فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ (۳۵۶) از بدایوں مرسلہ مولوی عبدالمقتدر صاحب ۱۰ ربیع لاول ۱۳۳۲ھ حضرت جناب مخدوم ومحترم ومکرم ومعظم ادام اللہ تعالٰی برکاتکم،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، یہ بات کہ اس اذان کا کب سے داخل مسجد ہونامعمول ومروج ہُوا،یقینی طور سے محقق نہیں ہوا، علی الباب اذان کا مسنون ہونا اگر کسی کتاب فقہ میں نظر پڑا ہوتو لکھئے اکثر لوگ اس کے طالب ہیں فقط۔
الجواب علی الباب اذان مسنون ہونے کی سند فقہی کے اکثر لوگ کیوں طالب ہیںیہ دعوٰی کس کاہے یہاں سے تو دو۲ باتیں کہی گئی ہیں، ایک یہ کہ ''بین یدیہ'' (خطیب کے سامنے۔ ت) دوسرے یہ کہ داخل مسجد مکروہ ہے، دونوں کی روشن سندیں کتب فقہ سے دے دی گئیں مسجد کریم میں زمانہ اقدس میں دروازہ شمالی خاص محاذات منبر اطہرمیںتھاکمافی الصحیح البخاری (جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ ت) لہذا درِمسجد پر یہ اذان ہوتی نہ یہ کہ خصوصیت باب ملحوظ تھی یہاں کے فتوے میں جواب سوالِ دہم ملاحظہ ہو سنیت خصوص علی الباب کاکون قائل ہے اذان اول کی سنیت پر زاد عثمان علی الزورائ''(حضرت عثمان نے مقامِ زورأ پر اذان کا اضافہ کیا۔ ت)سے استناد کرنے والے علما کیااس کے قائل ہیں کہ پہلی اذا بالخصوص بازارمیںہوناسنت ہے یا ان سے یہ مطالبہ ہوسکتا ہے کہ فقہا نے اس خصوصیتِ بازار کو کہاں مسنون لکھا ہے،واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۵۷) مسئولہ قاضی محمد عمران صاحب ازبریلی شہر کہنہ محلہ قاضی ٹولہ ۱۲ ربیع الاول شریف ۱۳۳۲ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں بروز جمعہ بزمانہ حضرت تاجِ مدینہ ختم المرسلین کَے اذانیںہواکرتی تھیں اور ان کے کون کون موقع تھے۔ آیا پہلی اذان جو ہوتی ہے وہ کہاںہوتی تھی اور دوسری جو اس زمانہ میں وقتِ خطبہ خطیب کے سامنے قریب منبر ہوتی ہے وہ کہاں ہوتی تھی اوراگر حضرت کے زمانہ میں ایک ہی ''اذان علی باب المسجد'' ہوتی تھی تو دوسری جو خطیب کے سامنے قریبِ منبرہوتی ہے وہ کس کے حکم سے شروع ہوئی اور ائمہ کرام کے نزدیک اس کے جواز کی بابت کیا حکم ہے؟ فقط۔
الجواب زمانہ اقدس حضورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میںصرف ایک اذان ہوتی تھی جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منبرپرتشریف فرماہوتے حضور کے سامنے مواجہہ اقدس میں مسجد کریم کے دروازے پر۔ زمانہ اقدس میں مسجد شریف کے صرف تین دروازے تھے ایک مشرق کو جو حجرہ شریفہ کے متصل تھاجس میں سے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مسجدمیں تشریف لاتے اس کی سمت پر اب بابِ جبریل ہے، دوسرا مغرب میں جس کی سمت پر اب باب الرحمۃ ہے، تیسرا شمال میں جو خاص محاذیِ منبر اطہر تھاصحیح بخاری شریف میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے:
دخل رجل یوم الجمعۃ من باب کان وجاہ المنبر،ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قائم یخطب، فاستقبل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قائما، فقال یارسول اللّٰہ الحدیث ۱؎۔
ایک شخص جمعہ کے دن اس دروازے سے داخل ہوا جو منبرکے سامنے ہے اوررسالتمآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے تو وہ شخص آپ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوکر عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ الحدیث (ت)
(۱؎ صحیح بخاری باب الاستسقاء فی المسجد الجامع مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۳۷)
اس دروازے پر اذانِ جمعہ ہوتی تھی کہ منبر کے سامنے بھی ہوئی اور مسجد سے باہر بھی۔ زمانہ صدیق اکبر وعمر فاروق وابتدائے خلافتِ عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہم میںیہی ایک اذان ہوتی رہی جب لوگوں کی کثرت ہُوئی اور شتابی حاضری میںقدرے کسل واقع ہوا امیرالمومنین عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک اذان شروع خطبہ سے پہلے بازارمیں دلوانی شروع کی،مسجدکے اندراذان کاہونا ائمہ نے منع فرمایا اور مکروہ لکھا ہے اور خلافِ سنّت ہے، یہ نہ زمانہ اقدس میں تھا نہ زمانہ خلفائے راشدین نہ کسی صحابی کی خلافت میں، نہ تحقیق معلوم کہ یہ بدعت کب سے ایجاد ہوئی نہ ہمارے ذمہ اس کا جاننا ضرور، بعض کہتے ہیں کہ ہشام بن عبدالملک مروانی بادشاہ ظالم کی ایجادہے واللہ تعالٰی اعلم بہرحال جبکہ زمانہ رسالت وخلافت ہائے راشدہ میں نہ تھی اور ہمارے ائمہ کی تصریح ہے کہ مسجدمیں اذان نہ ہو مسجد میں اذان مکروہ ہے تو ہمیں سنّت اختیار کرنا چاہئے بدعت سے بچنا چاہئے اس تحقیقات سے پہلے کہ سنّت پہلے کس نے بدلی، اللہ تعالٰی ہمارے بھائیوں کو توفیق دے کہ اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کی سنّت اور اپنے فقہائے کرام کے احکام پر عامل ہوں اور ان کے سامنے رواج کی آڑ نہ لیں وباللہ التوفیق واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۵۸)از پیلی بھیت محلہ غفار خاں مرسلہ حافظ محمد صدیق امام مسجد چھیپیاں ۱۰ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ اذان جو خارج مسجد کہنامسنون ثابت ہوا ہے اب بنظر رفع فساد پھر بدستورِ قدیم اذان منبرکے پاس دینا جائز ہے یا نہیں کیونکہ درصورت عدمِ جواز فساداورفتنے کا احتمال قوی ہے بینوا بالصواب وتوجروا یوم الحساب۔
الجواب یہاں دو۲چیزیں ہیں ایک اتیان معروف واجتناب منکر،دوسرے امر بالمعروف ونہی عن المنکر،مسجد میں اذان دینا ممنوع ہے اور اس میں دربارِ الٰہی کی بے ادبی ہے تو جو مسجد اپنی ہے اس میں خود مخالفتِ سنتِ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وارتکابِ بے ادبیِ دربار عزّت کامؤاخذہ اس کی ذات پرہے اور جو مسجد پرائی ہے اوروں کااس میں اختیار ہے اُس کا مواخذہ اُن پر ہے اس کے ذمّے صرف اتنارکھاگیا ہے کہ ازالہ منکر پر قدرت نہ ہوتو زبان سے منع کردے اور اس میں بھی فتنہ وفساد ہوتو دل سے بُراجانے،پھر اُن کے فعل کا اس سے مطالبہ نہیں،
قال اللہ تعالٰی: لاتزرُ وازرۃ وزراُخری ۱؎
(کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ت)
(۱ القرآن ۶/۱۶۴)
وقال اللہ تعالٰی:یایھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اھتدیتم ۲؎۔
(۲؎ القرآن ۵/۱۰۵)
اے اہل ایمان!تم پر اپنی جان لازم ہے تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا جبکہ تم ہدایت یافتہ ہو۔ (ت)
وقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ،فان لم یستطع فبقلبہ،وذلک اضعف الایمان ۳؎۔
تم میں سے جب کوئی بُرائی دیکھے تو ہاتھ سے اُسے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے منع کرے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہوتو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے (ت)
(۳؎ سنن النسائی تفاضل اہل الایمان حدیث ۵۰۱۱ مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ لاہور ۲/۲۶۵)
اور جس طرح یہ دوسروں کو حکم شرع ماننے پر مجبور نہیں کرسکتا یوں ہی دوسرے حکم شرع کی مخالفت پر اسے مجبور نہیں کرسکتے یہ اپنے نزدیک جو طریقہ اپنے رب کی عبادت اوراپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اتباع سنت کااپنی کتب دینیہ سے جانتا ہے دوسرا اگر اس میں مزاحمت کرے گا اور فتنہ وفساد اُٹھائے گاتو اس کا ذمہ دار وہ دوسرا ہوگا حکومت ہر مفسد کا ہاتھ پکڑنے کو موجود ہے اُس کے ذریعہ سے بندوبست کراسکتا ہے،ہاں اگر یہ صورت بھی ناممکن ہوتی اور مفسدوں کا خوف حد مجبوری تک پہنچاتاتو حالت اکراہ تھی اس وقت اس پر مؤاخذہ نہ ہوتا، قال تعالٰی:
الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان ۱؎۔
مگر وہ شخص جس کو مجبور کردیاگیااور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن ۱۶/۱۰۶)