الجواب: درست ہے ، فقیر نے خاص اس مسئلہ میں رسالہ نسیم الصبافی ان الاذان یحول الوبالکھا واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۳۱) بعد دفن میت قبر پر اذان جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: جائز ہے،فقیرنے خاص اس مسئلہ میں رسالہ ایذان الاجر فی اذان القبرلکھا، واللہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۳۲) ۲۹ ذی قعدہ ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں اذان دہنے ہاتھ کو ہونا چاہئے کہ دہنے ہاتھ کو فضیلت ہے اور بعض کہتے ہیں بلکہ بائیں ہاتھ کو، اس میں شرعاً کیاحکم ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: اذان منارہ پر کہی جائے جس طرف واقع ہو یا بیرونِ مسجد جدھر زیادہ نافع ہو، مثلاً ایک جانب کوئی موضع رفیع زائد ہے یا اُس طرف مسلمانوں کی آبادی دُور تک ہے تو اُسی سمت ہونی چاہئے کہ اصل مقصود اذان تبلیغ واعلام ہے جس طرف یہ مقصود زیادہ پایا جاوے وہی افضل ہے باقی دہنے بائیں کی کوئی تخصیص شرع مطہر سے ثابت نہیں، ہندیہ میں ہے:
ینبغی ان یؤذن علی المئذنۃ اوخارج المسجد ولایؤذن فی المسجد کذافی فتاوی قاضی خان السنۃ ان یؤذن فی موضع عالٍ یکون اسمعلجیرانہ ویرفع صوتہ کذافی البحر الرائق ۱؎ اھ۔
اذان منارہ پر یامسجد سے باہر دی جائے مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے کذافی فتاوٰی قاضی خان سنّت یہ ہے کہ اذان ایسے بلند مقام پر دی جائے کہ گردونواح کے لوگوں کوآواز خوب سنائی دے اور اذان میں آواز بلند رکھے،کذا فی البحرالرائق۔ (ت)
مع ہذاکہہ سکتے ہیں کہ دونوں جانبیں دہنی اور دونوں بائیں ہیں کہ جو قبلہ رُو کھڑا ہواس کی دہنی طرف کعبہ معظمہ ومسجد کی بائیں ہے اور اُس کی بائیں کعبہ ومسجد کی دہنی تو جب دونوں طرف نفع برابر ہو دونوں یکساں ہیں، واللہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۳۳) اذان واقامت کس جانب کو چاہئے۔ بینوا توجروا۔
الجواب:جس مسجد میں اذان کے لئے منارہ بناہو جب تو اُس کی جہت خود معین ہے اُس منارہ پر اذان دینا چاہئے خواہ وہ کسی جانب ہو ۔
فی البحرالرائق تحت قولہ ویجلس بینھما السنۃ ان یکون الاذان فی المنارۃ ۲؎ الخ۔
البحرالرائق میں ماتن کے قول ''ویجلس بینھما'' کے تحت ہے کہ سنّت یہ ہے کہ اذان منارہ پر دی جائے الخ (ت)
اور جہاں نہ ہوتو نظر فقہی میں انسب یہ کہ جس طرف حاجت زائد ہو اُسی جانب کو اختیار کرے مثلاً ایک جانب مسلمان زیادہ رہتے ہیںیااُس طرف مکان اُن کے دُور ہیں تو وہی جانب اذان کے لئے انسب ہے۔
فانہ انما شرع للاعلام فماکان ادخل فی المقصودکان احسن بل رایت ائمتناربمامالوا الی ھذا المعنی والیہ اشاروا من دون تعیین لجھۃ ففی البحرالرائق وردالمحتارعن السراج ینبغی للمؤذن ان یؤذن فی موضع یکون اسمع للجیران ۳؎۔
اذان کی مشروعیت نماز کی اطلاع کے لئے ہے تو یہ مقصود جس احسن طریقہ سے حاصل ہوگااسے اپنایا جائے بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ائمہ عموماً اسی معنی کی طرف مائل ہوئے ہیں اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی جہت کا تعین نہیں کیا۔البحرالرائق اور ردالمحتار میں سراج کے حوالے سے ہے مؤذن ایسی جگہ اذان دے کہ وہاں سے گردونواح کے لوگوں کو زیادہ آواز پہنچے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار باب الاذن مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۸۳)
اوراقامت کی نسبت بھی تعیین جہت کہ دہنی جانب ہویابائیں فقیرکی نظر سے نہ گزری بلکہ ہمارے ائمہ تصریح فرماتے ہیں کہ افضل یہ ہے کہ امام خوداذان واقامت کہے،
فی الدرالمختارالافضل کون الامام ھو المؤذن ۱؎ انتھی وفی فتح القدیر الافضل کون الامام ھو المؤذن وھذامذھبنا وعلیہ کان ابوحنیفۃ ۲؎ انتھی وفی ردالمحتار السنۃ ان یقیم المؤذن ۳؎ انتھی وفیہ عن السراج ان اباحنیفۃ کان یباشرالاذان والاقامۃ بنفسہ ۴؎۔
درمختار میں ہے کہ افضل یہی ہے کہ امام خود مؤذن ہو، انتہی۔ اور فتح القدیر میں ہے کہ امام کا ہی مؤذن ہونا افضل ہے، یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی امام اعظم کی رائے ہے، انتہی۔ اور ردالمحتار میں ہے سنت یہ ہے کہ مؤذن تکبیر کہے،انتہی۔ اور اسی میں سراج سے ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ اذان واقامت خود کہتے تھے۔ (ت)
(۱؎ الدرالمختار باب الاذان مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۵)
(۲؎ فتح القدیر باب الاذن مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۲۲۳)
(۳؎ ردالمحتار باب الاذن مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۸۶)
(۴؎ردالمحتار باب الاذن مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۹۵)
اور علماء جائز رکھتے ہیں کہ جہاں اذان ہُوئی وہیں اقامت بھی کہی جائے، اور ظاہر ہے کہ اذان مسجد کے اندر نہیں ہوتی بلکہ مکروہ ہے پھر جب بیانِ افضلیت پر آتے ہیں تو اسی قدر فرماتے ہیں کہ اقامت کا مسجدمیںہونا بہتر ہے اور یہاں لفظ کو مطلق چھوڑتے ہیں تخصیصِ جہت کچھ نہیں کرتے،
ہاں اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ محاذاتِ امام پھر جانبِ راست مناسب ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۳۴) ۳ربیع الآخر شریف ۱۳۱۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذانیں واسطے طلبِ باراں کے مسجدوں میں کہنا درست ہے
یا نہیں؟ اور اس طرح سے بھی واسطے طلبِ باراں کے اذانیں کہنے کا ثبوت ہے کہ امام سورہ پڑھے اور ہرمبین پر اذان کہے اور سب مقتدی بھی اس کے ساتھ اذانیں کہیں،مطلق اذان میں کانوں میں انگلیاں رکھ کر ان کو ہلانا اور گھمانا کیسا ہے؟ بینّوا توجروا۔
الجواب: مسجد کے اندر وقتی اذان کہنا مکروہ ہے کمافی فتح القدیر وغیرہ (جیسا کہ فتح القدیر وغیرہ میں ہے۔ ت) مگر اذان بغرضِ طلب باراں یا دفعِ وبا بہ نیت اذان واعلان وطلب مردمان نہیں ہوتی بلکہ بہ نیت ذکر اور ذکر مسجد میں جائزہے پھراولٰی یہ ہے کہ بیرون مسجد فیصل وغیرہ رہواوراس میں اصلاً کوئی حرج نہیںکہ اذان ذکرِالٰہی ہے اور بارش رحمتِ الٰہی، اور ذکرِ الٰہی باعث نزولِ رحمتِ ہے،یونہی طریقہ مذکورہ ٰیس واذان بھی ازقبیل اعمال ہے جس کے لئے اس سے زیادہ کسی ثبوت کی حاجت نہیں کہ شرع سے اس کی ممانعت نہیں آئی ٰیس شریف کیلئے حدیث میں آیا: ٰیس لماقرء لہ سورہ ٰیس اُس کام کے لئے ہے جس لئے پڑھی جائے یعنی جس نیت سے پڑھی جائے اللہ تعالٰی عطا فرمائے۔ اذان میں انگلیاں کان میں رکھنا مسنون ومستحب ہے مگر ہلانا اور گھمانا حرکت فضول ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۳۵) ۴ جمادی الاخری ۱۳۱۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین بے وضو اذان کہناجائز ہے یا ناجائز؟
الجواب جائز ہے با یں معنے کہ اذان ہوجائے گی مگر چاہئے نہیں، حدیث میں اس سے ممانعت آئی ہے، ولہذا علّامہ شرنبلالی نے نظر بحدیث کراہت اختیار فرمائی، واللہ تعالٰی اعلم۔