فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ (۳۳۶) از ریاست رام پور بزریہ ملا ظریف بنگلہ متصل مسجد مرسلہ مولوی علیم الدین صاحب اسلام آبادی ۱۵ جمادی الاخرٰی ۱۳۱۴ھ الاستفتاء ماقولکم رحمکم اللّٰہ ربکم فی اذان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم،ھل ھواذن بنفسہ علیہ الصلاۃ والسلام ام لاولوکان مرۃ فی عمرہ علیہ الصلاۃ والسلام، وفی ابتداء وجوب صلاۃ الجنازۃ علی المیت ایّ زمان کانوعلی من صلی اوّلا، فی المدینۃ المنورۃ وجبت ام فی المکّۃ المعظمۃ واول الصلاۃ صلیھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم علی ای صحابی کانت، وما کان اسمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بینّوا توجروا۔
سوال: اے علماء(اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے)اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے، کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود اذان دی ہے یا نہیں،اگرچہ تمام عمر میں ایک دفعہ ہو۔ اور میت پر نماز جنازہ کے وجوب کی ابتداء کب ہُوئی؟سب سے پہلے کس کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی؟کیا یہ مدینہ منورہ میں لازم ہوئی یا مکہ مکرمہ میں؟سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کس صحابی کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی؟اس صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام کیا ہے؟ بینوا توجّروا۔
الجواب: قال فی الدرمختار وفی الضیاء انہ علیہ الصّلاۃ والسّلام اذن فی سفربنفسہ واقام وصلی الظھر وقد حققناہ فی الخزائن ۱؎ اھ قال فی ردالمحتار،حیث قال بعد ماھنا ھذا وفی شرح البخاری لابن حجر ومما یکثر السؤال عنہ، ھل باشر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الاذان بنفسہ وقداخرج الترمذی،انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیئہ وسلم اذن فی سفر وصلی باصحابہ وجزم بہ النووی وقواہ، ولکن وجد فی مسند احمد من ھذا الوجہ فامر بلالاً فاذن فعلم ان فی روایۃ الترمذی اختصارا وان معنی قولہ اذن امر بلالاً کمایقال اعطی الخلیفۃ العالم الفلانی کذاوانما باشر العطاء غیرہ ۲؎ اھ
درمختار میں فرمایا اور الضیاء میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفرمیں بنفسِ نفیس اذان دی، تکبیر کہی اور ظہر کی نماز پڑھائی اور ہم نے خزائن میں اس بارے میں تحقیق کی ہے اھ ردالمحتار میں کہا وہاں اس گفتگو کے بعد یہ فرمایا کہ ابنِ حجرکی فتح الباری شرح البخاری میں ہے کہ اکثر طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود اذان دی ہے؟اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ آپ نے دورانِ سفر خود اذان دی اور صحابہ کو نماز پڑھائی،امام نووی نے اس پر جزم کرتے ہوئے اسے قوی قرار دیا، لیکن اسی طریق سے مسند احمد میں ہے کہ آپ نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے اذان کہی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت ترمذی میں اختصار ہے اور ان کے قول اذّن کا معنٰی یہ ہے کہ آپ نے بلال کو اذان کا حکم دیا،جیسا کہ محاورۃً کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے فلاں عالم کو یہ عطیہ دیاحالانکہ وہ خود عطا نہیں کرتا بلکہ عطا کرنے والا کوئی غیر ہوتا ہے اھ
(۱؎ الدرالمختار باب الاذان مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۵) (۲؎ ردالمحتار باب الاذان مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۹۵)
ورأیتنی کتبت فیماعلقت علی ردالمحتارمانصہ اقول لکن سیأتی صفۃالصلاۃعندذکر التشھدعن تحفۃالامام ابن حجرالمکی انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم اذن مرّۃ فی سفر فقال فی تشھدہ ''اشھد انّی رسول اللّٰہ'' وقد اشارابن حجرالی صحتہ،وھذانص مفسر لایقبل التأویل،وبہ یتقوٰی تقویۃ الامام النووی رحمہ اللّٰہ تعالٰی اھ ماکتبت،وبہ ظھر الجواب عن المسألۃ الاولٰی،واما بدء صلاۃ الجنازۃ فکان من لدن سیدنا اٰدم علیہ الصّلاۃ والسلام،اخرج الحاکم فی المستدرک والطبرانی والبیھقی فی سننہ عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھماقال اٰخرماکبرالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم علی الجنازۃاربع تکبیرات، وکبر عمر علٰی ابی بکرا ربعا،وکبر ابن عمر علٰی عمر اربعا وکبر الحسن بن علٰی علی اربعا، وکبر الحسین بن علی علی الحسن بن علی اربعا،وکبرت الملٰئکۃ علی اٰدم اربعا ۱؎، ولم تشرع فی الاسلام فی المدینۃ المنورۃاخرج الادم الواقدی من حدیث حکیم بن حزام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی ام المؤمنین خدیجۃرضی اللّٰہ تعالٰی عنھا انھاتوفیت سنۃ عشر من البعثۃبعدخروج بنی ھاشم من الشعب ودفنت بالحجون ونزل النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی حفرتھا ولم تکن شرعۃ الصلاۃ علی الجنائز ۱؎ اھ وقال الامام ابن حجر العسقلانی فی الاصابۃ فی ترجمۃ اسعد بن زرارہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ذکر الواقدی انہ مات علی راس تسعۃ اشھر من الھجرۃ رواہ الحاکم فی المستدرک وقال الواقدی کان ذلک فی شوال قال البغوی بلغنی انہ اول من مات من الصحابۃ بعد الھجرۃ وانہ اوّل میت صلی علیہ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎ اھ وبہ اتضح الجواب۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مجھے اس بارے میں مزید جو سمجھ آئی اسے میں نے اپنے حاشیہ ردالمحتار میں تحریر کیاہے اور اسکے الفاظ یہ ہیں اقول: عنقریب صفاتِ نماز کے تحت ذکرِ تشہدمیں تحفہ امام ابن حجر مکّی سے آرہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفر میں ایک دفعہ اذان دی تھی اور کلماتِ شہادت یوں کہے اشہد انّی رسول اﷲ(میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں)اور ابنِ حجر نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ نص مفسر ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سے امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی کے قول کی اور تقویت ملتی ہے اھ(میری تحریر ختم ہوئی)اس سے پہلے سوال کا جواب آگیا۔باقی رہی جنازہ کی ابتداء، تو یہ سیدنا آدم علیہ السلام کے دور سے ہے۔حاکم نے مستدرک، طبرانی اوربیھقی نے اپنی سنن میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جنازہ پر جو آخری عمرمیں تکبیرات کہیں وہ چار تھیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنازہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر چار تکبیرات کہیں، اور ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر، امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنازہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنازہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ پر چار تکبیرات کہیں، ملائکہ نے سیدنا آدم علیہ السلام پر چار تکبیریں کہیں اور اسلام میں وجوبِ نماز جنازہ کا حکم مدینہ منورہ میں نازل ہوا، امام واقدی نے حضرت ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بارے میں حکیم بن حزام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ کا وصال بعثت کے دسویں سال شعبِ ابی طالب سے خروج کے بعد ہُوا اور آپ کو حجون کے قبرستان میں دفن کیاگیا اور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خود ان کی لحد میں اترے اور اس وقت میت پر جنازہ کا حکم نہیں تھا اھ اور امام ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احوال میں واقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کا وصال ہجرت کے بعد نویں مہینے کے آخر میں ہُوا،اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا اور بقول واقدی یہ شوال کا مہینہ تھا،بغوی نے کہا کہ ہجرت کے بعدسب سے پہلے اسی صحابی کا وصال ہوا، اور یہ پہلے صحابی کی میت تھی جس پر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی اور اس سے جواب واضح ہوگیا۔ واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ المستدرک للحاکم التکبیر علی الجنائز اربع مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱/۳۸۶) (۱؎ الاصابہ فی تمیز الصحابہ ترجمہ خدیجہ بنت خویلد نمبر ۳۳۵ مطبوعہ دارصادر بیروت ۴/۲۸۳) (۲؎الاصابہ فی تمیز الصحابہ ترجمہ اسعد بن زرارہ نمبر ۱۱۱ مطبوعہ دارصادر بیروت ۱/۳۴۹)
مسئلہ (۳۳۷) از شہر کہنہ ۲۳ شوال مکرم ۱۳۱۵ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ سے مسجد کے اندر زناکیا نعوذباللّٰہ من ذلک اب زید مسجد میں مؤذن رہ سکتا ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ زید کو مسجد میں رکھنے کے واسطے کوشش اور حجت کرتے ہیں اُن کے بارے میں کیا حکم ہے؟ بینّوا توجروا۔
الجواب: نسأل اللّٰہ العافیۃ (اللہ تعالٰی سے عافیت کا سوال ہے۔ ت) اگر یہ امر ثابت ہے تو پر ظاہر کہ زید اخبثِ فسّاق وفجّار ہے اور فاسق کی اذان اگرچہ اقامتِ شعار کاکام دے مگر اعلام کہ اس کا بڑا کام ہے اُس سے حاصل نہیں ہوتا،نہ فاسق کی اذان پر وقتِ روزہ ونماز میں اعتماد جائز۔لہذا مندوب ہے کہ اگر فاسق نے اذان دی ہوتو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے، تو جب تک یہ شخص صدق دل سے تائب نہ ہواُسے ہرگز مؤذن نہ رکھا جائے مسجدسے جُداکردینا ضرور ہے۔ درمختار میں ہے:
جزم المصنّف بعدم صحۃ اذان مجنون ومعتوہ وصبی لایعقل، قلت وکافر وفاسق لعدم قبول قولہ فی الدیانات ۱؎۔
(۱؎ الدرالمختار باب الاذان مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۴)
مصنّف نے دیوانے، ناقص العقل اور ناسمجھ بچّے کی اذان کے بارے میں عدمِ صحت کا قول کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کافر وفاسق کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ امورِ دینیہ میں ان کا قول قابلِ قبول نہیں۔ (ت)
ردالمحتار میں ہے: المقصود الاصلی من الاذان فی الشرع الاعلام بدخول اوقات الصلاۃ، ثم صار من شعار الاسلام فی کل بلدۃ اوناحیۃ من البلاد الواسعۃ فمن حیث الاعلام بدخول الوقت وقبول قولہ لابد من الاسلام والعقل والبلوغ والعدالۃ فاذااتصف المؤذن بھذہ الصفات یصح اذانہ والا فلایصح من حیث الاعتماد علیہ،وامامن حیث اقامۃ الشعارالنّافیۃ للاثم عن اھل البلدۃ فیصح اذان الکل سوی الصبی الذی لایعقل،فیعاد اذان الکل ندبا علی الصح کماقدمناہ عن القھستانی ۲؎ اھ ملخصا۔
(۲؎ ردالمحتار باب الاذان مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۹۰)
اذان کا مقصودِ اصلی شرع میں اوقاتِ نماز کے دخول کی اطلاع ہے پھر یہ تمام ممالک اور بڑے شہروں کے اطراف میں شعائر اسلام کا درجہ پاچکی ہے تو دخولِ وقت کی اطلاع اور اس کے قول کی مقبولیت کے لئے ضروری ہے کہ اس کا قائل مسلمان،عاقل،بالغ اور عادل ہو،اگر مؤذن ان صفات کے ساتھ متصف ہُوا تو اس کی اذان درست ہوگی اور اگر اس میں یہ صفات نہیں تو اس پر اعتماد ہونے کی حیثیت درست نہ ہوگی البتہ اس حیثیت سے کہ یہ ان شعائر میں سے ہے جو تمام شہر والوں کو گناہ سے بچاتی ہے تو یہ بچّے ناسمجھ کے علاوہ ہر کسی کی صحیح ہوگی لہذا اصح یہ ہے کہ ان تمام کی اذان کا لوٹانامستحب ہے جیسا کہ ہم نے قہستانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اھ ملخصا ۔ (ت)
اور جو اُس کی حمایت میں فضول حجت کرتے ہیں امر ناحق کے مددگار بنتے ہیں اُنہیں باز آنا چاہئے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے:
ولاتکن للخائنین خصیما
خیانت کرنے والوں کا وکیل نہ بن۔ واللہ تعالٰی اعلم۔