Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
78 - 157
امام علامہ عینی اُس کی شرح عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں: ھذا التعلیق رواہ وکیع بن الجراح فی مصنفہ، فیما حکاہ ابن حزم عن سفیٰن بن سعید عن حمید عن انس، قال: رانی عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اصلی الی قبر فنہانی، فقال: القبر امامک۔ قال: وعن معمرعن ثابت عن انس، قال: رانی عمر اصلی عندقبر، فقال لی: القبر، لاتصل الیہ۔ قال ثابت: فکان انس یاخذ بیدی،اذااراد ان یصلی فیتنحی عن القبور۔ ورواہ ابونعیم شیخ البخاری عن حریث بن السائب، قال: سمعت الحسن یقول بینا انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ یصلی الٰی قبر فناداہ عمر،القبر، القبر، وظن انہ یعنی:القمر، فلما رأی انہ یعنی:القبر،تقدم وصلی وجاز القبر ۱؎ اھ اقول: وبہ ظھر ان معنی ''عند قبر'' فی تعلیق البخاری ''الی قبر'' وبمثلہ صنع العینی، اذقال بعدمانقلنا عنہ قولہ: القبر، القبر ای اتصلی عند القبر ۲؎ اھ۔ بل فی نفس حدیث انس بروایۃ ثابت، راٰنی عمر اصل عند قبر، فقال لاتصل الیہ ۳؎۔ کماسمعت۔ وبہ اتضح مافی الملتقی، یکرہ وطء القبر والجلوس والنوم علیہ والصلوۃ عندہ ۴؎ اھ فافھم واستقم۔
اِس تعلیق کو وکیع ابن جراح نے اپنے مصنَّف میں ذکر کیا ہے جیسا کہ اس کو ابن حزم نے سفیان ابن سعید سے، اس نے حمید سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا ہے، انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجھے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک قبر کی طرف نماز پڑھتے دیکھا تو مجھے منع کیا اور کہا: ''تمہارے سامنے قبر ہے''۔ ابن حزم نے کہا کہ معمر نے ثابت سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے کہ عمر نے مجھے ایک قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو کہا: ''قبر، اس کی طرف نماز مت پڑھو''۔ ثابت نے کہا کہ اس کے بعد انس جب نماز پڑھنا چاہتے تھے تو میرا ہاتھ تھام لیتے تھے اور قبروں سے ایک طرف ہٹ جاتے تھے۔ اور بخاری کے استاد ابونعیم نے حریث ابن السائبسے اس طرح روایت کی ہے کہ میں نے حسن کو کہتے سنا ہے کہ ایک دن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ قبر کی طرف نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آواز دی: ''قبر، قبر''۔ انہوں نے سمجھا کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ''قمر'' کہہ رہے ہیں، جب انہیں یقین ہوگیا کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ''قبر'' کہا ہے تو آگے بڑھ کر نماز پڑھنے لگے اور قبر سے گزرگئے۔ مَیں کہتا ہوں اس سے واضح ہوگیا کہ بخاری کی تعلیق میں ''قبر کے پاس'' سے مراد ''قبر کی طرف'' ہے۔ عینی نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے، چنانچہ انہوں نے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس قول ''قبر، قبر'' کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا تم ''قبر کی طرف'' نماز پڑھ رہے ہو! بلکہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بواسطہ ثابت جو روایت آتی ہے اس کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ مجھے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو کہا کہ ''قبر کی طرف'' نماز مت پڑھو، جیسا کہ یہ روایت تم پہلے سُن چکے ہو اسی سے واضح ہوگیا جو ملتقی میں ہے کہ قبر پر پاؤں رکھنا، اس پر بیٹھنا، اس پر سونا اور اس کے پاس نماز پڑھنا مکروہ ہے اھ (یعنی یہاں بھی ''اس کے پاس'' سے مراد ''اس کی طرف'' ہے۔ اس کو سمجھو اور استقامت اختیار کرو۔ (ت)
 (۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری    ھل تنبش قبور مشر کی الجاہلیۃ الخ    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت۴/۱۷۲)

(۲؎ و ۳؎ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری    ھل تنبش قبور مشر کی الجاہلیۃ الخ    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت۴/۱۷۲)

(۴؎ ملتقی الابحر مع مجمع الانہر    فصل فی الصلوٰۃ علی المیت    مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۱/۱۸۷)
مسئلہ تو قبر کا تھا،رہا مقبرہ اُس میں بھی اصل منشائے کراہت قبر ہے اور اس کی تعلیلیں ہمارے علمائے حنفیہ ہی نے تین طور پر کی ہیں ایک تشبہ اہلِ کتاب دوسرے یہ کہ عبادت اصنام اسی طرح پیدا ہوئی تیسرے محلِ نجاسات ہوناجیسے شیخ محقق نے اختیار فرمایا،حلیہ پھر ردالمحتار میں ہے:
واختلف فی علتہ، فقیل: لان فیھا عظام الموتی وصدیدھم، وھو نجس۔ وفیہ نظر، وقیل: لان اصل عبادۃ الاصنام اتخاذ قبورالصالحین مساجد۔ وقیل لانہ تشبہ بالیھود۔ وعلیہ مشی فی الخانیۃ ۱؎۔
اس میں اختلاف ہے کہ کراہت کی علّت کیا ہے، بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس میں مُردوں کی ہڈیاں اور پیپ ہوتی ہے جو کہ نجس ہے لیکن اس پر اعتراض ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ بتوں کی عبادت کا آغاز اسی طرح ہوا تھا کہ لوگوں نے نیک ہستیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ اس میں یہودیوں کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے۔ خانیہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۲۷۹)
ظاہر ہے کہ پہلی دو۲ تعلیلیں صرف اُس صورت کی کراہت بتاتی ہیں کہ نماز قبر کی طرف ہوکہ دہنے بائیں یا قبر کو پیچھے لے کر نہ شبہہ عبادت ہے نہ تشبّہ یہود، خود شاہ صاحب سے سائل نے نقل کیا کہ یہ مشابہت جمادات کو سجدہ کرنے میں ہوتی ہے انتہی ولہذا شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے لمعات التنقیح میں زیرِ حدیث
اجعلوا فی بیوتکم من صلاتکم ولاتتخذوھا قبورا
(گھروں میں بھی کچھ نمازیں پڑھا کرو اور گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ ت) فرمایا:
ای ولاتکونوا فی البیوت کالمیت، الذی لایعمل، اوتکونوا نائمین فتکونوا مشابھین للاموات،لان النوم اخرالموت،غیرمشتغلین بالعبادۃ، ثم اعلم، انھم اختلفوا فی الصلاۃ فی المقبرۃ،فکرھھاجماعۃ، وان کان المکان طاھرا، فتارۃ احتجوا بھذا الحدیث، لانہ یدل علی ان الصلوٰۃ لاتکون فی المقبرۃ، لانہ جعل کونھا قبوراکنایۃ عن عدم الصلاۃ فیھا، فیفھم ان لاصلٰوۃ فیھا۔وھذاضعیف لماذکرنامن معناہ،علی انہ ان دل فانما یدل علی عدم الصلاۃ فی القبر،لافی المقبرۃ، فافھم۔ وتارۃ بالحدیث السابق (ای قولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لعن اللّٰہ الیھود والنصاری اتخذوا قبورا نبیائھم مساجد) وھو ایضا لایتم لماعلم من المراد بہ (ای ماقدمناہ عنہ عن التورپشتی وغیرہ من الشراح، فانہ انمایدل علی منع التوجہ الی القبر، لا الصلاۃ فی المقبرۃ مطلقا) ومنھم من ذھب الی ان الصلاۃ فیھا جائزۃ، انکانت التربۃ طاھرۃ والمکان طیبا، ولم یکن من صدید الموتی وماینفصل عنھم من النجاسات ۱؎ اھ
یعنی تم گھروں میں اس طرح نہ رہا کرو جس طرح مُردہ ہوتا ہے کہ کوئی عمل نہیں کرتا،یایہ مرادہے کہ تم سوئے نہ رہاکرو،جس طرح مُردے سوئے پڑے ہیں،کیونکہ نیند موت کی بہن ہے۔یعنی یہ نہ ہوکہ مردوں کی طرح تم بھی کوئی عبادت نہ کرو۔ پھر یہ بات جانو کہ مقبرے میں نماز کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے، ایک جماعت اس کو مکروہ قرار دیتی ہے، اگرچہ جگہ پاک ہو، اور اس پر کبھی تو اسی حدیث کو دلیل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''گھروں کو قبریں نہ بناؤ'' سے معلوم ہوتا ہے کہ قبروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقبرے میں نماز نہیں ہوتی۔ لیکن یہ دلیل ضعیف ہے کیونکہ اس حدیث کا صحیح مفہوم ہم بیان کر آئے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر یہ حدیث نماز کے نہ ہونے پر دلالت کرے گی، تو قبر میں نماز نہ ہونے پر دلالت کرے گی نہ کہ مقبرے میں نہ ہونے پر۔ (جبکہ گفتگو مقبرے کے بارے میں میں ہورہی ہے) اس کو سمجھو، اور کبھی اس کی دلیل کو وہ حدیث پیشکرتے ہیں جو گزر چکی ہے (یعنی سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان کہ اللہ تعالٰی نے ان یہود ونصارٰی پر لعنت کی جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا تھا) یہ دلیل بھی نامکمل ہے جیسا کہ اس حدیث کی مراد سے معلوم ہوچکا (یعنی ہم نے تور پشتی وغیرہ شراح سے جو نقل کیا ہے کہ اس حدیث سے قبر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مقبرے میں مطلقاً نماز کی ممانعت۔ اور بعض فقہا کی رائے یہ ہے کہ مقبرے میں نماز جائز ہے بشرطیکہ وہاں کی مٹی پاک ہو، جگہ عمدہ ہو اور مردوں سے پیپ اور دیگر جو نجاستیں خارج ہوتی ہیں، وہاں نہ ہوں اھ (ت)
 (۱؎ لمعات التنقیح    باب المساجد ومواضع الصلوۃ    حدیث ۷۱۴مکتبہ المعارف العلمیہ لاہور    ۳/۵۳)
وانا اقول وباللّٰہ التوفیق (اور میں اللہ تعالٰی کی توفیق کے ساتھ کہتا ہوں۔ ت) تحقیق یہ ہے کہ عامہ مقابر میں ہر جگہ مظنہ قبر ہے مگر یہ کہ کوئی محل ابتدا سے دفن ہونے سے محفوظ رہاہو اور معلوم ہوکہ یہاں دفن واقع نہ ہوا، ولہذا ہمارے علما نے تصریح فرمائی کہ مقبرہ میں جو نیا راستہ نکالا گیا ہو اُس میں چلنا حرام ہے کہ قبورِ مسلمین کی بے ادبی ہوگی
طحاوی وردالمحتار فصل استنجا میں زیرقول ماتن یکرہ بول فی مقابر
(مقبروں میں پیشاب کرنا مکروہ ہے۔ ت) فرماتے ہیں:
لان المیت یتاذی بما یتاذی بہ الحی،والظاھر انھا تحریمیۃ لانھم نصواعلی ان المرورفی سکۃ حادثۃ فیھاحرام،فھذا اولٰی ۲؎،
کیونکہ جس کام سے زندہ انسان کو ایذاء پہنچتی ہے اُس سے مُردے کو بھی ایذا پہنچتی ہے۔اور ظاہر یہی ہے کہ کراہت تحریمی مراد ہے،کیونکہ فقہأ نے تصریح کی ہے کہ مقبرے میں جو نیاراستہ نکالا گیاہو اس پر چلنا حرام ہے، تو پیشاب کرنا تو بطریقِ اَولٰی حرام ہوگا۔ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار        فصل فی الاستنجاء        مطبع مصطفی البابی مصر        ۱/۲۵۲)
پھر قبریں کھودنے میں بطن زمین کی مٹّی اُوپر آتی ہے اور وہ اکثر وہی ہوتی ہے جو پہلے گلے ہُوئے اجسام کی نجاسات سے متنجس ہوچکی اور بند کرنے میں سب مٹّی صرف نہیں ہوجاتی تو جابجا متنجس مٹی کا پھیلا ہونا مظنون ہوتا ہے اور مظنہ قبر ومظنہ نجاست دونوں کراہت تنزیہہ کیلئے کافی ہیں کہ ظن اگر غالب ہوتا جو فقہیات میں ملتحق بیقین ہے تو بوجہ علت اول حکمِ کراہتِ تحریم ہوتا اور بوجہ علت ثانی بغیر کچھ بچھائے بطلانِ نماز کا حکم دیا جاتا از انجا کہ ظن اس حد کا نہیں صرف کراہت تنزیہہ رہی اور اب یہ حکم حکم صلاۃ علی القبر اور الی القبر سے جُدا پیدا ہوا کہ اس میں پیچھے یا آگے کسی قبر کا معلوم ہونا ضرور نہیں قبور معلومہ اگرچہ دہنے بائیں یا پیچھے ہوں جبکہ یہ زمین ایسی ہے جس میں قبر ونجاست کا مظنہ ہے حکمِ کراہت دیا جائے گا یہی محمل ہے اس کلام کا جو علّامہ طحطاوی نے حاشیہ مراقی الفلاح میں زیر قول شرنبلالی
تکرہ الصلاۃ فی المقبرۃ نقل فرمایا سواء کانت فوقہ اوخلفہ اوتحت ماھوواقف علیہ ۳؎ الخ
 (برابر ہے کہ مقبرہ اس کے اُوپر ہو یا پیچھے ہو یا جس چیز پر یہ کھڑا ہے اس کے نیچے ہو۔ ت)
 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح    فصل فی المکروہات    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۱۹۶)
اور یہی منشا ہے اطلاق متون کا ورنہ اگر مقبرہ میں کوئی جگہ صاف وپاک ہوکہ نہ اُس میں قبر ہونہ مصلی کا قبر سے سامناہوتووہاں نماز ہرگز مکروہ نہیں خانیہ(۱) ومنیہ(۲) وزاد(۳) الفقیرامام ابن الہمام وحلیہ(۴) وغنیہ(۵) وبحرالرائق(۶) وشرنبلالی(۷) علی الدرر وحلبی(۸) وطحطاوی(۹) وردالمحتار(۱۰)وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:
لاباس بالصلاۃ فیھا اذاکان فیھا موضع اعد للصلاۃ ولیس فیہ قبر ولانجاسۃ ۱؎۔
مقبرے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،اگر وہاں کوئی جگہ نماز کے لئے تیار کی گئی ہو اور اس میں قبر اور نجاست نہ ہو۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار            مطلب فی احکام المسجد    مطبع مصطفی البابی مصر        ۱/۴۸۴)
زادالفقیر کی عبارت یہ ہے: تکرہ الصلاۃ فی المقبرۃ الا ان یکون فیھا موضع اعد للصلاۃ لانجاسۃ فیہ ولاقذر ۲؎ فیہ اھ۔
مقبرے میں نماز مکروہ ہے، لیکن اگر وہاں نماز کے لئے کوئی جگہ تیار کی گئی ہو جس میں نجاست اور گندگی نہ ہوتو پھر مکروہ نہیں ہے۔ (ت)
باب الاذان والاقامۃ
اس تحقیق سے پہلے تین سوالوں کا جواب ظاہر ہوگیا کہ قبر پر نماز مطلقاً مکروہ ہے اور قبر کی طرف بھی جبکہ قبر موضع سجود میں مطلقاً یا گھر یامسجد صغیرمیں جانب قبلہ بلاحائل ہو اور اس کے لئے کچھ بہت سے قبور ہونادرکار نہیں، تنہا ایک ہی قبر ہو جب بھی یہی حکم ہے اور قبر دہنے یابائیں یا پیچھے ہواور زمین جہاں نماز پڑھتاہے پاک وصاف ہو تواصلاً کراہت نہیں،یہ حکم حضرت شیخ محقق نے نہ اپنی طرف سے لکھا نہ علمائے حنفیہ کے قول کے خلاف بلکہ عامہ کتب حنفیہ میں اس کی صاف تصریح ہے جیسا کہ گزرااورجب اس میں کراہت ہی نہیں تو سُترہ کی کیا حاجت اور مقابر میں جہاں مُردے دفن ہوتے چلے آئے ہیں اور ان میں قبر یا نجاست کا مظنہ ہے نماز مطلقاً مکروہ ہے اگرچہ قبور معلومہ پیچھے ہی ہوں مگر اُس صورت میں کہ کوئی زمین پاک صاف معلوم ہو اور اس کے قبلہ میں قبر بلاحائل بمعنی مذکور نہ ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۲۴)کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذان کے بعد صلاۃ کہنا جس طرح یہاں رمضان مبارک میں معمول ہے جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب:     اسے فقہ میں تثویب کہتے ہیں یعنی مسلمانوں کو نماز کی اطلاع اذان سے دے کر پھر دوبارہ اطلاع دینا اور وہ شہروں کے عرف پر ہے جہاں جس طرح اطلاعِ مکرر رائج ہو وہی تثویب ہے خواہ عام طور پر ہو جیسے ''صلاۃ'' کہی جاتی ہے یا خاص طریقہ پر، مثلاً کسی سے کہنا اذان ہوگئی یا جماعت کھڑی ہوتی ہے یا امام آگئے یا کوئی قول یا فعل ایسا جس میں دوبارہ اطلاع دینا ہو وہ سب تثویب ہے اور اس کا اور صلاۃ کا ایک حکم ہے یعنی جائز، جس کی اجازت سے عامہ کتب مذہب متون مثل تنویر(۱) الابصار وقایہ(۲) ونقایہ(۳) وغرر الاحکام(۴) وکنز(۵) وغرر الاذکار(۶) ووافی(۷) وملتقی(۸) واصلاح(۹)  نورالایضاح(۱۰)وشروحاننددرمختار(۱۱)وردالمحتار(۱۲)وطحطاوی(۱۳)وعنایہ(۱۴)ونہایہ(۱۵) وغنیہ(۱۶) شرح منیہ وصغیری(۱۷) وبحرالرائق(۱۸) ونہرالفائق(۱۹) وتبیین الحقائق (۲۰)وبرجندی(۲۱) وقہستانی(۲۲) ودرر(۲۳) وابن ملک(۲۴) وکافی(۲۵) ومجتبٰی(۲۶) وایضاح(۲۷) وامدادالفتاح (۲۸)ومراقی الفلاح(۲۹) وحاشیہ مراقی للعلامۃ الطحطاوی(۳۰)وفتاوٰی مثل ظہیریہ(۳۱) وخانیہ(۳۲) وخلاصہ(۳۳) وخزانۃ المفتین(۳۴) وجواہراخلاطی(۳۵) وعلمگیری(۳۶) وغیرہا مالامال ہیں، وھو الذی علیہ عامۃ الائمۃ المتاخرین والخلاف خلاف زمان لابرھان(عام ائمہ متاخرین اسی پر ہیں اور یہ اختلاف زمانی اختلاف ہے برہانی نہیں۔ ت)
مختصر الوقایہ میں ہے: التثویب حسن فی کل صلاۃ ۱؎
(تثویب ہر نماز کے لئے بہتر ہے۔ ت)
 (۱؎ مختصر الوقایہ فی مسائل الہدایہ    فصل الاذان        نور محمد کارخانہ تجارت کراچی    ص ۱۲)
Flag Counter