Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
93 - 157
بالجملہ دوسروںکوحکم کرنااُن کی سرکشی وفتنہ پردازی کے وقت مطلقاًساقط ہوجاتاہیکمانص علیہ فی الھندیۃ وغیرھاور خود عمل کرنااس وقت ساقط ہوگا جب یہ بذریعہ حکومت بھی بندوبست نہ کرسکے اور حقیقی مجبوری ہوکر استطاعت اصلاً نہ رہے،
قال تعالٰی : فاتقوا اللّٰہ مااستطعتم واسمعوا واطیعوا ۲؎۔
تو اللہ تعالٰی سے ڈرو جہاں تک ہوسکے اور اس کا فرمان سنو اور حکم مانو۔ (ت)
 (۲؎ القرآن    ۶۴/۱۶)
باوصف قدرت بندوبست واستعانت بحکومت مجرد خوف یاکاہلی یا خودداری یا رورعایت یانئی تہذیب یا صلح کل کی پالیسی سے اتباع شرع چھوڑ بیٹھنا جائز نہیںہوسکتا اسے یوں خیال کریں کہ مفسدین آج اس امر کے لئے کہتے ہیں کل کو اگر انہوں نے خود نمازپرفتنہ اٹھایاتوکیانمازبھی چھوڑدیگا،نہیں نہیں بلکہ اس پر خیال کرے کہ مفسدوں نے کہا کہ اپنا مکان خالی کردو ورنہ ہم فساد کرتے ہیں یا اپنی جائداد کاہبہ نامہ لکھ دو ورنہ ہم فتنہ اٹھاتے ہیں(تو)اس وقت اُن کا کچھ بندوبست کرے گا استغاثہ کرے گایاچپکے سے جائداد ومکان چھوڑ بیٹھے گا، جو جب کرے گا وہ اب کرے اور اتباع احکام شرع کو مکان وجائداد سے ہلکا نہ جانے، ہاں دوسروں کے سرچڑھنے اور فتنہ فساد کے اُٹھانے کی اجازت نہیں ہوسکتی، قال تعالی:
والفتنۃ اشد من القتل ۳؎
(فتنہ قتل سے بدتر ہے۔ ت)
 (۳؎ القرآن    ۲/۱۹۱)
وقال تعالٰی:
لاتفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا ۴؎۔
زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ (ت)
 (۴؎ القرآن    ۷/۵۶)
وقال تعالٰی:

لھا ماکسبت ولکم ماکسبتم ولاتسئلون عما کانوا یعملون ۱؎۔
اس امت کے لئے وہ ہے جو اس نے کیا اور تمہارے لئے وہ ہے جو تم نے کیا،تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال 

ہیں کیا جائیگا۔ (ت)
 (۱؎ القرآن    ۲/۱۴۱)
نسأل اللّٰہ العفو والعافیۃ،وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی سیدناومولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ وبارک وسلم واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

مسئلہ (۳۵۹) از سہاور ضلع ایٹہ مرسلہ چودھری عبدالحمید خاں صاحب رئیس    ۲۰ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

اذان ثانی جمعہ خارج مسجدصحن کے نیچے جُوتے اتارنے کی جگہ اگر کہی جائے تو اس میں کچھ حرج ہے یا بابِ مسجد پر ہی ہونا ضروری ہے،ان دونوں میں کسی بات میں اولویت ہوگی یامساوی حالت، دوم یہ کہ محرابِ مسجد بھی اس بارے میں بابِ مسجد کے قائم مقام ہوسکتی ہے یانہیں،دیوبندی صاحب کامقولہ ہے کہ محرابِ مسجد خارجِ مسجد کاحکم رکھتی ہے اور اسی لئے اُس میں امام کاکھڑا ہونا جائز نہیں(حالانکہ اپنے نزدیک یہ بات نہیں آئندہ جو مفتی صاحب فرمائیں)سوم یہ کہ اگر باب مسجد دالان وصحنِ مسجد کے بالمقابل نہ ہو بلکہ شمالاً وجنوباً واقع ہواورصحن مسجد مشرقی جانب حد دیوار سے ملا ہوا ہو اور اس کے بعد کوئی جگہ خارج مسجد نہ ہوتووہاں کیا کیا جائے اوراذانِ ثانی کہاں ہواور خطیب کہاں بیٹھے تاکہ مؤذن کا مقابلہ فوت نہ ہو۔ چہارم یہ کہ اذان مذکور باب مسجدپرجودی جائے تو وہ باب مسجد کے وسط میں کھڑے ہوکر یا اس سے پرے نیچے اترکر،یہاں تو آج وسط باب پر کہی گئی ہے آئندہ جیسا ارشاد ہو والسلام فقط۔
الجواب

صحن مسجد کے نیچے جو جگہ خلع نعال کی ہے خارج مسجدہے اُس میں اذان بے تکلّف مطابقِ سنّت ہے علی الباب ہونا کچھ ضرور نہیں مسجد کریم میں باب شمالی محاذی منبراطہر تھا کمافی صحیح البخاری (جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ ت) لہذا علی الباب ہوتی تھی ورنہ خصوصیتِ باب ملحوظ نہ تھی بلکہ صرف دو۲ باتیں محاذاتِ خطیب واذان خارج مسجد۔ محرابِ مسجد وہ طاق ہے کہ دیوارِ قبلہ کے وسط میں بنتا ہے اس میں اذان ہونے کے کوئی معنی نہیںنہ اس میں محاذاتِ خطیب ہو اور منتہائے درجہ جانب شرق پر جو دَر بنتے ہیں یہ محراب نہیں ان کو ''بین الساریتین'' کہتے ہیںان میںامام کاکھڑا ہوناناجائز نہیں ہاں خلافِ سنّت ہے نہ اس وجہ سے کہ یہ زمین مسجد نہیں بلکہ اس لئے کہ امام اور جملہ مقتدیوں کا درجہ بدلا ہوا ہونا خلافِ سنّت ہے کمافی شرح النقایۃ (جیسا کہ شرح نقایہ میں ہے۔ ت) شرقی جانب اگر دیوار مسجد ہے تو اُس کی نسبت فتوے میں معروض ہے کہ اُس میں طاق محراب نما محاذات منبر میں بنالیں اور اگر دیوار کسی غیر کی ہے اور وہ اجازت نہ دے تو اس کا سوال مراد آباد سے آیا تھااُس کے جواب کی نقل حاضر کرتا ہے بابِ مسجد ہی میں موذّن کھڑاہو دروازہ سے باہر ہونے کی حاجت نہیںکہ اس حکم میں مسجد کی دیواریں فصیلیں دروازہ کی زمین خارج مسجد ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۶۰) مسئولہ جناب مشتاق احمد صاحب از شہر بریلی محلہ بہاری پور    ۲۸ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد متصل دفترچھوٹی ریل،کی میں ہم لوگ نمازِ جمعہ پڑھا کرتے ہیں وہاں جو شخص نماز پڑھاتے ہیں وہ خطبہ کے وقت اذان مسجدکے اندر دلوایاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسری اذان جمعہ کی خطبہ کے وقت خلیفہ ہشام نے مسجد کے اندر لوگوں سے دلوانا شروع کی ہے وہ بدعت حسن ہے یعنی وہ بدعت سیہ نہیں ہے اور بدعتِ حسن کے کرنے کو کسی نے بھی عالموں میں سے منع نہیںکیاہے اوررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہمیشہ اذان کامسجد کے دروازہ پر ہونا ثابت نہیں ہے اس وجہ سے جو لوگ مسجد کے اندر اذان دلواتے ہیں ان کو منع نہیں کرناچاہئے کیونکہ وہ بدعتِ حسن کرتے ہیں اور سنتِ مواظبہ کو نہیں چھوڑتے لہذا عرض یہ ہے کہ مسجد کے دروازے کے اوپرہمیشہ ہونااذان کاثابت ہے یا نہیں اورسنت مواظبہ ہے یانہیںاور اذان مسجد کے اندر دینے سے سنت چھُوٹ جائے گی یانہیںاور بدعت ہوگی تو کون سی ہوگی بدعت حسن ہوگی یا بدعت سیئہ ہوگی،اگر بدعت حسن ہوگی تو اس کو منع کرناچاہئے یانہیں اوراگر بدعت سیئہ ہوگی تو منع کرنا چاہئے یا نہیں اور منع کرنے والا کون ہوگا اور اس کے پیچھے نماز جائز ہوگی یا نہیں اور اذان خطبہ والی کو اندر دلاناکس نے شروع کیا ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اورخلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مسجد کے اندر اذان دلوانا کبھی ایک بار کا بھی ثابت نہیں،جو لوگ اس کا دعوٰی کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم پر افترا کرتے ہیں ہشام سے بھی اس اذان کامسجد کے اندر دلوانا ہرگز ثابت نہیں البتہ پہلی اذان کے نسبت بعض نے لکھا ہے کہ اُسے ہشام مسجد کی طرف منتقل کرلایا اور اس کے بھی یہ معنی نہیں کہ مسجد کے اندر دلوائی بلکہ امیرالمومنین عثمٰن غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بازار میں پہلی اذان دلواتے تھے ہشام نے مسجد کے منارہ پر دلوائی،رہی یہ دوسری اذانِ خطبہ،اس کی نسبت تصریح ہے کہ ہشام نے اس میںکچھ تغیر نہ کیا اُسی حالت میں باقی رکھی جیسی زمانہ رسالت وزمانہ خلافت میں تھی۔ امام محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح مواہب شریف جلد ہفتم طبع مصر ص۴۳۵ میں فرماتے ہیں:
فلما کان عثمٰن، امر بالاذان قبلہ علی الزورائ، ثم نقلہ ھشام الی المسجد، ای امر بفعلہ فیہ، وجعل الاٰخر الذی بعد جلوس الخطیب علی المنبر بین یدیہ بمعنی انہ ابقاہ بالمکان الذی یفعل فیہ، فلم یغیرہ، بخلاف ماکان بالزوراء فحولہ الی المسجد علی المنار انتھی ۱؎۔
یعنی جب عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ خلیفہ ہوئے اذانِ خطبہسے پہلے ایک اذان بازار میںایک مکان کی چھت پر دلوائی پھر اس پہلی اذان کو ہشام مسجد کی طرف منتقل کرلایا یعنی اس کے مسجد میں ہونے کا حکم دیا اور دوسری کہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی ہے وہ خطیب کے مواجہ میں کی یعنی جہاں ہوا کرتی تھی وہیں باقی رکھی اس اذان ثانی میںہشام نے کوئی تبدیل نہ کی بخلاف بازار والی اذان اوّل کے کہ اسے مسجد کی طرف منارہ پر لے آیا انتہی۔
؎ شرح الزرقانی علی المواہب    المقصد التاسع فی عبادتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ عامرہ مصر    ۷/۴۳۵
ہاں وہ جمہورمالکیہ کہ اذان ثانی کو امام کی محاذات میںہونا بدعت کہتے ہیں اور اس کا بھی منارہ پر ہی ہونا سنّت بتاتے ہیں، اُن میں بعض کے کلام میں واقع ہواکہ سب میں سے پہلے اذانِ ثانی امام کے روبرو ہشام نے کہلوائی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم کے زمانہ میں یہ اذان بھی محاذاتِ امام نہ ہوتی تھی منارہ ہی پر تھی، پھر اس سے کیا ہوا، غرض ہشام بیچارے سے بھی ہرگز اس کا ثبوت نہیںکہ اس نے اذانِ خطبہ مسجد کے اندر منبر کے برابر کہلوائی ہوجیسی اب کہی جانے لگی اس کا کچھ پتا نہیں کہ کس نے یہ ایجاد نکالی،اور اگر ہشام سے ثبوت ہوتا بھی تو اس کا قول وفعل کیا حجت تھا، وہ ایک مروانی ظالم بادشاہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بیٹے امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پوتے امام زین العابدینکے صاحبزادے امام باقرکے بھائی سیدنا امام زید بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم کو شہید کرایا سُولی دلوائی اور اس پر یہ شدید ظلم کہ نعش مبارک کو دفن نہ ہونے دیا برسوں سُولی پر رہی جب ہشام مرگیا تو نعش مبارک دفن ہُوئی ان برسوں میںبدن مبارک کے کپڑے گل گئے تھے قریب تھا کہ بے ستری ہو اللہ عزوجل نے مکڑی کو حکم فرمایا کہ اس نے جسم مبارک پر ایسا جالا تان دیا کہ بجائے تہبند ہوگیا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بعض صالحین نے دیکھا کہ امام مظلوم زید شہید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سولی سے پشتِ اقدس لگائے کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں یہ کچھ کیا جاتا ہے میرے بیٹوں کے ساتھ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنّت کے خلاف ایسے ظالم کی سنّت پیش کرنا اور پھر امام اعظم وغیرہ ائمہ پر اس کی تہمت دھرناکہ ان اماموں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخلفائے راشدین کی سنّت چھوڑ کر ظالم بادشاہ کی سنّت قبول کرلی، کیسا صریح ظلم اور ائمہ کرام کی شان میں کیسی بڑی گستاخی ہے اللہ عزوجل پناہ دے، اس کے بدعت حسنہ ہونے کا دعوٰی محض باطل وبے اصل ہے۔

(۱)    بدعتِ حسنہ سنّت کو بدلا نہیںکرتی اور اس نے سنّت کو بدل دیا۔

(۲)    مسجد میں اذان دینی مسجد ودربارِ الٰہی کی گستاخی وبے ادبی ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں ادب میں طریقہ معہددہ فی الشاہد کا اعتبار ہوتا ہے۔
فتح القدیر میں فرمایا:یحال علی المعھود من وضعھا حال قصد التعظیم فی القیام والمعھود فی الشاھد منہ تحت السرۃ ۱؎۔
یعنی قیام تعظیمی میںبادشاہوںوغیرہم کے سامنے ہاتھ زیرناف باندھ کر کھڑے ہونے کادستور ہے اسی دستور کا نمازمیں لحاظ رکھ کر زیرناف باندھیں گے۔
 (۱؎ فتح القدیر    باب صفۃ الصلوٰۃ        مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۲۴۹)
Flag Counter