Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
81 - 157
فی الدرالمختار (درمختار میں ہے): اقام غیر من اذن بغیبتہ ای المؤذن لایکرہ مطلقا وان بحضورہ کرہ ان لحقہ وحشۃ ۲؎۔
مؤذن کی غیر موجودگی میں غیر کا تکبیر کہنا مطلقاً مکروہ نہیں البتہ جب مؤذن موجود ہو اور اس پر گراں گزرے تو مکروہ ہے۔ (ت)
 (۲؎ الدرالمختار        باب الاذان            مطبوعہ مجتبائی دہلی        ۱/۶۴)
ردالمحتار میں ہے: ھذااختیارخواہر زادہ ومشی علیہ فی الدرروالخانیۃ لکن فی الخلاصۃ وان لم یرض بہ یکرہ وجواب الروایۃ انہ لاباس بہ مطلقا اھ قلت وبہ صرح الامام الطحاوی فی معانی الآثار معزیاالی ائمتناالثلثۃوقال فی البحر ویدل علیہ اطلاق قول الممجمع ولانکرھھامن غیرہ فمافی شرحہ لابن ملک من انہ لوحضرولم یرض یکرہ اتفاقا فیہ نظر اھ وکذایدل علیہ اطلاق الکافی معللا بان کل واحد ذکر فلاباس بان یأتی بکل واحد رجل اٰخر ولکن الافضل ان یکون المؤذن ھو المقیم ۳؎ اھ الخ
یہ خواہر زادہ کامختارہے اوریہی درراورخانیہ میںہے لیکن خلاصہ میںہے اور اگر وہ راضی نہ ہو تو کراہت ہے اور روایت کا جواب یہ ہے کہ اس میں مطلقاً کوئی حرج نہیں اھ میں کہتا ہوں امام طحاوی سے معانی الآثارمیں ہمارے تینوں ائمہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے یہی تصریح کی ہے،اور بحر میں فرمایا قول مجمع کا اطلاق کہ ہم اسے غیر سے مکروہ نہیں سمجھتے اسی پر دال ہے اس کی شرح لابن ملک میں جو ہے کہ اگر مؤذن موجود ہواور وہ راضی نہ ہو تو اتفاقاً مکروہ ہے اس میں نظر ہے اور کافی کا اطلاق بھی اسی پر دال ہے اور استدلال یہ ہے کہ ہر ایک ذکر ہے اگر ہر ایک ذکر کو دُوسرا بجالائے تو اس میں کوئی حرج نہیں،ہاں افضل یہ ہے کہ مؤذن ہی تکبیر کہے۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار        مطلب فے المؤذن اذاکان غیر مستحب فی اذانہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۹۱)
اقول: اذاحملناالکراھۃعلی کراھۃالتنزیہ ونَفَیھا علی التحریم حصل الوفاق الاتری الٰی قول الکافی النافی کیف یقول لاباس ولکن الافضل وکذلک عبرالامام الطحاوی وغیرہ بلاباس وقدصرحوا ان مرجعہ الی کراھۃ التنزیہ۔
اقول: جب ہم کراہت کو کراہت تنزیہی اور اسکی نفی کو کراہت تحریم پر محمول کریں تومسئلہ میںاتفاق ہوجائے گا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کافی نے نفیِ کراہت کا قول کرتے ہوئے ''لاباس'' اور''لکن الافضل'' کہا اور اسی طرح امام طحاوی وغیرہ نے بھی ''لابأس''سے تعبیر کیا حالانکہ فقہأ نے تصریح کی ہے کہ اس سے کراہت تنزیہی ثابت ہوتی ہے۔ (ت)

پھر یہ استمرار کا دعوٰی کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ اذان کہتے اور اقامت دوسرے صاحب کہا کرتے تھے کسی حدیث سے ثابت نہیں،ہاں حدیث میں ایک بار کا یہ ذکر آیا ہے کہ جب عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خواب میں اذان دیکھی اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی، ارشاد ہوا: بلال کو سکھا دو کہ اُن کی آواز بلند تر ہے۔ بلال رضی اللہ تعالٰی عنہنے اذان کہی جب تکبیر کہنی چاہی عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نادم ہُوئے اور عرض کی: خواب تو میں نے دیکھا تھا میں تکبیر کہنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: تو تمہیں کہو۔ انہوں نے تکبیر کہی رواہ الامام احمد وابوداود ۱؎ والطحاوی عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (اسے امام احمد، ابوداؤد اور طحاوی نے اُنہیں صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)
 (۱؎ سنن ابی داؤد    الرجل یؤذن ویقیم آخر    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/۷۶)
یہ حدیث کچھ ہمارے مخالف نہیںکہ کلام اُس صورت میں ہے جب مؤذن کو ناگوار گزرے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اذن کے بعد بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ناگواری کاکیا احتمال، مع ہذا یہ حدیث ابتدائے امر کی ہے کہ وہ پہلی اذان تھی کہ اسلام میں کہی گئی اور حدیث متقدم اُس سے متأخر ہے تاہم ثبوت صرف افضلیت کا ہے نہ کہ اقامتِ غیر کی ممانعت کمالایخفی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۲۸)     ۶ رمضان المعظم ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ خطیب کے سامنے جو اذان ہوتی ہے مقتدیوں کو اُس کا جواب دینا اور جب وہ خطبوں کے درمیان جلسہ کرے مقتدیوں کو دُعا کرناچاہئے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: ہرگز نہ چاہئے یہی احوط ہے ردالمحتار میں ہیـ:
اجابۃ الاذان حَ مکروھۃ ۲؎
 (اذان کا جواب اُس وقت مکروہ ہے۔ ت)
 (۲؎ ردالمحتار        باب الجمعہ       مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/۶۰۷)
نہرالفائق پھر دُرمختار میں ہے: ینبغی ان لایجیب بلسانہ اتفاقا فی الاذان بین یدی الخطیب ۱؎۔
اس بات پر اتفاق ہے کہ خطیب کے سامنے کی اذان کا جواب زبانی نہیں دینا چاہئے۔ (ت)
 (۱؎ الدرالمختار ، باب الاذان ، مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۶۵)
اُسی میں ہے: اذا خرج الامام من الحجرۃ ان کان والا فقیامہ للصعود فلاصلاۃ ولاکلام الی تمامھا وقالا لاباس بالکلام قبل الخطبۃ وبعدما اذاجلس عندالثانی والخلاف فی کلام یتعلق بالاٰخرۃ اماغیرہ فیکرہ اجماعاً وعلی ھذا فالترقیۃ المتعارفۃ فی زماننا تکرہ عندہ والعجب ان المرقی ینھی عن الامر بالمعروف بمقتضی حدیثہ ثم یقول انصتوا رحمکم اللّٰہ ۲؎ اھ ملخصا
اور جب امام حجرہ سے نکلے اگر حجرہ ہو ورنہ امام کا منبر پر چڑھنے کے لئے کھڑا ہونا معتبر ہے۔ تو اس وقت سے تمام خطبہ تک نہ کوئی نماز جائز ہے نہ کوئی کلام۔ اور صاحبین نے کہا: خطبہ سے پہلے اور بعد کلام میں کوئی حرج نہیں۔ اور امام ابویوسف کے نزدیک جب امام بیٹھے اس وقت بھی کلام میں حرج نہیں۔ اور اختلاف امام صاحب اور صاحبین کا اس کلام میں ہے جو آخرت سے متعلق ہو، کلامِ آخرت کے علاوہ دنیاوی کلام بالاتفاق مکروہ ہے۔ اسی بنا پر(خطیب کے سامنے) آیہ کریمہ ان اللّٰہ وملئکۃ الخ کا پڑھنا جیسا کہ ہمارے زمانے میں معروف ہے امام اعظم کے نزدیک مکروہ ہے، تعجب اس بات کا ہے کہ آیت مذکورہ کو پڑھنے والا حدیث شریف کے تقاضے کے مطابق دوسروں کو نیکی کا حکم دینے سے منع کرتا ہے پھر خود کہتا ہے چُپ رہو۔ اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے اھ ملخصا (ت)
 (۲؎الدرالمختار  کتاب الصلوٰۃ      باب الجمعۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۱۱۳)
ہاں یہ جوابِ اذان یا دُعا اگر صرف دل سے کریں زبان سے تلفّظ اصلاً نہ ہوتو کوئی حرج نہیں
کماافادہ کلام علی القاری وفروع فی کتب المذہب
 (جیسا کہ ملّا علی قاری کے بیان سے مستفاد ہے اور دیگر فروع کتب مذہب میں ہیں۔ ت)اور امام یعنی خطیب تو اگر زبان سے بھی جوابِ اذان دے یا دعا کرے بلاشبہہ جائز ہے وقدصح کلا الامرین عن سیدالکونین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی صحیح البخاری وغیرہ (صحیح بخاری وغیرہ میں ہے یہ دونوں امورسید کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ ت) یہ قول مجمل ہے
وتفصیل المقام مع نھایۃ العنایۃ وازالۃ الاوھام فی فتاوٰنا بتافیق الملک العلام
 (اس مقام کی خوب تفصیل اور ازالہ اوہام اللہ تعالٰی کی توفیق سے ہم نے اپنے فتاوٰی میں ذکر کئے ہیں۔ ت) واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ (۳۲۹) از موضع بکہ جبنی والہ علاقہ جاگل تھانہ ہری پور ڈاک خانہ نجیب اللہ خان مرسلہ مولوی شیر محمد صاحب    ۲۳ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسائل میں اذان دینی واسطے بارش کے درست ہے یا نہیں؟
الجواب: درست ہے
اذلا حظرمن الشرع
 (اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔ ت) اذان ذکرِ الٰہی ہے اور بارش رحمتِ الٰہی، اور ذکرِ الٰہی باعثِ نزول رحمتِ الٰہی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter