Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
94 - 157
اب دیکھ لیجئے کہ درباروں میں درباریوں کی حاضری پکارنے کا کیا دستور ہے، کیا عین دربار میں کھڑے ہوکر چوبدار چلاتا ہے کہ درباریو چلو ہرگز نہیں۔ بے شک ایسا کرے تو بے ادب گستاخ ہے جس نے شاہی دربار نہ دیکھے ہوں وہ یہی کچہریاں دیکھ لے کیا ان میں مدعی مدعاعلیہ گواہوں کی حاضریاں کمرہ کے اندر پکاری جاتی ہیںیاکمرہ سے باہر جاکر کیااگر چپراسی خاص کمرہ کچہری میں کھڑا ہوا حاضریاں پکارے چلائے تو بے ادب گستاخ بناکر نہ نکالا جائیگا،افسوس جو بات ایک منصف یاجنٹ کی کچہری میں نہیں کرسکتے احکم الحاکمین جل جلالہ، کے دربار میں روارکھو۔

(۳)    مسجد میں چلّانے سے خود حدیث میں ممانعت ہے اور فقہانے یہ ممانعت ذکرِ الٰہی کو بھی عام رکھی جب تک شارع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثبوت نہ ہو، درمختار میں ہے:
یحرم فیہ(ای المسجد) السوال ویکرہ الاعطاء ورفع صوت بذکر،الا للمتفقھۃ ۲؎۔
مسجد میں سوال کرنا حرام اور سائل کو دینا مکروہ ہے۔ مسائل فقہیہ سیکھنے سکھانے کے علاوہ وہاں ذکر سے آواز کا بلند کرنا بھی مکروہ ہے۔ (ت)
 (۲؎ الدرالمختار    آخر باب مایفسد الصلوٰۃ الخ        مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۹۳)
نہ کہ اذان کہ یہ تو خالص ذکر بھی نہیں
کمافی البنایۃ شرح الھدایۃ للامام العینی
 (جیسا کہ امام عینی نے بنایہ شرح ہدایہ میں تصریح کی ہے۔ ت)

(۴)    بلکہ شرع مطہر نے مسجد کو ہر ایسی آواز سے بچانے کا حکم فرمایا جس کے لئے مساجد کی بنانہ ہو صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من سمع رجلا ینشد ضالۃ فی المسجد، فلیقل لاردھا اللّٰہ علیک، فان المساجد لم تبن لھذا ۱؎۔
جوگُمی ہوئی چیز کو مسجد میں دریافت کرے اس سے کہو اللہ تیری گمی چیز تجھے نہ ملائے، مسجدیں اس لئے نہیں بنیں۔(ت)
 (۱؎ الصحیح لمسلم    کتاب المساجد باب النہی عن نشد الضالۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۱۰)
حدیث میں حکم عام ہے اور فقہ نے بھی عام رکھا، درمختار میں ہے:
کرہ انشاد ضالۃ ۲؎
 (مسجد میں گم شدہ چیز کی تلاش مکروہ ہے۔ ت)
 (۲؎ الدرالمختار        آخر باب مایفسد الصلوٰۃ الخ        مطبوعہ مجتبائی دہلی        ۱/۹۳)
تو اگر کسی کا مصحف شریف گُم ہوگیا اور وہ تلاوت کے لئے ڈھونڈتااور مسجد میں پُوچھتا ہے اُسے بھی یہی جواب 

ہوگاکہ مسجدیں اس لئے نہیں بنیں،اگر اذان دینے کے لئے مسجد کی بنا ہوتی تو ضرور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مسجدکے اندر ہی اذان دلواتے یا کبھی کبھی تو اس کا حکم فرماتے، مسجد جس کے لئے بنی زمانہ اقدس میں اُسی کا مسجد میں ہوناکبھی ثابت نہ ہو،یہ کیونکر معقول، تو وجہ وہی ہے کہ اذان حاضری دربار پکارنے کوہے اور خود دربار حاضری پکارنے کو نہیں بنتا۔

(۵)    رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عادتِ کریمہ تھی کہ کبھی کبھی سنّت کو ترک فرماتے کہ اس کا وجوب نہ ثابت ہوترک کاجواز معلوم ہوجائے ولہذاعلما نے سنت کی تعریف میں''مع التراک احیانا'' ماخوذ کیا کہ ہمیشہ کیا مگر کبھی کبھی ترک بھی فرمایا اور یہاں اصلاً ایک بار بھی ثابت نہیںکہ حضور 

اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسجد کے اندر اذان دلوائی ہو جو مدعی ہو ثبوت دے۔

(۶)    فقہائے کرام نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ فرمایا عبارتیں اصل فتوے میں گزریں اور حنفیہ کے یہاں مطلق کراہت سے غالباً مراد کراہت تحریم ہوتی ہے جب تک اس کے خلاف پر دلیل قائم نہ ہو اور بیان خلاف پر دلیل درکنار اس کے موافق دلیل موجود ہے کہ یہ گستاخیِ دربار معبود ہے۔

(۷)    فقہائے کرام نے مسجدمیں اذان دینے سے بصیغہ نفی منع فرمایا کہ صیغہ نہی سے زیادہ مؤکد ہے عبارات کثیرہ اصل فتوے میں گزریں اور فقہا کا یہ صیغہ غالباً اُس کے ناجائز ہونے پر دلالت کرتا ہے، امام ابن امیرالحاج حلیہ میں فرماتے ہیں:
ظاھر قول المصنف ولایزید علیھا شیأً، یشیر الی عدم اباحۃ الزیادۃ علیھا ۳؎۔
قول مصنف ''لایزیدعلیھا شیئا'' کا ظاہر اشارۃً واضح کررہا ہے کہ اس پر اضافہ جائز نہیں۔ (ت)
 (۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
ہدایہ میں قول امام محمد قرأ وجھر(وہ پڑھے اور جہر کرے۔ ت) پر فرمایا:
یدل علی الوجوب ۱؎
 (یہ وجوب پر دال ہے۔ ت)
 (۱؎ ہدایۃ        کتاب الصلاۃ فصل فی القرأۃ    مطبوعہ المکتبۃ العربیۃ دستگیر کالونی کراچی    ۱/۹۸)
عنایہ میں فرمایا: لانہ بمنزلۃ الامر بل اٰکد ۲؎
 (یہ بمنزلہ امر بلکہ اس میں اُس سے بھی زیادہ تاکید ہے۔ ت)
 (۲؎ عنایۃ حاشیہ علی فتح القدیر    کتاب الصلاۃ فصل فی القرأۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱/۲۸۷)
فتح القدیر میں فرمایا: مایدل علی الوجوب وھو لفظ الخبر ۳؎
(جو وجوب پر دال ہے وہ لفظ خبر (قرأ) ہے۔ ت)
 (۳؎ عنایۃ حاشیہ علی فتح القدیر    کتاب الصلاۃ فصل فی القرأۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱/۲۸۷)
ان وجوہ پر نظر انصاف کے بعد مجموع سے کم ازکم اتنا ضرور ثابت کہ مسجد کے اندر اذان بدعت سیئہ ہے ہرگز حسنہ نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۶۱) مرسلہ جناب منشی فقیر محمد صاحب تاجر چرم کانپوری از مقام شہر ہمیر پور صوتی گنج صدر بازار    ۲۰ جمادی الاولٰی ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذان میں جس وقت مؤذن حی علی الصلاۃ حی الفلاح کہے تو سامع کو اس کے جواب میں کیاکہنا چاہئے۔ بینوا توجروا۔
الجواب

حی علی الصلاۃ وحی علی الفلاح دونوںکے جواب میں لاحول ولاقوۃالا باللّٰہ کہناچاہئے،اور بعض اوّل کے جواب میںیہی لاحول اور دوم کے جواب میں ماشاء اللّٰہ کان ومالم یشأ لم یکن (اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے وہ نہیں ہوتا۔ ت)کہتے ہیں، اور افضل یہ ہے کہ حی علی الصلاۃ کے جواب میں کہے حی علی الصلاۃ لاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ اور حی علی الفلاح کے جواب میں کہے حی علی الفلاح لاحول ولاقوۃ الّاباللّٰہ ماشاء اللّٰہ کان ومالم یشألم یکن۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۲۶۳) از بمبئی بھنڈی بازار مرسلہ محمد فضل الرحمن سادہ کار    ۵ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

کیافرماتے ہیںعلمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذان میں حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح کے وقت مؤذن دائیں بائیں رُخ کرتا ہے آیااقامت میں بھی دائیں بائیں رُخ کرناسنّت ہے یانہیں، بینوا توجروا۔
الجواب

علماء نے اقامت میں بھی دہنے بائیں منہ پھیرنے کا حکم دیا ہے اور بعض نے اسے اس صورت کے ساتھ خاص کیا ہے کہ کچھ لوگ اِدھر ادھر منتظر اقامت ہوں، درمختار میں ہے:
ویلفت فیہ وکذا فیھامطلقا ۱؎
 (اذان میں منہ پھیرے اور اسی طرح تکبیر میں بھی ہر حال میں۔ ت)
 (۱؎ درمختار    باب الاذن    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۶۳)
قنیہ میں ہے:الاصح ان الصلاۃ عن یمینہ، والفلاح عن شمالہ، مت، شم، قع، ضح، والاقامۃ کذلک اھ ای مجدالائمۃ الترجمانی وشرف الائمۃ المکی والقاضی عبدالجبار والایضاح اوضیاء الائمۃ الحججی ۲؎۔
اصح یہ ہے کہ حی علی الصلاۃ کے وقت دائیں اور حی علی الفلاح کے وقت بائیں جانب منہ پھیرے مت، شم، قع، ضح۔ اور اسی طرح اقامت میں بھی اھ یعنی ''مت'' سے مجدالائمہ ترجمانی، ''شم'' سے شرف الائمہ المکی، ''قع'' سے قاضی عبدالجبار اور ''ضح'' سے ایضاح یا ضیاء الائمہ الحججی مراد ہیں۔ (ت)
 (۲؎ قنیہ     باب الاذان مطبعۃ مشتہرۃ بالمہانینۃ انڈیا     ص ۹۱ و ۲۰)
اُسی میں ملتقط سے ہے:

لایحول راسہ فی الاقامۃ عند الصلاۃ والفلاح الالاناس ینتظرون الاقامۃ ۳؎۔
تکبیر کے اندر حی علی الصلٰوۃ اور حی الفلاح پر دائیں بائیں سر نہ پھیرے مگر اس صورت میں کہ جب لوگ تکبیر کا انتظار کررہے ہوں۔ (ت)
 (۳؎ قنیہ باب الاذان)
Flag Counter