نوٹ: اعلحٰضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ففی غنیۃ المستملی فرماکر منیۃ المصلی کی شرح حلبی کبیر کی طرف اشارہ کیا ہے، فقیر نے حلبی کبیر کو کافی کوشش کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں مل سکی، ہوسکتا ہے کاتب کی غلطی سے غنیۃ المستملی لکھا گیا ہو اصل لفظ حلیۃ المجلی ہو، کیونکہ التعلیق المجلی جو منیۃ المصلی کی شرح پر ایک حاشیہ ہے۔ اس میں یہ عبارت حلیۃ المحلی کے حوالہ سے ملی ہے اور چونکہ حلیۃ المجلی بھی اس وقت دستیاب نہیں۔ اسی لئے التعلیق المحلی سے حوالہ نقل کیا ہے۔ (نذیر احمد سعیدی)
قلت: ومثلہ فی فتاوی قاضی خان، ونحوہ فی الفتاوی العالمگیریۃ عن التبیین۔ وقیل: یؤخرھا جدا، لان الفساد موھوم فلم یترک المستحب لاجلہ۔ وقیل: حدہ ان یری مواضع النبل۔ ثم کمافی محیط رضی الدین وغیرہ، لایؤخرھا تاخیرا یقع الشک فی طلوع الشمس ۱؎۔ انتھٰی ملخصاً۔ وفی البحرالرائق، قالوا: یسفربھا بحیث لوظھر فساد صلاتہ ہمکنہ ان یعیدھا فی الوقت، بقرأۃ مستحبۃ۔ وقیل: یؤخرھا جدا، لان الفساد موھوم فلایترک المستحب لاجلہ۔ وھوظاھر اطلاق الکتاب (یعنی الکنز، حیث قال: وندب تاخیر الفجر، ولم یقید بشیئ) لکن لایؤخرھا بحیث یقع الشک فی طلوع الشمس۔وفی السراج الوھاج: حدالاسفار ان یصلی فی النصف الثانی، ولایخفی ان الحاج بمزدلفۃ لایؤخرھا۔ وفی المبتغی، بالغین المعجمۃ، الافضل للمرأۃ فی الفجر الغلس، وفی غیرھا الانتظار الی فراغ الرجال عن الجماعۃ ۲؎۔ انتھی مافی البحر۔
میں نے کہا، اسی کے مطابق فتاوٰی قاضی خان میں بھی ہے اور عالمگیری میں بھی تبیین سے منقول ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ (نماز فجر میں) بہت زیادہ تاخیر کرے کیونکہ (نماز کے بعد طہارت میں غلطی رہ جانے کا خیال آنا اور اس طرح) نماز کا فاسد ہونا، محض فرضی صورت ہے،اس لئے اس کی وجہ سے مستحب (تنویر) کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اتنی تنویر ہونی چاہئے کہ تیر گرنے کی جگہ نظر آسکے۔ پھر جیسا کہ محیط وغیرہ میں ہے۔ یہ خیال رکھے اتنی تاخیر نہ ہونے پائے کہ سورج طلوع ہونے کا شک ہونے لگے۔ انتہٰی ملخصا۔ اور بحرالرائق میں ہے علماء نے کہا ہے کہ اتنی تنویر کرے کہ اگر (نماز کے بعد) نماز کے فاسد ہونے کا پتہ چلے تو قرأتِ مستحبہ کے ساتھ اسی وقت میں لوٹا سکے۔ اور بعض نے کہا کہ بہت تاخیر کرے کیونکہ (اس طرح نماز کا) فاسد ہونا ایک مفروضہ ہے، اس کی وجہ سے مستحب کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کتاب کے اطلاق سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے (کتاب سے مراد کنز ہے، کیونکہ اس نے کہا ہے کہ فجر کی تاخیر مستحب ہے اور کوئی قید نہیں لگائی) لیکن اتنی تاخیر بہرحال نہ کرے کہ سورج چڑھ جانے کا شک ہونے لگے۔ اور السراج الوہاج میں ہے کہ تنویر کی مقدار یہ ہے کہ وقت کے نصف ثانی میں پڑھے، لیکن واضح رہے کہ مزدلفہ میں حاجی تاخیر نہ کرے۔ اور مبتغٰی میں ہے کہ عورت کے لئے صبح میں تغلیس بہتر ہے، اور دیگر نمازوں میں لوگوں کے جماعت سے فارغ ہونے تک انتظار بہتر ہے۔ انتہی مافی البحر۔
اور درمختار میں ہے کہ مرد کے لئے مستحب یہ ہے کہ صبحکی نماز شروع بھی تنویر میں کرے اور ختم بھی تنویر میں کرے۔ یہی مختار ہے، اس طرح کہ اس میں چالیس۴۰ آیتیں ترتیل سے پڑھے اور بعد میں اگر فاسد ہونے کا پتہ چلے تو وضو کرکے لوٹا سکے، اور بعض نے کہا ہے کہ بہت مؤخر کرے کیونکہ ایسا فاسد ہونا موہوم ہے، البتہ مزدلفہ میں حاجی کہلئے تغلیس بہتر ہے جیسا کہ عورت کے لئے ہر جگہ تغلیس بہتر ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۰)
اُس شخص کا اول وقت اندھیرے میں نماز پڑھنا سنت کی مخالفت کرنا ہے اور اُن کو اس کی تاکید کرنی مخالف سنّت کی طرف بلانا ہے اور یہ کہنا کہ روشنی میں نماز مکروہ ہوتی ہے سنّت کو مکروہ کہنا اور شریعت مطہرہ پر بہتان اٹھانا ہے، اللہ تعالٰی ہدایت دے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۱۶) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وقت مستحب ظہر کا گرما میں کیا ہے اور جو شخص موسم مذکور میں بعد زوال اوّل وقت نمازِ ظہر پڑھے اور لوگوں کو بھی تاکید کرے کہ وقت اولٰی یہی ہے، آیا وہ شخص حق پر ہے یا ناحق پر، بینوا توجروا۔
الجواب: موسم گرما میں ظہر کا ابراد کرکے پڑھنا مستحب ہے تمام کتب حنفیہ میں یہ معنی مصرح ہے اور اوّل وقت میں پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حکمِ اقدس سے عدول۔ حضور فرماتے ہیں:
اذا اشتد الحر فابردوا بالظھر، فان شدّۃ الحرّ من فیح جھنم ۲؎۔ متفق علیہ۔
جب گرمی سخت ہوتو ظہر کو ٹھنڈا کروکہ شدّتِ گرمی وسعت دم دوزخ سے ہے۔
اور بخاری ونسائی انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی واللفظ للنسائی قال:کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاکان الحرابرد الصلاۃ واذاکان البرد عجل ۳؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب گرمی ہو تی تو نماز ٹھنڈی کرتے اور جب سردی ہوتی تعجیل فرماتے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ٹھنڈا کر، ٹھنڈا کر، یا فرمایا: انتظار کر، انتظار کر، اور فرمایا، سختی گرما جہنم کی وسعت نفس سے ہے تو جب گرمی زائد ہو نماز ٹھنڈی کرو،یہاں تک کہ ہم نے دیکھا ٹیلوں کا سایہ۔
(۱؎ سنن ابی داود وقت صلوٰۃ الظہر آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۵۸)
دوسرے طریق میں ہے:کنامع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی السفرفارادالمؤذن ان یؤذن الظھر فقال النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ابرد ثم اراد ان یؤذن فقال لہ ابرد حتی رأینا فیئ التلول ۲؎ الحدیث۔
ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے مؤذن نے اذان کا ارادہ کیا کہ ظہر کی اذان دے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ٹھنڈاکر پھر چاہا کہ اذان دے پھر فرمایا: ٹھنڈا کر، یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھے۔
(۲ سنن ابی داود وقت صلوٰۃ الظہر آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۵۸)
اور مسلم میں ابراہیم کے طریق میں شعبہ سے مؤذن کا تین بار ارادہ اور حضور کا یہی حکم فرمانا وارد ہوا قلت ومسلم ثقۃ فزیادتہ مقبولۃ (میں نے کہا مسلم ثقہ ہے اس لئے اس کا اضافہ مقبول ہے۔ ت)
اقول: اب یہاں سے مبالغہ تاخیر کا اندازہ کرنا چاہئے کہ مؤذن نے تین بار اذان کا ارادہ کیا اور ہر دفعہ ابراد کا حکم ہوا اور یقینا معلوم ہے کہ ہر دوا ارادوں میں اس قدر فاصلہ ضرور تھا جس کو ابراد کہہ سکییں اور وہ وقت بہ نسبت پہلے وقت کے ٹھنڈا ہو ورنہ لازم آئے کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تعمیلِ حکم نہ کی اور جب اذان میں یہ تاخیر ہوئی تو نماز تو اور بھی دیر میں ہوئی ہوگی۔ علما فرماتے ہیں ٹیلے غالباً بسیط اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں کہ اُن کا سایہ دوپہر کے بہت دیر بعد ظاہر ہوتابخلاف اشیائے مستطیلہ مانند منار ودیوار وغیرہما،امام ہمام احمد بن محمد خطیب قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: ٹیلوں کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا مگر جب اکثر وقت ظہر کا جاتا رہے ابوداؤد ونسائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں
قال:کان قدر صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الظھر فی الصیف، ثلثۃ اقدامالی خمسۃ اقدام ۱؎۔
گرمی میں نماز حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدار تین قدم سے پانچ قدمتک تھے۔
یعنی جب سایہ ہر چیز کا اس کے ساتویں حصّہ کے تین یا پانچ مثل ہوجاتا تو حضور پُرنور نماز ادا فرماتے اور معلوم ہے کہ حرمین شریفین زادہما اللہ تعالٰی شرفاً میں گرمی کے موسم میں اس قدر سایہ نہایت دیر میں واقع ہوگا کہ وہاں سایہ اصلی اس موسم میں نہایت قلت پر ہوتا ہے بعض اوقات میں دو۲ انگل سے زائد نہیں پڑتا اور مکہ معظمہ میں تو بعض اوقات یعنی آفتاب سمت الراس پر گزرے مطلقاً نہیں ہوتا، یہ بات وہاں اُس وقت ہوتی ہے جب آفتاب ہشتم جوزا یابست ودوم سرطان پر ہو یعنی ۳۰ مئی اور ۲۴ جولائی،
اخرج ابوداود والترمذی عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم: امنی جبریل عندالبیت مرتین، فصلی بی الظھر حین زالت الشمس وکانت قدر الشراک ۲؎، الحدیث۔ وفی البحرالرائق عن المبسوط، واعلم ان لکل شیئ ظلا وقت الزوال الابمکۃ والمدینۃ فی اطول ایام السنۃ، لان الشمس فیھا تاخذ الحیطان الاربعۃ ۳؎ اھ
ابوداود وترمذی نے ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل بیت اللہ کے پاس دو۲ مرتبہ میرے امام بنے، تو ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ تسمے جتنا ہوگیا، الحدیث۔ اور بحرالرائق میں مبسوط سے منقول ہے کہ جن لو، زوال کے وقت ہر چیز کا سایہ ہوتا ہے، مگر سال کے سب سے طویل دن میں مکّہ اور مدینہ میں سایہ نہیں ہوتا کیونکہ ان دنوں سورج چاروں دیواروں پر پڑرہا ہوتا ہے،اھ۔
(۲؎ سنن ابی داؤد باب المواقیت آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۵۶)
(۳؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۴۵)
میں کہتا ہوں: یوں لگتا ہے کہ صاحبِ مبسوط رحمہ اللہ تعالٰی نے سایہ نہ ہونے سے مراد سایہ تھوڑا ہونا لیا ہے، ورنہ مدینہ طیبہ کا عرض ''الہ''ہے جو میلِ کلی سے ایک درجہ اور تینتیس دقیقہ زائد ہے، تو وہاں سایہ کیسے معدوم ہوسکتا ہے؟اور مکہ کا عرض ''کام حہ'' ہے جو میلِ اعظم سے ایک درجہ اور سینتالیس دقیقہ کم ہے، اس لئے سب سے طویل دن میں وہاں سایہ معدوم نہیں ہوتا بلکہ جنوبی طرف ہوتا ہے۔ معدوم ہونے کا وقت وہ ہے جو ہم ذکر کر آئے ہیں (یعنی جب آفتاب سمت الرأس پر گزرے)۔ (ت)
اور حدابراد فصل شریف رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے باحادیث سیدنا ابی ذر وسیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہما معلوم ہوچکی مگر سایہ کا حال اختلاف بلاد سے مختلف ہوتا ہے اور فقہ میں اس کی یہ حد ذکر کی گئی کہ سائے سائے میں مسجد تک چلاآئے
فی الدرالمختار وتاخیر الصیف بحیث یمشی فی الظل ۱؎
اور اسی طرح ایک حدیث میں وارد ہوا اور بحرالرائق میں ہے کہ قبل اس کے کہ سایہ ایک مثل کو پہنچے ادا کرے حیث قال وحدہ ان یصلی قبل المثل ۲؎ شاید یہ اس پر مبنی ہے کہ انتہائے وقت ظہر میں علما مختلف ہیں امام کے نزدیک دو۲ مثل اور صاحبین کے نزدیک ایک مثل معتبر ہے تو بہتر یہ ہے کہ ایک مثل تک ادا ہوجائے ورنہ ہدایہ میں تصریح کرتے ہیں کہ ظہر میں ابراد کا حکم ہے اور حرمین شریفین میں جب سایہ ایک مثل کو پہنچتا ہے عین اشتداد گرمی کا وقت ہوتا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ دُرمختار کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۶۰)
(۲؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۴۷)