Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
71 - 157
مسئلہ (۲۹۸)    از مزنگ لاہور مرسلہ ابوالرشید محمد عبدالعزیز خطیب وامام جامع مسجد ملک سردار خان مرحوم    ۱۲ ذیقعدہ ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اوقاتِ نماز جو شارع علیہ السلام نے معین فرمائے ہیں ان کے بیچ میں کسی نماز کا فاصل وقت مقرر کرنا جائز ہے یا حرام؟
الجواب: حدیث میں سنّتِ اقدس یوں مروی ہے کہ جب لوگ جلد حاضر ہوجاتے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نماز جلد پڑھ لیتے اور حاضری میں دیر ملاحظہ فرماتے تو تاخیر فرماتے اور کبھی سب لوگ حاضر ہوجاتے اور تاخیر فرماتے یہاں تک کہ ایک بار نماز عشا میں تشریف آوری کا بہت انتظارِ طویل صحابہ کرام نے کیا بہت دیر کے بعد مجبور ہوکر امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے درِ اقدس پر عرض کی کہ عورتیں اور بچّے سوگئے، اس کے بعد حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برآمد ہوئے اور فرمایا: ''رُوئے زمین پر تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کا انتظار کرتا ہو اور تم نماز ہی میں ہو جب تک نماز کے انتظار میں رہو''۔ نمازوں کے لئے اگر گھنٹے گھڑی کے حساب سے اگر کوئی وقت معین کرلیا جائے جس سے لوگوں کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے اور وقت معین پر جلد جمع ہوجائیں جیسا حرمین طیبین میں اب معمول ہے تو اس میں بھی حرج نہیں جبکہ ضعیفوں اور مریضوں پر تکلیف اور جماعت کی تفریق نہ ہو، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۹۹)    از مرادآباد مرسلہ مولوی محمد عبدالباری صاحب    ۷ صفر ۱۳۳۸ھ : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی امام عادتاً مغرب کی اذان اُس وقت دَلاوے کہ اُس شہر کی سب مساجد میں یقینا نماز ہوچکی ہو مثلاً ۲۰ منٹ کے بعد اور اپنے پیر کے دکھانے کو یعنی اُس کی موجودگی میں بیس۲۰ منٹ قبل قصداً ایسا کرے اور ساتھ ہی اس کے جو سجود وقعود کہ وہ عادتاً کرتا تھا اپنے پیر کی موجودگی اُس سے سہ گنے وقت میں ادا کرے تو یہ اذان ونماز کہاں تک ریا ومکاری پر دال ہے۔
الجواب اذانِ مغرب میں بلاوجہ شرعی تاخیر خلاف سنّت ہے پیر کے سامنے جلد دلوانا ریا پر کیوں محمول کیا جائے بلکہ پیر کے خوف یا لحاظ سے اُس خلافِ سنّت کا ترک پیر کے سامنے رکوع وسجود میں دیر بھی خواہ نخواہ ریا اور مکاری پر دلیل نہیں بلکہ اس کے موجود ہونے سے تأثر بھی ممکن اور مسلمانوں کا فعل حتی الامکان محملِ حسن پر محمول کرنا واجب اور بدگمانی ریا سے کچھ کم حرام نہیں، ہاں اگر رکوع وسجود میں اتنی دیر لگاتا ہوکہ سنّت سے زائد اور مقتدیوں پر گراں ہو تو ضرور گنہگار ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
سوال دوم(۳۰۰) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ طلوع آفتاب ہونے کے کتنی دیر کے بعد نماز قضا پڑھنے کا حکم ہے اور وہ شخص جس نے کہ سنّتیں فجر کی نہ پڑھی ہوں اور دس بارہ منٹ طلوع میں باقی ہوں نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں، اسی طرح پر ظہر کی سنت بے پڑھے امامت کرسکتا ہے یا نہیں، بینوا توجروا۔
الجواب: طلوع کے بعد کم ازکم بیس۲۰ منٹ کا انتظار واجب ہے۔ دس بارہ منٹ میں سنّتیں اور فرض دونوں ہوسکتے ہیں سنّتیں پڑھ کر نماز پڑھائے، اگر وقت بقدر فرض ہی کے باقی ہے تو آپ ہی سُنتیں چھوڑے گا پھر اگر جماعت میں کسی نے ابھی سُنتّیں نہ پڑھیں یا جس نے پڑھیں وہ قابلِ امامت نہیں تو جس نے نہ پڑھیں وہی امامت کرے گا اور اگر وقت میں وسعت ہے تو سنّتِ قبیلہ کا ترک گناہ ہے اور اُس کی امامت مکروہ ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۰۱) از موضع باکڑی ضلع گورگانوہ ڈاک خانہ ڈھنیہ مسئولہ محمد یسین خان۱۰ مضان ۱۳۳۱ھ

علمائے دین کیا فرماتے ہیں ایک مولوی صاحب مولود شریف عشا سے لے کر ایک بجے رات تک پڑھتے اور نمازِ عشا بعد مولود شریف کے ایک بجے کے بعد پڑھتے ہیں بغیر عذر کے، فقط۔
الجواب الملفوظ: نمازِ عشا کی نصف شب سے زائد تاخیر مکروہ ہے اُن کو چاہئے عشا پڑھ کر مجلس شریف پڑھا کریں، وھو تعالٰی اعلم ۔
مسئلہ (۳۰۲)    از جے پور بیرون اجمیری دروازہ، کوٹھی حاجی عبدالواجد علی خان مسئولہ حامد حسن قادری     ۱۷ رمضان ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ نمازِ مغرب اور افطاار کا حکم ایسے وقت دینا کہ چند حضار مسلمانوں کو غروب میں کلام ہوگیا ہے اور ان دونوں کا صحیح وقت کیا اور اس کی شناخت کیا ہے؟

(۲)    نمازِ مغرب اور اذانِ عشا میں کس قدر فاصلہ درکار ہے، کیا جس جگہ پر بحساب دھُوپ گھڑی قریب سواسات بجے شام کو اذانِ مغرب ہوتی ہو وہاں آٹھ بجے فرضِ عشا پڑھ سکتے ہیں، اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ کم ازکم ایک گھنٹا پچیس منٹ کا فاصلہ اذانِ مغرب واذانِ عشا میں ہونا چاہئے، اس کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: جب مشرق سے سیاہی بلند ہو اور مغرب میں دن چھپے اور آفتاب ڈوبنے پر یقین یعنی پورا ظنِّ غالب ہوجائے اُس وقت افطار کیا جائے اُس کے بعد دیر لگانا نہ چاہئے، یہی علامات حدیث میں ارشاد ہوئیں اور جو عالم مقتدا ہو اور علمِ توقیت جانتا ہو اور اُسے قرائن صحیحہ سے غروب کا یقین ہوگیاہو وہ افطار کا فتوٰی دے سکتا ہے اگرچہ بعض ناواقفوں کو غروب میں ابھی تردّد ہو کمادَلّ علیہ حدیث انزل فاجدح لنا واللہ تعالٰی اعلم۔

(۲)    یہ فاصلے باختلافِ عرض بلد مختلف ہوتے ہیں، ان میں کم ازکم ایک گھنٹا ۱۸ منٹ کا فاصلہ ہے سواسات پر آفتاب ڈوبے اور پون گھنٹے بعد عشا ہوجائے ایسا تمام جہان میں کہیں نہیں جس زمانے میں سوا سات کے قریب غروب ہوتا ہے اذانِ مغرب وعشا کا فاصلہ اور بھی بہت زائد ہوجاتا ہے مثلاً ان بلاد میں ایک گھنٹا چھتیس منٹ اور پون گھنٹے کا فاصلہ تو ان بلاد میں کسی طرح مذہبِ صاحبین پر بھی صحیح نہیں تو وہ نمازِ عشا ازرُوئے مذہبِ حنفی بالکل باطل ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۰۳)    چہ میفر مایند علمائے دین اندرین مسئلہ کہ فرائض داخل نماز درہر صلاۃ فرضیت اویکسان ست یاصرف درنماز فرض، بینوا توجّروا۔
کیا فرماتے ہیں علماءِ دین اس مسئلہ میں کہ جو فرائض نماز میں داخل ہیں، ان کی فرضیت ہر نماز میں یکساں ہے یا صرف فرضی نمازوں کے ساتھ مختص ہے؟ بینوا توجّروا۔ (ت)
الجواب: تکبیر تحریمہ در ہر نماز مطلقا حتی صلاۃ الجنازۃ ورکوع وسجود وقرأت وقعود درہر نمازِ مطلق اگرچہ نافلہ باشد

و قیام درہرنماز فرض وواجب ونیز درسنّت فجر علی الاصح وخروج بصنع خود علی تخریج البروعی بخلاف الکرخی اینہمہ فرض است وتعدیل ارکان واجب وقدرت ہمہ جاشرط است اخرس رابتکبیر وقرأت ومریض مؤمی رابررکوع وسجود تکلیف ندہند وفی مراقی الفلاح شرح نورالایضاح للعلامۃ الشرنبلالی الاحدب اذابلغت حدبتہ الرکوع یشیر براسہ للرکوع لانہ عاجز مماھو اعلی ۱؎ اھ واللہ تعالٰی اعلم۔
تکبیر تحریمہ، ہر نماز میں، حتی کہ نماز جنازہ میں بھی۔ رکوع، سجود، قرأت اور قعود (نماز جنازہ کے علاوہ) ہر نماز میں، خواہ نفلی نماز ہو۔ قیام، ہر اس نماز میں جو فرض اور واجب ہو اور اصح قول کے مطابق فجر کی سُنّتوں میں بھی۔ اپنے کسی عمل سے نماز سے فجر کی سُنّتوں میں بھی۔ اپنے کسی عمل سے نماز سے خارج ہونا بروعی کی تخریج کے مطابق، کرخی کا اس میں اختلاف ہے۔ یہ سب فرائض ہیں اور تعدیل ارکان واجب ہے۔ لیکن استطاعت سب میں شرط ہے۔ گونگا تکبیر وقرأت کا اور اشارہ کرنے والا مریض رکوع وسجود کا مکلّف نہیں ہے۔ علامہ شرنبلالی کی مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے کہ اگر کُبڑے کا کُبڑا پن رکوع کی حد تک پہنچا ہوا ہے تو وہ رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرے گا کیوں کہ اس سے زیادہ اس کے بس میں نہیں ہے اھ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی ،باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی     ص ۲۵)
مسئلہ (۳۰۴)    نہار عرفی وشرعی میں کیا فرق ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ نہار عرفی طلوع مرئی کنارہ شمس سے غروب مرئی کل قرص شمس تک ہے
واحترزت بذلک عن النھار النجومی فانہ من انطباق مرکز الشمس علی دائرۃ الافق من قبل المشرق الٰی انطباقہ علیھا فی جھۃ المغرب، فیکون العرفی اکبر من النجومی ابداً بقدر مایطلع نصف کرۃ الشمس ویغرب النصف کمالایخفٰی، ویقدر مایقتضیہ الانکسار الافقی فی الجانبین، وھو قدر اربع وثلٰثین دقیقہ من دقائق فلک البروج، فی کل جانب۔
اس سے میں نے احتراز کیا ہے نہار نجومی سے، کیونکہ وہ مشرقی جانب کے افقی دائرہ پر سورج کے مرکز کے منطبق ہونے سے شروع ہوتی ہے اور مغربی جانب کے افقی دائرہ پر سورج کے مرکز کے منطبق ہونے پر ختم ہوتی ہے تو نہار عرفی، نہار نجومی سے ہمیشہ اتنی بڑی ہوتی ہے جتنی دیر میں سورج کا آدھا کرہ طلوع ہوتا ہے اور آدھا غروب ہوتا ہے، جیسا کہ مخفی نہیں ہے، اور دونوں طرف جو افقی انکسار واقع ہوتا ہے اس کے تقاضے کے اندازہ کیا جائے گا اور وہ ہر جانب، فلکِ بروج کے دقیقوں میں سے چونتیس۳۴ دقیقوں کے برابر ہوتا ہے۔ (ت)
اور نہار شرعی طلوع فجر صادق سے غروب مرئی کل آفتاب تک ہے تو اس کا نصف ہمیشہ اس کے نسف سے پہلے ہوگا مثلاً فرض کیجئے کہ جو تحویل حمل کا دن ہے کہ آفتاب بریلی اور اس کے قریب کے مواضع میں چھ۶ بجے نکلا اور چھ۶ بج کر چودہ۱۴ منٹ پر ڈوبا اور تقریباً پونے پانچ بجے صادق چمکی تو اس دن نہار شرعی ساڑھے تیرہ (۲/۱ ۱۳) گھنٹے کا ہے جس کا آدھا چھ۶ گھنٹے پینتالیس۴۵ منٹ، اسی مقدار کو پونے پانچ (۴/۳ ۴) پر بڑھایا تو ساڑھے گیارہ بجے کا وقت آیا اسی کو ضحوہ کبرٰی کہتے ہیں اس وقت تک کچھ کھایا پیا نہ ہوتو روزہ کی نیت جائز ہے اس دوسرے قول پر اس وقت سے نصف النہار حقیقی تک کہ روزِ تحویل حمل یعنی بیس۲۰ اکیس۲۱ مارچ کو تقریباً بارہ بجے سات منٹ پر ہوتا ہے سارا وقت سینتیس۳۷ منٹ کا وقت استوا ہے جس میں نماز ناجائز وممنوع اور یہ ظاہر کہ یہ مقداریں اختلافِ موسم سے گھٹتی بڑھتی رہیں گی، یہ قول ائمہ خوارزم کی طرف نسبت کیاگیا اور امام رکن الدین صباغی نے اسی پر فتوٰی دیا،
دالمحتار میں ہے: عزافی القھستانی، القول بان المراد انتصاف النھار العرفی، الٰی ائمۃ ماوراء النھر، وبان المراد انتصاف النھار الشرعی، وھو الضحوۃ الکبرٰی الی الزوال، الٰی ائمۃ خوارزم ۱؎ وھھنا ابحاث سنوردھا ان شاء اللّٰہ تعالٰی فی غیرھذا التحریر عــہ۔
قہستانی میں اس قول کو کہ مراد نہار عرفی کا انتصاف ہے، ائمہ ماورأ النہر کی طرف منسوب کیا ہے اوراس قول کو کہ نہار شرعی کا انتصاف مراد ہے، یعنی ضحوہ کبرٰی زوال تک، ائمہ خوارزم کی طرف منسوب کیا ہے اور یہاں کچھ اور بحثیں ہیں جنہیں ہم کسی اور تحریر میں بیان کریں گے واللہ تعالٰی اعلم۔
عــہ بیاض فی الاصل بخط الناسخ ختمہ علی لفظۃ التی فبدلناہ بالتحریر ۱۲ مصححہ الفقیر حامد رضا خان غفرلہ
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الصلوٰۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۲۷۳)
مسئلہ (۳۰۵)    مسئولہ حافظ علی نجش ساکن قصبہآنولہ ضلع بریلی محلہ گنج مسجد خلیفاں۲۵ شوال المکرم ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں:

(۱)    ۱۴/ اگست کو دھوپ گھڑی سے ۱۱ بج کر ۱۷ منٹ پر اور مدراس ٹائم سے ۱۱ بج کر ۳۳ منٹ سے ضحوہ کبرٰی شروع ہوا اور دھوپ گھڑی سے ۱۲ بجے اور ریلوے ٹائم سے ۱۲ بج کر ۱۶ منٹ پر تمام ہوا تو ضحوہ کبرٰی سے لے کر حقیقی نصف النہار تک کوئی نماز مثل عیدیں وجنازہ درست ہے یا نہیں؟

(۲)    مدراسی ٹائم شرعی وقت سے جنوری فروری میں ۲۰ منٹ آگے ہوتا ہے جبکہ شرعی وقت میں ۱۲ بجتے ہیں تو مدراسی ٹائم میں ۱۲ بج کر ۲۰ منٹ آتے ہیں اگر کسی مسجد میں مدراسی ٹائم سے گھڑی ہو اُسی حساب سے ۱۲ بج کر ۱۰ منٹ باقی ہیں اور زوال دھوپ گھڑی سے مانا جائے گا یا مدراسی ٹائم سے اور یومِ جمعہ کو زوال ہوتا ہے یا نہیں؟
الجواب: 

(۱)    اصح واحسن یہی ہے کہ ضحوہ کبرٰی سے نصف النہار حقیقی تک سارا وقت وہ ہے جس میں نماز نہیں، ہاں جنازہ اسی وقت میں آیا تو پڑھ سکتے ہیں لتادیھا کماوجبت۔

(۲)    ہمارے مذہب میں بروز جمعہ بھی وقتِ استوا پر وہی احکام ہیں جسے لوگ وقتِ زوال بولتے ہیں، زوال میں صحیح دھوپ گھڑی کا اعتبار ہے مدراس وغیرہ کے اوقات کا کچھ لحاظ نہیں، جو اذان زوال سے پہلے ہوئی ناجائز ہوئی زوال آنے پر پھر کہی جائے کماھو حکم کل اذان اذن قبل الوقت اب ریلوے گھڑیوں میں جولائی ۱۹۰۵ء سے مدراسی وقت بھی نہیں بلکہ وسطِ ہند کا وقت ہے جہاں فصل طول ساڑھے بیاسی درجے یعنی ساڑھے پانچ گھنٹے کا ہے لہذا ہندوستان بھر کی گھڑیاں جب سے نو منٹ زائد کردی گئی ہیں اس زیادت پر بھی جنوری کی ابتدائی تاریخوںمیں ۱۲ بج کر ۲۰ منٹ سے پہلے زوال ہے، ہاں بعد کی تاریخوں اور فروری میں اتنا اور اتنے سے زائد آنولہ میں ۱۲ بج کر ۲۶ منٹ تک ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۰۶)    مسئولہ عبداللہ دُکاندار مقام درو ضلع نینی تال روزسہ شنبہ     ۱۶ ذی الحجہ ۱۳۳۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس میں کہ:

(۱)    صبح کاذب اور صبح صادق کی مجھے قَطعی پہچان نہیں ہے کہ صبح صادق کتنی دیر کی ہوتی ہے کل میعاد لگادی جائے کہ گھنٹہ بھر کا یا کم وبیش مجھے لفظوں میں شک رہتا ہے اور بارہ۱۲ مہینے ایک ہی برابر ہوتا ہے یا کچھ فرق ہے ہر مہینہ کی علیحٰدہ علیحٰدہ میعاد لگادیجئے تاکہ تسکین ہو۔

(۲)    تہجد کے وقت بیس۲۰ رکعت قضا پڑھے تو ہر نیت کے ساتھ اقامت کرے یا کہ پہلی نیت کے۔ بینوا توجروا۔
الجواب: 

(۱)    ان شہروں میں کم سے کم ایک گھنٹہ انیس منٹ کی ہوتی ہے یعنی صبح صادق ہونے سے طلوعِ آفتاب تک اتنا وقت رہتا ہے یہ مارچ کے مہینہ میں ہے پھر وقت بڑھتا جاتا ہے اخیر جون میں ایک گھنٹہ پینتیس منٹ ہوجاتا ہے اس سے زیادہ صبح کی مقدار ان شہروں میں نہیں ہوتی پھر گھٹتا جاتا ہے اخیر ستمبر میں وہی ایک گھنٹہ انیس منٹ رہ جاتا ہیے چوبیس اکتوبر تک یہی رہتا ہے پھر بڑھتا ہے ۲۲ دسمبر کو ایک گھنٹہ ۲۸ منٹ ہوجاتا ہے۔ جاڑے کے موسم میں اس سے زیادہ نہیں بڑھتا پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے مارچ میں وہی ایک گھنٹہ ۱۹ منٹ رہ جاتا ہے انہیں ۱۶ منٹ کے اندر دورہ کرتا ہے یعنی کم سے کم ایک گھنٹہ ۱۹ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹا ۳۵ منٹ۔

(۲)    قضا کہ تنہا پڑھے اس میں ایک دفعہ بھی اقامت نہ چاہئے کہ قضا کرنا گناہ تھا اور گناہ کے چھپانے کا حکم تھا نہ کہ اعلان کا، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۰۷) مسئولہ محمد یوسف از فتح پور ڈاکخانہ سیور ضلع بھاگل پور بتاریخ ۱۶ ذی الحجہ ۱۳۳۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اوقاتِ نماز کو مقرر کرنا چاہئے یا جس وقت خاص لوگ آلیں اس وقت نماز شروع کرنا چاہئے، بینوا توجروا۔
الجواب: عادت کریمہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ تھی جب لوگ جلد جمع ہوجاتے نماز پڑھ لیتے ورنہ دیر فرماتے مگر آج کل لوگوں کو شوقِ جماعت کم ہے وقت مستحب کی تعیین مناسب ہے پھر بھی اگر تاخیر دیکھیں تو اتنا انتظار کریں کہ حاضرین پر بار نہ ہو اور کسی خاص شخص کے انتظار کے لئے تاخیر نہ چاہئے مگر چند صورتوں میں، اول کہ وہ امام معین ہو، دوم عالمِ دین، سوم حاکمِ اسلام، چہارم پابندِ جماعت کہ بعض اوقات مرض وغیرہ عذرکی وجہ سے اسے دیر ہوجائے، پنجم سربرآوردہ شریر جس کا انتظار نہ کرنے سے اےذا کا خوف ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۰۸)    از مقام آہور ملک مارواڑ متصل آیر پتورا پیر محمد امیرالدین بروزیک شنبہ    بتاریخ ۱۳ محرم الحرام ۱۳۳۴ھ

نمازِ عصر کے بعد قرآن شریف پڑھنا دیکھ کر یا زبانی امام اعظم رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک جائز ہے یا نہیں، بینوا توجروا۔
الجواب: بعد نمازِ عصر تلاوت قرآن عظیم جائز ہے دیکھ کر ہو خواہ یا دپر، مگر جب آفتاب قریب غروب پہنچے اور وقتِ کراہت آئے اُس وقت تلاوت التوی کی جائے اور اذکارِ الٰہیہ کیی جائیں کہ آفتاب نکلتے اور ڈوبتے اور ٹھیک دوپہر کے وقت نماز ناجائز ہے اور تلاوت مکروہ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۳۰۹)    بعد نماز عصر کے اور فجر کے سجدہ کرنا یا فقہ پڑھنا امام اعظم رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجّروا۔
الجواب: جائز ہے مگر جب عصر میں وقتِ کراہت آجائے تو قضا بھی جائز نہیں اور سجدہ مکروہ اگرچہ سہو یا تلاوت کا ہو اور سجدہ شکر تو بعد نمازِ فجر وعصر مطلقاً مکروہ، دُرمختار میں ہے:
وکرہ تحریما، وکل مالایجوز مکروہ، صلاۃ مطلقا، ولوقضاء اوواجبۃ اونفلا اوعلی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسھو، مع شروق واستواء وغروب ۱؎۔
مکروہ تحریمی ہے اور جو کام جائز نہ ہو وہ مکروہ ہی ہوتا ہے نماز مطلقاً خواہ قضا ہو، واجب ہو، نفل ہو یا نماز جنازہ ہو۔ اور سجدہ تلاوت اور سجدہ سہو۔ بوقتِ طلوع، استواء اور غروب۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ    یستحب تاخیر العصر    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۶۱)
ردالمحتار میں ہے: یکرہ ان یسجد شکرا بعد الصلاۃ، فی الوقت الذی یکرہ فیہ النفل ولایکرہ فی غیرہ ۲؎ اھ
نماز کے بعد سجدہ شکر کرنا ان اوقات میں مکروہ ہے جن میں نماز مکروہ ہے، اس کے علاوہ مکروہ نہیں (ت) واللہ تعالٰی اعلم
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب الصلوٰۃ    مطلب طلوع الشمس من مغربہا    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۲۷۳)
Flag Counter