Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
96 - 157
مسئلہ (۳۷۵) مسائل از شہر کہنہ محلہ کانکرٹولہ مسئولہ نتھے خاں    ۱۵ محرم ۱۳۳۹ھ

(۱)    اذان سنّت ہے یا واجب؟

(۲)    اذان نابالغ دے تو جائز ہے یا ناجائز؟

(۳)    تکبیر واجب ہے یا سنّت؟

(۴)    مصلّی پر امام نہ ہوتو تکبیر جائز ہے یا ناجائز؟
الجواب

(۱)    جمعہ وجماعت پنجگانہ کے لئے اذان سنّتِ مؤکدہ وشعارِ اسلام وقریب بواجب ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ 

(۲)    نابالغ اگر عاقل ہے اور اس کی اذان اذان سمجھی جائے تو جائز ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔

(۳)    یوں ہی تکبیر بھی، واللہ تعالٰی اعلم۔

(۴)    جب امام مسجد میں بہ تہیہ نماز آئے تو تکبیر کہہ سکتے ہیں اگرچہ مصلّے تک نہ پہنچے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۷۶) از شہر مسئولہ وکیل الدین طالب علم مدرسہ منظرالاسلام    ۶ محرم ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید بہت ہی پکّا سُنّی ہے اہلسنّت کے طریقہ پر قدم بقدم چلتا ہے ایک ذرّہ بھی وہابیت کا نقص نہیں پایا جاتا وہابیوں سے منتفر رہتا ہے الغرض عقائد میں کسی قسم کی خرابی نہیں ایسے شخص کو بکر وہابی وکافر کہتا ہے چونکہ بکر نے زید کو بوقت اذان کے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نامِ مبارک پر انگشت کو بوسہ لیتے ہوئے اور درود شریف بآوازِ بلند پڑھتے ہوئے نہ دیکھا زید کہتا ہے کہ اذان کا جواب دینا اور درود شریف حضور کے نام مبارک پر اس وقت پڑھنا دل میں چاہئے لہذا میں دل میں پڑھتا ہوں اور جوابِ اذان دیتا ہوں اور زید انگشت چُومنے سے انکار بھی نہیں کرتا ہے اس وجہ سے بکر نے زید کو اسلام سے خارج کرکے کفر میں داخل کردیا ہے اور زید کے عقائد کی حالت بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس صورت میں بکر کا یہ کلام زبان سے نکالنا صحیح ہے یا نہیں، اگر صحیح نہیں تو بکر پر شارع علیہ السلام کا کیا حکم جاری ہوگا؟ بینّوا توجّروا۔
الجواب: اگر یہ بیان واقعی ہے تو زید کو وہابی کہنا جائز نہیں اور اسے خارج از اسلام ٹھہرانا سخت اشد کبیرہ ہے بکر پر تو بہ فرض ہے اور اس وقت درود شریف دل میں پڑھنے سے اگر زید کی مراد یہ ہے کہ زبان سے نہ پڑھا جائے تو غلط ہے زبان سے پڑھنا لازم ہے اور بآواز ہونا مستحب ہے کہ اوروں کو بھی ترغیب وتذکیر ہو اور اس پر درود شریف نہ پڑھنے کی بدگمانی نہ ہو، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۷۷) از شہر محلہ ملوک پور مسئولہ شفیق احمد خاں صاحب    ۲۶ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تکبیر کے شروع ہونے کے وقت امام ومقتدی کو کھڑا رہنا چاہئے یا بیٹھ جانا چاہئے اور بیٹھ جانے میں کیا فضیلت ہے اور کھڑا رہنے میں کیا نقصان ہے؟
الجواب:  امام کے لئے اس میں کوئی خاص حکم نہیں مقتدیوں کو حکم ہے کہ تکبیر بیٹھ کر سُنیں حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں، کھڑے کھڑے تکبیر سُننا مکروہ ہے یہاں تک کہ علمگیری میں فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد میں آئے کہ تکبیر ہورہی ہو فوراً بیٹھ جائے اورحی علی الفلاح پر کھڑا ہو اور اس میں راز مکبر کے اس قول کی مطابقت ہے کہ قدقامت الصلاۃ ادھر اس نے حی علی الفلاح کہا کہ آؤ مراد پانے کو، جماعت کھڑی ہوئی، اس نے کہا قدقامت الصلاۃ جماعت قائم ہوگئی۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۷۸) از شہر بازار شہامت گنج مسئولہ مشیت خاں    ۹ صفر المظفر ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعد اذان کے اور جماعت سے ذرا قبل الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ الصلٰوۃ والسلام علیک یاحبیب اللّٰہ پڑھنا بآوازِ بلند چاہئے یا نہیں؟ ایک شخص کہتا ہے کہ صلاۃ وسلام پڑھنے سے اذان کی حیثیت گھٹتی ہے کوئی ضرورت نہیں ہے جواب سے مشرف فرمایا جائے۔
الجواب:  پڑھنا چاہئے اور صلاۃ وسلام سے اذان کی حیثیت بڑھتی ہے کہ وہ اعلام کے لئے تھی اور یہ اسی کی ترقی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۷۹) از شہر محلہ صالح نگر مسئولہ کفایت دری ساز    ۱۱ صفر ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص وہابی ہے یا ان کا ہمخیال ہے اگر وہ اذان دے سُنّی کی مسجد میں تو اس کا جواب سُنّی دے یا نہیں؟ اور جب سُنّی اس مسجد میں نماز کے کیلئے جائے تو اپنی اذان کہے یا اس کی اذان پر اکتفا کرے اور دوسری اذان نہ کہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب

اسم جلالت پر کلمہ تعظیم اور نامِ رسالت پر درود شریف پڑھیں گے اگرچہ یہ اسمائے طیبہ کسی کی زبان سے اداہوں مگر وہابی کی اذان اذان میں شمار نہیں جواب کی حاجت نہیں، اور اہلسنت کو اُس پر اکتفا کی اجازت نہیں بلکہ ضرور دوبارہ اذان کہیں، درمختار میں ہے:
ویعاداذان کافر وفاسق ۱؎
 (کافر اور فاسق کی اذان لوٹائی جائے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
 (۱؎ دُرمختار    باب الاذان    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۶۴)
مسئلہ (۳۸۰) موضع بشارت گنج ضلع بریلی مسئولہ حاجی غنی رضاخان صاحب رضوی ۲۷صفر۹ ۱۳۳ھ

(۱)    کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ صلاۃ جو بعد اذان بلفظ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پڑھی جاتی ہے مخالف کہتا ہے کہ یہ فعل قرآن شریف اور حدیث شریف کے باہر ہے اور شارع اسلام کے خلاف ہے یا کوئی مجھے بتائے کہ فرض ہے یا واجب یا سنّت ہے یا مستحب، اور یہ فعل نیم مولوی کا ہے ایسے شخص کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں اس کو امام بنانا چاہئے یا نہیں؟

(۲)    بروقت جماعت کے قبل جو تکبیر پڑھی جاتی ہے اس کو زید کہتا ہے کہ امام ومقتدی بیٹھ کر سُنیں، عمرو کہتا ہے کہ کھڑے ہوکر سُننا چاہئے اور یہ رواج قدیم ہے اور یہ نئے مولویوں کی فتنہ انگیزی کی بات ہے۔
الجواب

مخالف جھُوٹا ہے اور شریعتِ مطہرہ پر افترا کرتا ہے ثبوت دے شرع مطہر نے اسے کہاں منع فرمایا ہے کہ خلافِ شرع کہتا ہے ہاں وہ فرداً مستحب ہے اور اصلا فرد فرض ہے قال اللہ تعالٰی:
ان اللّٰہ وملئکۃ یصلّون علی النبی یایھا الذین اٰمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیما ۱؎o
بیشک اللہ اور اس کے سب فرشتے درود بھیجتے ہیں اس نبی پر، اے ایمان والو! درود بھیجو ان پر اور خوب سلام عرض کرو (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)۔
 (۱؎ القرآن    ۳۳/۵۶)
رب عزوجل کا حکم مطلق ہے اس میں کوئی استثناء فرمادیا ہے کہ مگر اذان کے بعد نہ بھیجو، جب پڑھا جائیگا اسی حکم الٰہی کاامتثال ہوگا فلہذا ہربار درود پڑھنے میں ادائے فرض کا ثواب ملتاہے کہ سب اُسی مطلق فرض کے تحت میں داخل ہے تو جتنا بھی پڑھیں گے فرض ہی میں شامل ہوگا نظیر اس کی تلاوتِ قرآن کریم ہے کہ ویسے تو فرض ایک ہی آیت ہے اوراگر ایک رکعت میں ساراقرآن عظیم تلاوت کرے تو سب فرض ہی میں داخل ہوگا اور فرض ہی کا ثواب ملے گاسب
فاقرؤا ماتیسّر من القراٰن ۲؎
 (پس پڑھ قرآن سے جو تمہیں آسان ہے۔ ت)کے اطلاق میں ہے آج کل ایساانکار کرنے والے کوئی نہیں مگر وہابیہ اور وہابیہ کے پیچھے نماز باطل محض ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ القرآن    ۷۳/۲۰)
 (۲)    مسئلہ شرعیہ کونئے مولویوں کی فتنہ انگریزی کہنا اگر براہِ جہالت نہ ہو کلمہ کفر ہے کہ توہینِ شریعت ہے مقتدیوں کو حکم یہ ہے کہ تکبیر بیٹھ کر سُنیں جب مکبّر حی علی الفلاح پر پہنچے اس وقت کھڑے ہوں کہ اس کے اس قول کی مطابقت ہو جو وہ اس کے بعد کہے گا کہ قدقامت الصلاۃ جماعت کھڑی ہوئی یہاں تک کہ اگر تکبیر ہورہی ہے اور اس وقت کوئی شخص باہر سے آیا تو یہ خیا نہ کرے کہ چند کلمات رہ گئے ہیں پھر کھڑا ہونا ہوگا بلکہ فوراً بیٹھ جائے اور حی علی الفلاح پرکھڑا ہو۔ علمگیریہ میں ہے:
اذادخل الرجل عندالاقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم اذابلغ المؤذن قولہ حی علی الفلاح کذافی المضمرات ۱؎۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
اگر کوئی تکبیر کے وقت آیا تو وہ بیٹھ جائے کیونکہ کھڑے ہوکر تکبیر سُننا مکروہ ہے پھر جب مؤذن ''حی علی الفلاح'' کہے تو اُٹھے مضمرات میں ایسے ہی ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الصلاۃ باب فی الاذان فصل ثانی    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۵۷)
مسئلہ (۳۸۱) از ریاست رام پور محلہ مردان خان گلی موچیاں مسئولہ محمد نور    ۱۰ رمضان ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں پنجگانہ اذان واسطے نماز کے کہاں کہی جائے اور بانیِ مسجد نے کوئی جگہ اذان کی مقرر نہیں کی اکثر لوگ صحنِ مسجد میں اذان کہہ دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مسجد کی داہنی طرف یعنی جنوب کو اذان ہو اور مسجد کی بائیں طرف یعنی شمال کو تکبیر کہی جائے اور جس مسجد کا کوٹھانہ ہو صاف میدان حد بستہ ہو اُس مسجد کی کون سی داہنی اور بائیں پر عمل کیا جائے اور یہ بھی سُنا ہے کہ جماعت پر حق سبحانہ، کی رحمت اول امام پر اور بعد اس کے صف اول کی داہنی جانب سے تمام پر شروع ہوتی ہے پھر دوسری تیسری صفوں پر آخر تک، جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ مسجد کی داہنی جانب جنوب ہے اسی جانب سے مصلیان پر رحمتِ حق نازل ہوتی ہے یا اس کے بالعکس اور منبر مسجد کو بائیں جانب کہتے ہیں اور پُرانی مسجدوں میں داہنی جانب اور بائیں جانب بُرج بنے ہوتے ہیں اُس پر اذان ہُوا کرتی ہے اس وقت کے مؤذنان نے اُس کو چھوڑدیا صحنِ مسجد میں جہاں چاہتے ہیں اذان کہہ دیتے ہیں آیا اذانِ پنجگانہ نماز سنّت خارج مسجد مثل منڈھیر وغیرہ ہے یا صحن مسجد۔ بینوا توجروا۔
الجواب

مسجد میں اذان کہنا مطلق منع ہے خلاصہ وہندیہ وبحرالرائق وغیرہا میں ہے:
لایؤذن فی المسجد ۲؎
 (مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ ت)
 (۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی    الفصل الاول فی الاذان        مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ        ۱/۴۹)

(فتاوٰی ہندیہ    الفصل الثانی فی کلمات الاذان الخ      مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۵۵)

(البحرالرائق        باب الاذان       مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۲۵۵)
نظم زندویسی وجامع الرموز میں ہے:
یکرہ الاذان فی المسجد ۳؎
 (مسجد میں اذان مکروہ ہے۔ ت)
 (۳؎ جامع الرموز    کتاب الصلاۃ فصل الاذان       مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱/۱۲۳)
نوٹ:    جامع الرموز میں یہ عبارت بالمعنی ہے بالالفاظ نہیں۔ جامع الرموز کے الفاظ یوں ہیں:
بانہ لایؤذن فی المسجد فانہ مکروہ کمافی النطم''۔ نذیر احمد سعیدی
اذان کے لئے کوئی دہنی بائیں جانب مقرر نہیں، منارہ پر ہو جس طرف ہو اور جہاں منارہ یا کوئی بلندی نہیں وہاں فصیلِ مسجد پر اُس طرف ہو جدھر مسلمانوں کی آبادی زائد ہے اور دونوں طرف آبادی برابر ہوتو اختیار ہے جدھر چاہیں دیں۔

تکبیر میں مناسب یہ ہے کہ امام کے محاذی ہو ورنہ امام کی دہنی جانب کہ مسجد کی بائیں جانب ہوگی ورنہ جہاں بھی جگہ ملے۔ رحمتِ الٰہی پہلے امام پر اُترتی ہے پھر صفِ اول میں جو امام کے محاذی ہو پھر صف اول کے دہنے پرپھر بائیں صف پر پھر دوم میں امام کے محاذی پھر دوم کے دہنے پھر بائیں پر اسی طرح آخر صفوں تک۔ امام کا دہنا مسجد کا بایاں ہوتا ہے مسجد میں عمارت ہو یانہ ہو کہ مسجد تابع کعبہ معظمہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter