جمان التاج فی بیان الصلاۃ قبل المعراج
(تاج کے موتی، معراج سے پہلے نماز کے بیان میں)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مسئلہ ۲۵۰: از ریاست رام پور بزریہ ملاظریف گھیر عبدالرحمن خان مرحوم مرسلہ عبدالرؤف خان ۲۷ محرم الحرام ۱۳۱۶ھ
بگرامی خدمت فیض درجت جناب مولٰنا بحرالعلوم صاحب زاد کرمہ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعد نبوت قبل شبِ معراج جو دو۲ وقتوں میں نماز پڑھتے تھے وہ کس طور پر ادا فرماتے تھے۔ بینوا توجروا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللّٰہ وکفٰی÷ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی÷ لاسیما علی صاحب المعراج المصطفٰی واٰلہٖ وصحبہ المقیمین الصلاۃ والعدل والوفاء÷
اللہ ہی کی حمد ہے اور وہ کافی ہے اور سلام ہو اس کے منتخب بندوں پر، مصطفی پر اور ان کے آل واصحاب پر جنہوں نے نماز کو اور عدل و وفا کو قائم کیا۔ (ت)
الجواب: پیش ازاسراء دووقت یعنی قبل طلوعِ شمس وقبلِ غروب کے نمازیں مقرر ہونے میں علماء کو خلاف ہے اور اصح یہ ہے کہ اس سے پہلے صرف قیام لیل کی فرضیت باقی پر کوئی دلیل صریح قائم نہیں ۔
فی الدرالمختار اول کتاب الصلٰوۃ الصلاۃ فرضت فی الاسراء، وکانت قبلہ صلاتین، قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا۔ شمنی ۱؎ اھ۔
درمختار کی کتاب الصلٰو ۃ کے آغاز میں ہے کہ نماز (باقاعدہ طور پر) معراج میں فرض ہوئی تھی، اس سے پہلے صرف دو۲ نمازیں تھیں، ایک طلوع سے پہلے دُوسری غروب سے پہلے۔ شمنی اھ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلٰوۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۵۸)
وفی المواھب، من المقصد الاول، قبیل ذکر اول من امن، قال مقاتل: کانت الصلاۃ اول فرضھا رکعتین بالغداوۃ و رکعتین بالعشی، لقولہ تعالٰی وسبح بحمد ربک بالعشی والابکار۔ قال فی فتح الباری: کان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قبل الاسراء یصلی قطعاً، وکذلک اصحابہ ؛ ولکن اختلف ھل افترض قبل الخمس شیئ من الصلاۃ ام لا ؟ فقیل ان الفرض کان صلاۃ قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا۔ والحجۃ فیہ قولہ تعالٰی وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا انتھی ۲؎۔
اور مواہب کی فصل اوّل میں جہاں اولین ایمان لانے والوں کا ذکر ہے، اس سے تھوڑا پہلے مذکور ہے کہ مقاتل نے کہا ہے کہ ابتداء میں نماز کی صرف دو۲ رکعتیں صبح کو اور دو۲ رکعتیں رات کو فرض تھیں کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے اور تسبیح کہو اپنے رب کی حمد کے ساتھ رات کو اور سویرے۔ فتح الباری میں کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے پہلے نماز تو یقینا پڑھتے تھے اور اسی طرح آپ کے صحابہ بھی پڑھتے تھے، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے کوئی نماز فرض بھی تھی یا نہیں! تو کہا گیا ہے کہ ایک نماز طلوع سے اور ایک غروب سے پہلے فرض تھی اور اس پر دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے: اور تسبیح کہو اپنے رب کی حمد کے ساتھ طلوع شمس سے پہلے اور غروبِ شمس سے پہلے۔ (ت)
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی لہ علیہ وسلم مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۱/۲۷۴)
وقال النووی: اوّل ماوجب الانذار والدعاء الی التوحید، ثم فرض اللّٰہ تعالٰی من قیام اللیل ماذکرہ فی اول سورۃ المزمل ثم نسخہ بمافی آخرھا ثم نسخہ بایجاب الخ بایجاب الصلٰو ۃ والخمس لیلۃ الاسراء بمکہ ۱؎۔ اھ مافی المواھب
اور نووی نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ڈر سنانا اور توحید کی طرف بلانا فرض کیا گیا، پھر اللہ تعالٰی نے قیام لیل فرض کردیا جس کا سورہ مزمل کی ابتداء میں ذکر ہے پھر اس کو منسوخ کردیا اس حکم سے جو سورہ مزمل کے آخر میں ہے، پھر اس کو بھی منسوخ کردیا اور اس کے بجائے مکہ مکرمہ میں معراج کی رات کو پانچ نمازیں فرض کردیں۔ اھ مواہب کی عبارت ختم ہُوئی۔ (ت)
(۱؎ المواہب اللدنیہ مقصد اول اول امر الصلٰو ۃ المکتب الاسلامی بیروت ۱/۱۱،۲۱۲)
وفی شرحھا للعلامۃ الزرقانی من المقصد التاسع، ذھب جماعۃ الی انہ لم تکن قبل الاسراء صلاۃ مفروضۃ الاماوقع الامر بہ من صلاۃ اللیل بلا تحدید۔ وذھب الحربی الی ان الصلاۃ کانت مفروضۃ، رکعتین بالغداۃ و رکعتین بالعشی۔
و ردہ جماعۃ من اھل العلم ۲؎۔ اھ اور مواہب کی شرح میں علامہ زرقانی نے نویں مقصد میں لکھا ہے کہ ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ معراج سے پہلے کوئی نماز فرض نہیں تھی، صرف رات کو نماز پڑھنے کا حکم تھا مگر اس کی کوئی مقدار مقرر نہیں تھی۔ اور حربی کی رائے یہ ہے کہ نماز معراج سے پہلے بھی فرض تھی۔ دو۲ رکعتیں صبح کو اور دو۲ رکعتیں رات کو۔ لیکن حربی کی رائے کو اہلِ علم کی ایک جماعت نے رَد کیا ہے۔ (ت)
(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد التاسع فی عبادتہٖ صلی اللہ علیہ وسلم مطبعۃ عامرہ مصر ۷/۳۲۳)
وفیھما من المقصد الخامس فی الاسراء، عند ذکر صلاتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالانبیاء بیت المقدس، (قداختلف فی ھذہ الصلاۃ) ھل ھی الشرعیۃ المعروفۃ او اللغویۃ؟ وصوّب الاول لان النص یحمل علٰی حقیقۃ الشرعیۃ، مالم یتعذر۔ وعلی ھذا اختلف (ھل ھی فرض) ویدل علیہ کماقال النعمانی حدیث انس عند ابی حاتم المتقدم قریبا للمصنّف۔ (اونفل؟ واذا قلنا انھا فرض، فای صلاۃ ھی؟ قال بعضھم الاقرب انھا الصبح،ویحتمل ان تکون العشاء) والاحتمالان، کماقال الشامی، لیسابشیئ؛ سواء قلنا صلی بھم قبل العروج اوبعدہ لان اول صلاۃ صلاھا النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من الخمس مطلقا، الظھر بمکۃ باتفاق۔ ومن حمل الاولیۃ علی مکۃ فعلیہ الدلیل۔ قال: والذی یظھر انھا کانت من النفل المطلق، اوکانت من الصلاۃ المفروضۃ علیہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قبل لیلۃ الاسراء۔ وفی فتاوی النووی مایؤید الثانی اھ ۱؎ باختصار۔
اور مواہب و زرقانی کے پانچویں مقصد میں جوکہ معراج کے بیان میں ہے جہاں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا باقی انبیاء کو نماز پڑھانا مذکور ہے، وہاں لکھا ہے (اس نماز میں اختلاف پایا جاتا ہے) کہ آیا اس کی مشروعیت وہی معروف مشروعیت ہے یا لغوی مشروعیت مراد ہے؟ پہلا قول درست قرار دیا گیا ہے کیونکہ جہاں تک ممکن ہو نص کو اپنی شرعی حقیقت پر حمل کیا جاتا ہے۔ مشروعیتّ معروفہ مراد لینے کے بعد اس میں اختلاف ہے (کہ کیا یہ فرض ہے) اور جیسا کہ نعمانی نے کہا ہے اس پر انس کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو ابن ابی حاتم کے ہاں پائی جاتی ہے اورتھوڑا سا پہلے مصنف نے بھی ذکر کی ہے (یا نفل ہے؟ اگر ہم کہیں کہ فرض ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی نماز ہے؟ بعض نے کہا ہے کہ اقرب یہ ہے کہ وہ صبح کی نماز ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ عشاء کی نماز ہو) اور دونوں احتمال جیسا کہ شامی نے کہا ہے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، خواہ ہم یہ کہیں کہ یہ نماز آسمانوں پر جانے سے پہلے پڑھائی تھی یا بعد میں، کیونکہ پانچ نمازوں میں مطلقاً پہلی نماز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی وہ بالاتفاق ظہر کی نماز تھی جو آپ نے مکہ مکرمہ میں ادا فرمائی تھی۔ اور جو شخص اس روایت کو مکّہ کے ساتھ مختص کرے تو اس پر دلیل لازم ہے۔ شامی نے کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ کوئی نفلی نماز تھی یا ان نمازوں میں سے تھی جو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر شبِ معراج سے پہلے فرض تھیں اور فتاوٰی نووی سے دوسری شق کی تائید ہوتی ہے۔ (ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الخامس فی المعراج والاسراء مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۶/۶۳)
اقول: وفی الاستدلال بقولہ عز اسمہ وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا ۲؎ نظر۔
میں کہتا ہوں: اللہ عزّاسمہ کے اس فرمان سے استدلال کرنا کہ تسبیح کہو اپنے رب کی حمد کے ساتھ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے، محلِ نظر ہے۔
(۲؎ القرآن سورۃ طٰہٰ آیت ۱۳۰)
فان تتمۃ الاٰیۃ ومن اٰناء اللیل فسبح واطراف النھار لعلک ترضی ۳؎،
کیونکہ آیت مکمل اس طرح ہوتی ہے ''اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کہو اور دن کے اطراف میں بھی تاکہ تم راضی ہوجاؤ''۔
(۴؎ القرآن سورۃ طٰہٰ آیت ۱۳۰)
فان حمل التسبیح علی الصلاۃ لقول ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما کل تسبیح فی القراٰن صلاۃ ۴؎
اب اگر تسبیح سے مراد نماز لی جائے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ قرآن میں تسبیح سے ہر جگہ نماز مراد ہے۔
اخرجہ الفریابی عن سعید بن جبیر وان کان ربما یفید الاستثناء من کلیتہ علی مااقول قولہ جل ذکرہ، کل قدعلم صلوتہ وتسبیحہ ۱؎،
وقولہ تعالٰی فلولا انہ کان من المسبحینo للبث فی بطنہ الٰی یوم یبعثون ۲؎o فان الظاھر ان المراد بہ ماذکر عنہ ربہ عزوجل بقولہ فنادی فی الظلمٰت ان لاالٰہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظلمین ۳؎o بہ فسرہ سعید بن جبیر، ارشد تلامذہ ابن عباس، الراوی عنہ تلک الکلیۃ
وقد قال الحسن البصری، کمافی المعالم: ماکانت لہ صلاۃ فی بطن الحوت؛ ولکنہ قدم عملا صالحا ۴؎۔ اھ بیدان ابن عباس ھھنا ایضا مشی علی اصلہ فقال رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، من المسبحین، من المصلین ۵؎۔ ویکون المعنی حینئذ ماقال الضحاک، انہ شکراللّٰہ تعالٰی لہ طاعتہ القدیمۃ ۶؎، کمافی المعالم ایضا۔ فعلٰی ھذا الحمل واخذ الامر للوجوب، تدل الاٰیۃ باٰخرھا علی فرضیۃ اکثر من صلاتین؟ الا ان یقال: لم یقصد الحصر، بدلیل ان قیام اللیل کان فریضۃ من قبل قطعا؛ ولکن یبقی قولہ تعالٰی واطراف النھار؛ وحملہ علی المذکورتین یستلزم التکرار۔
ابن عباس کا یہ قول فریابی نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے۔ اگرچہ ابن عباس کے اس کلیے سے استثناء کا فائدہ دیتی ہیں وہ آیات جو میں بیان کررہا ہوں، اللہ جل ذکرہ فرماتا ہے: ''ہر (پرندہ) اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے''۔ اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ''اگر وہ (یونس) تسبیح کہنے والوں میں سے نہ ہوتا تو یومِ بعث تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا'' کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ اس تسبیح سے مراد وہی تسبیح ہے جو اللہ تعالٰی نے یونس علیہ السلام سے یوں حکایت کی ہے: ''پس پکارا اس نے اندھیروں میں کہ کوئی معبود نہیں ہے تیرے سوا، تُو پاک ہے بیشک میں ظلم کرنیوالوں میں تھا''۔ سعید ابن جبیر جوکہ ابن عباس کے بہترین شاگردوں میں سے ہیں اور ان سے مندرجہ بالا کلیہ کے راوی ہیں انہوں نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ حسن بصری نے کہا ہے کہ انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں نماز نہیں پڑھی تھی بلکہ اس سے پہلے ایک صالح عمل تھا اھ البتہ ابن عباس یہاں بھی اپنے اصول پر رواں رہے ہیں اور تسبیح کہنے والوں میں سے ہونے کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نماز پڑھنے والوں میں سے ہونا۔ اس صورت میں جیسا کہ ضحاک نے کہا ہے اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالٰی نے یونس علیہ السلام کو اسی اطاعت(اور نماز وغیرہ) کے صلے میں نجات دی تھی جو وہ مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے کرتے رہے تھے۔ معالم میں بھی اسی طرح ہے۔ بہرحال اگر فسبّح بحمدربک'' میں تسبیح سے مراد نماز لی جائے اور امر کو وجوب کے لئے قرار دیا جائے تو آیت کا آخری حصّہ دو۲ سے زیادہ نمازوں کے فرض ہونے پر دلالت کرے گا۔ اس کا یہ جواب تو دیا جاسکتا ہے کہ دو۲ میں حصر مقصود نہیں ہے کیونکہ رات کی نماز بھی بالیقین پہلے سے فرض تھی، لیکن اس صورت میں اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ''اور دن کے اطراف میں'' بغیر کسی مفہوم کے رہ جاتا ہے کیونکہ اگر اس سے مراد طلوع سے پہلے اور غروب سے پہلے والی دو نمازیں لی جائیں تو تکرار لازم آئے گی (کیونکہ ان کا ذکر آیت کی ابتداء میں ہوچکا ہے)۔ (ت)
(۱؎ القرآن سورہ النور ۲۴ آیت ۴۱)
(۲؎ القرآن سورہ الصّٰفّٰت ۳۷ آیت ۱۴۳)
(۳؎ القرآن سورۃ الانبیاء ۲۱ آیت ۸۷)
(۴؎ معالم التنزیل مع تفسیر الخازن زیر آیت فلولا انہ کان من المسبحّین (تفسیر سورہ صافات) مصطفی البابی مصر۶/۳۷)
(۵؎ معالم التنزیل مع تفسیر الخازن زیر آیت فلولا انہ کان من المسبحّین (تفسیر سورہ صافات) مصطفی البابی مصر۶/۳۷)
(۶؎ معالم التنزیل مع الخازن زیرِ آیت فلولا ان کان من المسبحین الخ مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر۶/۳۷)