مسئلہ (۳۸۲) از ورنگر دایہ مہ سانہ۔ گجرات گاڑیکے دروازہ متصل مکان چاندا رسول مسئولہ عبدالرحیم احمد آبادی
۲۲ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ مسجدوں کے دروازوں پر گھنٹا لگاکر پنجوقتہ نمازوں کے وقت پر بجانا مشابہت کفار ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب
یہ سخت حرام اور ناپاک وملعون فعل کفار ملعونین سے پورا پورا تشبّہ ہے، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۸۳)ازاکلتراضلع بلاسپور۔ سی پی مسئولہ عبدالغنی امام مسجد جامع ۲۴ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک مؤذن روزہ نہیں رکھتا کتنی ہی بار امام سے لڑنے پر آمادہ ہُوا امام سے کہا زیادہ بات کرے گا تو پٹک کر نالی میں موڑ رگڑ دُوں گا ایک ہی نمبر کالالچی گانے والا بھانڈ بھی مسخرا چور بھی مسجد کے چار قفل چوری کیے پتا لگنے پر کہا تم نے دودیے تھے ابھی تک وہ مسروق قفل اس کے پاس ہیں امام پر بہتان لگاتا ہے کہ تم مسجد کی لالٹین کا تیل چوری کرتے ہو حالانکہ کبھی نہیں دیکھا امام کہتا ہے اگر ثبوت مل جائے تو میرا ہاتھ کاٹ لو بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نام پر بھی تو کبھی درود شریف پڑھتے نہیں سُنا اور ۱۵ رمضان کو عین جماعتِ فجر کے وقت جھاڑو دیتا تھا میں نے کہا ابھی جھاڑو نہ دو تو جماعت کے سامنے کہنے لگا کہ مُوت مُوتو آگ نہ مُوتو، بے حیا لڑاکا فسادی ہے ایک روزہ دار مسافر کو بھی بہکاتا تھا لہذا اس مؤذن کے متعلق فتوے سے مطلع فرمائیں۔
الجواب
اگر یہ باتیں واقعی ہیں تو وہ مؤذن سخت فاسق فاجر ہے اُسے مؤذن بنانے کی ہرگز اجازت نہیں اُسے معزول کرنا لازم، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الامام ضامن والمؤذن مؤتمن ۱؎
(امام ذمہ دار ہے اور مؤذن امین ہے) رواہ ابوداود والترمذیوابن حبان والبھیقی عن ابی ھریرۃ واحمد عن ابی امامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما بسند صحیح (اسے ترمذی، ابن حبان اور بہیقی نے سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور امام احمد نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ت)
(۱؎ جامع الترمذی باب ماجاء ان الامام ضامن الخ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۲۹)
(سنن ابی داؤد باب مایجب علی المؤذن مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۷۷)
اور ظاہر ہے کہ فاسق امین نہیں ہوسکتا ولہذا مقصود اذان کہ اعلام باوقات نماز وسحری وافطار ہے فاسق کی اذان سے حاصل نہیں ہوسکتا، تنویر میں ہے:
یجوز اذان صبی مراھق وعبد واعمی ۱؎۔
قریب البلوغ بچّے، غلام اور نابینا کی اذان جائز ہے۔ (ت)
(۱؎ دُرمختار شرح تنویر الابصار باب الاذان مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۴)
کیونکہ ان کا قول امور دینیہ میں معتبر ہے لہذا ان کا قول ملزم ہوگا اور اس کے ساتھ اعلام حاصل ہوجائیگا بخلاف فاسق کے۔ (ت)
(۲؎ تبیین الحقائق باب الاذان مطبعۃ کبرٰی امیریہ بولاق مصر ۱/۹۴)
ردالمحتار میں ہے:یؤخذ مماقدمناہ من انہ لایحصل الاعلام من غیرالعدل ولایقبل قولہ انہ لایجوز الاعتماد علی المبلغ الفاسق خلف الامام ۳؎۔
ہمارے سابقہ بیان سے واضح ہوچکا ہے کہ اعلام بغیر عدل کے حاصل نہیں ہوسکتا اور اس کا قول قبول نہیں کیا جائیگا یعنی امام کے پیچھے فاسق مکبّر پر اعتماد جائز نہیں۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۹۰)
درمختار میں ہے:وجزم المصنّف بعدم صحۃ اذان مجنون ومعتوہ وصبی لایعقل قلت وکافر وفاسق لعدم قبول قولہ فی الدیانات ۴؎۔
مصنّف نے دیوانے، ناقص العقل، ناسمجھ بچّے کی اذان پر عدمِ صحت کے ساتھ جزم کیا ہے۔ میں کہتا ہوں اور کافر وفاسق بھی اس مثال میں شامل ہیں، کیونکہ ان کا قول امور دینیہ میں معتبر نہیں۔ (ت)
(۴؎ درمختار مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۴)
غنیہ میں ہے: یجب اعادۃ اذان السکران والمجنون والصبی غیر العاقل لعدم حصول المقصود لعدم الاعتماد علی قولھم ۱؎ اھ وقد نقلہ فی ردالمحتار واقرہ بل ایدبہ بحث البحر فلاوجہ لبحثہ فی الفاسق وقدسلم عدم حصول المقصود باذانہ کماتقدم۔
نشہ کرنے والے، دیوانے، نابالغ بچہ کی اذان لوٹائی جائیگی کیونکہ ان کے قول پر عدمِ اعتماد کی وجہ سے مقصود حاصل نہیں ہوپاتا اھ ردالمحتار میں اسے نقل کرکے ثابت رکھا بلکہ بحر کی عبارت سے اس کی تائید کی پس فاسق کے بارے میں بحث کی حاجت ہی نہیں کیونکہ پیچھے گزرچکا ہے کہ اس کی اذان سے اعلام کا حصول مسلّمہ طور پر نہیں ہوتا۔ (ت)واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ ردالمحتار باب الاذان مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۸۹)
مسئلہ (۳۰۴) از سینٹوریم ضلع نینی تال مسئولہ سراج علی خاں صاحب قادری رضوی بریلوی۱۶ شعبان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں نمازِ جماعت کے لئے اذانِ پنجوقتہ کیا اہمیت رکھتی ہے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ دوچار شخص جماعت سے نماز پڑھیں تو اذان ضروری ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب
مسجد میں پانچوں وقت جماعت سے پہلے اذان سنّتِ مؤکدہ قریب بواجب ہے اور اس کا ترک بہت شنیع، یہاں تک کہ حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر کسی شہر کے لوگ اذان دینا چھوڑدیں تو میں ان پر جہاد کروں گا، شہر میں اگر کچھ لوگ مکان یا دُکان یا میدان میں اذان نہ کہیں تو حرج نہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اذان الحی یکفینا ۲؎ محلہ کی اذان ہمیں کفایت کرتی ہے،
(۲؎ ردالمحتار باب الاذان مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۹۱)
یوں ہی مسافر کو ترکِ اذان کی اجازت ہے لیکن اگر اقامت بھی ترک کرے گا تو مکروہ ہوگا۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۸۵) از بریلی بازار مسئولہ عزیز الدین خاں دُکاندار ۲۰ شوال ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ نماز سے قبل صلاۃ پکارنا اور اذان ثانی باہر مسجد کے کہنا وہابیہ کا کام ہے اُس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب
نماز سے پہلے صلاۃ پکارنا مستحسن ہے حرمین شریفین وتمام بلاد دارالاسلام میں رائج ہے اسے وہابیہ کا کام کہنا عجیب ہے وہابیہ ہی اسے بُرا کہتے ہیں، اذانِ ثانی امام کے سامنے منبر کے محاذی مسجد کے باہر ہونا ہی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سنّت ہے صدیق اکبر کی سنّت ہے، فاروق اعظم کی سنّت ہے، اُسے وہابیہ کا کام کہنا محض جہالت وحماقت ہے اگر یہ شخص جاہل ہے کسی احمق سے سُنی سنائی ایسی کہتا ہے اُس کے مذہب میں کوئی فتور نہیں اور فاسق معلن بھی نہیں اور اس کی طہارت وقرأت صحیح ہے تو ان شرائط کے ساتھ اس کے پیچھے نماز میں حرج نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔