Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
95 - 157
مسئلہ (۳۶۴) از دمن خرد عملداری پرتگال مسئولہ مولوی ضیاء الدین صاحب ۱۵ذیقعدہ ۱۳۱۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اشھد ان محمدارسول اللّٰہ جو اذان واقامت میں واقع ہے اُس میں انگوٹھوں کا چُومنا جو مستحب ہے اگر کوئی شخص باوجود قائل ہونے استحباب کے احیاناعمداً ترک کرے تو وہ شخص قابلِ ملامت ہے یا نہیں۔
الجواب: جبکہ مستحب جانتا ہے اور فاعلون پر اصلاً ملامت روا نہیں جانتا فاعلون پر ملامت کرنے والوں کو بُرا جاننا ہے تو خود اگر احیانا کرے احیانا نہ کرے ہرگز قابلِ ملامت نہیں
فان المستحب ھذا شانہ
 (کہ مستحب کادرجہ ومقام یہی ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۶۶) از مراد آباد مدرسہ اہلسنت بازار دیوان مرسلہ مولوی عبدالودود قاری برکاتی رضوی طالبعلم مدرسہ مذکور    ۲ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ: حضور پُرنور کے نام مبارک سُن کر ہاتھ چُوم کر آنکھوں پر لگانا کیسا ہے؟
الجواب: جائزبلکہ مستحب ہے جبکہ کوئی ممانعت شرعی نہ ہو مثلاً حالت خطبہ میں یا جس وقت قرآن مجید سُن رہاہے یا نماز پڑھ رہا ہے ایسی حالتوں میں اجازت نہیں باقی سب اوقات میں جائز بلکہ مستحب ہے جبکہ بہ نیتِ محبت وتعظیم ہو اور تفصیل ہمارے رسالہ منیر العین میں ہے واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۶۷)ازاوریا ضلع اٹاوہ مدرسہ اسلامیہ مرسلہ عبدالحی صاحب مدرس    ۹ شعبان ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذان کے وقت انگوٹھے چُومنااس کا جو طریقہ ہو اوردعا وغیرہ اور جس جس موقع پر کیا جائے مفصل اطلاع بخشیے۔
الجواب: جب مؤذن پہلی باراشھد ان محمدا رسول اللّٰہ کہے یہ کہے صلی اللّٰہ علیک یارسول اللّٰہ جب دوبارہ کہے یہ کہے قرۃ عینی بک یارسول اللّٰہ اور ہر بار انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں سے لگالے آخر میں کہے
اللھم متًعنی بالسمع والبصر ۱؎
 (اے اللہ! میری آنکھوں اور سمع کو نفع عطا فرما۔ ت)
 (۱؎ ردالمحتار    باب الاذان    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۲۹۳)
ردالمحتار عن جامع الرموز عن کنز العباد (ردالمحتار میں جامع الرموز سے اور اس میں کنز العباد سے منقول ہے۔ ت)یہ اذان میں ہے اور تکبیر کے وقت بھی ایسا ہی کرے تو کچھ حرج نہیں
کمابیناہ فی رسالتنا
 (جیسے ہم نے اسے اپنے رسالہ میں بیان کیا۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۶۸) از حبیب والہ ضلع بجنور تحصیل وہامپور مرسلہ منظور صاحب    ۱۱ شوال ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے یہاں دستور ہے کہ قبل صلاۃ عیدین دو۲ شخص کھڑے ہوکر کانوں میں انگلیاں دے کر الصلٰوۃ یرحمکم اللّٰہ الصلٰوۃ کئی مرتبہ پڑھتے ہیں آیا یہ فعل جائز ہے یا بدعت، رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے یہ فعل منقول ہے یا نہیں؟
الجواب: جائز ہے کہ منع نہیںاگرچہ منقول نہ ہو جیسے تثویب۔ نہیں نہیں بلکہ خود صاحبِ شریعت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے منقول کہ عیدین میں مؤذن کو حکم فرماتے کہ الصلاۃ جامعۃ پکارے
روی الامام الشافعی عن الزھری قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یامر المؤذن فی العیدین، فیقول الصلاۃ جامعۃ ۱؎۔
امام شافعی نے زہری سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عیدین کے لئے مؤذّن کوحکم دیا کرتے تھے (کہ یہ بلند آواز سے کہے) تو وہ کہتے تھے الصّلٰوۃ جامعۃ (جماعتِ نماز تیار ہے)۔ (ت)
 (۱؎ الامّ لامام الشافعی    من قال لااذان للعیدین    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۱/۲۳۵)
لاجرم علمائے کرام نے بالاتفاق عیدین میں صلاۃ پکارنا مستحب فرمایا،شرح صحیح مسلم امام نووی میں ہے:
یقول اصحابنا وغیرھم انہ یستحب ان یقال الصلاۃ جامعۃ ۲؎۔
ہمارے علماءِ شوافع اور دیگر علماء کہتے ہیں کہ ''الصلاۃ جامعۃ'' کہنا مستحب ہے۔ (ت)
 (۲؎ شرح صحیح مسلم لامام النووی مع مسلم    کتاب صلاۃ العیدین    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۹۰)
مرقاۃ علی قاری میں ہے: یستحب ان ینادی لھا الصلاۃ جامعۃ ۳؎۔
نماز کے لئے ''الصلٰوۃ جامعۃ'' کہنا مستحب ہے۔ (ت)
 (۳؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ    الفصل الثانی من باب صلاۃ العیدین    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۳/۳۰۰)
وہ الفاظ کہ سائل نے ذکر کئے الصلاۃ یرحمکم اللّٰہ(نماز پڑھو اللہ تم پر رحم کرے۔ ت) انہیں کے معنی میں ہیں پس بدعت نہیں مستحب ہیں۔
اقول: وماروی مسلم عن جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ: ان لااذان للصلاۃ یوم الفطر، ولا اقامۃ ولانداء ولاشیئ فھی فتوی منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انما روایتہ ماذکر اولاً قال لم یکن یؤذن یوم الفطر ولایوم الاضحی ۴؎، ولیس فیہ الانفی الاذان، وزاد جابر بن سمرۃ وغیرہ نفی الاقامۃ، وقد انعقد علی نفیھماالاجماع، ولانظر لخلاف شاذ،فلاحاجۃ الی ماذکر الامام النووی فی قول جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، یتاول علی ان المراد الاذان، ولااقامۃ ولانداء فی معناہما ولاشیئ من ذلک ۵؎ اھ
اقول: وہ جو مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نمازِ عید الفطر کے لئے نہ اذان نہ اقامت اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی آوازدی جاتی تھی تو اس کی کوئی حقیقت نہیں،یہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فتوٰی ہے ان سے مروی روایت کاذکر جو پہلے ہوا اس میں صرف اِتناہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لئے اذان نہیں ہوتی تھی یعنی اس میں صرف نفیِ اذان ہے حضرت جابر بن سمرۃوغیرہ نے اقامت کی نفی کا بھی اضافہ کیاحالانکہ ان دونوں کی نفی پر اجماع منعقد ہوگیا ہے اور خلاف شاذ قابل توجہ نہ ہوگا، تو اب حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول میں امام نووی کی اس تاویل کی ضرورت نہیں کہ مراد یہ ہے کہ نہ اذان ہوتی نہ تکبیر اور نہ ہی ان دونوں کی مانند کوئی ندا ہوتی تھی،
 (۴؎ صحیح لمسلم        کتاب صلاۃ العیدین        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۹۰)

(۵؎ شرح صیح مسلم للامام النووی مع مسلم     مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱/۲۹۰)
ومن العجب ماوقع فی الاشعۃ تحت حدیث جابربن سمرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم العیدین غیرمرۃ ولامرتین بغیر اذان ولااقامۃ، انہ زاد فی روایۃ، ولاالصلٰوۃ جامعۃ ۱؎ اھ فلااثرلہ فی صحیح مسلم،ولوکان لم یدل الاعلی عدم المواظبۃ، ولم یعارض ماثبت فی مرسل الزھری،ومرسل الثقۃ حجۃ عندنا۔واللہ تعالٰی اعلم۔
اور اشعۃ اللمعات کے اس مضمون پر تعجب ہے جو حضرت جابر بن سمرۃکی اس حدیث کے تحت ذکر کیاگیا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمکی معیت میں ایک یا دو دفعہ سے زائد مرتبہ بغیر اذان واقامت کے عیدین کی نماز پڑھی،کہا ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ''الصلاۃ جامعۃ'' کے الفاظ بھی نہیں کہے جاتے تھے اھ،یہ کلمہ صحیح مسلم میں نہیں اگر ہوتو صرف عدمِ مواظبت پر دلیل ہے یعنی ہمیشگی نہیں فرمائی لہذا یہ مرسل زہری کے معارض نہیں اور مرسلِ ثقہ ہمارے ہاں حجت ہے۔ (ت)
 (۱؎ اشعۃ اللمعات    الفصل الاول من باب صلوٰۃ العیدین    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۵۹۷)
مسئلہ (۳۶۹) از بیکانیر مارواڑ مہادنان مرسلہ قاضی قمرالدین صاحب    ۹ ربیع الاول شریف ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسولِ خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام مبارک سن کر درود شریف ہم پڑھتے ہیں لیکن ہاتھوں کو چُومتے نہیںمیںایک شخص کہتا ہے کہ جو ہاتھ نہ چُومے وہ مردود وملعون ہے، اب گزارش ہے کہ ہاتھ چُومناکیساہے اور چُوما جائے تو کیا ذمّے گناہ ہوگا اگر چُومنا منع ہے تو وہ شخص کو جو نہ چُومنے والوں کو کلماتِ مندرجہ بالا کہتا ہے اُس کے لئے کیا حکم ہے آیا وہ کافر ہوا یا اسلام میں رہا؟
الجواب: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نامِ اقدس اذان میں سُن کر انگوٹھے چُومنامستحب ہے اچھا ہے ثواب ہے
کمافی کنزالعباد وجامع الرموز وردالمحتار وغیرھا
 (جیسا کہ کنزالعباد، جامع الرموز اور ردالمحتار وغیرہ میں ہے۔ت) مگر فرض واجب نہیں کہ نہ کرنے سے گناہ ہواور صرف اس قدر پر مردود وملعون کہنا سخت باطل ومردود ہے ہاں جوبربنائے وہابیت اسے بُرا جان کر نہ چُومے تو وہابی ضرور مردود وملعون ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۷۰) از بریلی مسئولہ مولوی محمد افضل صاحب کابلی    ۲۱ ربیع الاول ۱۳۳۸ھ
 (۱)    الاقامۃ حق للمؤذن ولایقیم بغیر اذنہ، سمعت من اساتذہ مرویۃ، وان قال الامام بغیرہ اقم، فھو ایضا جائز بغیر الکراھۃ، صحیح، ام لا۔
 (۱)    تکبیر مؤذن کا حق ہے اس کی اجازت کے بغیر دوسرا نہ کہے، بعض اساتذہ کے حوالے سے میں نے یہ سنا ہے کہ اگرامام غیر مؤذن کوکہدے ''تکبیرپڑھ''توبھی بلاکراہت یہ جائز ہے، کیا یہ صحیح ہے یا غَلَط؟
 (۲) والمکبّر فی یوم العید والجمعۃ ان کبر بغیر اذن الامام،لایجوزالاخذ بقولہ ولابطلت صلوۃ من رکع اوسجد بتکبیرہ، صح ام لا۔
 (۲)    عید اور جمعہ کے موقع پر اگر مکبّر اجازتِ امام کے بغیر تکبیر کہہ دے اس کے قول پر عمل جائز نہیں اور اس کی تکبیر پر رکوع وسجدہ کرنے والے کی نماز باطل نہ ہُوئی،کیا صحیح ہے یا نہیں؟
الجواب :  (۱)    ان کان المؤذن حاضرا لایقیم غیرہ الاباذنہ ولاینبغی للامام ان یامر غیرہ بالاقامۃ الابوجہ شرعی مثل ان تکون اقامتہ مشتملۃ عن لحن وذلک لانہ یوحش المؤذن بہ۔
 (۱) اگر مؤذن موجودہے تو اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا تکبیر نہ کہے اور امام کے لئے بھی مناسب نہیں کہ شرعی عذر کے بغیر کسی دوسرے کو تکبیر کے لئے کہے، شرعی عذر مثلاً اس کی اقامت لحن پر مشتمل ہو، اجازت مؤذن کے بغیراقامت کہنا مناسب نہیں کہ شاید وہ اسے ناپسند کرتا ہو۔ (ت)
 (۲)    ھذا باطل لااصل لہ، ویجوز التبلیغ عن الحاجۃ وان لم یاذن الامام، بل وان نھی۔ وھو تعالٰی اعلم۔
 (۲)    یہ باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں،ضرورت کے موقع پر تبلیغ جائز ہے اگرچہ امام اجازت نہ دے بلکہ وہ منع بھی کردے تب بھی جائز ہے۔ (ت)
مسئلہ (۳۷۱)     ۲۴ ربیع الاول شریف ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام مقتدیوں کو جب تکبیر نماز کہی جائے تو تکبیر شروع ہوتے ہی کھڑاہونا چاہئے یا جب حی علی الفلاح مکبّر کہے تب کھڑے ہوں اور مقتدی وامام اس میں یعنی قیام وقعودمیں مساوی ہیں یا ہر ایک کے واسطے جداگانہ حکم ہے، مثلاً جو کہے کہ مقتدی بیٹھے رہیں اور حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں لیکن امام فوراً جب تکبیر شروع ہو کھڑاہوجائے اس کا فعل صحیح ہے یا غلط؟
الجواب: حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں جس نے کہا امام فوراً کھڑا ہوجائے غلط کہا، حوالہ وہ دے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۷۲) از چتوڑ گڈھ میواڑ مرسلہ فتح محمد صاحب    ۲۶ ربیع الآخر شریف ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد کے حجرہ میں امام ہو اور تکبیر مکبّر شروع کردے اب امام حجرہ سے روانہ ہو ختم تکبیر سے پہلے حی علی الفلاح کے وقت یا بعد ختم تکبیر مصلّے پر پہنچ جاوے اس میں کوئی قباحت تو نہیں ہے بصورت احیانا یا بصورت دواما، ہر دوصورت کا کیا حکم ہے؟
الجواب:   اس صورت میں کوئی حرج نہیں نہ امام مکبّر کا پابند ہوسکتا ہے بلکہ مکبر کو امام کی پابندی چاہئے حدیث میں ہے
المؤذن املک بالاذان،والامام املک بالاقامۃ ۱؎
 (اذان کا اختیار مؤذن کو ہے اور اقامت کا اختیار امام کو۔ ت)
 (۱؎ کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال حدیث ۲۰۹۶۳    مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۷/۶۹۴)
اور اگر وہ تکبیر ہوتے میں چلا تو اُسے بیٹھنے کی بھی حاجت نہیں مصلّے پر جائے اور حی علی الفلاح یا ختم تکبیر پر تکبیر تحریمہ کہے،یوں ہی بعد خطبہ اُسے اختیار ہے کہیں منقول نہیں کہ خطبہ فرماکر تکبیر ہونے تک جلوس فرماتے یہ حکم قوم کے لئے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۷۳) از جرودہ ضلع میرٹھ مسئولہ سید سراج احمد صاحب    ۱۲ شعبان ۱۳۳۷ھ

تکبیر سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور کچھ لوگ کھڑے ہوں تو کیا تکبیر شروع ہوتے ہی سب کو کھڑا ہوجانا چاہئے یا بیٹھ جانا چاہئے، اگر بیٹھے رہیں تو کس لفظ پر کھڑا ہونا چاہئے، اگر تکبیر شروع ہوتے ہی فوراً کھڑے ہوجائیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔
الجواب: تکبیر کھڑے ہوکر سُننا مکروہ ہے یہاں تک کہ علما نے فرمایا ہے کہ اگر تکبیر ہورہی ہے اور مسجد میں آیا تو بیٹھ جائے اور جب مکبّر حی علی الفلاح پر پہنچے اس وقت سب کھڑے ہوجائیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۷۴) محمد عبدالرشید ازحصار مدرسہ انجمن محاسن اسلام احاطہ عبدالغفور صاحب۱۴محرم۶ ۱۳۳ھ

مسجد میں بلااذان نماز جماعت درست ہے یا نہیں اور تنگ وقت کی وجہ سے صرف تکبیر جماعت کے لئے کافی ہے یا نہیں؟ بینّوا توجروا۔
الجواب : بلااذان جماعتِ اولٰی مکروہ وخلافِ سنّت ہے، ہاں وقت ایسا تنگ ہوگیا ہو کہ اذان کی گنجائش نہ ہوتو مجبورانہ خود ہی چھوڑی جائے گی، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter