Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
86 - 157
ردالمحتار میں ہے: قولہ فی الکل ای کل الصلوات لظھورالتوانی فی الامور الدینیۃ قال فی العنایۃ احدث المتاخرون التثویب بین الاذان والاقامۃ علی حسب ماتعارفوہ فی جمیع الصلوات سوی المغرب مع ابقاء الاول یعنی الاصل وھو تثویب الفجر وماراٰہ المسلمون حسناً فھو عنداللّٰہ حسنٌ ۲؎۔ اھ
''فی الکل'' سے مراد یہ ہے کہ تمام نمازوں میں تثویب کہے کیونکہ دینی امور میں سُستی غالب آچکی ہے۔ عنایہ میں ہے کہ متاخرین نے اصل یعنی تثویب فجر کو باقی رکھتے ہوئے مغرب کی نماز کے علاوہ ہر نماز کی اذان واقامت کے درمیان متعارف طریقہ پر تثویب کو جاری کیا ہے اور جسے مسلمان بہتر جانیں وہ اللہ تعالٰی کے ہاں بھی بہتر ہوتا ہے اھ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار        باب الاذان        مطبوعہ   مطبع مصطفی البابی مصر        ۱/۲۸۶)
نمازِ جنازہ میں حرمین شریفین میں دستور ہے کہ مؤذن بآواز بلند کہتے ہیں:
الصلاۃ علی المیت یرحمکم اللّٰہ
 (میت پر نمازِ جنازہ ادا کرو اللہ تم پر رحم فرمائے۔ ت)اور یہ سب اس آیہ کریمہ کے تحت میں داخل ہے کہ
من احسن قولا ممن دعا اللّٰہ ۳؎
 (اس سے کس کی بات بہتر جو اللہ کی طرف بُلائے)
 (۳؎ القرآن        ۴۱/۳۳)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من دعا الی الھدٰی فلہ اجرہ واجر من تبعہ ۴؎۔
جو کسی نیک بات کی طرف بُلائے اُس کے لئے اُس کا خود اپنا اجر ہے اور جتنے اُس نیک فعل میں شریک ہوں ان سب کا ثواب ہے، اور انکے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو۔
 (۴؎ مسلم شریف    باب من سن سنۃ الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۳۴۱)
نوٹ:    مسلم شریف کے الفاظ یوں ہیں من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لاینقص ذلک من اجورھم شیئا الخ۔ نذیر احمد سعیدی

اور زعمِ بدعت کا رَد ہزار بار ہوچکا،ہر نَو پیدا بات ناجائز نہیں ورنہ خود مدرسے بنانا،کتابیں تصنیف کرنا، صرف ونحو وغیرہما علوم کہ زمانہ رسالت میں نہ پڑھے تھے، پڑھنا پڑھانا سب حرام ہوجائے اور اسے کوئی عاقل نہیں کہہ سکتا خود یہ اہلِ بدعت ہزارہاجدید باتیں کرتے ہیں کہ زمانہ رسالت میں اس ہئیت کذائی سے موجود نہ تھیں، بعد کو حادث ہوئیں مگر اپنے لئے جو چاہیں حلال کرلیتے ہیں واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی 

اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ (۳۴۸) از دمن خر وعملداری پرتگال مسئولہ مولوی ضیاء الدین صاحب ۱۵ ذیقعدہ ۱۳۱۸ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ زیداقامت کے قبل درود شریف بآوازبلندپڑھتاہے اوراس کے ساتھ ہی اقامت یعنی تکبیر شروع کردیتا ہے کہ جس سے عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ درود شریف اقامت کا جزئ ہے اور عمرو درود شریف نہیںپڑھتا صرف اقامت کہتا ہے تو زید کو یہ فعل اس کا ناپسند آتا ہے اور اصرار سے اس کو پڑھنے کو کہتا ہے اس صورت میں درود شریف جہر سے پڑھنا اور زید کا اصرار کرنا کیسا ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب

درود شریف قبلِ اقامت پڑھنے میں حرج نہیں مگر اقامت سے فصل چاہئے یا درود شریف کی آوازآواز اقامت سے ایسی جدا ہوکہ امتیاز رہے اور عوام کو درود شریف جزء اقامت نہ معلوم ہو، رہا زید کا عمرو پر اصرار کرنا وہ اصلاً کوئی وجہ شرعی نہیں رکھتا یہ زید کی زیادتی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۴۹) از کیمپ میرٹھ کوٹھی خان بہادر کمرہ شیخ علاءُ الدین صاحب مرسلہ سید حسن صاحب۱۲ رمضان المبارک ۱۳۲۶ھ

باعثِ استفساریہ ہے کہ اگرصبح کی اذان لوگوں کوسحری کے وقت کے اختتام سے آگاہی کے واسطے صبح صادق نکلنے سے آٹھ یا دس منٹ پہلے دے دی جایاکرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب

اذان وقت سے پہلے دینی مطلقاً ناجائز وممنوع ہے، تبیین الحقائق میں ہے:
لایؤذن قبل الوقت ویعادفیہ وانکار السلف علی من یؤذن بلیل دلیل علی انہ لم یجز قبل الوقت ۱؎۔
قبل از وقت اذان نہ دی جائے اور اگر دے دی جائے تو وقت کے اندر پھر لوٹائی جائے اوراسلاف کا رات کو اذان دینے والے پر انکار اس بات کی دلیل ہے کہ قبل ازوقت اذان جائز نہیں۔ (ت)
 (۱؎ تبیین الحقائق    باب الاذن    مطبوعہ المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ مصر    ۱/۹۳)
البحرالرائق میںہے:
لایجوز قبلہ ۲؎
 (قبل ازوقت اذان جائز نہیں۔ ت)
 (۲؎ البحرالرائق     باب الاذن    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۲۶۲)
ختم سحری کے لئے صلاۃ وغیرہ کوئی اور اصطلاح مقرر کرسکتے ہیں اور وہ بھی چار پانچ منٹ سے زیادہ وقت صحیح سے مقدم نہ ہوکہ تاخیرِ سحورسنّت اور اس میں برکت ہے اور زیادہ اول سے منع کردینا فتوائے باطل وبدعت وخلافِ شریعت ہے پھر یہ بھی اس کے لئے ہے جو وقت صحیح جانتا ہو نہ وہ آج کل کی عام جنتریوں میں چھپا یاچھپتا ہے کہ اکثر باطل وضلالت ہے اُنہیں میں سے میرٹھ کی ''دوامی جنتری'' بھی سراپا غلط وبطالت ہے یوہیںہمیشہ رات کا فلاں معین حصّہ چھوڑنا محض نادانی وجہالت ہے ان مجمل الفاظ کی تشریح اول طبع ہوچکی اور بعض فتوائے دیگر مفصلہ سے معلوم ہوگی بعونہ تعالٰی، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۵۰) از ملک گجرات بھڑوچ محلہ گھونسواڑہ آملہ مسجد مرسلہ محمد الدین مجددی ۱۷جمادی الاخری ۱۳۲۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ سنّتِ جمعہ پڑھنے کے لئے ملک گجرات کے بعض مقام میں جو ایک صلاۃ سنت قبل جمعہ پڑھنے کے واسطے مؤذن بلند آوازسے روز جمعہ کے پکارتا ہے اور بغیر صلاۃ سنت قبل الجمعہ پکارنے کے سنت قبل الجمعہ کی لوگ نہیں پڑھتے اوراس صلاۃ سنت قبل جمعہ کا مسجد میں جمع ہوکرانتظار کرتے ہیں تاکہ مؤذن یہ صلاۃ سنت کی پکارے توسنت قبل جمعہ پڑھیں الفاظ یہ ہیں:
الصلاۃ سنۃ قبل الجمعۃ الصلاۃ رحمکم اللّٰہ
 (جمعہ سے پہلی سنتیں ادا کرو اللہ تم پر رحم فرمائے۔ ت)کیا ان الفاظ سے صلاۃ کہنافرض ہے یا واجب ہے یا سنّت ہے یا مستحب ہے اور کس مجتہد نے اسلام میں اس کو جاری کیاہے اور یہ صلاۃ سنت قبل الجمعہ اگر کوئی شخص نہ پکارے اور سُنتیں جمعہ کی پڑھ لے تو سنتیں ہوجاتی ہیں یا نہیں اور نہ پکارنے سے مرتکب گناہ کا ہوگایا نہیں، نماز جمعہ اور سنتِ جمعہ میں بھی نہ پکارنے سے قصور لازم آتاہے یا نہیں، اور نہ کہنے والا مذہب امام اعظم کامقلّد رہتا ہے یا وہابی نجدی ہوکر اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،کیا وہ بے ایمان ہوجاتا ہے،کیا تثویب جس کو فقہائے حنفیہ نے مستحسن فرمایا ہے وہ یہی صلاۃ سنت قبل الجمعہ ہے یااُس کی کوئی اور صورت ہے؟ مستند کتب حنفیہ سے ثبوت مع دلائل تحریر فرماکر اجرِ عظیم پائیں مہر مع دستخط علمائے کرام ثبت ہو۔
الجواب

تثویب جسے ہمارے علمائے متاخرین نے نظر بحال زمانہ جائز رکھااور مستحب ومستحسن سمجھا وہ اعلام بعد اعلام ہے اور اس کے لئے کوئی صیغہ معین نہیں بلکہ جو اصطلاح مقرر کرلیں اگرچہ انہیں لفظوں سے کہ
الصلاۃ السنۃ قبل الجمعۃ الصلاۃ رحمکم اللّٰہ تعالٰی
 (نماز جمعہ سے پہلے سنت نماز ادا کرلو اللہ تم پر رحم فرمائے۔ ت) تو اس وجہ پر کہنا زیر مستحب داخل ہوسکتا ہے۔ درمختار میں ہے:
یثوب بین الاذان والاقامۃ فی الکل للکل بماتعارفوہ الافی المغرب ۱؎۔
مغرب کے علاوہ ہر نماز کے وقت میں تمام لوگوں کے لئے اذان واقامت کے درمیان معروف طریقہ پر تثویب کہی جائے۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    باب الاذان        مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۶۳)
ردالمحتار میں ہے:
بما تعارفوہ کتنحنح اوقامت قامت،اوالصلٰوۃ الصلٰوۃ، ولواحد ثوا اعلامامخالفا لذلک جاز، نھر عن المجتبٰی ۱؎۔
بماتعارفوہ سے مراد مثلاً کھانسنا، نماز کھڑی ہوگئی، نماز کھڑی ہوگئی، نماز، نماز، اور اگر اس کے علاوہ کوئی الفاظ اطلاع کے لئے مخصوص کرلیے جائیں تو جائز ہیں۔ نہر نے مجتبٰی سے نقل کیا ہے۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار        باب الاذان        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۲۸۷)
اسی میں عنایہ سے ہے: احدث المتاخرون التثویب بین الاذان والاقامۃ، علی حسب ماتعارفوہ فی جمع الصلوات سوی المغرب،مع ابقاء الاول،یعنی الاصل،وھو تثویب الفجر،وماراٰہ المسلمون حسناً، فھو عنداللّٰہ حسنٌ ۲؎۔
کہ متاخرین نے اصل یعنی تثویبِ فجر کو باقی رکھتے ہوئے معروف طریقہ پر مغرب کے علاوہ ہر نماز کی اذان واقامت کے درمیان متعارف طریقہ پر تثویب کو جاری کیا ہے، اور جسے مسلمان بہتر جانیں وہ اللہ تعالٰی کے ہاں بھی بہتر ہوتا ہے۔ (ت)
 (۲؎ردالمحتار        باب الاذان        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۲۸۷)
مگر اس پر اور باتیں جو اضافہ کیں بے اصل وباطل ہیں: (مثلاً)

(۱)    جب تک یہ صلاۃ نہ پکاری جائے سنّتِ جمعہ نہ پڑھنا۔

(۲)    مسجد میں جمع ہوکر اس پکارنے کا منتظر رہناگویا سنتِ قبل الجمعہ کو اذان مؤذن کا محتاج کررکھا ہے کہ وہ صلاۃ پکار کر اجازت دے تو پڑھیں یہ بدعت ہے۔

(۳)    بغیر اس کے یہ سمجھا کہ سُنّتیں نہ ہوں گی۔

(۴)    نہ پکارنے کو گناہ جاننا۔

(۵)    نہ پکارنے سے نمازِ جمعہ میں قصور سمجھنا۔

(۶)    نہ پکارنے والے کو تقلیدِ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے باہر خیال کرنا۔

(۷)    معاذاللہ اسے وہابی وبے ایمان گمان کرنایہ پانچوں اعتقاد باطل وضلال ہیں، ان کے معتقدین پر توبہ فرض قطعی ہے اور ان ساتوں رسوم وخیالاتِ باطلہ کا ہدم واعدام لازم ہے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من احدث فی امرناھذا مالیس منہ فھو رد ۱؎۔ واللہ تعالٰی اعلم
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے دین میںایسی چیز ایجاد کی جو دین میں سے نہیں پس وہ مردود ہوگی۔ (ت)
مسئلہ (۳۵۱)     جمادی الاخرٰی ۱۳۲۹ھ

نمازِ جمعہ میں اذان کے بعد پھر صلاۃ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب

اذان کے بعد صلاۃ تثویب ہے اور تثویب کو علماء نے ہر نماز میں مستحب رکھا ہے۔ درمختار میں ہے۔
یثوب فی الکل للمکل بماتعارفوہ الافی المغرب ۲؎۔
مغرب کے علاوہ ہر نماز کے وقت تمام لوگوں کے لئے متعارف طریقے پر تثویب کہنی چاہئے۔ (ت)
عنایہ میں ہے: فی جمیع الصلوات سوی المغرب ۳؎
 (مغرب کے علاوہ تمام نمازوں میں تثویب جائز ہے۔ ت)
درمختار میں ہے:التسلیم بعد الاذان حدث فی عشاء لیلۃ الاثنین ثم یوم الجمعۃ ثم بعدعشر سنین فی الکل الاالمغرب ثم فیھا مرتین وھو بدعۃ حسنۃ ۴؎۔
اذان کے بعد صلاۃ وسلام ہر سوموارکو عشاء کی نماز کے موقعہ پرپڑھا جاتا تھا پھرجمعہ کے دن شروع ہوا اس کے دس سال بعد مغرب کے علاوہ ہر نماز کی اذان کے بعد شروع کردیاگیا پھر مغرب میں بھی دو دفعہ پڑھاجانا شروع ہوگیا اور بدعتِ حسنہ ہے۔ (ت)
 (۴؎ درمختار       باب الاذان        مطبوعہ مجتبائی دہلی            ۱/۶۴)
Flag Counter