بھی ہے حضرت سیدنا خضر علیہ الصلاۃ والسلام سے روایت کی کہ وہ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص مؤذّن سے اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ سن کر مرحبا بجبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کہے پھر دونوں انگوٹھے چُوم کر آنکھوں پر رکھے اس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں۔
 (۱؎ المقاصد الحسنہ    حروف المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ص ۳۸۴)
پھر فرمایا:

ثم روی بسند فیہ من لم اعرفہ عن اخی الفقیہ محمد بن البابا فیما حکی عن نفسہ انہ ھبت ریح، فوقعت منہ حصاۃ فی عینہ فاعیاہ خروجھا والمتہ اشد الالم، وانہ لماسمع المؤذن یقول اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ، قال ذلک فخرجت الحصاۃ من فورہ، قال الرداد رحمہ اللّٰہ تعالٰی، وھذا یسیر فی جنب فضائل الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎۔
یعنی پھر ایسی سند کے ساتھ جس کے بعض رواۃ کو میں نہیںپہچانتا فقیہ بن البابا کے بھائی سے روایت کی کہ وہ اپنا حال بیان کرتے تھے ایک بار ہوا چلی ایک کنکری ان کی آنکھ میں پڑگئی نکالتے تھک گئے ہرگز نہ نکلی اور نہایت سخت درد پہنچایاانہوں نے مؤذن کواشھد ان محمدارسول اللّٰہ کہتے ہوئے یہی کہا فوراً نکل گئی رواد رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل کے حضور اتنی بات کیا چیز ہے۔
 (۲؎ المقاصد الحسنہ    حروف المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ص ۳۸۴)
Flag Counter