فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ (۴۵۵) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ: (۱)جمعہ کی اذان ثانی جو منبر کے سامنے ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد کے اندر ہوتی تھی یا باہر؟ (۲)خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم کے زمانہ میں کہاں ہوتی تھی؟ (۳)فقہ حنفی کی معتمد کتابوں میں مسجد کے اندر دینے کو منع فرمایا اور مکروہ لکھا ہے یا نہیں؟ (۴)اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم کے زمانہ میں اذان مسجد کے باہر ہوتی تھی اور ہمارے اماموں نے مسجد کے اندر اذان کو مکروہ فرمایا ہے تو ہمیں اسی پر عمل لازم ہے یا رسم ورواج پر، اور جو رسم ورواج حدیث شریف واحکامِ فقہ سب کے خلاف پڑجائے تو وہاں مسلمانوں کو پیرویِ حدیث وفقہ کا حکم ہے یا رسم ورواج پر اڑارہنا؟ (۵)نئی بات وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخلفائے راشدین واحکام ائمہ کے مطابق ہو یا وہ بات نئی ہے جو اُن سب کے خلاف لوگوں میں رائج ہوگئی ہو؟ (۶)مکہ معظمہ ومدینہ منورہ میں یہ اذان مطابق حدیث وفقہ ہوتی ہے یا اس کے خلاف، اگر خلاف ہوتی ہے تو وہاں کے علمائے کرام کے ارشادات دربارہ عقائد حجت ہیں یا وہاں کے تنخواہ دار مؤذنوں کے فعل اگرچہ خلافِ شریعت وحدیث وفقہ ہوں؟ (۷)سنت کے زندہ کرنے کا حدیثوں میں حکم ہے اور اس پر سَو شہیدوں کے ثواب کا وعدہ ہے یا نہیں، اگر ہے تو سنت زندہ کی جائے گی یا سنت مردہ۔ سنت اُس وقت مُردہ کہلائے گی جب اُس کے خلاف لوگوں میں رواج پڑ جائے یا جو سنت خود رائج ہو وہ مُردہ قرار پائے گی؟ (۸)علماء پر لازم ہے یا نہیں کہ سنتِ مردہ زندہ کریں، اگر ہے تو کیا اُس وقت اُن پر یہ اعتراض ہوسکے گاکہ کیا تم سے پہلے عالم تھے، اگر یہ اعتراض ہوسکے گا تو سنت زندہ کرنے کی صورت کیا ہوگی؟ (۹)جن مسجدوں کے بیچ میں حوض ہے اُس کی فصیل پر کھڑے ہوکر منبر کے سامنے اذان ہوتو بیرون مسجد کا حکم اداہوجائیگا یا نہیں؟ (۱۰)جن مسجدوں میں منبر ایسے بنے ہیں کہ ان کے سامنے دیوار ہے اگر مؤذن باہر اذان دے تو خطیب کا سامنا نہ رہے گا وہاں کیا کرنا چاہئے؟ امید کہ دسوں مسئلوں کا جداجدا جواب مفصل مدلل ارشاد ہو، بینوا توجروا۔
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصّواب (۱) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں یہ اذان مسجد سے باہر دروازے پر ہوتی تھی۔ سنن ابی داؤد شریف جلد اول صفحہ ۱۵۵ میں ہے:
عن السائب بن یزید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاجلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر وعمر ۱؎۔
(۱؎ سنن ابی داؤد باب وقت الجمعہ مطبوعہ مجتبائی لاہور پاکستان ۱/۱۵۵)
سائب بن یزید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے فرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے زمانے میں۔ اور کبھی منقول نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا خلفائے راشدین نے مسجد کے اندر اذان دلوائی ہو، اگر اس کی اجازت ہوتی تو بیان جواز کے لئے کبھی ایسا ضرور فرماتے۔ (۲)جوابِ اول سے واضح ہوگیا کہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی (اذان کا) مسجد کے باہر ہی ہونا مروی ہے۔ اور یہیں سے ظاہر ہوگیا کہ بعض صاحب جو ''بین یدیہ'' سے مسجد کے اندر ہونا سمجھتے ہیں غلط ہے۔ دیکھو حدیث میں ''بین یدی'' ہے اور ساتھ ہی ''علٰی باب المسجد'' ہے۔ یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم کے چہرہ انور کے مقابل مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی بس اسی قدر ''بین یدیہ'' کے لئے درکار ہے۔ (۳)بیشک فقہ حنفی کی معتمد کتابوں میں مسجد کے اندر اذان کو منع فرمایا اور مکروہ لکھا ہے۔ فتاوٰی قاضی خان طبع مصر جلد اول صفحہ۷۸ لایؤذن فی المسجد ۲ ؎ (مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے)
(۲ ؎فتاوٰی قاضی خان باب کتاب الصلوٰۃ مسائل الاذان مطبوعہ نولکشور لکھنو /۳۷۱)
فتاوی خلاصہ قلمی صفحہ ۶۲ لایؤذن فی المسجد ۱؎ (مسجد میں اذان نہ ہو)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الصلوٰۃ الفصل الاول فی الاذان مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱/۴۹)
خزانۃ المفتین قلمی فصل فی الاذان لایؤذن فی المسجد ۲؎ (مسجد کے اندر اذان نہ کہیں)
خزانۃ المفتین فصل فی الاذان (قلمی نسخہ)ص ۱۹
فتاوٰی عالمگیری طبع مصر جلد اول صفحہ ۵۵ لایؤذن فی المسجد ۳؎(مسجد کے اندر اذان منع ہے)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ الباب الثانی فی الاذان مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۵۵)
بحرالرائق طبع مصر جلد اول صفحہ ۲۶۸ لایؤذن فی المسجد ۴؎ (مسجد کے اندر اذان کی ممانعت ہے)
(۴؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰۃ باب الاذان مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۵۵)
شرح نقایہ علامہ برجندی صفحہ ۸۴ (فیہ اشعار بانہ لایؤذن فی المسجد ۵؎
(اس میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ ت)
(۵؎ شرح النقایۃ للبرجندی باب الاذن نولکشور لکھنؤ ۱/۸۴)
امام صدرالشریعۃ کے کلام میں اس پر تنبیہ ہے کہ اذان مسجد میں نہ ہو) غنیہ شرح منیہ صفحہ ۳۵۷
الاذان انما یکون فی المئذنۃ اوخارج المسجد والاقامۃ فی داخلہ ۶؎
(اذان نہیں ہوتی مگر منارہ یا مسجد سے باہر اور تکبیر مسجد کے اندر)
(۶؎ غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی سنن الصلوٰۃ اول السنن الاذان مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہو ر ص ۳۷۷)