مسئلہ (۳۱۰) ازسہادر ضلع ایٹہ مسئولہ اولاد علی صاحب بروز شنبہ بتاریخ ۵ صفر المظفر ۱۳۳۴ھ
(۱) زید نے نمازِ فجر طلوعِ آفتاب سے پہلے شروع کی اور اُس کے نماز پڑھنے میں آفتاب نکل آیا تو وہ نماز ہوئی یا نہیں؟
(۲) نمازِ مغرب غروبِ آفتاب سے پہلے شروع کی اور نماز پڑھتے ہی میں آفتاب غروب ہوگیا تو نماز ہوئی یا نہیں؟ بینوا توجرّوا۔
الجواب: (۱) نماز فجر میں سلام سے پہلے اگر ایک ذرا سا کنارہ طلوع ہوا نماز نہ ہوگی۔
(۲) اگر ایک نقط بھر کنارہ شمس غروب کو باقی ہے اور اس نے مغرب کی تکبیر تحریمہ کہی نماز نہ ہوگی۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۱۱) مسئولہ منشی عبدالرحمن صاحب اعظمی از ریاست جے پور گھاٹ دروازہ۲۴ محرم ۱۳۳۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ فجر کی نماز جو اصحاب حنفیہ کے یہاں اسفار میں ہے کہ وہ کس وقت سے شروع ہوتا ہے اور طلوعِ آفتاب سے کتنے پر نماز ختم ہونی چاہئے، اس کی کیا مقدار ہے اور بعد اختتام نمازِ فجر کتنے منٹ طلوعِ آفتاب کو باقی رہنا چاہئیں: مفصّل طور پر بیان فرمایا جائے، بینوا توجّروا۔
الجواب: آج صبح کا جتنا وقت ہے اس کا نصف اول چھوڑ کر نصف ثانی سے وقت مستحب شروع ہوتا ہے کمافی البحرالرائق وغیرہ اور اس میں بھی جس قدر تاخیر ہو افضل ہے
اسفروا بالفجر فانہ اعظم للاجر ۱؎
(فجر کو خُوب روشن کرو کیونکہ اس میں زیادہ اجر ہے۔ ت) مگر نہ اس قدر کہ طلوع میں شبہہ پڑ جائے اتنا وقت رہنا اولٰی کہ اگر نماز میں کوئی فساد ہوتو وقت میں مسنون طور پر اعادہ ہوسکے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ (۳۱۲) مرسلہ ولی احمد قلعی گر رانی کھیت صدر بازار ۱۸ ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ
جناب پیر صاحب قبلہ السلام علیکم، بعد سلام علیک کے واضح ہوکہ جمعہ کا وقت جاڑے کے دنوں میں کتنے بجے تک رہتا ہے اور گرمیوں میں کتنے بجے تک رہتا ہے خلاصہ حال سے براہِ مہربانی اطلاع دیجئے اور عصر کا وقت کتنے بجے تک رہتا ہے یہ بھی اطلاع دیجئے ایک شخص اعتراض کرتے ہیں جمعہ کے وقت کا اس وجہ سے آپ کو تکلیف دی فقط والسّلام۔
الجواب : جمعہ اور ظہر کا ایک ہی وقت ہے سایہ جب تک سایہ اصل کے سوا دو مثل کو پہنچے جمعہ وظہر دونوں کا وقت باقی رہتا ہے، بریلی میں ریلوے وقت سے جاڑوں میں کم ازکم ۳ بج کر چالیس۴۰ منٹ تک وقت رہتا ہے اور گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ ۵ بج کے ۷ منٹ تک، عصر کا وقت غروب تک ہے اور اس سے تقریباً بیس۲۰ منٹ پہلے وقتِ کراہت شروع ہوجاتا ہے، غروب جاڑوں میں ۵ بج کر ساڑھے ۱۵ منٹ پر ہوتا ہے اور گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ سات۷ بج کے چودہ۱۴ منٹ پر، وھو تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۱۳) ۱۶ جمادی الاولٰی ۱۳۱۳ھ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ سفر کے عذر سے جس میں قصر لازم آتا ہے دو۲ نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب: ناجائز ہے، قال اللہ تعالٰی:
انّ الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتٰباً موقوتا ۱؎
(بیشک نماز مسلمانوں پر فرض ہے وقت باندھا ہوا) کہ نہ وقت سے پہلے صحیح نہ وقت کھوکر پڑھنا روا بلکہ فرض ہے کہ نماز اپنے وقت پر ادا ہو
(۱؎ القرآن ۴/۱۰۳)
حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لیس فی النوم تفریط انما التفریط فی الیقظۃ ان تؤخر صلاۃ حتی یدخل وقت صلاۃ اخری ۲؎۔
سونے میں کچھ تقصیر نہیں تقصیر تو جاگنے میں ہے کہ تو ایک نماز کو اتنا مؤخر کرے کہ دوسرے نماز کا وقت آجائے۔
(۲؎ مسند احمد بن حنبل مسانید ابن ابی قتادۃ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۵/۳۰۵)
یہ حدیث خود حالتِ سفر میں حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی رواہ مسلم واحمد وابوداود والطحاوی وابن حبان عن ابی قتادۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ سفر وحضر میں حاضر بارگاہِ رسالت پناہ ہمرکاب نبوت مآب رہا کرتے صاف صریح انکار فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم کو کبھی دو۲ نمازیں جمع فرماتے نہ دیکھا مگر مزدلفہ عرفات میں جہاں کی جمع ہنگام حج حجاب کے لئے سب کے نزدیک متفق علیہ ہے نویں تاریخ عرفات میں ظہر وعصر پھر نویں شب مزدلفہ میں مغرب وعشا ملاکر پڑھتے ہیں صحیح بخاری صحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وشرح معانی الاثار امام طحاوی میں اُس جناب سے ہے:
قال مارأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتھا الاصلاتین جمع بین المغرب والعشاء وصلی الفجر قبل میقاتھا ۱؎۔
وفی لفظ للنسائی کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یصلی الصلاۃ لوقتھا الابجمع وعرفات ۲؎۔
سیدنا امام محمد مؤطا شریف میں بسند صحیح امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: انہ کتب فی الافاق ینھاھم ان یجمعوا بین الصلاتین ویخبرھم ان الجمع بین الصلاتین فی وقت واحد کبیرۃ من الکبائر ۳؎
(یعنی اُس جناب خلافت مآب ناطق بالحق والصواب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام آفاق میں فرمان تحریر فرما بھیجے کہ کوئی شخص دو۲ نمازیں جمع نہ کرے اور اُن میں ارشاد فرمایا کہ ایک وقت میں دو۲ نمازیں ملانا کبیرہ گناہوں سے ایک گناہ کبیرہ ہے)
(۳؎ مؤطا امام محمد،باب الجمع بین الصلاتین فی السفر والمطر مطبوعہ آفتاب عالم پریس مجتبائی لاہور ص ۱۳۲)
مخالفین کے پاس جمع حقیقی پر قرآن وحدیث سے اصلاً کوئی دلیل نہیں جو کچھ پیش کرتے ہیں یا تو جمع صوری صریح ہے یعنی ظہر یا مغرب کو اُس کے ایسے آخر وقت میں پڑھنا کہ فارغ ہوتے ہی فوراً یا ایک وقفہ قلیل کے بعد عصر یا عشا کا وقت آجائے پھر وقت ہوتے ہی معاً عصر یا عشا کا پڑھ لینا کہ حقیقت میں تو ہر نماز اپنے وقت پر ہُوئی مگر دیکھنے میں مل گئیں ایسی جمع مریض ومسافر کے لئے ہم بھی جائز مانتے ہیں اور حدیثوں سے یہی ثابت ہے یا محض مجمل ہے جس میں جمع حقیقی کی اصلاً بُو نہیں یا صاف محتمل کہ احادیث جمع صوری سے بہت اچھے طور پر متفق ہوسکتی ہے غرض کوئی حدیث صحیح وصریح مفسر اُن کے ہاتھ میں اصلا نہیں بعونہٖ تعالٰی اس کا نہایت شافی ووافی بیان فقیر نے رسالہ حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین ۳۱۳اھ میں لکھا کہ اس سوال کے آنے پر تحریر کیا جسے تحقیق حق منظور ہو اس کی طرف رجوع کرے وباللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۱۴) مرسلہ جناب مولانا مولوی شاہ عبدالغفار صاحب قادری قدوسی مدرس اول مدرسہ جامع العلوم معکسر بنگلور
مولٰنا المولوی جناب مولوی احمد رضا خان صاحب قادری الحنفی البرکاتی البریلوی ادام برکاتکم والطافکم السلام علیکم وعلٰی من لدیکم حضرت قاضی مفتی ارتضا علی خاں صاحب جو وقت اخراج کے اس طور سے کہ پہلے ایک تختہ اصطر لاب اپنے سامنے رکھے تھے اور دودائرہ ہندیہ پتھّر پر تیار کرکے اصطر لاب پر شاقول پھرائے اور دائرہ ہندیہ پر نظر کرکے ایسا ایک ہی کامل محنت کرکے یہ رسالہ لکھے ہیں آپ اس سے عرض کرتا ہوں کہ مدراس تیرہ۱۳درجہ پر واقع ہے اور یہ معکسر بنگلور دوسوسترہ میل پر ساڑھے سترہ درجہ پر ہے ہم اس حساب سے ۵ لحظہ بڑھ کر لیتے ہیں اس رسالہ میں جو ۱۵ لحظہ دیری کرنا لکھے ہیں حاجت نہیں ریلوے حساب سے مدراس اور یہاں دو۲ لحظہ ہی کا فرق ہے اگر ۵ لحظہ تاخیر کریں تو کافی رہا آپ کا بریلی شہر اس حساب کے موافق ہرگز نہ ہوگا کیونکہ اغلباً شاید چودہ۱۴ درجہ پر ہے، بینوا توجروا۔
الجواب: السّلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اختلاف اوقات بہ تقدم وتاخر تو ضرور تبدیل طول بلد سے ہوجاتا ہے مگر وہ وجہ تغیر حساب نہیں مثلاً جس بلد میں طلوع شمس کسی جز میں سات بجے پر ہوتو اس عرض کے جتنے بلاد وآفاق ہیں سب میں طلوع شمس جز مذکور میں سات۷ ہی بجے ہوگا بلاتفاوت اگرچہ بلد شرقی میں سات پہلے بجیں گے اور غربی میں بعد ہاں اختلاف عرض موجب تزاید وتناقض وتغیر حساب ہوتا ہے کہ اس کے باعث تعدیل النہار ومطالع البروج وقوس النہار وقوس اللیل وغایت ارتفاع وغایت انحفاض وغیرہا امور جن پر ابتنائے حساب اوقات ہے متبدل ہوجاتے ہیں مدراس بنگلور کے عرض میں ایسا تفاوت نہیں کہ تغیر معتدبہ دے، مدراس تیرہ۱۳ درجے ۵ دقیقہ ہے اور بنگلور جہاں تک مجھے مراجعت اطالس سے معلوم ہوا ہے علی قول بارہ۱۲ درجے اُنسٹھ۵۹ دقیقہ اور علی قول آخر ۱۲ درجے ۵۵ دقیقے پر ہے۔ یہ چھ۶ یا دس۱۰ دقیقے کا تفاوت چنداں مغیر اوقات نہ ہوگا، پانچ دقیقہ ساعت جو آپ نے مقرر فرمائے کثیر ہیں بریلی کا عرض ۲۸ درجے ۲۱ دقیقے ہے واللہ تعالٰی اعلم۔