فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
اقول: فقیر کی نظر میں ظاہراً قول اخیر کو سب پر ترجیح کہ اوّل تو وہ حدیث ہے لااقل اثر صحابی یا تابعی سہی اقوال علمائے مابعد پر ہرطرح مقدم رہے گی خصوصاً ایسے امر میں جس میں رائے وقیاس کو دخل نہیں۔
بل اقول عسی ان یکون ماذکر الامام ابو الفضل بمعزل عما نحن فیہ، فانہ انما ذکرالتطوعات، والکلام فی المکتوبات، لاایقاع نفل فی ھذہ الاوقات، فانہ ثابت فی جمیع الساعات فی المعالم عن جعفر بن سلیمٰن قال سمعت ثابتا یقول: کان داؤد نبی اللّٰہ علیہ الصلاۃ والسلام قدجزأ ساعات اللیل والنھار علی اھلہ، فلم تکن تأتی ساعۃ من ساعات اللیل والنھارالا وانسان من اٰل داؤد قائم یصلی ۱؎ اھ۔
لیکن میں کہتا ہوں: ایسے لگتا ہے کہ امام ابوالفضل نے جو کچھ کہا ہے وہ زیرِ بحث مسئلے سے غیر متعلق ہے کیونکہ انہوں نے نوافل کا ذکر کیا ہے جبکہ بحث فرائض سے ہورہی ہے۔ ان اوقات میں نوافل اداکرنا بحث سے خارج ہے کیونکہ نوافل تو ان اوقات کے علاوہ بھی ہروقت اداکیے جاسکتے ہیں۔ معالم میں جعفر ابن سلیمٰن سے منقول ہے کہ میں نے ثابت کو کہتے سنا ہے کہ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام نے رات اور دن کی گھڑیوں کو اپنے اہلِ خانہ پر نماز کے لئے تقسیم کر رکھا تھاتو رات اور دن کی گھڑیوں میں کوئی ایسی گھڑی نہیں ہوتی تھی جس میں آلِ داؤد کا کوئی فرد نماز نہ پڑھ رہا ہو۔ (ت)
(۱؎ معالم التنزیل مع الخازن زیر آیۃ ''وقلیل من عبادی الشکور'' مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۵/۲۸۵)
معہذا اُن سب اقوال میں کہیں کہیں گرفت ضرور ہے اوّل نے صاف تصریح کی کہ عشاء انبیائے سابقین علیہم الصّلاۃ والتسلیم میں کسی نے نہ پڑھی اور سوم کا بھی یہی مفاد کہ صدر کلام میں انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا ذکر کیا ہے اور اُمتوں سے موازنہ مقصود نہیں کماقدمنا (جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ت) تو یہ اطلاق تخصیص اپنے عموم پر ہے جس طرح اشعہ وغیرہا کی عبارتوں میں تھا نہ بلحاظ امم۔ اور ہم اوپر بیان کرچکے کہ یہ ظاہر دلائل کے خلاف وقول مرجوح ہے۔ اول ودوم نے عصر کو عزیر ویونس علیہما الصّلاۃ والسلام کی طرف نسبت کیا حالانکہ حضرت سلیمٰن علیہ الصلاۃ والسلام کا عصر پڑھنا روشن ثبوت سے ثابت۔ قال تعالٰی: