مسئلہ (۳۳۳) از خیر آباد ضلع سیتاپور محلہ میاں سرائے مدرسہ عربی قدیم مرسلہ جناب سید فخرالحسن صاحب نبیرہ مولوی نبی بخش صاحب مرحوم مفتی خیرآباد۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اندرین مسائل:
(۱) حضرت شیخ محقق عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمۃ نے تحت حدیث شریف الارض کلھا مسجد الا المقبرۃ اھ تحریر فرمایا ہے: امّا مقبرہ ازجہت آنکہ غالب دروے قذرات واختلاط تربت اوست بانچہ جدامیگرددازمردہاازنجاست واگر مکان طاہر ونظیف باشد پس ہیچ باکے نیست وکراہتے نہ وبعض برانندکہ نمازدرمقبرہ مکروہ است مطلقا ازجہت ظاہر ایں حدیث ۳؎۔
(۳؎ اشعۃ اللمعات باب المساجد الخ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۳۳۷)
قبرستان میں نماز اس وجہ سے مکروہ ہے کہ عام طور پر وہاں گندگی ہوتی ہے اور اس کی مٹی مُردوں سے برآمد ہونے والی نجاستوں سے مخلوط ہوتی ہے اور اگر جگہ پاک اور سُتھری ہوتو وہاں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نہ اس میں کوئی کراہت ہے۔ اور بعض کی رائے یہ ہے کہ قبرستان میں بہر صورت نماز پڑھنی منع ہے اس حدیث کی بنا پر۔ (ت)
اور کتاب حصہ دوم سرور عزیزی ترجمہ فتاوٰی عزیزی کی حسب ذیل عبارت ہے: ''حدیث میں وارد ہے کہ قبرستان میں نماز نہ پڑھنا چاہئے اور اس کی شرح میں علماء نے جو کچھ لکھا ہے اُس میں بہتر قول یہ ہے کہ اس وجہ سے منع ہے کہ اس میں ایک قسم کی مشابہت کفار کے ساتھ پائی جاتی ہے اور یہ مشابہت جمادات کو سجدہ کرنے میں ہوتی ہے اور اس سبب سے یہ حکم ضروری ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اور حنفیہ کے کتبِ فقہ میں لکھا ہے کہ اگر قبر نمازی کے سامنے ہوتو یہ زیادہ مکروہ ہے اور اگر قبر داہنے یا بائیں جانب ہوتو اُس سے کم مکروہ ہے اور اگر قبر نمازی کے پیچھے ہوتو یہ اس سے بھی کم مکروہ ہے اور یہی قول اصح ہے اور علما کا عمل اسی پر ہے، اور شافعیہ کے فقہا نے لکھا ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا اس وجہ سے مکروہ ہے کہ وہ نجاست کی جگہ ہے، تو یہ صحیح نہیں ۱؎ ہے''۔
حضرت شیخ عبدالحق علیہ الرحمۃ نے اپنے قول کی تائید میں کسی کتاب یا قول کسی مجتہد وامام کا حوالہ نہیں دیا ہے بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف اپنا مذہب تحریر فرمارہے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لفظ عمل علمائے حنفیہ اور کتب فقہ سے اپنے قول کو مضبوط تو کیا ہے مگر کوئی صاف پتا کسی کتاب یا قول کا نہیں تحریر کیا ہے جس سے اطمینان حاصل کیا جائے مگر شاہ صاحب موصوف کے فتوے کے زور دار عبارت سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت شیخ علیہ الرحمۃ نے اُس مذہب کو اختیار کیا ہے جو مذہب اصح اور مختار حضرات علمائے حنفیہ کے خلاف اور ملّتِ شافعیہ کے مطابق ہے جو علمائے حنفیہ کے نزدیک غیر صحیح ہے اور اپنے اس غیر صحیح مذہب کو اس قدر قوی کیا ہے کہ اُس کی تائید میں فرماتے ہیں: اگر مکان طاہر ونظیف باشدپس ہیچ باکے نیست وکراہتے نہ۔ اگر جگہ پاک وستھری ہوتو وہاں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، نہ اس میں کوئی کراہت ہے۔ (ت)
اس سوال کا جواب ایسی تفصیل کے ساتھ بحوالہ کُتب فقہ حنفیہ تحریر فرمایا جائے کہ جس سے تناقض اقوال حضرات شیخ علیہ الرحمۃ وشاہ صاحب رحمہ اللہ تعالٰی کا بخوبی فیصلہ ہوکر آئندہ کے واسطے کوئی جھگڑا باقی نہ رہے اور کسی مخالف کو ازرُوئے دلیل نفی انکار کا موقع نہ ہوسکے۔
(۲)لفظ مقبرہ جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے سے کونسا مقام مراد ہے آیا محض وہی مقامات ہیں جہاں معمولاً مردگان دفن کیے جاتے ہیں مگر وہاں متعدد قبور سابقہ موجود ہیں یا وہ مقام بھی مراد ہے کہ بوجہ وصیت وغیرہ کے اندر کسی مکان کے یا متصل کسی مسجد کے یا نیچے کسی درخت کے کوئی میت مدفون کی گئی اور اب وہاں قبر موجود ہے یا کسی میدان میں اتفاقیہ کسی وجہ سے ایک یا دو مردے دفن کردئے گئے اور قبر موجود ہے یا کسی جگہ کوئی قبر اتفاقیہ ہے اور اصطلاحِ عام میں وہ مقام لفظ قبرستان سے تعبیر نہیں کیا جاتا ہے ہر چہار مقامات متذکرہ بالاکی نسبت کیا کیا حکم ہے اور کون کون مقامات حکمِ مقبرہ میں جہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے داخل نہیں ہیں۔
(۳) بموجب فتوٰی جناب شاہ عبدالعزیز صاحب اگر یمیناً وشمالاً وخلفاً قبر کے نماز پڑھنا مکروہ ہے تو ضرور ہواکہ متصل قبراندر مقبرہ جو جگہ نماز کے واسطے حاصل کی گئی یا متصل قبر اتفاقیہ کے یا بیرون مقبرہ غیر محاط متصل اُس کے واسطے دفع کراہت نماز کے سترہ کی یا مقدار فاصلے کے معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ بصورت سامنے قبر ہونے کے سترہ یا فاصلہ کی ضرورت کتبِ فقہ سے معلوم ہوتی ہے اس کی نسبت جو حکم موافقِ قولِ اصح اور موافقِ عملِ حضراتِ علمائے حنفیہ ہو، تحریر فرمایا جائے۔
الجواب : اس مسئلہ میں تحقیق یہ ہے کہ نماز قبر پر مطلقاً مکروہ وممنوع ہے بلکہ قبر پر پاؤں رکھنا ہی جائز نہیں، عٰلمگیری میں ہے:
یاثم بوطء القبورلان سقف القبر حق المیت ۱؎ اھ وقد حققنا فی اھلاک الوھابین ۲؎۔
قبروں پر پاؤں رکھنے سے گناہ گار ہوتا ہے کیونکہ قبر کی چھت میت کا حق ہے اھ اور اس کی تحقیق ہم نے اہلاک الوہابیین میں کی ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور الخ مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۵/۳۵۱)
۲؎ واضح رہے کہ ''اہلاک الوہابین علٰی توہین قبور المسلمین'' فتاوٰی رضویہ کے اِس مقام کے مترجم قاضی عبدالدائم دائم کے نانا جان قاضی محمد عمرالدین رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے، جس پر اعلحٰضرت رحمۃ اللہ علیہ نے افادات کا اضافہ فرمایا ہے۔ (دائم)
اور قبر کی طرف بھی نماز مکروہ وممنوع ہے جبکہ سترہ نہ ہو اور صحرا یا مسجد کبیر میں قبر موضع سجود میں ہو یعنی اتنے فاصلے پر جبکہ یہ خاشعین کی سی نماز پرھے اور اپنی نگاہِ خاص موضع سجود پر جمی رکھے تو اس پر نظر پڑے کہ نگاہ کا قاعدہ ہے جس محل خاص پر اُسے جمایا جائے اُس سے کچھ دُور آگے بڑھتی ہے مذہب اصح میں بحالت مذکورہ جہاں تک نگاہ پہنچے سب موضع سجود ہے کمانص علیہ فی الحلیۃ وغیرھا۔ مجتبی۔ پھر بحر پھر فتح اللہ المعین میں ہے: یکرہ ان یطائر القبر اویجلس اوینام علیہ اویصلی علیہ اوالیہ ۳؎۔ مکروہ ہے کہ قبر پر پاؤں رکھے یا سوئے یا اس پر نماز پڑھے یا اس کی طرف (منہ کرکے) نماز پڑھے۔ (ت)
(۳؎ فتح المعین علٰی شرح الکنز فصل فے الصلوٰۃ علی المیت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۱/۳۶۲)
جنائز حلیہ پھر جنائز ردالمحتار میں ہے: تکرہ الصّلاۃ علیہ والیہ لورود النھی عن ذلک ۴؎۔
قبر کے اوپر یا اس کی طرف نماز مکروہ ہے، کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔ (ت)
اگر اس کے درمیان اور قبر کے درمیان اتنا فاصلہ ہوکہ اگر یہ شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے کوئی گزرے تو اس کا گزرنا مکروہ نہ ہو، تو یہاں بھی مکروہ نہیں ہے۔ اسی طرح تتارخانیہ میں ہے۔ (ت)
درمختار میں ہے: ولایفسدھامرورمارّ فی الصحراء اوبمسجدکبیربموضع سجودہ،فی الاصح،اومرورہ بین یدیہ الی حائط القبلۃ فی بیت ومسجد صغیر،فانہ کبقعۃ واحدۃ؛وان اثم المار ۲؎ اھ۔
اصح یہ ہے کہ صحرا یا بڑی مسجد میں نمازی کی جائے سجدہ سے کسی کا گزرنا نماز کو فاسد نہیں کرتا۔ اسی طرح گھر میں یا چھوٹی مسجد میں کہ چھوٹی مسجد ایک ہی قطعے کے حکم میں ہے، کسی کا قبلے والی جانب سے نمازی کے آگے سے گزرنا،نماز کو فاسد نہیں گزرتا،اگرچہ گزرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔ (ت)
اور اگر قبر دہنے بائیں یا پیچھے ہے تو اصلاً موجبِ کراہت نہیں، جامع المضمرات پھر جامع الرموز پھر طحطاوی علٰی مراقی الفلاح وردالمحتار علی الدرالمختار میں ہے: لاتکرہ الصلاۃ الی جھۃ قبر الا اذاکان بین یدیہ، بحیث لوصلی صلاۃ الخاشعین وقع بصرہ علیہ ۳؎۔
قبر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے ہاں اگر قبر بالکل اس کے سامنے ہوکہ اگر وہ خاشعین والی نماز پڑھے تو قبر پر اس کی نظر پڑے،اس صورت میں مکروہ ہے۔(ت)
علی قاری حنفی مرقاۃ شرح مشکوٰہ میں زیر حدیث لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم زائرات القبور والمتخذین علیھاالمساجد
(رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں پر لعنت کی ہے۔ ت)
تحریر فرماتے ہیں: قال ابن الملک: انما حرم اتخاذ المساجد علیھا لان فی الصلاۃ فیھا استنانا بسنۃ الیھود۔ اھ وقید ''علیھا'' یفید ان اتخاذ المساجد بجنبھا لاباس بہ۔ ویدل علیہ قولہ علیہ السلام: لعن اللّٰہ الیھود والنصاری، الّذین اتّخذوا قبور انبیاء ھم وصالحیھم مساجد ۱؎۔ اھ
ابن الملک نے کہا ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنانا اس لئے حرام قرار دیاہے کیونکہ ان میں نماز پڑھنا یہودیوں کیطریقے کی پیروی ہے۔ اھ اور ''قبروں پر'' کی قید سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر ''قبروں کے پاس'' مسجد بنائی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اللہ یہود ونصارٰی پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنالیا، اسی پر دلالت کرتا ہے۔ (ت)
(۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ، الفصل الاول مطبع امدادیہ ملتان ۲/۲۱۹)
بلکہ اگر مزاراتِ ادلیائے کرام ہوں اور اُن کی ارواحِ طیبہ سے استمداد کے لئے ان کی قبور کریمہ کے پاس دہنے یا بائیں نماز پڑھے تو اور زیادہ موجبِ برکت ہے، امام علّامہ قاضی عیاض مالکی شرح صحیح مسلم شریف پھر علامہ طیبی شافعی شرح مشکوٰۃ شریف پھر علّامہ علی قاری حنفی مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں:
کانت الیھود والنصارٰی یسجدون بقبور انبیائھم ویجعلونھاقبلۃ ویتوجھون فی الصلاۃ نحوھا،فقداتخذوھااوثانا،فلذلک لعنھم،ومنع المسلمین عن مثل ذلک،امامن اتخذ مسجدافی جوارصالح،اوصلی فی مقبرۃ،وقصد الاستظھاربروحہ،اووصول اثرمامن اثر عبادتہ الیہ،لاللتعظیم لہ والتوجہ نحوہ،فلاحرج علیہ؛الاتری ان مرقد اسمعیل علیہ الصلاۃ والسلام فی المسجد الحرام عندالحطیم،ثم ان ذلک المسجد افضل مکان یتحری المصلی لصلاتہ ۲؎۔
یہود ونصارٰی اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ کرتے تھے، انہیں اپنا قبلہ بنالیتے تھے اور نماز میں انہی کی طرف منہ کرتے تھے، اس طرح انہوں نے قبروں کو بُت بنالیا تھا اس لئے آپ نے ان پر لعنت بھیجی اور مسلمانوں کو ایسے کاموں سے منع کیا، رہا وہ آدمی جو کسی صالح کی قبر کے پاس مسجد بنائے یا مقبرے میں نماز پڑھے اور اس کا مقصد یہ ہوکہ اس صالح انسان کی روح سے تقویت حاصل کرے یا اس کی عبادت کے اثرات میں سے کچھ اثر اِس تک بھی پہنچ جائے،اور قبر کی تعظیم اور اس کی طرف منہ کرنا مقصود نہ ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اسمعیل علیہ السلام کی قبر مسجد حرام میں حطیم کے پاس ہے، اس کے باوجود یہ مسجد ان تمام مقامات سے افضل ہے جنہیں کوئی نمازی، نماز پڑھنے کیلئے تلاش کرتا ہے۔ (ت)
(۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ، الفصل الاول مطبع امدادیہ ملتان ۲/۲۰۲)