Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
70 - 157
مسئلہ (۲۸۷)    ۱۷ جمادی الاولٰی ۱۳۰۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام نابینا نے صبح کی نماز پڑھاتے وقت ایسی بڑی سورت پڑھی کہ جب نماز شروع کی تھی اُس وقت سُورج نہیں نکلا تھا اور جب سلام پھیرا تو سُورج نکل آیا یہ نماز ہوئی نہیں، بینوا توجّروا۔
الجواب:  نمازِ فجر میں اگر قعدہ سے پہلے آفتاب نکل آیا یعنی ہنوز اتنی دیر جس میں التحیات پڑھ لی جائے نہ بیٹھنے پایا کہ سُورج کی کرن چمکی تو بالاتفاق جاتی رہی اور اگر تحریمہ نماز سے باہر آنے کے بعد نکلا تو بالاتفاق ہوگئی مثلاً جب تک پہلی بار لفظ السلام کہا تھا سورج نہ نکلا تھا السلام کہتے ہی فوراً چمک آیا کہ علیکم ورحمۃ اللّٰہ سورج نکلنے میں کہا تو نماز صحیح ہوگئی کہ فقط السلام کہنا تحریمہ نماز سے باہر کردیتا ہے الا من علیہ سھو بشرط ان یاتی بالسجود (مگر جس پر سجدہ سہو ہو، بشرطیکہ سجدہ کرے۔ ت) اور اگر طلوعِ شمس دونوں امر کے بیچ میں ہوا یعنی قعدہ بقدر تشہد کرچکا اور ہنوز تحریمہ نماز میں تھا کہ آفتاب طالع ہُوا تو ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک جاتی رہی یعنی یہ فرض نفل ہوکر رہ گئے فرضوں کی قضا ذمّہ پر رہی۔
فی الدرالمختار: ولووجد المنافی بلاصنعہ قبل القعود بطلت اتفاقا، ولوبعدہ بطلت عندہ، کطلوع الشمس فی الفجر۔

ولاتنقلب الصلاۃ نفلا الافہما اذاطلعت ۱؎ اوالخ اھ ملتقطا وفی ش عن الرحمتی عن التجنیس: الامام اذافرغ من صلاتہ، فلما قال: السلام، جاء رجل واقتدی بہ قبل ان یقول: علیکم، لایصیر داخلا فی صلاتہ، لان ھذا سلام؛ الاتری انہ لواراد ان یسلم علی احد فی صلاتہ ساھیا فقال: السلام، ثم علم فسکت، تفسد صلاتہ ۲؎۔
درمختار میں ہے: ایسا منافیِ نماز کہ جس میں نمازیعمل کو دخل نہ ہو، اگر قعدے سے پہلے پایا جائے تو نماز بالاتفاق باطل ہوجائے گی اور اگر قعدے سے بعد پایا جائے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک باطل ہوجائے گی، مثلاً فجر کی نماز کے دوران سورج کا طلوع ہوجانا اور یہ نماز نفل نہیں بنتی، ہاں اگر طلوع ہو... الخ اور شامی میں رحمتی سے، اس نے تجنیس سے نقل کیا ہے کہ امام جب نماز سے فارغ ہُوا اور کہا ''السلام'' تو ایک شخص آیا اور ''علیکم'' کہنے سے پہلے اقتداء کرلی تو وہ اس نماز میں داخل شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ صرف ''السلام'' کہنا بھی سلام ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بھُول کر نماز میں کسی کو سلام دینا چاہے اور کہے ''السلام'' پھر اسے یاد آجائے (کہ میں نماز میں ہوں) اور چُپ ہوجائے تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ (ت)
 (۱؎ دُرمختار    باب الاستخلاف    مطبوعہ مجتبائی دہلی        ۱/۸۷۔ ۸۸)

(۲؎ ردالمحتار    باب صفۃ الصلوٰۃ    داراحیاء الثراث العربی بیروت    ۱/۳۱۴)
مقتدیوں کو چاہئے کہ اپنے اس نابینا امام کو پیش از شروع متنبہ کردیا کریں کہ آج وقت اس قدر ہے پھر بھی اگر تطوہل سے باز نہ آئے اور یونہی نماز کھوئے تو آپ ہی امامت سے معزولی کا مستحق ہے واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۸۸)    از جبل پور عقب کوتوالی مرسلہ مولوی محمد برہان الحق صاحب سلمہ سلخ    شعبان ۱۳۳۵ھ       

حضور پُرنور بعد سلام نیاز گزارش ضحوہ کبرٰی نکالنے کا کیا قاعدہ ہے ایک بار پہلے ارشاد ہوا تھا مگر غلام بھُول گیا۔
الجواب: نورِ دیدہ سعادت مولٰنا المکرم جعلہ المولی تعالٰی کا سمہ برہان الحق السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، خیریت مزاجِ جنابِ مولٰنا المکرم اکرمہم السلام وسلمہ سے اطلاع دیجئے اور میرے لئے بھی طلبِ دعا کیجئے ابھی ایک ہفتہ میں تین دورے بخار کے ہوچکے ہیں ضعف قوی ہے اور قوٰی ضعیف وحسبنا المولی الکریم اللطیف جس دن کا ضحوہ کبرٰی نکالنا منظور ہو اُس دن کے وقتِ صبح ووقتِ غروب کو جمع کرکے تنصیف کریں اور اس پر چھ۶ گھنٹے بڑھالیں یہ وقت ضحوہ کبرٰی ہوگا اس سے لے کر نصف النہار حقیقی تک نماز مکروہ ہے یہ وقت ہمارے بلاد میں کم سے کم۳۹ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ۴۷ منٹ ہوتا ہے مثلاً کل روز پنجشنبہ بحسابِ قواعد بشرط رویت یکم ماہ مبارک ہے اوقات یہ ہیں:نقشے میں تمام اوقات ثانیوں سے اعشاریہ تک تھے جن کے رفع اسقاط کے سبب ۲ء یعنی تفاوت آیا
5_3.jpg
مسئلہ (۲۸۹)    از شہسرام مدرسہ عربیہ مرسلہ مولوی ظفرالدین صاحب مدرس اوّل مدرسہ مذکور     ۹ رمضان ۱۳۳۵ھ بحضور اعلٰیحضرت عظیم البرکت قبلہ وکعبہ دام ظلّہم الاقدس۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،۔ خاکسار حضورِ والا کے قواعدِ فرمودہ کے مطابق برابر وقت نکالا کرتا تھا مگر اس دفعہ جب میں مدراس گیا وہاں مولوی عبداللہ صاحب کی احقر سے ملاقات ہُوئی وہ برابر وقت مدراس شائع کیا کرتے ہیں چنانچہ ایک تختہ جس پر سال تمام شمسی کے اوقات اُنہوں نے استخراج کرکے شائع کیا ہے مجھے دیا اور یہ کہا کہ: پرچہ میں نے برہلی بھی روانہ کیا ہے تاکہ وہ حضرات میری غلطی پر مجھے متنبہ فرمائیں اس کی طرف توجہ فرمائیی، جناب کو میں بھی اسی غرض سے دیتا ہوں، چنانچہ وہ پرچہ لیتا ہوا میں یہاں آیا ۲۲ جون ۱۹۱۷ء سے میں نے جانچ شروع کیا وقت غروب میرے قاعدہ کے مطابق ۶ بج کر ۳۷ منٹ ۲۵ سیکنڈ اور طلوع ۵ بج کر ۴۴ منٹ ۱۹ سکنڈ ہوا اور اس نقشہ میں غروب ۶ بج کر ۳۴، اور طلوع ۵ بج کر ۴۸ منٹ لکھا ہے، غرض ۳، ۴ منٹ کا فرق ہے عشاء کا وقت نقشہ میں ۷ بج کر ۵۶ منٹ لکھا ہے میں پریشان ہوا کہ آخر فن کا جاننے والا اس قدر غلطی کیا کرے گا لاجرم میں نے اپنے ہی مستخرج وقت کو غلط سمجھ کر اس غلطی کی جستجو میں ہُوا تو سوا اس کے اور کچھ سمجھ میں نہ آیا میں نے بوجہ موافق الجہۃ ہونے کے عرض بلد اور مَہل سے تفریق کرکے حاصل فرق کو جمع کرکے عمل کیا ہے اور جگہ کہلئے مَیل کو عرض بلد سے کم کرکے حاصل فرق الح الونح میل سے عمل کرنا ہوتا ہے اور یہاں عرض بلد بہت کم ہونے کی وجہ سے میل کو۔۔۔۔۔ عرض بلد سے کم کیا گیا ہے اُس کے بعد یہ خیال ہوا کہ یہ وقت تو اخیر پنجاب قریب کشمیر کا ہونا چاہئے جہاں کا ۔۔۔۔۔
5_4_1.jpg
عرض لح مط مح ہوکہ الح الونح کو اُس کو تفریق کرکے ی الـــجبچتا ہے اب پریشانی ہے کہ یہاں کا عمل کس طرح ہوگا اگرچہ قاعدہ کے یہ لفظ (اگر موافق الجہۃ ہو تفاضل لیں) اس کو بھی عام ہے اس لئے اس کا قاعدہ ارشاد ہو کہ جب عرض مَیل سے کم ہوگا تو کیاکیا جائے گا۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم
الجواب: ولدی الاعز جلہ اللہ تعالٰی کاسمہ ظفرالدین المتین آمین، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مولوی عبداللہ صاحب کا کوئی تختہ اوقاتِ مدراس یہاں نہ آیا صرف ایک چھوٹے رسالہ تحفۃ المصلی کے کہ سمت قبلہ میں ہے دو۲ نسخے ایک پلندے میں آئے تھے وقت کا قاعدہ یقینا وہی ہے کہ جب عرض ومَیل متفق الجہۃ ہوں تفاضل لیا جائیگا

یعنی اُن میں جو اصغر ہو اکبر سے تفریق کیا جائیگا عرض ہو خواہ مَیل تو مدراس جس کا عرض حہ ء ہے اُس میں راس السرطان کا بعد اقل جس کا میل مَیل کلی الح الر ہے ی حہ الح ہوا، نیز وہ شہر جس کا عرض شمالی لح حہ ہو اُس میں بھی راس السرطان کا بعد اقل وہی ی حہ الح ہوگا غایت یہ کہ مدراس میں یہ بعد سمت الراس سے شمالی ہوگا اور اُس شہر میں جنوبی دونوں نصف اور ان کی جیبیں اور قاطع مَیل سب بدستور رہیں گے اور فرق وقت بوجہ قاطع عرض ہوگا مثلاً صبح وعشا ہے راس السرطان بہ مدراس کا حساب بھیجتا ہوں یہاں مجموعہ اربعہ ۸۵۹۲۷۸۶ء۹ ہوا اور وقت عشا ۴ ۷۴۶ ت آیا اور اس شہر میں مجموعہ ۹۲۸۴۶۱۹ء۹ ہوا اور وقتِ عشا ۸۵۶۳۱ ت ایک گھنٹہ دس۱۰ منٹ سے زیادہ فرق ہوگیا طلوع وغروب کہ آپ نے نکالے یہی صحیح ہیں جن کی صحت اس پرچہ مؤامرہ سے ظاہر یہ حقیقی وقت ہیں اور اس السرطان کی تعدیل الایام مزید ۳۴ء۳۴ ۱اور وسط ہندسے فصل غربی مدراس ۹ تو مجموعہ ۳۴ء۱۰۳۴ بڑھانے سے 

مدراس کا وقت ریلوے حاصل ہوگا یہ وقت غروب وہی ہے
5_4_2.jpg
جو آپ نے نکالا تین سکنڈ کا تفاوت ان فرقوں سے ہوا کہ آپ نے میل لیا جو ۲۲ جون سنہ حال کو گرینچ کے نصف النہار کا تھا اور میں نے الح حہ الر جو باسقاطِ خفیف ثوانی مَیل کلی ہے پھر آپ نے بُعدِ سَمتی افق مطلق حسبِ دستور سابق کہ میرے یہاں معمول تھا صہ حہ نالیاہوگا اور اب میں صہ حہ لدمہ رکھتا ہوں البتہ طلوع میں ۳۹ سکنڈ کا تفاوت آنا اس پر دال ہے کہ آپ نے تعدیل الایام ۵۲ اَ لی جو ۲۳ جون کی تعدیل مرصدی ہے اور ۹ منٹ فصل طول مل کر ۱۰۵۲دونوں وقت حقیقی غروب وطلوع پر زائد کیی۔ دلیل یہ کہ آپ کے یہاںمعدّل بتعدیل ریلوے وقت غروب ۶۳۷۲۵ ت اور طلوع ۵۴۴۱۹ت
اس کا تمام ۵۲۲۳۵ تمام غروب ۵۲۲۳۵

            =۲۱۴۴

            نصفہ ۱۰۵۲
یہی منٹ سکنڈ آگئے جو تعدیل مرصدی ۲۳ جون کے تھے۔
اس سے ثابت ہوا کہ اپ کے یہاں وقت حقیقی غروب ۶۲۶۳۳ ت آیا اور طلوع ۵۳۳۲۷ ت تو آپ کے اور یہاں کے محسوب میں ۲۱ سکنڈ کا تفاوت ہے خیر ایسا کثیر نہیں۔ مدراسی صاحب کا حساب یقینا وجہ صحت نہیں رکھتا کہ غروب ساڑھے تین منٹ کم ہے اور طلوع سوا چار منٹ زیادہ، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے طلوع وغروب نکالنے کا قاعدہ ہی استعمال نہ کیا بلکہ معمولِ عوّامِ بے علم کی طرح طلوع وغروبِ نجومی حقیقی مرکزی لے کر اُن میں تعدیل ریلوے ملادی ظلِّ مَیل
راس السرطان ۶۳۷۲۶۴۶ء۹ اس جیب کی قوس تقریباً ہ مر ہے جس کا وقت + ظِلّ عَرضِ مدراس         ۳۶۵۶۶۴۱ء۹ 

۰۲۹۲۸۷ ۰ء۹ الح قہ ح :. غروب نجومی و ت ا لح ح     روا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے لو ظاہر وہی ی قہ نب لیی ہیں
5_5.jpg
5_6.jpg
5_7.jpg
مسئلہ (۲۹۰ و۲۹۱)     از شہر جامع مسجد مسئولہ مولوی محمد افضل صاحب بخاری طالب علم منظر اسلام

شخصے در نماز فجر بودکہ ناگاہ بشنید کہ گوئندہ میگفت کہ آفتاب برآمد الحال ایں کس در نماز است نماز را بگذار د بازواپس اعادہ کند یا سلام بدہد بعد ازطلوع ا ۤفتاب بخواند، بینوا توجّروا۔
کوئی آدمی فجر کی نماز پڑھ رہا تھا اچانک اس نے سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے ''سورج نکل آیا ہے'' اب یہ آدمی جو فی الحال نماز میں ہے اپنی نماز پُوری کرکے اس کا اعادہ کرے یاسلام پھیردے اور طلوع کے بعد دوبارہ پڑھے؟ بینوا توجّروا۔ (ت)
الجواب: نماز تمام کندوباز اگر صدق قائل دریا بد اعادہ نمایدایں زمان بسیارے ازمردم وقت نمی شناسند وبقرب طلوع بانگ برآرند کہ آفتاب برآمد واللہ تعالٰی اعلم۔
نماز پوری کرے، بعد میں اگر ثابت ہوجائے کہ سورج نکلنے والی بات درست تھی تو اعادہ کرے۔ آج کل اکثر لوگ وقت کا صحیح علم نہیں رکھتے اور طلوع قریب ہونے پر شور مچادیتے ہیں کہ سُورج نکل آیا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
سوال دوم:چہ میفرمایند علمائے دین کہ امام نماز صبح را ایں قدر تاخیر میکند کہ ازبرآمدنِ آفتاب پنج دقیقہ یا دہ دقیقہ مہماند کہ سلام میدہدایں طور نماز بغیر کراہت ادامیشود یانہ، بینوا توجروا۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک امام صبح کی نماز اتنی تاخیر سے پڑھاتا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد سورج طلوع ہونے میں صرف پانچ منٹ یا دس منٹ باقی رہتے ہیں کیا یہ نماز بغیر کراہت کے ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔ (ت)
الجواب: دربحرالرائق وغیرہ تصریح فرمودہ اندکہ وقت فجر وقت ظہر اول تاآخر ہیچ کراہت ندارد یعنی بخلاف باقی اوقات کہ آخر آنہا مکروہ است پس ہرکہ دروقت شناسی دستگاہ کافی دارد بایں طور نماز اوبلاشبہ بے کراہت است کہ بُوئے از کراہت ندارد، واللہ تعالٰی اعلم۔

البحرالرائق وغیرہ میں تصریح کی گئی ہے کہ فجر اور ظہر کے اوقات میں اوّل سے آکر تک کوئی کراہت نہیں ہے بخلاف باقی اوقات کے کہ وہ آخر میں مکروہ ہوجاتے ہیں، اس لئے جو شخص وقت شناسی میں مہارت رکھتا ہو، اگر اس طرح نماز پڑھے (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) تو اس کی نماز بغیر کراہت کے صحیح ہے۔ اس میں کراہت کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔ (ت)
مسئلہ (۲۹۲ تا ۲۹۶) از جڑودہ ضلع میرٹھ مسئلہ سید سراج احمد صاحب    ۱۲ شعبان ۱۳۳۷ھ

(۱)    فجر کی نماز کا مستحب وقت کون سا ہے اور جس جگہ اُفق صاف نظر آتا ہو وہاں طلوع کی کیا پہچان ہے؟

(۲)    ظہر کا اول وقت کَے بجے ہوتا ہے اور ضلع میرٹھ میں کَے بجے سے کَے بجے تک رہتا ہے اور جماعت کَے بجے ہونا چاہئے موسم گرما اور موسم سرما کب سے کب تک مانے جاتے ہیں اور ان میں ظہر کے مستحب اوقات کیا ہیں؟

(۳)    عصر کا مستحب وقت کون سا ہے، جماعت کَے بجے ہونا چاہئے؟

(۴)    جس جگہ اُفق نظر آتا ہو وہاں غروب کی کیا پہچان ہے اور غروب سے کتنی دیر بعد مغرب کی اذان اور جماعت ہونا چاہئے اور مغرب کا وقت کتنی دیر تک رہتا ہے؟

(۵)    عشا کا وقت مغرب سے کتنی دیر بعد ہوتا ہے؟
الجواب الملفوظ

(۱ و ۵)    فجر کا مستحب وقت اس کے وقت کا نصف اخیر ہے مثلاً اگر آج ایک گھنٹہ بیس منٹ کی صبح ہوتو اس وقت کے طلوع شمس میں چالیس۴۰ منٹ باقی رہیں اور افضل یہ ہے کہ ایسے وقت ۴۰ یا ۶۰ آیتوں سے پڑھی جائے کہ اگر فسادِ نماز ثابت ہوتو پھر طلوع سے پہلے یونہی اعادہ ہوسکے اس کا لحاظ رکھ کر جتنی بھی تاخیر کی جائے افضل ہے، جب اُفق صاف نظر آتا ہے اور بیچ میں درخت وغیرہ کچھ حائل نہیں تو طلوع یہ ہے کہ آفتاب کی پہلی کرن چمکے اور غروب یہ کہ پچھلی کرن نگاہ سے غائب ہوجائے واللہ تعالٰی اعلم۔

(۲)    ظہر کا اول وقت آفتاب نصف النہار سے ڈھلتے ہی شروع ہوتا ہے اور گھنٹوں کے اعتبار سے باختلاف بلاد مختلف ہوگا یہاں تک کہ بعض بلادِ ہندوستان میں بعض ایام میں ریلوے گھڑی سے ۱۲ بجے بھی وقتِ شروع ہوگا اور بعض یعنی بعض ایام میں ۱۱ بجے سے پہلے ظہر کا وقت ہوجائے گا یہ تعدیل ایام واختلافات طول معلوم ہونے پر موقوف ہے جماعت گرمی میں وقت ظہر کے نصف آخر میں ہو اور جاڑوں میں نصف اول میں، میرٹھ میں کبھی ۵ بجے سے بعد تک وقتِ ظہر باقی رہتا ہے اور کبھی پونے چار بجے سے پہلے ختم ہوجاتا ہے اس میں بیانات کا اختلاف ہے اصل تقسیم اہلِ ہئیت نے یہ کی ہے کہ راس الحمل سے ختم جوزا تک بہار اور راس السرطان سے ختم سنبلہ تک گرما اورر اس المیزان سے ختم قوس تک خریف اور راس الجدی سے ختم حُوت تک سرما مگر یہ یہاں کہ فصلوں سے مطابق نہیں آتی، صاحبِ بحر نے ربیع کو گرما سے ملحق کیا ہے اور یہ بھی قرین قیاس کہ آخر ستمبر سے دو ثلث مارچ تک سرما سمجھنا چاہئے اور باقی گرما، واللہ تعالٰی اعلم۔

(۳)    عصر کا وقت مستحب ہمیشہ اس کے وقت کا نصف اخیر ہے مگر روزِ ابر تعجیل چاہئے، واللہ تعالٰی اعلم

(۴)     غروب کا جس وقت یقین ہوجائے اصلاً دیر اذان وافطار میں نہ کی جائے اس کی اذان وجماعت میں فاصلہ نہیں، مغرب کا وقت میرٹھ میں کم ازکم ایک گھنٹا ۱۹ منٹ اور زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹا ۳۶ منٹ ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ (۲۹۷) از موضع سراں ڈاک خانہ بشندورتحصیل ضلع جہلم مرسلہ حافظ سجاد شاہ ۱۷ شعبان ۱۳۳۷ھ

بخدمت جناب فیض مآب سرتاجِ حنفیان حضرت احمد رضا خان صاحب ادام اللہ فیوضکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالٰی کے بعد بہزار آداب التماس کہ یم حنفیان کو بڑا فخر ہے کہ آپ جیسے مجتہد فقیہ خلیفہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالٰی وامام اعظم اس زمانے کے آپ موجود ہیں ان مسئلوں مفصلہ ذیل کی سخت ضرورت ہے مہربانی فرماکر بتحقیق عمیق وتدقیق مایطیق ارشاد فرمادیں عنداللہ ماجور ہوں گے اما مسئلہ اولٰی فی الزوال کی اور شناخت وقت ظہر کی سخت ضرورت ہے میں اس سے بہت حیران ہوں بعض اوقات مجمع عام میں نماز ظہر جو بدخول وقت اوّل ہی پڑھی جاتی ہے مگر مجھے یقین دخولِ وقت کا بھی نہیں ہوتا آپ تحریر فرمائیں کہ بارہ۱۲ بجے کے بعد ایک دو منٹ پر وقت ظہر داخل ہوتا ہے یا نہیں اور جن دیہات میں حساب گھڑی کا نہ ہو تو مسجد کے دروازہ سے اگر سایہ باہر ایک دو انگشت نکلے تو ظہر داخل ہے یا نہ، پھر جب سایہ بڑھنے میں ہوتو وقت ظہر داخل ہے یا نہ قبل قیام ظہیرہ نصف نہار کے سایہ گھٹتا رہتا ہے نصف نہار کو کھڑا ہوتا ہے پھر بڑھنے لگتا ہے جب سایہ بڑھانے میں ہوتو ظہر داخل ہے یا نہ، اور سایہ اصلی ظہر کے واسطے نکالا جاتا ہے یا نہ شناخت ظہر سفر حضر میں کس طرح ہوتی ہے اور سایہ اصل قبل زوال یا وقت زوال یا بعد زوال کیا ہوتا ہے اور سایہ اصلی بوقتِ دوپہر بطرف شمال ہوتا ہے پس عصر کے واسطے مقیاس کی بیخ سے سایہ اصلی خارج بطرف مشرق کیا جاتا ہے یا کہ بطرف شمال خارج کرکے پھر دو چند کیا جائے فرائد سنیہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ بطرف شمال سایہ اصلی کو چھوڑ کر دو چند کیا جائے۔ عبارت فرائد سنیہ کی یہ ہے۔
معرفۃ فیئ الزوال یغرز خشبۃ مستویۃ فی ارض مستویۃ قبل الزوال فالظل ینقص فاذاوقف لم ینقص ولم یزد فھو قیام الظھیرۃ فاذا اخذ فی الزیادۃ فقد زالت الشمس فخط علی راس الزیادۃ خطا فیکون من راس الخط الی العود فیئ الزوال فاذا صار ظل العود مثلہ اومثلیہ من راس الخط لامن موضع غرز العود خرج وقت الظھر ودخل وقت العصر وفیئ الزوال یکون الی الشمال ۱؎۔
فیئ الزوال کی پہچان۔ زوال سے پہلے ایک سیدھی لکڑی ہموار زمین میں نصب کی جائے تو اس کا سایہ کم ہوتا جائیگا، جب سایہ ٹھہر جائے اور گھٹے بڑھے نہ تو یہ قیام ظہیرہ کا وقت ہے۔ جب بڑھنے لگے تو سورج کا زوال شروع ہوجاتا ہے، اب جہاں سے بڑھنے کا آغاز ہوا ہے وہاں ایک لکیر بطور نشانی لگا دو، اس لکیر سے لکڑی تک جو سایہ ہے یہ فیئ الزوال ہے، جب لکڑی کا سایہ اس کی ایک مثل یا دو مثل ہوجائے یعنی لکیر سے، نہ کہ لکڑی کی جڑ سے، تو ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا اور عصر کا وقت داخل ہوجائے گا اور زوال کا سایہ شمالی کی جانب ہوتا ہے۔ (ت)
 (۱؎ فرائد سنیہ)
اس مسئلہ کی مجھے سخت ضرورت ہے مہربانی فرماکر اس میں اچھی غور فرماکر پھر ان میں جو جو میرے سوالات ہیں جن کے سبب میں غلطی میں پڑا ہُوں ان کو بنور سواد منور فرماؤ۔

الجواب: نصف النہار وفیئ الزوال کی یہ کافی پہچان ہے جو آپ نے فرائد سنیہ سے نقل کی ہموار زمین میں سیدھی لکڑی عمودی حالت پر قائم کی جائے اور وقتاً فوقتاً سایہ کو دیکھتے رہیں جب تک سایہ گھٹنے میں ہے دوپہر نہیں ہوا اور جب ٹھہر گیا نصف النہار ہوگیا اس وقت کا سایہ ٹھیک نقطہ شمال کی جانب ہوگا اسے ناپ رکھا جائے کہ یہی فیئ الزوال ہے اس سے پہلے سایہ مغرب کی طرف تھا جب سایہ بڑھنے لگا دوپہر ڈھل گیا اب سایہ مشرق کی طرف ہوجائے گا جب لکڑی کا سایہ مشرق وشمال کے گوشہ میں اُسے فے ءالزوال کی مقدار اور لکڑی کے دو مثل کو پہنچ گیا مثلاً آج ٹھیک دوپہر کو لکڑی کا سایہ اُس کا نصف مثل تھا اور اُس وقت خاص نقطہ شمال کو تھا اب وقتاً فوقتاً بڑھے گا اور مشرق کی طرف جھکے گا جب سایہ لکڑی کا ڈھائی مثل ہوجائے عصر ہوگیا اور اس سے زیادہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ صحیح کمپاس سے نہایت ہموار زمین میں سیدھا خط جانبِ قطب کھینچ لیجئے اور اس خط کے جنوبی کنارے پر وہ لکڑی عموداً قائم کیجئے لکڑی کا سایہ جب تک اس خط سے مغرب کو ہے دوپہر نہ ہوا جب سایہ اس خط پر منطبق ہوجائے ٹھیک دو پہر ہے اور اُسی وقت کا سایہ فیئ الزوال ہے جب سایہ اس خط سے مشرق کو ہٹے دوپہر ڈھل گیا مسجد کی مشرقی دیوار اگر سیدھی ہموار اور ٹھیک نقطتین جنوب وشمال کو ہے اور اُس کے دونوں پہلو پر زمین ہموار ہے تو اُس سے بھی شناخت ہوسکتی ہے دیوار کا سایہ جب تک اُس سے مغرب کو ہے دوپہر نہ ہُوا اور جب مشرق کو پڑے دوپہر ڈھل گیا اور جب دونوں پہلوؤں پر سایہ نہ ہو تو ٹھیک دوپہر ہے گھڑیوں کے بارہ۱۲ سے اس کی شناخت تعدیل الایام وفصل طول جاننے پر منحصر ہے اصل بلدی وقت سے دوپہر کبھی سوابارہ۱۲ بجے بھی نہیں ہوتا اور کبھی پونے گیارہ بجے ظہر ہوجاتا ہے اور جبکہ گھڑیاں مقامی وقت پر نہ چلیں بلکہ دوسری جگہ کے وقت پر جیسے ہندوستان میں شرق سے غرب تک ساری گھڑیاں وسطِ ہند کے وقت پر جاری ہیں جس کا طول ۸۲ درجے ۳۰ دقیقے ہے جب تو بہت کثیر تفاوت ہوجائے گا مثلاً جہلم میں ۱۱ فروری کو ۱۲ بج کر انچاس۴۹ منٹ تک بھی دوپہر نہ ہوگا اور کلکتہ میں نومبر کی چوتھی کو ۱۱ بج کر ۲۰ منٹ پر وقتِ ظہر ہوجائے گا، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter