Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
73 - 157
مسئلہ (۳۱۵) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وقت فجر کا کس وقت سے شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے اور جو شخص نہایت اندھیرے میں اول وقت نمازِ فجر پڑھے اور لوگوں کو اُسی وقت پڑھنے کی تاکید کرے اور کہے بعد روشنی کے نماز مکروہ ہوتی ہے وہ شخص سچّا ہے یا نہیں اور وہ نماز اُس کی مستحب وقت پر ہوئی یا نہیں، اور مستحب وقت اس نماز کا کیا ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: وقت نماز فجر کا طلوع یا انتشار صبح صادق سے ہے علی اختلاف المشائخ اور انتہا اس کی طلوع اول کنارہ شمس ہے اور ہمارے علماء کے نزدیک مردوں کو دواماً ہر زمان وہر مکان میں اسفارِ فجر یعنی جب صبح خوب روشن ہوجائے نماز پڑھنا سنّت ہے سوا یوم الخر کے کہ حجاج کو اُس روز مزدلفہ میں تغلیس چاہئے صرح بہ فی عامۃ کتبھم (فقہا کی عامہ کتب میں اس بات کی تصریح ہے) اس میں احادیث صریحہ معتبرہ دارد، ترمذی ابوداود ونسائی دارمی ابن حبان طبرانی حضرت رافع بن خدیج سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اسفروا بالفجر فانہ اعظم للاجر ۱؎
 (یعنی صبح کو خوب روشن کرو کہ اسفار میں اجر زیادہ ہے)
 (۱؎ مشکوٰۃ المصابیح    باب تعجیل الصلوٰۃ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۶۱)

(جامع الترمذی    ماجاء بالاسفار بالفجر        مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ دہلی        ۱/۲۲)
ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے
ولفظ الطبرانی: فکلما اسفرتم بالفجر فانہ اعظم للاجر ۲؎۔ ولفظ ابن حبان: کلما اصبحتم بالصبح فانہ اعظم لاجورکم ۳؎
ان الفاظ کا حاصل یہ ہے کہ جس قدر اسفار میں مبالغہ کروگے ثواب زیادہ پاؤگے
 (۲؎ المعجم الکبیر للطبرانی    حدیث رافع بن خدیج        مطبوعہ المکتبہ الفیصلیہ بیروت        ۴/۲۵۱)

(۳؎ الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،کتاب الصلوٰۃحدیث ۱۴۸۷، مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ     ۴/۲۳)
اور طبرانی وابن عدی نے انہی صحابی سے روایت کیا:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لبلال: یابلال! اناد بصلاۃ الصبح حتی یبصر القوم مواقع نبلھم من الاسفار ۴؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلال سے ارشاد فرمایا: اے بلال! فجر کی اذان اس وقت دیا کرو جب لوگ اپنے تِیر گرنے کی جگہیں دیکھ لیں بسبب روشنی کے۔
 (۴؎ مجمع الزوائد    باب وقت صلاۃ الصبح        مطبوعہ دارالکتاب بیروت        ۱/۳۱۶)
اور پُر ظاہر کہ یہ بات اُس وقت حاصل ہوگی جب صبح خوب روشن ہوجائے گی اور جب اذان ایسے وقت ہوگی تو نماز اس سے بھی زیادہ روشنی میں ہوگی، ابن خزیمہ اپنی صحیح اور امام طحاوی شرح معانی الاثار میں بسند صحیح حضرت ابرہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں:
مااجتمع اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم علی شیئ، کما اجتمعوا علی التنویر ۵؎۔
اصحابِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا کسی بات پر اتفاق نہ کیا جیسا تنویر واسفار پر۔
 (۵؎ شرح معانی الاثار    باب الوقت الذی یصلی ای وقت ھو    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۲۶)
حدیث صحیحین سے ثابت کہ نمازِ فجر اوّل وقت پڑھنا سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عادت شریفہ کے خلاف تھا حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مزدلفہ میں حضور کے مغرب کو بوقتِ عشا اور فجر کو اول وقت پڑھنے کی نسبت فرمایا:
ان ھاتین الصلاتین حولتا عن وقتیھا فی ھذا المکان ۶؎
 (یعنی یہ دونوں نمازیں اپنے وقت سے پھیر دی گئیں اس مکان میں)
 (۶؎ صحیح بخاری    کتاب الصلوٰۃ متی یصلی الفجر بجمع    مطبوعہ اصح المطابع قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۸)
بخاری ومسلم کی دُوسری روایت میں ہے:
صلی الفجر     قبل وقتھا بغلس ۱؎
صبح کی نماز پڑھی قبل اس کے وقت کے تاریکی میں اور قبل وقت سے قبل ازطلوع فجر مراد نہیں کہ یہ خلاف اجماع ہے معہذا حدیث بخاری سے ثابت کہ فجر طالع ہوچکی تھی تو بالضرور قبل ازوقت معہود مقصود ہے وہوالمطلوب،
 (۱؎ صحیح مسلم    باب استحباب التغلیس بصلوٰۃ الصبح    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۴۱۷)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ اس حدیث کے راوی ہیں حضروسفر میں ملازمت والا سے مشرف رہتے یہاں تک کہ لوگ انہیں اہل بیت نبوت سے گمان کرتے اور ان کے لئے استیذان معاف تھا کل ذلک ثابت بالاحادیث (یہ سب احادیث سے ثابت ہے۔ ت) تو اُن کا یہ فرمانا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نہ دیکھا کہ کسی نماز کو غیر وقت پر پڑھا ہو سوا اِن دو۲ نمازوں کے، اس مضمون کا مؤکد ومؤید ہے اور حکمت فقہی اس باب میں یہ ہے کہ اسفار میں تکثیر جماعت ہے جو شارع کو مطلوب ومحبوب اور تغلیس میں تقلیل اور لوگوں کو مشقت میں ڈالنا اور یہ دونوں ناپسند ومکروہ، اسی لئے امام کو تخفیف صلاۃ اور کبیر وضعیف ومریض حاجتمند کی مراعات کا حکم فرمایا سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جماعت میں قرأت طویل پڑھی لوگ شاکی ہُوئے، ارشاد ہوا:
یامعاذا افتان انت؟ یامعاذ! افتان انت؟ قالہ ثلثا ۲؎ اھ۔
اے معاذ! کیا تم، لوگوں کو آزمائش میں ڈالنا چاہتے ہو؟ یہ بات آپ نے تین دفعہ کہی۔ (ت)
 (۲؎ صحیح مسلم ،باب قرأۃ فی العشاء ، بصلوٰۃ الصبح کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۸۷)
اور اوّل وقت نماز کی افضلیت اگر مطلقا تسلیم کربھی لی جائے تاہم دفع مفاسد جلب مصالح سے اہم واقدم ہے آخر نہ دیکھا کہ تطویل قرأت پر عتاب ہوا حالانکہ قرآن جس قدر بھی پڑھا جائے احسن وافضل ہی ہے معہذا نماز فجر کے بعد تابا شراق ذکرِ الٰہی میں بیٹھا رہنا مستحب ہے اور یہ امر اسفار میں آسان اور تغلیس کے ساتھ دشوار، اب رہا یہ کہ حد اسفار کی کیا ہے، بدائع وسراج وہاج سے ثابت کہ وقت فجر کے دو۲ حصے کئے جائیں حصّہ اوّل تغلیس اور آخر میں اسفار ہے۔ اور امام حلوائی وقاضی امام ابوعلی نسفی وغیرہما عامہ مشائخ فرماتے ہیں کہ ایسے وقت شروع کرے کہ نماز بقرأت مسنونہ ترتیل واطمینان کے ساتھ پڑھ لے بعدہ نسیان حدث پر متنبہ ہوتو وضو کرکے پھر اُسی طرح پڑھ سکے اور ہنوز آفتاب طلوع نہ کرے، بعض کہتے ہیں کہ نہایت تاخیر چاہئے کہ فساد موہوم ہے اور اسفار مستحب، مستحب کو موہوم کہلئے نہ چھوڑیں گے مگر ایسے وقت تک تاخیر کہ طلوع کا اندیشہ ہوجائے بالاجماع مکروہ،
ففی غنیۃ المستملی للعلامۃ الحلبی اثرا عن البدائع، وحدہ (یعنی التغلیس) مادام فی النصف الاول من الوقت۔وفیھا،عن الفتاوی الخانیۃ، وحد التنویر ماقال شمس الائمۃ الحلوائی والقاضی الامام ابوعلی النسفی: انہ یبدأ الصلوۃ بعد انتشار البیاض فی وقت لوصلی الفجر بقرأۃ مسنونۃ مابین اربعین اٰیۃ الٰی ستین اٰیۃ، ویرتل القرأۃ، فاذا فرغ من الصلاۃ، ثم ظھرلہ سھو فی طھارتہ، ہمکنہ ان یتوضأ ویعید الصلاۃ قبل طلوع الشمس۔ کما فعل ابوبکر وعمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔ وعلی ھذا، مافی محیط رضی الدین والخلاصۃ والکافی وغیرھا ۱؎؛ انتھٰی
غنیۃ المستملی میں علّامہ حلبی نے بدائع سے یہ اثر نقل کیا ہے کہ اس کی مقدار (یعنی تغلیس کی) یہ ہے کہ وقتِ فجر کے پہلے نصف تک۔ اسی میں فتاوٰی خانیہ سے منقول ہے کہ شمس الائمہ حلوائی اور قاضی امام ابوعلی نسفی کے بقول تنویر کی مقدار یہ ہے کہ نماز سفیدی پھیلنے کے بعد اس وقت شروع کرے کہ اگر فجر کی نماز قرأۃ مسنونہ سے پڑھے، اور جب نماز سے فارغ ہو تو یاد آئے کہ طہارت میں سہو ہوگیا تھا تو (اتنا وقت باقی ہوکہ) وضو کرکے طلوع سے پہلے دوبارہ نماز پڑھ سکے، جیسا کہ ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے کیا تھا۔ محیط رضی الدین، خلاصہ اور کافی وغیرہ میں بھی اسی کے مطابق ہے۔ انتہٰی۔
 (۱؎ التعلیق المجلیج لمافی منیۃ المصلی مع منیۃ المصلی، شرط خامس الوقت ،مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص ۶۰۶)
Flag Counter