Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
85 - 157
جمعہ بھی ہمارے امام کے نزدیک اس بارے میں مثل اور نمازوں کے ہے سلام سے پہلے جو شریک ہو لیا اس نے جمعہ پالیا دو۲ ہی رکعت پڑھے، درمختار میں ہے:
من ادرکہافی تشہداوسجود سھوعلی القول بہ فیھایتمھا جمعۃ خلافا لمحمد ۲؎۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ            مطبوعہ مجتبائی دہلی            ۱/۱۱۳)
جس شخص نے جمعہ کی نمازمیں تشہد یا سجدہ سہو میں اس قول پر جو جمعہ میں سجدہ سہو کا قول کرتے ہیں امام کو پایاتو وہ نماز کو جمعہ کے طورپر پُورا کرے اس میں امام محمد کا اختلاف ہے۔ (ت)
مسئلہ(۳۴۵) ایک طالب علم اذان میں حی علی الصلاۃ ایک بار دہنی طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں اور پھر بائیں طرف مُنہ پھیر کر ایک بار حی علی الفلاح کہتے ہیں اور پھر دہنی طرف منہ پھیر کر ایک بار حی علی الصلاۃ اور پھر بائیں طرف منہ پھیر کر حی علی الفلاح کہتے ہیں اور اس طرح اذان دینے کو افضل کہتے ہیں اور حاشیہ ہدایہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس میں اس طرح آیا ہے،یہ قول اُن کا درست ہے یا نہیں؟ اور اس طرح اذان دیا کریں یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب : یہ محض غلط وخلافِ سنّت ہے، عٰلمگیریہ ومحیط سرخسی میں ہے:
یرتب بین کلمات الاذان والاقامۃ کماشرع ۳؎
کلماتِ اذان وتکبیر میں اسی ترتیب کا قائم رہنا ضروری ہے جس پر مشروع ہوئے ہیں۔ ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیۃ    الفصل الثانی فی کلمات الاذان الخ    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۵۶)
مسند احمد وسُنن ابی داؤد وغیرہما میں عبداللہ بن زید عبد ربّہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث تعلیمِ اذان میں ہیفرشتے نے کہا یوں کہا کرو (کلماتِ اذان یہ ہیں):
اللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، اشھد ان لا اِلٰہ الا اللّٰہ، اشھد ان لا الٰہ الااللّٰہ، اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ، اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الصلٰوۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لاالٰہ الّا اللّٰہ ۱؎۔
 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب کیف الاذان        مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۷۲)
عبداللہ بن زیدنے فرمایا حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے میں نے عرض کی، حضور نے فرمایا:
ان ھذہ لرؤیا حق ان شاء اللّٰہ تعالٰی،ثم امر بالتاذین، فکان بلال مولی ابی بکر یؤذن بذلک ۲؎۔
اِن شاء اللہ تعالٰی یہ خواب بیشک حق ہے،پھررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلال مولٰی ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہماکو اذان کا حکم دیاوہ اس طورپر مذکور پر اذان دیا کرتے تھے۔
 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب کیف الاذان        مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۷۲)
صحیح مسلم وسنن نسائی وغیرہما میں ابومحذورہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جو حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُنہیں اذان تعلیم فرمائی اس میں بھی شہادتیں کے بعد یوں ہی ہے:
حی علی الصلاۃ، حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لاالٰہ الا اللّٰہ ۳؎۔
 (۳؎ صحیح مسلم        کتاب الصلوٰۃ باب بدء الاذان    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۶۵)
غرض دونوں حی علی الصلاۃ ایک ساتھ، پھر دونوں حی علی الفلاح ایک ساتھ پڑھنے میں کوئی شک نہیں، ہاں بعض علما نے مُنہ پھیرنے میں یہ طریقہ رکھاہے کہ ایک بار دہنی طرف کہے حی علی الصلاۃ پھر اسی کو بائیں طرف کہے، پھر ایک بار دہنی طرف کہے حی علی الفلاح پھر اسی کو بائیں طرف کہے،فتح القدیر حاشیہ ہدایہ میں اسی کو ترجیح دی، مگر صحیح وہی ہے کہ دونوں بار حی علی الصلاۃ دہنی طرف کہہ کر دونوں بارحی علی الفلاح بائیں طرف کہے۔ردالمحتار میں ہے:
یلتفت فیھمایمیناً بالصلٰوۃ ویساراً بالفلاح وھو الاصح
 (اصح یہ ہے دونوں میں حی علی الصلاۃ کے وقت دائیں طرف حی علی الفلاح کے وقت بائیں طرف منہ پھیرے۔ ت)
''قہستانی عن المنیۃ'' وھو الصحیح کمافی البحر والتبیین
 (اور صحیح یہی ہے جیسا کہ بحر وتبیین میں ہے۔ ت)
وقال مشایخ مرویمنۃ ویسرۃ فی کل، قال فی الفتح الثانی اوجہ وردہ الرملی بانہ خلاف الصحیح المنقول عن السلف ۱؎ اھ
باختصار مشایخ مرو نے کہا ہے کہ ہر ایک میں دائیں اور بائیں منہ پھیرے (جیسے کہ قہستانی میں ہے) فتح میں ہے کہ دوسرا قول اوجہ ہے،اور رملی نے اس کا رَد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسلاف سے منقول صحیح قول کے منافی ہے اھ اختصار۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ ردالمحتار        باب الاذان            مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/۲۸۵)
مسئلہ (۳۴۶)     ۲۱ ذی قعدہ ۱۳۲۲ھ:  بعد اذان کے پھر کسی خاص شخص کو پکارنا بالخصوص خودی والے کو درست ہے یا نہیں؟
الجواب: بعد اذان کے سلطانِ اسلام وقاضی شرع وعالم دین کی خدمتوںمیںمؤذن دوبارہ اطلاع کے واسطے مؤدبانہ حاضر ہو یہی سنّت ہے باقی لوگوں میں اگر سامنے سے گزریں توکہہ دینا کہ نماز کو آؤ جماعت تیار ہے، یا مسجد کو جاتے راہ میں جو ملیں اُنہیں تاکید کرتے آنا مضائقہ نہیں رکھتا مگر گھر پر آدمی بھیج کر بلانے کی حاجت نہیں خصوصاً خودی والے متکبرکوکہ متکبر شرعاً مستحقِ توہین ہے نہ لائقِ رعایت جبکہ مظنہ فتنہ نہ ہو، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۴۷)    منشی عبدالقادر صاحب میسوری

یہاںیہ دستور ہے کہ نماز پنجگانہ وعیدین ونمازِ جنازہ میں شہروں اور قریہ وغیرہ سب جاصلاۃ صلاۃ پکار کر کہتے ہیںیہ صلاۃ پکارنا کیسا ہے کس زمانہ وکن بزرگوں سے ابتدا جاری ہے اس کے پکارنے سے نماز میں خلل ہے یا نہیں، یہاں چند صاحبان صلاۃپکارنا بدعت یعنی ناجائزسمجھتے ہیں ازراہِ مہربانی جواب تحریر کریں۔
الجواب عیدین میں الصّلاۃ جامعۃ ۲؎
 (نماز کی جماعت تیار ہے۔ ت) بآواز بلند دو بار پکارنا مستحب ہے
 (۲؎ فتح القدیر           باب الاذان            مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۲۱۰)
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے: یستحب ان ینادی لھا الصلٰوۃ جامعۃ بالاتفاق ۳؎۔
یہ آواز دینا کہ جماعت تیار ہے بالاتفاق مستحب ہے۔ (ت)
 (۳؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ    الفصل الثالث من باب صلوٰۃ العیدین    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۳/۳۰۰)
سوائے مغرب ہر نماز میں صلاۃ پکارنا یعنی دوبارہ اعلان کرنا ائمہ متاخرین نے مستحب رکھا ہے بلکہ درمختار میں سب نمازوں کی نسبت لکھا:
یثوب بین الاذان والاقامۃ فی الکل للکل بماتعارفوہ ۱؎۔
  متعارف طریقہ پر تمام نمازوں میں ہر ایک کے لئے اذان واقامت کے درمیان تثویب کہنی چاہئے۔ (ت)
 (۱؎ الدرالمختار   باب الاذان   مطبوعہ مجتبائی دہلی     ۱/۶۳۷)،
Flag Counter