Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
79 - 157
متن علامہ غزی تمرتاشی میں ہے: یثوب الافی المغرب ۲؎
 (مغرب کے علاوہ ہر نماز کے لئے تثویب کہی جائے۔ ت)
شرح محقق علائی میں ہے: یثوب بین الاذان والاقامۃ فی الکل للکل بماتعارفوہ ۳؎ الخ
 (اذان اور اقامت کے درمیان متعارف ومروجہ طریقہ پر تمام نمازوں میں ہر ایک کے لئے تثویب کہی جائے۔ الخ ت)
 (۲؎ و ۳؎ درمختار     فصل الاذان        مجتبائی دہلی        ۱/۶۳)
حاشیہ آفندی محمد بن عابدین میں ہے: قولہ یثوب،التثویب العودالی الاعلام بعدالاعلام دررقولہ فی الکل ای کل الصلوات لظھور التوانی فی الامور الدینیۃ قولہ بماتعارفوہ کتنحنح اوقام قام اوالصلاۃ الصلاۃ ولواحدثوا اعلاماً مخالفاً لذلک جازنھرعن المجتبی ۴؎ اھ ملتقطاً۔
قولہ یثوب،تثویب، اطلاع کے بعد اطلاع کو کہا جاتا ہے۔ درر، قولہ فی الکل یعنی تمام نمازوں میں کہنی چاہئے کیونکہ امورِ دینیہ کے بجا لانے میں بہت سُستی وکاہلی آچکی ہے، قولہ بماتعارفوا مثلاً کھانسنا یا نماز کھڑی ہوگئی نماز کھڑی ہوگئی یا نماز نماز، اگر کوئی اور طریقہ اس کے علاوہ اپنالیں تب بھی جائز ہے۔
 (۴؎ ردالمحتار،  فصل الاذان ، مصطفی البابی مصر  ، ۱/۲۸۶)
نہر نے مجتبی سے نقل کیا ہے، اختصاراً۔ (ت) شرح الوافی للامام المصنّف العلام حافظ الدین ابی البرکات النسفی میں ہے: تثویب کل بلدۃ علی ماتعارفوہ لانہ للمبالغۃ فی الاعلام وانمایحصل ذلک بماتعارفوہ اھ ملخصاً ۵؎۔
ہر شہر کی تثویب اسی طریقہ پر ہوگی جو وہاں متعارف ہے کیونکہ یہ اعلان میں مبالغہ کے لئے ہے اور وہ متعارف ومشہور طریقہ سے حاصل ہوگا۔ (ت)
 (۵؎ شرح الوافی للنسفی    )
اور ماہ مبارک رمضان سے اُس کی تخصیص بے جا نہیں کہ لوگ افطار کے بعد کھانے پینے میں مشغول اور نفس آرام کی طرف مائل ہوتے ہیں لہذا تنبیہ بعد تنبیہ مناسب ہُوئی جس طرح نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اذانِ فجر میں الصلاۃ خیر من النوم ۶؎ مقرر کرنے کی اجازت عطا فرمائی اخرجہ الطبرانی فی المعجم الکبیرعن سیدنا بلال رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (طبرانی نے معجم کبیر میں سیدنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ نقل کیا ہے۔ ت)
 (۶؎ المعجم الکبیر للطبرانی    مسند بلال بن رباح        مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت        ۱/۳۵۵)
ہدایہ میں ہے: خص الفجر بہ لانہ وقت نوم وغفلۃ ۱؎
(وقتِ فجر کو مخصوص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ وقت نیند اور غفلت کا وقت ہوتا ہے۔ ت)
بالجملہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر مسلمانوں  میں نزاع ڈالی جائے اور فتنہ انگیزی کرکے تفریق جماعت کی راہ نکالی جائے جو ایسا کرتا ہے سخت جاہل اور مقاصد شرع سے بالکل غافل ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ ہدایہ   باب الاذان ،  مطبوعہ المکتبۃ العربیہ کراچی        ۱/۷۰)
مسئلہ (۳۲۵) از بلگرام ضلع ہردوئی محلہ میدان پورہ مرسلہ حضرت سید ابراہیم صاحب مارہروی    ۲۰ صفر ۱۳۱۱ھ

اذان دینا اندرمسجد کے آپ نے فرمایا تھا مکروہ ہے،میں نے یہاں کے لوگوں سے ذکر کیا اُن لوگوں نے کتاب کا ثبوت چاہا اُمید کہ نام کتاب مع بیان مقام کہ فلاں مقام پر لکھاہے تکلیف فرماکر لکھا جائے اور یہ بھی لکھا جائے کہ کون سا مکروہ ہے؟
الجواب: فتاوائے امام اجل قاضی خان وفتاوائے خلاصہ وبحرالرائق شرح کنز الدقائق وشرح نقایہ للعلامۃ عبدالعلی البرجندی وفتاوٰی عٰلمگیریہ وحاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح وفتح القدیر شرح ہدایہ وغیرہا میں اس کی منع وکراہت کی تصریح فرمائی امام فخرالملّۃ والدّین اوزجندی فرماتے ہیں:
ینبغی ان یؤذن علی المئذنۃ اوخارج السجد ولایؤذن فی المسجد ۲؎۔
اذان مینار پر یا مسجد کے باہر دی جائے مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خان، مسائل الاذان    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ  ۱/۳۷)
امام طاہر بن احمد بخاری فرماتے ہیں:
لایؤذن فی المسجد ۳؎
 (مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ ت)
 (۳؎ خلاصۃ الفتاوی    الفصل الاول فی الاذان    مطبع نولکشور لکھنؤ        ۱/۴۹)
علامہ زین بن نجیم وعلامہ عبدالعلی برجندی نے ان سے اور فتاوائے ہندیہ میں امام قاضی خان سے عباراتِ مذکورہ نقل فرماکر مقرر رکھیں علّامہ سید احمد مصری نے فرمایا:
یکرہ ان یؤذن فی المسجد کمافی القھستانی عن النظم ۴؎
 (مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ قہستانی نے نظم سے نقل کیا ہے۔ ت)
(۴؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح     باب الاذان    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص ۱۰۷)
امام اجل کمال الدین محمد بن الہمام فرماتے ہیں: الاقامۃ فی المسجدولابدمنہ واماالاذان فعلی المئذنۃ فان لم تکن ففی فناء المسجد وقالوا لایؤذن فی المسجد ۱؎۔
تکبیر مسجد کے اندر کہی جائے اور اس کے بغیر کوئی اور صورت نہیں البتہ اذان منارہ پر دی جائے، اگر وہ نہ ہوتو فنائے مسجد میں دینی چاہئے اور فقہا نے بیان کیا ہے کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ ت)
 (۱؎ فتح القدیر        باب الاذان        مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱/۲۱۵    )
اور اس مسئلہ میں نوع کراہت کی تصریح کلمات علما سے اس وقت نظرِ فقیرمیں نہیںہاں صیغہ ''لایفعل'' سے متبادر کراہت تحریم ہے کہ فقہائے کرام کی یہ عبارت ظاہراً مشیر ممانعت وعدم اباحت ہوتی ہے علامہ محمد محمد محمد ابن امیرالحاج نے حلیہ میں فرمایا:
قول المص لایزید یشیر الی عدم اباحۃ الزیادۃ ۲؎
 (مصنف کا قول ''لایزید'' اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ زیادتی جائز نہیں۔ ت)
 (۲؎ حلیہ)
Flag Counter