Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
84 - 157
مسئلہ (۳۳۸) از نقشبندی محلہ بریلی مسئولہ منشی احمد حسین صاحب    ۱۰ رجب ۱۳۱۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین صلاۃ کے بارہ میں کہ بروز جمعہ بعض مسجدوں میں لوگوں نے بعد اذان کے صلاۃ کامعمول رکھا ہے اکثر آدمی اذان سُن کر مسجدمیں فوراً حاضر نہیں ہوتے صلاۃ کے منتظر رہتے ہیں جب اذان سے کچھ دیر کے بعد صلاۃ ہوتی ہے تو مسجد میں حاضر ہوتے ہیں یہ فعل جائز ہے یا ناجائز، اور بعد اذان کے مسجد کے اندر سے کسی باہر کے شخص کو نماز کے واسطے پکارنا درست ہے یا نادرست؟
الجواب صلاۃ جائز ہے مگرجمعہ کے دن اذانِ اوّل سُن کر نہ آنا حرام ہے ھو الصحیح المعتمد کمافی الدرالمختار وغیرہ(صحیح اور معتمد یہی ہے جیسا کہ دُرمختار وغیرہ میں ہے۔ ت)اگر صلاۃ کی وجہ سے یہ سُستی ہو جمعہ کے دن صلاۃ کا ترک کرنا ضرور ہے بعد اذان باہر والے کو آواز دینے ہیں حرج نہیں جب کوئی محذور شرعی نہ ہو مثلاً بعد شروع خطبہ آواز دینا حرام ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۳۹) از بنگالہ ضلع پابنہ ڈاکخانہ سراج گنج موضع بھنگاباڑی مرسلہ منشی عنایت اللہ صاحب۶ شوال ۱۳۱۶ھ

ماقولکم رحمکم اللّٰہ تعالٰیاس مسئلہ میں کہ جمعہ کے دن دونوں اذان بآوازِ بلند چاہئے یا اوّل بآوازِ بلند اور ثانی پست کرکے؟ بینوا توجّروا۔
الجواب: دونوں اذانیں پُوری آواز سے خوب بلند کہی جائیں جس طرح اذان میں سنّت ہے آج کل جو عوام دوسری اذان کو کہ خطبہ کے وقت ہوتی ہے پست آواز سے مثل تکبیرکے کہہ لیتے ہیں محض جہالت ہے اس سے سنّت ادا نہیں ہوتی، اصل اذان زمانہ اقدس حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وزمانہ صدیقِ اکبر وفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہمامیں یہی تھی، پہلی اذان امیرالمومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زائد فرمائی ہے کماثبت فی الصحیحین وغیرھما(جیسا کہ بخاری ومسلم وغیرہ میں ثابت ہے۔ ت) واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۴۰) اگر نمازیوں کو نماز کے وقت سے گھنٹہ آدھ گھنٹہ پہلے ان کی اجازت سے یا بغیر اجازت اُن کے مکانوں پر جاکر فجرکی نماز کے واسطے بتاکید جگادیا جائے تو جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: نماز کے لئے جگاناموجبِ ثواب ہے مگر وقت سے اتنا پہلے جگانے کی کیا حاجت ہے البتہ ایسے وقت جگائے کہ استنجاء ووضو وغیرہ سے فارغ ہوکر سُنّتیں پڑھے اور تکبیر اولٰی میں شامل ہوجائے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۴۱) اذان مسجد میں صبح کاذب میں کہنا چاہئے یا صبح صادق میں؟
الجواب: ہمارے مذہب میں اذان قبل وقت جائز نہیں اگرچہ فجر کی ہو،واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۴۲)     ۲۶ ذیقعدہ ۱۳۱۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں صلاۃ پکارنا عیدین وجمعہ میں کیسا ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: عیدین(۱) میں ''الصلوٰۃ جامعۃ'' کہا جائے، اور جمعہ میں تثویب حسبِ استحسان متاخرین جائز ہے اور تحقیق یہ ہے کہ وہاں کے نمازیوں کی حالت ومصلحت پر نظر کی جائے اگر وہ لوگ اذان سُن کر خود جمع ہوجاتے ہیں تو تثویب ہرگز نہ کہی جائے کہ اُن سے یہ عادتِ حسنہ چھُڑاکر انتظار تثویب کا خوگر کردینا ہوگااور جہاں ایسانہیںبلکہ اُس کی حاجت اور اُس کے فعل میں مصلحت ہے وہاں کہی جائے ھذا ھو التحقیق وبہ یحصل التوفیق(تحقیق یہی ہے اور اس سے مطابقت حاصل ہوجاتی ہے۔ ت)واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۴۳) سوائے اذان کے آواز دینا کہ چلو جماعت تیار ہے یاکسی نمازیِ پنج وقتہ یا امام کو آواز دینا یا روز کے نمازی آنے والوں کا وقتِ آخرتک انتظار کرناکیساہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: آخر وقت تک انتظار کرنابایں معنے کہ وقتِ کراہت آجائے مطلقاً مکروہ ہے اور وقت استحباب تک اگر قوم حاضر ہے اور شخص منتظر مرد شریر نہیں جس سے خوفِ ایذا ہو اور انتظار حاضرین پر ثقیل ہوگا تو قدرِ سنّت سے زیادہ انتظار مکروہ ہے اور اگر ابھی لوگ حاضر ہی نہیںیا منتظَرسے ترکِ انتظار میں خوفِ ایذا ہے یا سب حاضرین انتظارپر بدل راضی ہیں تو حرج نہیں اور بقدرِ سنّت تو انتظار ہمیشہ ہی چاہئے جب تک وقتِ کراہت نہ آئے، انتظار مسنون، جو عوام میں بقدر چار رکعت کے مشہور ہے بے اصل ہے بلکہ اس کی حدغیر مغرب میں یہ ہے کہ اذان سُن کر جسے وضو نہ ہو وضو کرے کھاتا ہوتو اس سے فارغ ہوجائے حاجت کی ضرورت ہوتو اس سے انفراغ وطہارت کے بعد حاضر مسجد ہوجائے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۴۴) از مدرسہ اشاعۃ العلوم    دوم جمادی الاولے ۱۳۲۰ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید دعوٰی کرتا ہے کہ جب تک سب مقتدی کھڑے نہ ہولیںاور صف سیدھی نہ ہو اورامام اپنی جانماز پر کھڑا نہ ہو تب تک اقامت نہ کہی جائے اور عمرو دعوٰی کرتا ہے کہ مقتدی اور امام کو پہلے ہی سے کھڑا ہونا ضروری نہیں بلکہ اقامت شروع کی اور مؤذن ''حی علی الفلاح''تک پہنچ جائے اُس وقت امام ومقتدی کھڑے ہوجائیں اور جس وقت ''قدقامت الصلاۃ'' کہے تب امام تکبیر کہے اب ان دونوں میں کون حق پر ہے، دیگر صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نمازِ جمعہ میں امام کو تشہد میںپائے یا سجدہ سہو میں اب جمعہ اُس کا ادا ہوگیا یا نہیں؟
الجواب: عمرو حق پر ہے کھڑے ہوکر تکبیر سُننا مکروہ ہے،یہاں تک کہ علماء حکم فرماتے ہیں کہ جو شخص مسجد میں آیا اور تکبیر ہورہی ہے وہ اس کے تمام تک کھڑا نہ رہے بلکہ بیٹھ جائے یہاں تک کہ مکبّر ''حی علی الفلاح'' تک پہنچے اُس وقت کھڑا ہو، وقایہ میں ہے:
یقوم الامام والقوم عند ''حی علی الصلاۃ'' ویشرع عند ''قدقامت الصلاۃ ۱؎''۔
امام اور نمازی ''حی علی الصلاۃ'' پر کھڑے ہوں اور ''قد قامت الصلاۃ'' کے الفاظ پر امام نماز شروع کردے۔ (ت)
 (۱؎ مختصر الوقایہ    فصل الاذان        نور محمد کارخانہ تجارت کراچی     ص ۱۲)
محیط وہندیہ میں ہے: یقوم الامام والقوم اذاقال المؤذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ ھو الصحیح ۲؎۔
ہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک جب اقامت کہنے والا ''حی علی الفلاح'' کہے تو اس وقت امام اور تمام نمازی کھڑے ہوں اور یہی صحیح ہے۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ    الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ الخ    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۵۷)
جامع المضمرات وعالمگیریہ وردالمحتار میں ہے: اذادخل الرجل عندالاقامۃ یکرہ لہ الانتظارقائماً ولکن یقعد ثم یقوم اذابلغ المؤذن قولہ ''حی علی الفلاح'' ۳؎۔
جب کوئی نمازی تکبیر کے وقت آئے تو وہ بیٹھ جائے کیونکہ کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے پھر جب مؤذّن ''حی علی الفلاح'' کہے تو اس وقت کھڑا ہو۔ (ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ    الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ الخ    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۵۷)
اسی طرح بہت کتب میں ہے۔ اقول ولاتعارض عندی بین قول الوقایۃ واتباعھا یقومون عند ''حی الصلاۃ'' والمحیط والمضمرات ومن معھما عند ''حی علی الفلاح'' فانا اذاحملنا الاول علی الانتھاء والاٰخر علی الابتداء اتحد القولان، ای یقومون حین یتم المؤذن حی علی الصلاۃ ویأتی علی الفلاح وھذا مایعطیہ قول المضمرات یقوم اذابلغ المؤذن حی علی 

الفلاح ولعل ھذا اولی ممافی مجمع الانھر من قولہ وفی الوقایۃ ویقوم الامام والقوم عند حی علی الصلاۃ ای قبیلہ ۱؎ اھ
 (۱؎ ردالمحتار        باب الاذان        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۲۹۰)
اقول: صاحبِ وقایہ اور ان کے متبعین ''حی علی الصلاۃ'' کے موقعہ پر کھڑا ہونے کا قول کرتے ہیں اور صاحبِ محیط،مضمرات اور ان کی جماعت ''حی علی الفلاح'' کے وقت کھڑا ہونے کا قول کرتے ہیں میرے نزدیک ان میں کوئی تعارض نہیں اس لئے کہ جب ہم پہلے قول کو انتہا اور دوسرے کو ابتدا پر محمول کریں تو دونوں قولوں میں اتحاد حاصل ہوجاتا ہے یعنی جب مؤذن حی علی الصلاۃ'' پُورا کرکے حی علی الفلاح کہے تو کھڑے ہوں اور اس کی تائید مضمرات کے ان الفاظ سے ہوتی ہے ''اس وقت کھڑا ہو جب مؤذن ''حی علی الفلاح'' پر پہنچے اور یہ اس سے بہتر ہے جو مجمع الانہر میں اس کا قول ہے: وقایہ میں ہے کہ امام اور نمازی ''حی علی الصلاۃ'' کے وقت یعنی اس سے تھوڑا سا پہلے کھڑے ہوں اھ۔ (ت)
 (۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر    باب الاذان    مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/۷۸)
یہ اُس صورت میں ہے کہ امام بھی وقتِ تکبیر مسجد میں ہو،اور اگروہ حاضر نہیں تو مؤذن جب تک اُسے آتا نہ دیکھتے تکبیر نہ کہے نہ اُس وقت تک کوئی کھڑا ہولقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاتقوموا حتی ترونی(کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: تم نہ کھڑے ہواکرو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو۔ ت) پھر جب امام آئے اور تکبیر شروع ہو اس وقت دو۲ صورتیں ہیں اگر امام صفوں کی طرف سے داخل مسجد ہوتو جس صفت سے گزرتا جائے وہی صف کھڑی ہوتی جائے اور اگر سامنے سے آئے تو اُسے دیکھتے ہی سب کھڑے ہوجائیں اور اگر خود امام ہی تکبیر کہے تو جب تک پُوری تکبیر سے فارغ نہ ہولے مقتدی اصلاً کھڑے نہ ہوں بلکہ اگر اس نے تکبیر مسجد سے باہر کہی تو فراغ پر بھی کھڑے نہ ہوں جب وہ مسجد میں قدم رکھے اُس وقت قیام کریں، ہندیہ میں بعد عبارت مذکور ہے:
فامااذاکان الامام خارج المسجد فان دخل المسجد من قبل الصفون فکلماجاوز صفا قام ذلک الصف والیہ مال شمس الائمۃ الحلوانی والسرخسی وشیخ الاسلام خواھرزادہ وان کان الامام دخل المسجد من قدامھم یقومون کماراؤا الامام وان کان المؤذن والامام واحدافان اقام فی المسجد فالقوم لایقومون مالم یفرغ عن الاقامۃ وان اقام خارج المسجد فمشایخنا اتفقوا علی انھم لایقومون مالم یدخل الامام المسجد ویکبر الامام قبیل قولہ قدقامت الصلاۃ قال الشیخ الامام شمس الائمۃ الحلوانی وھو الصحیح ھکذا فی المحیط ۱؎۔
اگر امام مسجد سے باہر ہو اگر وہ صفوں کی جانب سے مسجد میں داخل ہوتوجس صف سے وہ گزرے وہ صف کھڑی ہوجائے، شمس الائمہ حلوانی، سرخسی، شیخ الاسلام خواہر زادہ اسی طرف گئے ہیں، اور اگر امام اُن کے سامنے سے مسجد میں داخل ہوتواُسے دیکھتے ہی تمام مقتدی کھڑے ہوجائیں،اگر مؤذن اور امام ایک ہی ہے پس اگر اس نے مسجدکے اندرہی تکبیر کہی تو قوم اس وقت تک کھڑی نہ ہو جب تک وہ تکبیر سے فارغ نہ ہوجائے اور اگر اس نے خارج ازمسجد تکبیر کہی تو ہمارے تمام مشائخ اس پر متفق ہیں کہ لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہوں جب تک امام مسجد میں داخل نہ ہواور امام ''قدقامت الصلاۃ'' کے تھوڑا پہلے تکبیر تحریمہ کہے امام شمس الائمہ حلوانی کہتے ہیںکہ یہی صحیح ہے، محیط میں اسی طرح ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    الفصل الثانی فی کلمات الاذن والاقامۃ الخ    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۵۷)
Flag Counter