دسویں خیانت مجلس مبارک کو حرام ومستحق ناروغضب جبار ٹھہرانے پر بھی دشمنانِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جلتے کلیجے ٹھنڈے نہ ہُوئے بلکہ اپنی گھٹیوں میں پڑے ہوئے کفر کی چاشنی یاد آئی اور بکمال بے ایمانی اپنی اس بکِر فکر کی نسبت اعلحٰضرت مجددِ دین وملت سے کردی کہ وہ مجالسِ مروّجہ کو کفر لکھتے ہیں، سچ ہے جب ''لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین'' سے حصہ لیں تو پُورا ہی نہ لیں بَن پڑے تو ابلیس کیلئیبھی باقی نہ چھوڑیں۔
سلمانو! اللہ انصاف، کفر کا لفظ ذکر نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین اور شریعت وسنّت پر ہنسنے کی نسبت تھا یا مجالس مبارکہ کی نسبت، مسلمانو! اللہ انصاف، شیطان اس سے زیادہ اور کیا مکرر کرتاہوگا، ''ولاحول ولاقوۃ الا باللہ'' خود اعلحٰضرت کے یہاں اُن کے پردادا صاحب حضرت مولٰنا حافظ محمد کاظم علی خاں صاحب بہادر رئیس اعظم قادری رزاقی قدس سرہ الشریف خلیفہ حضرت مولانا شاہ انوارالحق لکھنوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے وقت سے بفضلہ تعالٰی آج تک کہ سو۱۰۰ برس کامل سے زائد ہوئے مجالسِ میلاد شریف کا انعقاد کمالِ اہتمام واعلانِ عام کے ساتھ ہوتا ہے بحمدہٖ تعالٰی ہزاروں مسلمان حاضر آئے اور ذکرِ اقدس حضور پُورنور سیدِ یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فیض وشرف پائے ہیں شہر بھر میں معلوم ہے کہ ربیع الاول شریف کی بارھویں خاص اعلحٰضرت کے دولت خانہ فیض کاشانہ کے لئے اُسی زمانہ سے مخصوص ہے، اعلحٰضرت کے یہاں اور بھی مجالس میلاد مبارک ہواکرتی ہیں مگر بارھویں شریف کا پڑھنا خصوصاً خاص ذکرِ ولادت اقدس روزِ اول سے خود حضرت بانیِ مجلس صاحبِ خانہ کا حصّہ ہے جو بعونہٖ تعالٰی سو۱۰۰ برس سے آج تک ناغہ نہ ہُوا سوائے ربیع الاول شریف ۱۳۲۴ھ کے کہ اس کی بارھویں مبارک کو اعلٰحضرت بحمداللہ تعالٰی سرکارِ اعظم مدینہ طیبہ صلی اللہ تعالٰی علی مطیبہا وبارک وسلم میں شرف آستانہ بوسی سے مشرف تھے اُس سال اعلٰحضرت کے برادر اوسط مولوی حاجی محمد حسن رضا خان صاحب حسن قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے نیابت کی پھر اعلحٰضرت اور اُن کے والد ماجد قدس سرہ، کے فتاوٰی ومستقل تصانیف اس مجلس مبارک کے استحباب واستحسان میں موجود ہیں، معتقدینِ اعلحٰضرت اس تمام آفتاب عالمتاب سے معاذاللہ آنکھیں بند کرکے کوّوں کی شہادت پر دیوبندیوں کی مان لیں گے کہ اعلحٰضرت کے نزدیک معاذاللہ مجلس مبارک حرام بلکہ کفر ہے تف تف ہزارتف مسلمانو! دیوبندی صاحبوں کی دیوبندگی دیکھی، پھر دعوائے دین ودیانت باقی ہے، سبحٰن اللہ یہ منہ اور یہ دعوٰی خیر اتنی اچھی کہی کہ معتقدینِ اعلحٰضرت کے لئے خوف کا مقام ہے الحمدللہ خوف کا مقام اولیاء وصلحاء کو ملتا ہے مگر دیوبندیوں کو نہ خوفِ خدا نہ شرمِ رسول دِن دہاڑے مسلمانوں کی آنکھوں میں خاک جھونکتے پھرتے ہیں کہ اُن کو دھوکے دیں اُن کے عقائد کو ضرور پہنچائیں ان کے اکابر کی نیک نامی کو دھبّا لگائیں مگر بحمداللہ ان کی خاک اُلٹ کر اُنہیں کے منہ اور اُن کے پیشوا حضرت گنگوہی صاحب کی آنکھوں میں پڑی اور پڑتی ہے حق بحقدار رسید۔
گیارھویں خیانت خیر یہ ''تلک عشرۃ کاملہ'' جیسی تھیں اب ان کی وہ لیجئے جس کے آگے یہ اور ان جیسی سَو خیانتیں اور ہوں تو کان ٹیک دیں وہ کیا وہ رسا لہ خبیثہ سیف النقی کے کوتک کہ اعلحٰضرت مجدد المائۃ الحاضرہ دام ظلہم العالی کے حضرات عالیہ والد ماجد وجدِ امجد وپیر ومرشد وحضور پُرنور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نام سے کتابیں تراش لیں ان کے مطبع گھڑلئے صفحے دل سے بنالیئے عبارتیں خود ساختہ لکھ کر اُن کی طرف بے دھڑک نسبت کرکے چھاپ دیں اور سرِبازار اپنی حیا کی اوڑھنی اتار، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بَک دیا کہ آپ تو یوں کہتے ہیں اور آپ کے والد ماجد وجدامجد وپیر ومرشد وغوث اعظم فلاں فلاں کتابوں مطبوعات فلاں فلاں مطابع کے فلاں فلاں صفحہ پر یہ فرماتے ہیں حالانکہ دنیا میں نہ اُن کتابوں کا پتا نہ نشان سب بالکل افترا اور من گھڑت، جرأت ہوتو اتنی تو ہو، اس کا حال العذاب البئیس وابحاثِ اخیرہ ورماح القہار وغیرہا میں بارہا چھاپ دیا، اب پھر سُن لیجئے اسی رسالہ خبیثہ کے صفحہ تین پر ایک کتاب بنام تحفۃ المقلدین اعلحٰضرت کے والد ماجد اقدس حضرت مولٰنا مولوی محمد نقی علی خان صاحب قدس سرہ العزیز کے نام سے گھڑلی حالانکہ حضرت ممدوح کی کوئی تصنیف اس نام کی نہیں عــہ۔