Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
75 - 157
فصل فی اماکن الصّلٰوۃ
مسئلہ (۳۱۷) از مقام چتورگڑھ علاقہ اُدیپور مسئولہ مولوی عبدالکریم صاحب بتاریخ ۱۶ ربیع الاول شریف بروز سہ شنبہ ۱۳۲۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کو ایسی جگہ نماز کا وقت آیا کہ دُور دُور تک زمین تر اور ناپاک ہے اگر سجدہ کرتا ہے تو کپڑے تر ہوکر ناپاک ہوتے ہیں اور کوئی ایسی چیز نہیں کہ نیچے بچھا کر اس پر کپڑا پاک ڈال کر نماز پڑھے تو ایسی صورت میں کس طرح نماز ادا کرے اشارہ سے یا سجدہ ورکوع سے۔ بینوا توجروا۔
الجواب: شرع مطہر کسی وقت کسی سوال کے جواب سے عاجز نہیں مگر ایسی صورت میں قبل ازوقوع بے اندیشہ صحیحہ وقوع فرض کرکے سوال کرنا وبال لانا ہے اور کبھی اُسے مشکل میں مبتلا کردینا ہے، حدیث میں ہے:
نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن نفل المسائل ۱؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بے ضرورت مسائل پُوچھنے سے منع کیا ہے۔ (ت)
رہا سوال کا جواب، وہ قرآن مجید میں موجود ہے کہ:
لایکلّف اللّٰہ نفسا الّا وسعھا ۲؎
(اللہ تعالٰی کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلّف نہیں بناتا۔ ت)
 (۲؎ القرآن    ۲/۲۸۶)
فاتقوا اللّٰہ مااستطعتم ۱؎
 (جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو۔ ت)
 (۱؎ القرآن        ۶۴/۱۶)
ماجعل علیکم فی الدین من حرج ۲؎
(اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں کی۔ ت)
 (۲؎ القرآن        ۲۲/۷۸)
نماز کھڑے کھڑے اشارے سے پڑھے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۱۸) مسئولہ محمد خان نمبردار بڑودہ ڈاک خانہ پنڈراول ضلع بلند شہر یک شنبہ ۱۶ شعبان المعظم ۱۳۳۴ھ

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ موضع بڑودہ ضلع بلند شہر میں کوئی عید گاہ نہیں ہے عرصہ تخمیناً ۸ سال کا ہوا جب میں نے آبادی دیہہ جانب اُتر جنگل اوسر بملکیت خود میں نے ایک چونترہ خام واسطے عیدگاہ کے بنوایا تھاجس کی بنیاد جناب مولٰنا بہاء الدین شاہ صاحب ساکن مرشد آباد نے رکھی تھی اس جنگل اوسر میں جگہ عیدگاہ ومتصل چَونترہ عیدگاہ اہل ہنود کے مُردے جلاکرتے تھے جب چونترہ عیدگاہ قائم ہوگیا تو اہل ہنود نے دوسری جگہ مُردے جلانے شروع کردیے اب بعض اشخاص اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ مرگھٹ قبر کی تعریف میں نہیں آتاہے کیونکہ ہوا وبارش سے ہڈیاں وخاک بہہ جاتی ہے اور قبر کے اندر مُردہ دفن ہوتا ہے امید کہ جواب سے معزز فرمایا جائے۔
الجواب :   اگر چوترہ ایسی مٹّی سے بنایا گیا جس میں مُردہ ہندووں کی نجاست نہ تھی یا اُس زمین کی مٹّی جہاں تک اُن کی نجاستیں تھیں کھود کر پھنکوادی پھر اُس زمین ہی کو نماز کے لئے کردیا تو اس میں کوئی حرج نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جب مسجد مدینہ طیبہ بنا فرمائی وہ ایک نخلستان تھا جس میں مشرکین دفن ہوتے تھے فامر بقبور المشرکین حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا مشرکوں کی قبریں کھود کر وہ نجس مٹی پھینک دی گئی پھر وہاں مسجد کریم تعمیر فرمائی ۳؎ کما فی صحیح البخاری وغیرہ، واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
 (۳؎ صحیح البخاری    باب ہل ینبش قبور مشرکین الجاہلیۃ الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۶۱)
مسئلہ (۳۱۹)مسئولہ شمشیر خاں درگارہ جیلانی موضع بڑودہ ضلع بلند شہر معرفت مولوی اسمٰعیل صاحب محمود آبادی سہ شنبہ    ۲۳ رمضان شریف ۱۳۳۴ھ
کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ میں کہ ایک چبوترہ کو جس میں ہڈیاں تک مشرکین کی نظر آتی ہیں اُسے چھوڑ کر جدید عیدگاہ میں نماز ادا کرنے سے خاطی وگنہ گار تو نہ ہوں گے اختلاف اُس چبوترہ پر نماز ادا کرنے سے اکثر لوگوں کو ہے بلکہ کئی سال ہوئے جب سے چبوترہ بنایا گیا اکثر مسلمان دوسری جگہ نماز پڑھنے جاتے تھے اس سال سبھوں نے مل کر عیدگاہ پختہ بنوانا شروع کردی، جیسا ارشاد ہو عمل کیا جائے، بینوا توجروا۔
الجواب :  ۱۶ شعبان کو یہ سوال آیا تھا جواب دیا گیا کہ اگر چبوترہ کی مٹّی میں نجاست کی آمیزش نہیں یا زمین ہی کھود کر اُن نجاستوں سے پاک کردی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں اب سوال میں اظہار ہے کہ اس میں مشرکوں کی ہڈیاں تک نظر آتی ہیں ایسی حالت میں اُس پر نماز پڑھنا ہی حرام ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۲۰) از ندی پار بتی علاقہ ریاست گوالیار گونا باور ریلوے ڈاک خانہ ندی مذکور مرسلہ سید کرامت علی صاحب محرر منشی محمد امین صاحب ٹھیکیدار ریلوے مذکور۴ رمضان المبارک ۱۳۲۵ھ

بخدمت فیض درجت جناب مولانا ومرشد نامولوی احمد رضا خان صاحب دام اقبالہ بعد السلام علیک واضح رائے شریف ہوکہ بوجہ چند ضروریات کے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ بنظرتوجہ بزرگانہ جواب سے معزّز فرمایا جاؤں، اوّل(۱) یہ کہ جس مکان میں کوئی شخص شراب پئے اس میں نماز پڑھنا چاہئے یا نہیں۔ دوسرے(۲) یہ کہ جائے نماز برابر کسی شخص کی چارپائی کے بچھا کر نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں اُس صورت میں کہ اُس چارپائی پر وہ شخص سوتا ہو یا بیٹھا۔ بینوا توجروا۔
الجواب :  مکرمی السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اگر وہ شخص وہاں اُس وقت شراب پینے میں مشغول نہیں، نہ وہاں شراب کی نجاست ہے تو ایسے وقت وہاں نماز پڑھ لینے میں حرج نہیں اور اگر بالفعل وہ شخص شراب پی رہا ہے تو بلاضرورت وہاں نماز نہ پڑھے کہ شراب خور پر بحکم احادیث صحیحہ لعنتِ الٰہی اُترتی ہے اور محلِ نزولِ لعنت میں نماز نہ پڑھنی چاہئے اس لئے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قومِ ثمود کی جائے ہلاک میں نماز نہ پڑھی کہ وہاں عذاب نازل ہُوا تھا نیز شراب پیتے وقت شیطان حاضر اور اس کا غلبہ واستیلا ظاہر ہے اور محل غلبہ شیطان میں نماز نہ پڑھنی چاہئے اسی لئے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شبِ تعریس جب نمازِ فجر سوتے میں قضا ہُوئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو حکم فرمایا کہ نماز آگے چل کر پڑھو کہ یہاں تمہارے پاس شیطان حاضر ہوا تھا حالانکہ وہ فوت قصدی نہ تھاسوتے سے آنکھ بحکمتِ الٰہی نہ کھلی تھی اور اگر وہ مکان ہی شراب خوری کا ہوکہ فسّاق فجّار اپنایہ مجمع ناجائز وہاں کیا کرتے ہوں جب تو بدرجہ اولٰی وہاں نماز مکروہ ہے کہ اب وہ مکان حمام سے زیادہ مرجع وماوائے شیاطین ہے اور علماء نے حمام میں کراہت نماز کی یہ وجہ ارشاد فرمائی کہ وہ شیطان کا ماوٰی ہے

کمافی ردالمحتار وغیرہ۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
 (۲)    اگر کوئی شخص چارپائی پر بیٹھا خواہ لیٹا ہے اور اس طرف اس کی پیٹھ ہے تو اس کے پیچھے جانماز بچھا کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح اگر اُس طرف پیٹھ کیے سورہا ہے جب بھی مضائقہ نہیں، مگر سوتے کے پیچھے پڑھنے سے احتراز مناسب ہے دو۲ وجہ سے، ایک یہ کہ کیا معلوم اس کے نماز پڑھنے میں وہ اس طرف کروٹ لے اور ادھر اس کا مُنہ ہوجائے، دوسرے محتمل ہے کہ سوتے میں اس سے کوئی ایسی شے صادر ہو جس سے نماز میں اسے ہنسی آجانے کا اندیشہ ہو
المسألۃ فی ردالمحتار عن الغنیۃ والوجہ الاول مما زدتہ
(یہ مسئلہ درمختار میں غنیہ سے منقول ہے اور پہلی وجہ کا میں نے اضافہ کیا ہے) (ت) واللہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۲۱) از موضع منڈنپور تھانہ ڈاکخانہ میر گنج ضلع بریلی مرسلہ غلام ربانی صاحب زمیندار     یکم ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص جنگل میں ہے اور نماز کا وقت ہوگیا تو کھیت یا بنجر ملکیت غیر میں نماز پڑھ لے تو نماز ہوگی یا نہیں اور ٹانڈ پر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ فقط۔
الجواب:  دوسرے کی کھیتی میں نماز پڑھنا ممنوع ہے بے اس کی اجازت صریح کے گنہگار ہوگا مگر نماز ادا ہوجائیگی اور بنجر میں پڑھنے میں کچھ مضائقہ نہیں، یونہی وہ کھیت جس میں کھیتی نہ ہو۔ ٹانڈ پر نماز نہیں ہوسکتی مگر اس حالت میں کہ وہ مثل تخت کے ہو مثلاً لکڑیاں باندھ کر اُن پر تخت رکھ لیے ہوں یاخود تخت ہی باندھ لیا ہو یا ایسا سخت بُنا ہوا ہوکہ سجدہ میں سر ٹھہر جائے زور کرنے سے زیادہ نیچا نہ جھُکے،وہو تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۲۲)از مین پوری مکان مولوی محمد حسن صاحب وکیل مرسلہ شیخ انوارالحسن صاحب ابن مولوی صاحب مذکور۱۱ ذیقعدہ ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چارپائی پر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟اوریہ جو مشہورہے کہ اگلی اُمتوں میں کچھ لوگ چارپائی پرنمازپڑھنے کے سبب بندرہوگئے یہ بات ثابت ہے یا نہیں، بینوا توجروا۔
الجواب: اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ جو چیز ایسی ہوکہ سجدہ میں سر اُس پر مستقر ہوجائے یعنی اُس کادبنا ایک حد پر ٹھہر جائے کہ پھر کسی قدر مبالغہ کریں اس سے زائد نہ دبے ایسی چیز پر نماز جائز ہے خواہ وہ چارپائی ہو یا زمین پر رکھا ہوا گاڑی کا کھٹولا یا کوئی شے، اور یہ جو جاہلوں میں بلکہ عورتوں میں مشہور ہے کہ اگلی اُمتوں میں کچھ لوگ چارپائی پر نماز پڑھنے سے مسخ ہوگئے محض غلط وباطل ہے۔ علّامہ ابراہیم حلبی غنیہ میں فرماتے ہیں:
ضابطہ ان لایتسفل بالتسفیل، فحینئذ جاز سجودہ علیہ ۱؎۔
اس کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر دبانے سے نیچے نہ دبے تو اس پر سجدہ جائز ہے۔ (ت)
 (۱؎ غنیۃ المستملی    الخامس من فرائض الصلوٰۃ السجدۃ    مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    ص۲۸۹)
ردالمحتار میں ہے: تفسیرہ،ان المساجد لوبالغ لایتسفل رأسہ ابلغ من ذلک، فصح علی طنفسۃ وحصیر وحنطۃ وشعیر وسریر وعجلۃ انکانت علی الارض ۲؎۔
 (۲؎ ردالمحتار  فصل فی تالیف الصلوٰۃ الٰی انتہائہا مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۷۰)
اس کی تشریح یہ ہے کہ سجدہ کرنے والا اگر سر کو مزید نیچے کرنا چاہے تو نہ کرسکے،اس لئے دبیز کپڑے پر، پھُوڑی پر، گندم پر، جَوپر، تخت پر اور گاڑی پر اگر وہ زمین پر کھڑی ہوتو سجدہ صحیح ہے۔ (ت)

نظر کیجئے تو یہ خاص مسئلہ کا جزیہ ہے زبانِ عرب میں سریر تخت وچارپائی دونوں کو شامل ہے کمالایخفی علی من طالع الاحادیث الخ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter