Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
88 - 157
دسویں خیانت مجلس مبارک کو حرام ومستحق ناروغضب جبار ٹھہرانے پر بھی دشمنانِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جلتے کلیجے ٹھنڈے نہ ہُوئے بلکہ اپنی گھٹیوں میں پڑے ہوئے کفر کی چاشنی یاد آئی اور بکمال بے ایمانی اپنی اس بکِر فکر کی نسبت اعلحٰضرت مجددِ دین وملت سے کردی کہ وہ مجالسِ مروّجہ کو کفر لکھتے ہیں، سچ ہے جب ''لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین'' سے حصہ لیں تو پُورا ہی نہ لیں بَن پڑے تو ابلیس کیلئیبھی باقی نہ چھوڑیں۔ 

سلمانو! اللہ انصاف، کفر کا لفظ ذکر نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین اور شریعت وسنّت پر ہنسنے کی نسبت تھا یا مجالس مبارکہ کی نسبت، مسلمانو! اللہ انصاف، شیطان اس سے زیادہ اور کیا مکرر کرتاہوگا، ''ولاحول ولاقوۃ الا باللہ'' خود اعلحٰضرت کے یہاں اُن کے پردادا صاحب حضرت مولٰنا حافظ محمد کاظم علی خاں صاحب بہادر رئیس اعظم قادری رزاقی قدس سرہ الشریف خلیفہ حضرت مولانا شاہ انوارالحق لکھنوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے وقت سے بفضلہ تعالٰی آج تک کہ سو۱۰۰ برس کامل سے زائد ہوئے مجالسِ میلاد شریف کا انعقاد کمالِ اہتمام واعلانِ عام کے ساتھ ہوتا ہے بحمدہٖ تعالٰی ہزاروں مسلمان حاضر آئے اور ذکرِ اقدس حضور پُورنور سیدِ یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فیض وشرف پائے ہیں شہر بھر میں معلوم ہے کہ ربیع الاول شریف کی بارھویں خاص اعلحٰضرت کے دولت خانہ فیض کاشانہ کے لئے اُسی زمانہ سے مخصوص ہے، اعلحٰضرت کے یہاں اور بھی مجالس میلاد مبارک ہواکرتی ہیں مگر بارھویں شریف کا پڑھنا خصوصاً خاص ذکرِ ولادت اقدس روزِ اول سے خود حضرت بانیِ مجلس صاحبِ خانہ کا حصّہ ہے جو بعونہٖ تعالٰی سو۱۰۰ برس سے آج تک ناغہ نہ ہُوا سوائے ربیع الاول شریف ۱۳۲۴ھ کے کہ اس کی بارھویں مبارک کو اعلٰحضرت بحمداللہ تعالٰی سرکارِ اعظم مدینہ طیبہ صلی اللہ تعالٰی علی مطیبہا وبارک وسلم میں شرف آستانہ بوسی سے مشرف تھے اُس سال اعلٰحضرت کے برادر اوسط مولوی حاجی محمد حسن رضا خان صاحب حسن قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے نیابت کی پھر اعلحٰضرت اور اُن کے والد ماجد قدس سرہ، کے فتاوٰی ومستقل تصانیف اس مجلس مبارک کے استحباب واستحسان میں موجود ہیں، معتقدینِ اعلحٰضرت اس تمام آفتاب عالمتاب سے معاذاللہ آنکھیں بند کرکے کوّوں کی شہادت پر دیوبندیوں کی مان لیں گے کہ اعلحٰضرت کے نزدیک معاذاللہ مجلس مبارک حرام بلکہ کفر ہے تف تف ہزارتف مسلمانو! دیوبندی صاحبوں کی دیوبندگی دیکھی، پھر دعوائے دین ودیانت باقی ہے، سبحٰن اللہ یہ منہ اور یہ دعوٰی خیر اتنی اچھی کہی کہ معتقدینِ اعلحٰضرت کے لئے خوف کا مقام ہے الحمدللہ خوف کا مقام اولیاء وصلحاء کو ملتا ہے مگر دیوبندیوں کو نہ خوفِ خدا نہ شرمِ رسول دِن دہاڑے مسلمانوں کی آنکھوں میں خاک جھونکتے پھرتے ہیں کہ اُن کو دھوکے دیں اُن کے عقائد کو ضرور پہنچائیں ان کے اکابر کی نیک نامی کو دھبّا لگائیں مگر بحمداللہ ان کی خاک اُلٹ کر اُنہیں کے منہ اور اُن کے پیشوا حضرت گنگوہی صاحب کی آنکھوں میں پڑی اور پڑتی ہے حق بحقدار رسید۔

گیارھویں خیانت خیر یہ ''تلک عشرۃ کاملہ'' جیسی تھیں اب ان کی وہ لیجئے جس کے آگے یہ اور ان جیسی سَو خیانتیں اور ہوں تو کان ٹیک دیں وہ کیا وہ رسا لہ خبیثہ سیف النقی کے کوتک کہ اعلحٰضرت مجدد المائۃ الحاضرہ دام ظلہم العالی کے حضرات عالیہ والد ماجد وجدِ امجد وپیر ومرشد وحضور پُرنور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نام سے کتابیں تراش لیں ان کے مطبع گھڑلئے صفحے دل سے بنالیئے عبارتیں خود ساختہ لکھ کر اُن کی طرف بے دھڑک نسبت کرکے چھاپ دیں اور سرِبازار اپنی حیا کی اوڑھنی اتار، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بَک دیا کہ آپ تو یوں کہتے ہیں اور آپ کے والد ماجد وجدامجد وپیر ومرشد وغوث اعظم فلاں فلاں کتابوں مطبوعات فلاں فلاں مطابع کے فلاں فلاں صفحہ پر یہ فرماتے ہیں حالانکہ دنیا میں نہ اُن کتابوں کا پتا نہ نشان سب بالکل افترا اور من گھڑت، جرأت ہوتو اتنی تو ہو، اس کا حال العذاب البئیس وابحاثِ اخیرہ ورماح القہار وغیرہا میں بارہا چھاپ دیا، اب پھر سُن لیجئے اسی رسالہ خبیثہ کے صفحہ تین پر ایک کتاب بنام تحفۃ المقلدین اعلحٰضرت کے والد ماجد اقدس حضرت مولٰنا مولوی محمد نقی علی خان صاحب قدس سرہ العزیز کے نام سے گھڑلی حالانکہ حضرت ممدوح کی کوئی تصنیف اس نام کی نہیں عــہ۔
عــہ یہ یہیں تک ناتمام تھا لیکن مفید تھا اس لئے چھاپ دیا ۱۲
مسئلہ (۳۵۳) از نجیب آباد ضلع بجنور محل مجید گنج مرسلہ کریم بخش صاحب ٹھیکیدار    ۱۷ جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ

ایک بار اذان ہوچکی ہے کہ کسی دُوسرے شخص نے لاعلمی میں پھر اذان پڑھنا شروع کردی درمیان میں کسی ہمسایہ نے اطلاع دی کہ پڑھی جاچکی ہے اب یہ شخص معاً رک جائے یا اذان کو پُورا پڑھے۔
الجواب

اگر مسجد مسجدِ محلہ ہے جہاں کے لئے امام وجماعت متعین ہے اور جماعت اولٰی ہوچکی اور اب کچھ لوگ جماعت کو آئے اور ان کو اذان کی خبر نہ تھی اور شروع کی اور اطلاع ہوئی تو معاً رک جائے اور اگر مسجد عام ہے، مثلاً مسجد بازار وسراواسٹیشن وجامع تو ہرگز نہ رُکے اذان پُوری کرے ممانعت جہالت ہے اور اگر مسجد محلہ یا عام ہے اور جماعت اولٰی ابھی نہ ہُوئی تو اختیار ہے چاہے رک جائے یا پُوری کرے اور اتمام اولٰی ہے۔
وذلک لان فی الاولی اعادۃ اذان لجماعۃ ثانیۃ فی مسجد محلۃ 'وھو لایجوز' وفی الثانیۃ اعادۃ اذان لجماعۃ اخری فی مسجد شارع 'وھو مسنون' فلایترک' وفی الثالثۃ لانھی ولاطلب فخیر واتمام ذکر شرع فیہ افضل لاسیما وقد استحسنوا التثویب۔

واللہ سبحنہ وتعالی اعلم۔
اور یہ اس لئے ہے کہ پہلی صورت میں محلے کی مسجد میں دوسری جماعت کے لئے دوبارہ اذان دی جارہی ہے جو کہ ممنوع ہے اور دوسری صورت میں شارع عام کی مسجد میں دوسری جماعت کے لئے اذان کا اعادہ ہے اور یہ مسنون ہے، تیسری صورت میں نہ منع ہے اور نہ حکم، پس اب اختیار ہے، اور جب شروع کرلی گئی تو اب اس سے مکمل کرنا افضل ہے خصوصاً اس حال میں جبکہ فقہأ نے ''تثویب'' کے عمل کو مستحسن قرار دیا ہے۔ (ت)
مسئلہ (۳۵۴) از مقام کبیر کلاں ڈاک خانہ خاص علاقہ ڈہائی ضلع بلند شہر مرسلہ عطاء اللہ ٹھیکیدار۲۹ صفر المظفر ۱۳۳۲ھ

اقامت صف کے دہنی جانب کہی جائے یا بائیں، اس میں کوئی فضیلت دہنے بائیں کی ہے یا نہیں فقط۔
الجواب

اقامت امام کی محاذات میں کہی جائے یہی سنّت ہے وہاں جگہ نہ ملے تو دہنی طرف لفضل الیمین عن الشمال
 (کیونکہ دائیں جانب کو بائیں پر فضیلت ہے۔ ت) ورنہ بائیں طرف لحصول المقصود بکل حال (کیونکہ مقصود ہر حال میں حاصل ہوتا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter