Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
80 - 157
نظیر اس کی ''یفعل ویقول'' ہے کہ ظاہراً مفید وجوب ہے
کمانص علیہ ایضاً فیھا
 (جیسا کہ اس پر بھی اس میں تصریح ہے۔ ت)یونہی عبارت نظم میں لفظ ''یکرہ'' کہ غالباًکراہت مطلقہ سے کراہت تحریم مراد ہوتی ہے :
کمافی الدرالمختاروردالمھتار وغیرھما من الاسفار ویؤیدہ منع رفع الصوت فی المساجد کمافی حدیث ابن ماجۃ جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم وسل سیوفکم ورفع اصواتکم ۳؎ وقدنھوا عن رفع الصوت بحضرۃ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وحذروا علی ذلک من حبط الاعمال والحضرۃالالٰھیۃ احق بالادب کماتری یوم القیمۃ ''وخشعت الاصوات للرحمٰن فلاتسمع الاھمسا''وبھذا یضعف مایظن ان لیسفیہ الاخلاف السنۃ فلایکرہ الاتنزیھا علی ان التحقیق ان خلاف السنۃ المتوسطۃ متوسط بین کراھتی التنزیہ والتحریم وھو المُعبّر بالاساء ۃ کماسیظھر لمن لہ المام بخدمۃ العلمین الشرفین الفقہ والحدیث فلیراجع ولیحرر واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
جیسا کہ دُرمختار، ردالمحتار اور دیگر معتبر کتب میں ہے اور مساجدمیںبلندآواز سے منع کرنا بھی اس کی تائید کرتا ہے جیسا کہ حدیث ابن ماجہ میں ہے، اپنی مساجد کو اپنے ناسمجھ بچّوں سے، دیوانوں سے، تلواروں کو سَونتنے سے اور آوازوں کو بلند کرنے والوں سے محفوظ رکھو،اور بارگاہِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس پر تمام اعمال کے ضائع ہونے کی دھمکی دی گئی ہے،اور بارگاہِ خداوندی اس ادب واحترام کے زیادہ لائق ہے جیسا کہ تم قیامت کے روز دیکھو گے رحمٰن کے لئے تمام آوازیں پست ہوجائیں گی تو تُو نہیں سنے گا مگر بہت آہستہ آواز۔ اس گفتگو سے یہ گمان وقول ضعیف ہوجاتا ہے کہ یہ عمل صرف خلاف سنت ہے تو اس میں صرف کراہت تنزیہی ہے۔ علاوہ ازیں تحقیق یہ ہے سنتِ متوسطہ کا خلاف کراہت تنزیہی اور تحریمی کے درمیان ہوتا ہے اور اس کو ''اساء ۃ'' سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ یہ اس شخص پر ظاہر ہوجائیگا جس نے دو۲ مقدس علوم حدیث وفقہ کی خدمت کی ہے اس کی طرف رجوع کیا جائے اور اسے ذہن نشین کرنا چاہئے۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۳؎ سُنن ابن ماجہ    باب مایکرہ فی المساجد    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۵۵)
مسئلہ (۳۲۶)     ۲۹ صفر ۱۳۱۱ھ:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ جمیع وقت پنجگانہ نماز میں بعد اذان کے لازم پکڑنا مؤذن کا ہر نمازی کوبآواز بلانا اور نمازیوں کااسی لحاظ سے اذان پر خیال نہ رکھنا بلکہ بعد اذان کے بُلانے سے آنا اس صورت میں بلانا مؤذن کا بعد اذان کے چاہئے یا نہیں،دوسرے یہ کہ امام کے انتظار میں وقت میں تاخیر کرنامقتدیوں کو درست ہے یا نہیں؟اور فجر کی سنتیں بعد جماعتِ فرض مسبوق ادا کرے درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب جب نمازی اذان سے آجاتے ہوں توبلاوجہ بعداذان ہر شخص کو جُداجدابلانے کا التزام کرناجس سے اُنہیں اذان پرآنے کی عادت جاتی رہے نہ چاہئے
فان فیہ علی ھذا التقدیراخلاء للاذان عمایقصد بہ
 (کیونکہ ایسی صورت میں اذان کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ ت)اور وقت کراہت تک انتظارِ امام میں ہرگز تاخیر نہ کریں،ہاں وقتِ مستحب تک انتطار باعثِ زیادت اجر وتحصیلِ فضیلت ہے پھر اگر وقت طویل ہے اورآخر وقت مستحب تک تاخیر حاضرین پرشاق نہ ہوگی کہ سب اُس پر راضی ہیں تو جہاں تک تاخیر ہو اُتنا ہی ثواب ہے کہ یہ ساراوقت اُن کا نماز ہی میں لکھا جائیگا،
وقدصحّ عن الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم انتظار النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حتی مضی نحومن شطر اللیل وقداقرھم علیہ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وقال انکم لن تزالوا فی صلاۃما انتظرتم الصلاۃ ۱؎۔
یہ بات صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم رات گئے تک نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا انتظار کرتے حتی کہ رات کا ایک حصہ گزرجاتااور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انکے اس عمل کی تصویب فرمائی اور ارشاد فرمایا: جتنا وقت تم نماز کا انتظار کرتے ہویہ سارا وقت تم نماز میں ہی ہوتے ہو۔ (ت)
 (۱؎ الصحیح لمسلم        باب فضل الصلواۃ المکتوبۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۳۴)
ورنہ اوسط درجہ تاخیر میں حرج نہیں جہاں تک کہ حاضرین پر شاق نہ ہو۔
فی الانقرویۃ عن التاتارخانیۃعن المنتقی للامام الحاکم الشھیدان تاخیرالمؤذن وتطویل القرأۃ لادراک بعض الناس حرام ھذا اذاکان لاھل الدنیا تطویلاً وتاخیراً یشق علی الناس والحاصل ان التاخیر القلیل لاعانۃاھل الخیرغیرمکروہ ولاباس بان ینتظر الامام انتظاراً وسطا ۲؎۔
انقرویہ میںتاتارخانیہ سے اور اس میں امام حاکم الشہید کی منتقی سے ہے کہ مؤذن کااقامت کو مؤخر کرنا اور امام کا قرأت کو لمبا کرنا تاکہ بعض خاص لوگ جماعت کو پالیں حرام ہے یہ حرمت اس وقت ہے جب یہ طوالت وتاخیر کسی دنیا دار کے لئے ہو اور لوگوں پر یہ شاق گزرے حاصل یہ ہے کہ تھوڑی تاخیر تاکہ اہلِ خیر شریک ہوجائیں مکروہ نہیں،امام کو اوسط درجہ کا انتظار کرنا جائز ہے۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی انقرویہ    کتاب الصلوٰۃ   مطبوعہ الاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ۱/۵)
اورسنّتِ فجرکہ تنہافوت ہوئیں یعنی فرض پڑھ لیے سُنّتیں رہ گئیں اُن کی قضا کرے تو بعد بلندیئ آفتاب پیش ازنصف النہارشرعی کرے طلوعِ شمس سے پہلے اُن کی قضا ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک ممنوع وناجائز ہے،
لقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاصلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس ۳؎۔
کیونکہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے: صبح کے بعد کوئی نماز جائز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے۔ (ت)
 (۳؎ صحیح بخاری      کتاب الصلوٰۃ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۸۳)
واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ (۳۲۷) از کلکتہ دھرم تلا ۶ مرسلہ جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب ۵رجب ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مؤذن کی بغیر اجازت دوسرا شخص اقامت کہہ سکتا ہے یا نہیں؟درصورت عدمِ جواز بدون اجازتِ مؤذن سائل حدیث شریف سے سند چاہتاہے اور کہتاہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ اذان کہتے اور اقامت دوسرے صاحب کہاکرتے۔ بینوا توجروا۔
الجواب : ناجائز نہیں، ہاں خلاف اولی ہے اگر مؤذن حاضر ہو اور اسے گراں گزرے ورنہ اتنا بھی نہیں۔ مسند امام احمد وسنن اربعہ وشرح معانی الآثار میںزیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، میں نے اذان کہی تھی بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تکبیر کہنی چاہی فرمایا:
یقیم اخو صداء فان من اذن فھو یقیم ۱؎
قبیلہ صداء کا بھائی اقامت کہے گا کہ جواذ ان دے وہی تکبیر کہے۔
 (۱؎ شرح معانی الآثار    باب الرجلین یؤذن احدہما ویقیم الآخر    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۹۸)
Flag Counter