(اپنے رب کی یاد سے مراد نمازِ عصر ہے۔ ت)
(۵؎ تفسیر جلالین زیرایت مذکور مطبع مجتبائی دہلی ص۳۸۰)
مدارک میں ہے:غفل عن العصر وکانت فرضا فاغتم ۶؎۔
عصر سے غافل ہوگئے تھے اور وہ ان پر فرض تھی اس لئے غمزدہ ہوگئے۔ (ت)
(۶؎ تفسیر النسفی المعروف تفسیر مدارک التنزیل زیر آیت مذکور مطبوعہ دارالکتاب العربی البیروت ۴/۴۱)
اور سلیمٰن علیہ الصلاۃ والسلام کا زمانہ یونس وعزیر علیہم الصّلاۃ والسلام سے مقدم ہے تو اولیت صلاۃ عصران دونوں صاحبوں کیلئے کیونکر ہوسکتی ہے۔
نسیم الریاض میں زیرِ حدیث ماینبغی لاحد ان یقول اناخیر من یونس بن متی ھو من ولد بنیامین بن یعقوب علیھم الصلاۃ والسلام، وکان بعد سلیمٰن علیہ الصلاۃ والسلام ۱؎ اھ وفیہ فی فصل حکم عقد قلب النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، یونس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، کمافی مراٰۃ الزمان، کان بعد سلیمٰن نبی اللّٰہ، علیہ الصلاۃ والسلام ۲؎۔
کسی کیلئے یہ کہنا روا نہیں کہ میں یونس ابن متی سے افضل ہوں۔ ت) ہے:یونس، بنیامین ابن یعقوب علیہم السلام کی اولاد میں سے تھے اور سلیمان علیہ السلام کے بعد تھے اھ نسیم الریاض ہی کی اس فصل میں، جس کا عنوان ہے حکم عقد قلب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، مرأۃ الزمان کے حوالے سے مذکور ہے کہ یونس علیہ السلام اللہ کے نبی سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد تھے۔ (ت)
(۱؎ نسیم الریاض شرح الشفاء فصل فی حکم عقد قلب النبی صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۴/۲۳)
(۲؎ نسیم الریاض شرح الشفاء فصل فی حکم عقد قلب النبی صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۴/۲۳)
یہ تو یونس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت تصریح تھی اور حضرت عزیر کا سیدنا سلیمان علیہما الصلاۃ والسلام کے بعد ہونا خود ظاہر کہ اُن کا واقعہ موت وحیات کہ قرآن عظیم میں مذکور بعد اس کے ہوا کہ بخت نصربیت المقدس کو ویران کرگیا تھا اور احادیث سے ثابت کہ بیت المقدس کی بناء داؤد علیہ الصلاۃ والسلام نے شروع اور سلیمان علیہ الصّلاۃ نے ختم فرمائی تو سلیمان وعزیر علیہما الصلاۃ والسلام میں صدہاسال کا فاصلہ تھا، معالم التنزیل میں ہے:
قال الذی قال ان المارکان عزیرا: ان بختنصر لماخرب بیت المقدس واقدم سبی بنی اسرائیل ببابل، کان فیھم عزیر ودانیال وسبعۃ الاف من اھل بیت داؤد علیھم الصلاۃ والسلام، فلما نجاعزیر من بابل ارتحل علی حمارلہ ۳؎۔ الخ
جس نے کہا ہے کہ گزرنے والے عزیر تھے، اس نے بیان کیا ہے کہ بخت نصر نے جب بیت المقدس کو برباد کردیا اور بنی اسرائیل کو قید کرکے بابل لے آیا تو ان میں عزیر اور دانیال کے علاوہ داؤد علیہم السلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والے سات ہزار افراد بھی تھے۔ پھر جب اللہ تعالٰی نے عزیر کو نجات دی اور وہ اپنے گدھے پر سوار ہوکر سفر کے لئے نکلے۔ الخ (ت)
(۳؎ تفسیر معالم التنزیل زیر آیت اوکالذی مرعلی قریۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۷۷)
اُسی میں ہے: یعملون لہ مایشاء من محاریب کان مماعملوا لہ بیت المقدس، ابتدأہ داؤد علیہ الصلوۃ والسلام، فلما توفاہ اللّٰہ تعالی استخلف سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام، فبنی المسجد بالرخام والجواھر واللاٰلیئ والیواقیت، فلم یزل بیت المقدس علی مابناہ سلیمٰن علیہ الصلوۃ والسلام، حتی غزاہ بخت نصر، فخرب المدینۃ ونقض المسجد ۱؎ اھ ملتقطا۔
(بناتے تھے اس کے لئے جو وہ چاہتا تھا یعنی محراب وغیرہ) جِنوں نے جو کُچھ ان کے لئے بنایا ان میں ایک بیت المقدس بھی تھی جس کی ابتداء داؤد علیہ السلام نے کی تھی، ان کی وفات کے بعد سلیمان علیہ السلام ان کے جانشین ہوئے تو انہوں نے مسجد کو سنگ رخام، ہیروں موتیوں، اور یاقوتوں سے بنوایا، یہ مسجد مدتوں اسی طرح برقرار رہی جس طرح سلیمان علیہ السلام نے بنوائی تھی تا آنکہ بخت نصر اس پر حملہ آور ہوا، اس نے شہر برباد کردیا اور مسجد گرادی اھ ملتقطا (ت)
بخلاف قول چہارم کہ اس کی کسی بات پر اعتراض نہیں تو ظاہراً وہی مرجح وقرین قیاس اور حقیقتِ حال کا علم مولٰی سبحٰنہ کے پاس واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم۔
(۱؎ معالم التنزیل مع الخازن آیت یعملون لہ مایشاء الخ کے تحت مصطفی البابی مصر ص۲۸۴۔۲۸۵)