کیوں مُلّاجی! یہ کیا دین ودیانت ہے کہ حدیثیں رَد کرنے کو ایسے جھُوٹے فقرے بناؤ اور بے تکان جزم کرتے ہوئے پلک تک نہ جھپکاؤ، وہ تو خدا نے خیر کرلی کہ امام نسائی نے اسمعیل بن مسعود کہہ دیا تھا کہیں نرا اسمعیل ہوتا تو مُلّاجی کو کہتے کیا لگتا کہ یہ حدیث تم اہل سنّت کے نزدیک سخت مردود کہ اس کی سند میں اسمعیل دہلوی موجود،
مُلّاجی! صرف ایک مسئلے میں اول تا آخر اتنی خرافات، علمِ حدیث کی کھُلی کھُلی باتوں سے یہ جاہلانہ مخالفات، اگر دیدہ ودانستہ ہیں تو شکایت کیا ہے کہ اخفائے حق وتلمیح باطل وتلبیس عامی واغوائے جاہل، طوائف ضالہ کا ہمیشہ داب رہا ہے، اور اگر خود حضرت کی حدیث دانی اتنی ہے تو خدارا خدا ورسول سے حیا کیجئے، اپنے دین دھرم پر دیا کیجئے یہ مُنہ اور اجتہاد کی لپک، یہ لیاقت اور مجتہدین پر ہمک، عمر وفا کرے تو آٹھ دس۱۰ برس کسی ذی علم مقلد کی کفش برداری کیجئے، حدیث کے متون وشروح واصول ورجال کی کتابیں سمجھ کر پڑھ لیجئے اور یہ نہ شرمائیے کہ بوڑھے طوطوں کے پڑھنے پر لوگ ہنستے ہیں، ہنسنے دو ہنستے ہی گھر بستے ہیں، اگر علم مل گیا تو عین سعادت یا طلب میں مرگئے جب بھی شہادت، بشرطِ صحت ایمان وحسن نیت واللّٰہ الھادی لقلب اخبت۔
الحمدللہ مہرِ حق متجلی ہوا اور آفتابِ صواب متجلی، جن جن احادیث سے جمع بین الصلاتین کا ثبوت نہ سہل ثبوت بلکہ قطعی ثبوت زعم کیا گیا تھا واضح ہُوا کہ اُن میں ایک حرف مثبت مقال نہیں مذہب حنفی اثبات صوری ونفی حقیقی دونوں میں بے دلیل بتادیا تھا، روشن ہُوا کہ قرآن وحدیث اُسی کے موافق دلائل ساطعہ اُسی پر ناطق جن میں رَد وانکار کی اصلاً مجال نہیں، اور بعونہٖ تعالٰی بطفیل مسئلہ وہ تازہ مجہلہ کہنہ مشغلہ ادعائے عمل بالحدیث کا اُشغلا اُس کا بھرم بھی من مانتا کھلاکہ ہواسے غرض ہوس سے کام اور اتباعِ حدیث کا نام بدنام، پُرانے پُرانے حد کے سیانے جب اپنی سخن پروری پر آئیں صحیح حدیثوں کو مردود بتائیں ثقہ ائمہ کو مطعون بتائیں، بخاری ومسلم پسِ پشت ڈالیں، اُن کے رواۃ واسانید میں شاخسانے نکالیں، ہزار چھل کریں سو ہزار پیچ جیسے بنے صحیح حدیثیں ہیچ، امام مالک وامام شافعی کی تقلید حرام نہ فقط حرام کہ شرک کا پےغام، مگر جب حنفیہ کے مقابل دم پر بنے مجتہد چھوڑ مقلدوں کی تقلید سے گاڑھی چھنے، اب ایک ایک شافعی مالکی کو جھک جھک کر سلام اُس کے پاؤں پکڑ اُس کا دامن تھام، یہ بڑا پیشوا وہ بھاری امام، اُن میں جس کا کلام کہیں ہاتھ لگ گیا اگرچہ کیسا ہی ضعیف کتنا ہی خطا، بس خضر مل گئے غنچے کھُل گئے، اندر کے جی کے کواڑ کھُل گئے سب کوفت سوخت کے غبار دُھل گئے، وحی مل گئی ایمان لے آئے اُسی سے حنفیہ پر حجت لائے، اب خبردار کوئی پیچھے نہ پڑو احبار ورہبان کی آیت نہ پڑھو، چھٹکارے کی گھڑی بچاؤ کا وقت ہے ، شرک بلا سے ہو اب تو مکت ہے۔ مسلمانو! حضرات کے یہ انداز دیکھے بھالے اپنا ایمان بچائے سنبھالے، فریب میں نہ آنا یہ زہر درجام ہیں دھوکا نہ کھانا، سبزہ بردام ہیں بے سہاروں کی چال ہر حال بُری ہے تقلید سے بری ائمہ سے بری ہے، بے راہ روی کا دھیان نہ لانا چادر سے زیادہ پاؤں نہ پھیلانا، اتباعِ ائمہ راہِ ہُدٰی ہے راہِ ہُدٰی کا والی خدا ہے، للّٰہ الحمد ولی الھدایۃ منہ البدایۃ والیہ النھایۃ۔
خلاصۃ الکلام وحسن الختام الحمدللہ سخن اپنے ذروہ اقصٰی کو پہنچا اب ملخص کلام وحاصل مرام چند باتیں یاد رکھئے:
اوّلا جمع صوری بدلائل صحیحہ روشن ثبوت سے بے پردہ وحجاب اور اُس کا انکار انکارِ آفتاب۔
ثانیا کسی حدیث صحیح میں جمع تقدیم کا نام کو بھی اصلاً پتا نہیں اُس کی نسبت ادعا ی قطعی ثبوت محض نسج العنکبوت۔
ثالثاً جمع تاخیر میں بھی کوئی حدیث صحیح صریح جیسا کہ ادعا کیا جاتا ہے ہرگز موجود نہیں یا ضعاف ومناکیر ہیں یا محض بے علاقہ یا صاف محتمل اور محتملات سے ہوسِ اثبات مہمل ومختل۔
رابعاً جب جمع صوری پر ثبوت مفسر متعین ناقابل تاویل قائم تو محتملات خصوصاً حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اُسی کی طرف رجوع لازم کہ قاعدہ ارجاع محتمل بہ متعین ہے نہ عکس کہ سراسر نکس۔
خامساً نماز بعد شہادتین اہم فرائض واعظم ارکان اسلام ہے اور اُس میں رعایت وقت کی فرضیت اور اظہر ضروریاتِ دین سے جسے مسلمانوں کا ایک ایک بچّہ جانتا ہے یونہیں اوقاتِ خمسہ غایت شہرت واستفاضہ پر بالغ حد تو اتر ہیں اگر حضور پُرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حالتِ سفر میں جس کی ضرورت ہمیشہ ہر زمانہ میں ہر شخص کو رہی اور رہتی ہے چار نمازوں کے لئے اوقاتِ مشہورہ معلومہ معروفہ کے سوا قولاً یا فعلاً کوئی اور حکم عطا فرمایا ہوتا تو واجب تھا کہ جس شہرت جلیلہ کے ساتھ اوقاتِ خمسہ منقول ہوئے اُسی طرح یہ نیا وقت بھی نقل کیا جاتا آخر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ فعل کسی خلوت میں نہ کیا غزوہ تبوک میں ہزارہا صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ہمراہِ رکاب سعادت مآب تھے اگر حضور جمع فرماتے بلاشبہہ وہ سب کے سب دیکھتے اور کثرت رواۃ سے اسے بھی مشہور کر چھوڑتے یہ کیا کہ ایسی عظیم بات ایسے جلیل فرض کے ایسے ضروری لازم میں ایسی صریح تبدیل ایسے مجمع کثیر کے سامنے واقع ہو اور اُسے یہی دو ایک راوی روایت فرمائیں تو بلاشبہہ یہی جمع صوری فرمائی جس میں نہ وقت بدلا نہ کسی حکم میں تغیر نے راہ پائی کہ اُس کے اشتہار پر دواعی متوفر ہوتے نظرِ انصاف صاف ہو تو صرف ایک یہی کلام تمام دلائل خلاف کے جواب کو بس ہے کہ جب باوصف توفر دواعی نقل آحاد ہے تو لاجرمِ جمع صوری پر محمول کہ توفر مہجور اور بالفرض کوئی روایت مفسرہ ناقابل تاویل ملے تو متروک العمل کہ ایسی جگہ آحاد رہنا عقل سے دُور۔
سادساً نمازوں کے لئے تعیین وتخصیص اوقات وآیات قرآن عظیم واحادیث حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے قطعی الثبوت ہے اگر کہیں اُس کا خلاف مانیے تو وہ بھی ویسا ہی قطعی چاہے جیسے عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کا اجماعی مسئلہ ورنہ یقینی کے مقابل ظنی مضمحل۔
سابعاً بالفرغ اگر مثل منع دلائل جمع بھی قابل سمع تسلیم کیجئے تاہم ترجیح منع کوہے کہ جب حاظر ومبیح مجتمع ہوں تو حاظر مقدم ہے۔
ثامناً جانب جمع صرف نقل فعل ہے قول اگر ہے تو جمع صوری میں اور جانب منع دلائل قولیہ وفعلیہ دونوں موجود اور قول فعل پر مرجح تو مجموع قول وفعل محض نقل فعل پر بدرجہ اولٰی۔
تاسعاً افقہیت راوی اور مرجح منع ہے کہ ابن عمر وانس میں کسی کو فقاہت جلیلہ عبداللہ بن مسعود تک رسائی نہیں رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین، یہ وہی ابن مسعود ہیں جن کی نسبت حدیث میں ہے، حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
تمسکوا بعھد ابن ام عبد ۱؎۔
(ابن اُم عبد کی باتوں سے تمسک کیا کرو) رواہ الترمذی عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
(۱؎ جامع الترمذی مناقب عبداللہ بن مسعود مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/۲۲۱)
(نوٹ: اصل متن ترمذی میں الفاظ یوں ہیں تمسکوا بعھد ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ۔ نذیر احمد)
مرقاۃ میں ہے اسی لئے ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اُن کی روایت وقول کو خلفائے اربعہ کے بعد سب صحابہ کے قول پر ترجیح دیتے ہیں ۲؎۔
(۲؎ مرقات المفاتیح جامع المناقب، الفصل الاول مطبوعہ مکتبہ امدایہ ملتان ۱۱/۴۰۹)
یہ وہی ابنِ مسعود ہیں جنہیں حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صاحبِ سرِّ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے:
ان اشبہ الناس دلاوسمتا وھدیا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لابن ام عبد ۳؎۔ رواہ البخاری ف والترمذی والنسائی۔
(۳؎ مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ بخاری باب جامع المناقب مطبع مجتبائی دہلی ص ۵۷۴)
(جامع الترمذی، مناقب عبداللہ بن مسعود امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/۲۲۲)
ف۔ مشکوٰۃ میں بعینہٖ یہی الفاظ ہیں جبکہ ترمذی میں الفاظ یوں ہیں۔ کان اقرب الناس ھدیا ودلا وسمتا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ابن مسعود اور بخاری میں الفاظ یوں ہیں مااعلم احداً اقرب سمتا وھدیا ودلا بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن ابن ام عبد۔
بیشک چال ڈھال روش میں سب سے زیادہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مشابہ عبداللہ بن مسعود ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
یہ وہی ابنِ مسعود ہیں جنہیں امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے:
نہایت یہ کہ حضور اقدس سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: رضیت لامتی مارضی لھا ابن ام ۱؎ عبد۔
(میں نے اپنی اُمت کے لئے پسند فرمالیا جو کچھ عبداللہ بن مسعود اس کے لئے پسند کرے رواہ الحاکم بسند صحیح۔
(۱؎ المستدرک کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳/۳۱۷)
لاجرم ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم کے بعد وہ جناب تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان سے علم وفقاہت میں زائد ہیں، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے:
ھو عند ائمتنا افقہ الصحابۃ بعد الخلفاء الاربعۃ ۲؎۔
(۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح باب جامع المناقب الفصل الاول عن عبداللہ بن عمر،مطبوعہ امدادیہ ملتان۱۱/۴۰۹)
ہمارے ائمہ کے نزدیک ابنِ مسعود خلفاءِ اربعہ کے بعد سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔ (ت)
عاشراًعــہ اگر بالفرض براہین منع وا د لّہ جمع کانٹے کی تول برابر ہی سہی تاہم منع ہی کو ترجیح رہے گی کہ اس میں احتیاط زائد ہے اگر عنداللہ جمع درست بھی ہوئی تو ایک جائز بات ہے جس کے ترک میں بالاجماع گناہ نہیں بلکہ اتفاق اُس کا ترک ہی افضل ہے اور اگر عنداللہ نادرست ہے تو جمع تاخیر میں نماز دانستہ قضا کرنی ہوگی اور جمع تقدیم میں سرے سے ادا ہی نہ ہوگی فرض گردن پر رہے گا تو ایسی بات جس کا ایک پہلو خلاف اولٰی اور دوسری جانب حرام وگناہ کبیرہ ہو عاقل کا کام یہی ہے کہ اُس سے احتراز کرے، یہاں جو ملّاجی ایمان کی آنکھ پر ٹھیکری رکھ کر لکھ گئے ہیں کہ ف۱ تشکیک مذکور اُس صورت میں جاری ہوتی ہے جس میں طرفین کا مذہب مدلّل بدلائل ہو اور صورت اختلاف کی ہو حالانکہ مسئلہ جمع میں مانعین کا دعوٰی بے دلیل ہے اور ناجائز کہنا اُن کا خلاف ہے اختلاف نہیں پس اگر صحت میں عمل مدلل بدلائل کے قول بے دلیل شک ڈال دیا کرے تو سَیکڑوں اعمال باطل ہوجائیں اور حق وباطل میں کچھ تمیز نہ رہے،
عــہ یعنی نصوص منقول وقواعد اصول سے قطع نظر کرکے بہ مقتضائے عقول ہے۔ (م)
(ف۱ معیارالحق ص ۴۱۵)
ان جھُوٹی بالا خوانیوں سینہ زوری کی لَن ترانیوں کا کچّا چٹھّا بعونہ تعالٰی سب کُھل چُکا مگر حیا کا بھلا ہو جس کے آسرے جیتے ہیں یونہیں تو آفتاب پر خاک اُڑاکر اندھوں کو سُجھادیا کرتے ہیں کہ حنفیہ کا مذہب بے دلیل وخلاف حدیث ہے، خدا کی شان قرآن عظیم واحادیث رسول کریم علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلاۃ والتسلیم کی اُن قاہر دلیلوں کو جنہیں سُن کر جگر تک دھمک پہنچی ہوگی بے دلیل ٹھہراؤ اور اپنے ضعیف وبے ثبوت قول کو قطعی یقینی مدلل بتاؤ اور عمل بالحدیث ودین ودیانت کا نام لیتے نہ شرماؤ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔
ع : آدمیاں کم شدند ملک گرفت اجتہاد
فقیر غفرلہ المولی القدیر نے یہ چند اوراق کہ بنظرِ احقاق حق لکھے۔ مولٰی تعالٰی عزّوجل اپنے کرم سے قبول فرمائے شرِ حُسّاد وشامتِ ذنوب سے محفوظ رکھے۔ وجہ ثبات واستقامت مقلدین کرام بنائے، یہ امید تو ان شاء اللہ تعالٰی القریب المجیب نقد وقت ہے مگر دشمنانِ حنفیت کو ہدایت ملنے عناد حنفیہ کی راہ نہ چلنے کی طرف سے یاس سخت ہے کہ کھلے مکابروں میں جن صاحبوں کی یہ ہمتیں بڑھی ہیں یہ مشقیں چڑھی ہیں اُنہیں آئندہ ایسی اور ان سے بڑھ کر اور ہزار ہٹ دھرمیاں کرتے کیا لگتا ہے، تحریف تعصب مکابری تحکم کا کیا علاج ہے سوا اس کے کہ شرِ شریران سے اپنے رب عزوجل کی پناہ لُوں اور بتوسل روح اکرم امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس سے عرض کروں
رب انّی اعوذبک من ھمزات الشیٰطین واعوذبک رب ان یحضرونo وصلی اللّٰہ تعالٰی علی الھادی الامین الامان المامون محمد واٰلہ وصحبہ الکرام والذین ھم بھدیھم یھتدون الحمد للہ کہ یہ مبارک رسالہ نفیس عجالہ پانزدہم ماہ رجب مرجب ۱۳۱۳ ہجریہ علٰی صاحبہا افضل الصلاۃ والتحیۃ کو تمام اور بلحاظ تاریخ حاجز البحرین ۱۳ الواقی ھ عن ۱۳جمع الصلاتین نام ہوا ربّنا تقبل منّا انک انت السمیع العلیم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سید المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین اٰمین سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لاالٰہ الا انت استغفرک واتوب الیک واللّٰہ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔