Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
77 - 157
علّامہ طاہر حنفی مجمع بحار الانوار میں فرماتے ہیں: لعن اللّٰہ الیھود والنصاری اتخذوا قبورانبیائھم مساجد۔کانوا یجعلونھا قبلۃ، یسجدون الیھا فی الصلاۃ،کالوثن،واما من اتخذ مسجدا فی جوارصالح،اوصلی فی مقبرۃ،قاصدابہ الاستظہار بروحہ،اووصول اثر مامن اٰثارعبادتہ الیہ،لاالتوجہ نحوہ والتعظیم لہ،فلاحرج فیہ؛الایری ان مرقد اسمٰعیل فی الحجر فی المسجد الحرام والصّلوٰۃ فیہ افضل ۱؎۔
لعنت بھیجے اللہ تعالٰی یہود ونصارٰی پر کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا یعنی ان کو قبلہ بنالیا اور نماز میں انہی کی طرف سجدہ کرتے تھے جیسا کہ بُت کے رُوبرو۔ ہاں اگر کسی نیک انسان کے پڑوس میں کوئی شخص مسجد بنائے یا ایسے ہی مقبرے میں نماز پڑھے اور مقصد یہ ہوکہ اس نیک انسان کی رُوح سے تقویت حاصل کرے یا اس کی عبادت کے اثرات سے کچھ اثر اس شخص تک پہنچ جائے،یہ مقصد نہ ہوکہ اس کی طرف منہ کرے اور اس کی تعظیم کرے، تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔ کیا معلوم نہیں ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی قبر مسجدِ حرام میں ہے، اس کے باوجود اس میں نماز افضل ہے۔ (ت)
 (۱؎ مجمع بحارالانوار    تحت لفظ قبر        مطبع نولکشور لکھنؤ        ۳/۱۰۴)
قاضی ناصرالدین بیضاوی شافعی پھر امام علامہ بدرالدین محمودِ عینی حنفی عمدۃ القاری پھر علّامہ احمد محمد خطیب قسطلانی شافعی ارشاد الساری شروح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: من اتخذ مسجدا فی جوار صالح وقصد التبرک بقرب منہ، لاالتعظیم ولاالتوجہ الیہ، فلایدخل فی الوعید المذکور ۲؎ اھ
جو شخص کسی نیک انسان کے پڑوس میں قبر بنائے اور مقصد یہ ہوکہ اس کے قُرب سے برکت حاصل کرے، اس کی تعظیم اور اس کی طرف منہ کرنا مقصود نہ ہوتو ایسا شخص حدیث میں مذکور وعید (یعنی لعنت) میں داخل نہیں ہوگا اھ (ت)
 (۲؎ ارشاد الساری    باب جواز الدفن بالدلیل    مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت    ۲/۴۳۸)
امام علّامہ تورپشتی حنفی شرح مصابیح میں زیرِ حدیث اتخذواقبورانبیائھم مساجد فرماتے ہیں: ھو مخرج علی وجھین،احدھما،انھم کانوایسجدون بقبورالانبیاء تعظیمالھم وقصدا للعبادۃ فی ذلک۔وثانیھما،انھم کانوا یتحرون الصلٰوۃ فی مدافن الانبیاء والتوجہ الٰی قبورھم فی حالۃ الصلوٰۃ،وکلا الطریقین غیرمرضیۃ، فامااذاوجدبقربھا موضع بنی للصلوٰۃ، اومکانایسلم المصلی فیہ عن التوجہ الی القبور،فانہ فی فسخہ من الامر۔وکذلک اذاصلی فی موضع قداشتھربان فیہ مدفن نبی،ولم یرفیہ للقبر علما،ولم یکن قصدہ ماذکرناہ من الشرک الخفی؛اذ قدتواطأت اخبارالامم علی ان مدفن اسمعیل علیہ الصلوۃ والسلام فی المسجد الحرام عندالحطیم،وھذاالمسجد افضل مکان یتحری الصلاۃ فیہ ۱؎ اھ مختصراً
اس کی دو۲ وجہیں ہیں: ایک تو یہ کہ یہود ونصارٰی قبورِ انبیاء کو بطورِ تعظیم اور بقصدِ عبادت سجدہ کیا کرتے تھے، دُوسری یہ کہ وہ انبیاء کے مقبروں میں نماز پڑھنے کی خصوصی طور پر کوشش کرتے تھے اور نماز میں ان کی طرف منہ کرتے تھے اور یہ دونوں طریقے ناپسندیدہ ہیں۔ ہاں اگر قبرستان کے قریب کوئی ایسی جگہ ہو جو بنائی ہی نماز کے لئے گئی ہو یا ایسی جگہ ہوکہ وہاں نماز پڑھنے والے کا منہ قبروں کی طرف نہ ہوتا ہو تو ایسی جگہوں پر نماز پڑھی جاسکتی ہے، اسی طرح اگر کسی ایسی جگہ میں نماز پڑھے جہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کس نبی کا مدفن ہے لیکن قبر کی کوئی علامت نظر نہ آتی ہو اور نمازی کا مقصد بھی شرکِ خفی نہ ہو (تو نماز پڑھنی جائز ہے)کیونکہ روایات اس پر متفق ہیں کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی قبر مسجد حرام میں حطیم کے پاس ہے اس کے باوجود یہ مسجد ان تمام جگہوں سے افضل ہے جہاں نماز پڑھنے کی جستجو کی جاتی ہے اھ مختصراً (ت)
شیخ محقق حنفی لمعات شرح مشکوٰۃ شریف میں اسے نقل کرکے فرماتے ہیں: وفی شرح الشیخ ایضا مثلہ، حیث قال: وخرج بذلک اتخاذ مسجد بجواز نبی اوصالح، وللصلاۃ عند قبرہ، لالتعظیمہ والتوجہ نحوہ؛ بل لحصول مددمنہ، حتی تکمل عبادتہ ببرکۃ مجاورتہ لتلک الروح الطاھرۃ، فلاحرج فی ذلک، لماوردان قبر اسمٰعیل علیہ الصلاۃ والسلام فی الحجر تحت المیزاب، وان فی الحطیم، بین الحجر الاسود وزمزم، قبر سبعین نبیا، ولم ینہ احد عن الصلاۃ فیہ اھ وکلام الشارحین متطابق فے ذلک ۲؎۔
اور شیخ کی شرح میں بھی اسی طرح ہے۔ چنانچہ شیخ نے کہا ہے کہ اس سے وہ صورت خارج ہوگئی جس میں کسی نبی یا صالح کے پاس اس لئے مسجد بنائی جائے کہ اس کی قبر کے پاس نماز پڑھی جائے، لیکن مقصود قبر کی تعظیم اور اس کی طرف منہ کرنا نہ ہو بلکہ غرض یہ ہوکہ صاحبِ قبر سے مدد حاصل کی جائے تاکہ اس پاک روح کے قُرب کی وجہ سے عبادت مکمل ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی قبر حطیم میں میزاب رحمت کے نیچے ہے اور حطیم کے پاس حجر اسود اور زمزم کے درمیان ستّر انبیاء کی قبریں ہیں، اس کے باوجود وہاں نماز پڑھنے سے کسی نے منع نہیں کیا اھ اس مسئلہ میں تمام شارحین نے ایسی ہی گفتگو کی ہے۔ (ت)
 (۱؎ و ۲؎ لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ    حدیث ۷۱۲مطبوعہ المعارف العلمیہ لاہور۳/۵۲)
امام اجل برہان الدین فرغانی حنفی صاحبِ ہدایہ کتاب التجنیس والمزید میں فرماتے ہیں: قال ابویوسف: ان کان موازیاً للکعبۃ تکرہ صلاتہ، وانکان عن یمینہ ویسارہ لاتکرہ ۱؎۔
 (۱؎ کتاب التجنیس والمزید)
ابویوسف نے کہا ہے کہ اگر قبر قبلے والی جانب ہوتو نماز مکروہ ہے اور اگر دائیں بائیں ہوتو مکروہ نہیں ہے۔ حاوی۔ (ت)
پھر تاتارخانیہ پھر عالمگیریہ میں ہے: ان کانت القبور ماوراء المصلی لایکرہ، فانہ ان کان بینہ وبین القبر مقدار مالوکان فی الصلاۃ ویمر انسان لایکرہ، فھھنا ایضا لایکرہ ۲؎۔
قبریں نمازی کے پیچھے ہوں تو نماز مکروہ نہیں ہے کیونکہ اگر سامنے بھی ہوں لیکن اتنے فاصلے پر ہوں کہ اگر یہ شخص نماز میں ہو اور کوئی سامنے سے گزرے تو اس کا گزرنا مکروہ نہ ہو، تو یہاں بھی مکروہ نہیں ہے۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ    الفصل الثانی فیما یکرہ فی الصلوٰۃ ومالایکرہ مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور۱/۱۰۷)
اور یہ امر کہ سامنے ہونا زیادہ مکروہ ہے اور دہنے بائیں اس سے کم اور پیچھے ہونا اس سے بھی کم کتب حنفیہ میں تصویر جاندار کی نسبت ہے نہ کہ قبر کی،
ردالمحتار میں زیر قول درمختار واختلف فیما اذاکان التمثال خلفہ، والاظھر الکراھۃ ۳؎
(اگر تصویر اس کے پیچھے ہوتو اس میں اختلاف ہے، اظہر یہی ہے کہ مکروہ ہے۔ ت)
 (۳؎ الدرالمختار    باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیہا    مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۹۲)
تحریر فرماتے ہیں: وفی البحر، قالوا:واشدھاکراھۃ مایکون علی القبلۃ امام المصلی، ثم مایکون فوق راسہ، ثم مایکون عن یمینہ ویسارہ علی الحائط، ثم مایکون خلفہ علی الحائط اوالستر ۴؎ اھ
اور بحر میں ہے کہ علماء نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ کراہت اس صورت میں ہے جب تصویر قبلے والی طرف ہو اور نمازی کے سامنے ہو، پھر جو اس کے سر کے اوپر ہو، پھر جو اس کے دائیں بائیں دیوار پر ہو، پھر جو اس کے پیچھے دیوار پر یا پردے پر ہو۔ (ت)
 (۴؎ ردالمحتار        مطلب فی الغرس فی المسجد        مطبع مصطفی البابی مصر        ۱/۴۷۹)
جامع الرموز میں ہے: انماخص الصورۃ لانہ یکرہ فی جھۃ القبر الا اذاکان بین یدیہ۔ کمافی جنائز المضمرات ۱؎۔
تصویر کی تخصیص اس لئے کی ہے کہ قبر کی طرف منہ کرنا مکروہ نہیں ہے، جب تک قبر بالکل رُوبرو نہ ہو،جیساکہ مضمرات کی کتاب الجنائز میں ہے۔ (ت)
 (۱؎ جامع الرموز    فصل مایفسد الصلوٰۃ ،  المکتبۃ الاسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱/۱۹۶)
امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قبر کی طرف نماز پڑھتے دیکھا، فرمایا قبرقبر، وہ نماز ہی میں آگے بڑھ گئے، اس حدیث سے بھی ظاہر ہوا کہ قبر کی طرف ہی نماز پڑھنا مکروہ ہے نہ کہ اور سمت۔
صحیح بخاری شریف میں ہے:ورأی عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ یصلی عند قبر، فقال: القبر، القبر، ولم یامرہ بالاعادۃ ۲؎۔
 (۲؎ صحیح بخاری     ھل تنبش قبور مشرکی الجاہلیۃ ویتخذ مکانہا مساجد    مطبع قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۶۱)
اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھا کہ وہ ایک قبر کے پاس نماز پڑھ رہے ہیں تو فرمایا: قبر، قبر (یعنی قبر سے بچو) مگر انہیں نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ (ت)
Flag Counter