Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
68 - 157
رہا ضعیف اُس میں اور متروک میں بھی زمین وآسمان کابل ہے ضعیف کی حدیث معتبر ومکتوب اور متابعات وشواہد میں مقبول ومطلوب ہے بخلاف متروک اس معنی اور اس کے متعلقات کی تحقیقاتِ جلیلہ فقیر غفرلہ القدیر کے رسالہ الھاد الکاف فی حکم الضعاف میں مطالعہ کیجئے اور سردست اپنی مبلغ علم تقریب ہی دیکھے کہ ضعیف درجہ ثامنہ اور متروک اُس کے دو۲ پایہ نیچے درجہ عاشرہ میں ہے خود عــہ بعض ضعفا رجال شیخین میں اگرچہ متابعۃً یا یوں بھی واقع جس سے اُن کا نامتروک ہونا واضح۔
عــہ مثل اسید بن زید، اسباط ابوالیسع، عبدالکریم بن ابی المخار، والاشعث بن سوار، زمعۃ بن صالح، محمد بن یزید الرفاعی، محمد بن عبدالرحمٰن مولی بنی زھرۃ، احمد بن یزید الحرانی، ابی بن عباس وغیرھم، قال فی التقریب فی الخمسۃ الاول: ضعیف، والسادس لیس بالقوی، والسابع مجھول، والثامن ضعفہ ابوحاتم، والتاسع فیہ ضعف۔ وعبدالکریم، علم لہ المزی فی التھذیب خت، وتبعہ فی المیزان، فقال: اخرج لہ خ تعلیقا، وم متابعۃ۔ وکذا تابعہ الحافظ فی رموز التقریب، ثم نبہ ان الصواب خ، حیث ذکر مالہ فی الجامع الصحیح، ثم قال: ھذا موصول ولیس معلقا۔ وقال فی الرفاعی: ذکرہ ابن عدی فی شیوخ البخاری، وجزم الخطیب بان البخاری روٰی عنہ؛ لکن قدقال البخاری: رأیتھم مجمعین علی ضعفہ ۱؎۔ اھ قلت: المثبت اثبت، فلذاعلمنا علیہ خ، واخرناھا عن لمکان تردد الحافظ۔ والانصاف ان فلیحا وعبادا وامثالھا ایضا ضعفائ، والعذر ماافادہ الامام ابن الصلاح وتبعہ النووی وغیرہ فارجع واعرف۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم (م)
مثلاً (ا) اسید (۲) اسباط (۳) عبدالکریم (۴) اشعت (۵) زمعہ (۶) محمد ابن یزید رفاعی (۷) محمد بن عبدالرحمن (۸) احمد (۹) اُبَیّ اور دوسرے۔

تقریب میں کہا کہ پہلے پانچ ضعیف ہیں، چھٹا بھی خاص قوی نہیں ہے، ساتواں مجہول ہے، آٹھویں کو ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے، نویں میں بھی ضعف ہے۔

عبدالکریم کے لئے مزی نے تہذیب میں ''خت'' کی علامت لگائی ہے (واضح رہے کہ ''خ'' سے مراد بخاری ہے اور ''ت'' سے تعلیق، یعنی بخاری نے بھی اس کی روایت تعلیقاً لی ہے) میزان میں بھی تہذیب کی پیروی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بخاری نے تعلیقاً اور مسلم نے متابعۃً روایت کی ہے۔ اسی طرح حافظ نے بھی تقریب کی علامات میں اس کی پیروی کی ہے لیکن پھر متنبہ کیا ہے کہ صحیح ''خ'' ہے (''خت'' نہیں) چنانچہ حافظ نے پہلے تو عبدالکریم کی وہ روایت ذکر کی ہے جو بخاری میں ہے، پھر کہا ہے کہ یہ روایت وصل کے ساتھ ہے نہ کہ تعلیق کے طور پر۔ (اس لئے ''خ'' کے ساتھ ''ت'' نہیں ہونی چاہے کیونکہ ''ت'' تعلیق کی علامت ہے)(محمد ابن یزید) رفاعی کے بارے میں کہا ہیکہ اس کو ابن عدی نے بخاری کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے اور خطیب نے یقین ظاہر کیا ہے کہ بخاری نے اس سے روایت کی ہے، لیکن بخاری ہی نے کہا ہے کہ میں نے محدثین کو اس کے ضعف پر متفق پایا ہے اھ میں نے کہا ثابت کرنے والے کی بات زیادہ پختہ ہوتی ہے (اور ابن عدی نے اس کا شیخ بخاری ہونا ثابت کیا ہے) اس لئے ہم نے بھی اس کے نام پر ''خ'' کی علامت لگائی ہے۔ لیکن حافظ کو چونکہ اس کے شیخ بخاری ہونے میں تردّد ہے اس لئے ''خ'' کو ہم نے ''م'' کے بعد لگایا ہے (''م'' سے مراد مسلم ہے) اور انصاف کی بات یہ ہے کہ فلیح، عباد اور ان جیسے اور کوئی راوی بھی ضعیف ہیں (اس کے باوجود ان کی روایات صحاح میں پائی جاتی ہیں) امام ابن الصلاح نے اس کی معذرت خواہانہ وجہ بیان کی ہے اور نووی وغیرہ نے بھی ان کا اتباع کیا ہے، اس لئے ان کی طرف مراجعت کرو اور سمجھو! واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ تقریب التہذیب    ترجمہ نمبر ۶۴۲۱ محمد بن یزید دارالکتب العمیۃ بیروت    ۲/ ۱۴۸/۱۴۷)
رابعا:  یہ سب کلام ملّاجی کی غیبی بول عیبی احکام مان کرتھا حضرت کی اندرونی حالت دیکھےے تو پھر حسبِ عادت جو رواۃِ حدیث بے نسب ونسبت پائے ان میں جہاں تحریف وتصرف کا موقع ملا وہی تبدیل کا رنگ لائے سند میں تھا عن شعبۃ عن سلیمٰن۔ اب ملّاجی اپنی مبلغ علم تقریب کھول کر بیٹھے رواۃ نسائی میں شعبہ نام کا کوئی نہ ملا جس پر تقریب میں کچھ بھی جرح کی ہو لہذا وہاں بس نہ چلا سلیمٰن کو دیکھیں تو پہلی بسم اللہ یہی سلیمٰن بن ارقم ضعیف نظر پڑا حکم جڑ دیا کہ سند میں وہی مراد اور حدیث مردود، ملّاجی! اپنے دھرم کی قسم سچ بتانا یہ جبروتی حکم آپ نے کس دلیل سے جمایا، کیا اسی کا نام محدّثی ہے، سچّے ہوتو برہان لاؤ ورنہ اپنے کذب وعیب رحم بالغیب پر ایمان
قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین
حق طلبان وحق نیوش کو اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ مخرج حدیث اعمش عن عمارۃ عن عبدالرحمٰن عن عبداللّٰہ بخاری مسلم ابوداؤد نسائی وغیرہم سب کے یہاں حدیث عمارہ بطریق امام اعمش ہی مذکور، صحیحین کی تین سندیں بطرق حفص بن غیاث وابی معٰویۃ وجریر کلھم عن الاعمش عن عمارۃ صدر کلام میں، اور ایک سند نسائی بطریق داود عن الاعمش عن عمارۃ اس کے بعد سُن چکے۔ پنجم نسائی کتاب الصلاۃ میں ہے:
اخبرنا قتیبۃ ثنا سفیان نا الاعمش عن عمارۃ ۱؎ الخ۔
 (۱؎ نسائی النسائی    الجمع بین المغرب والعشاء الخ    مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی    ۱/۱۰۰)
ششم: نسائی مناسک باب الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفۃ اخبرنا محمد بن العلاء ثنا ابومعٰویۃ عن الاعمش عن عمارۃ ۱؎ الخ
 (۱؎ سُنن النسائی    الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفہ    مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی    ۲/۴۶)
ہفتم:  سنن ابی داؤد حدثنا مسدد وان عبدالواحد بن زیاد وابا عوانۃ وابا معٰویۃ حدثوھم عن الاعمش عن عمارۃ ۲؎۔
 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب الصلٰوۃ بجمع        آفتاب عالم پریس لاہور        ۱/۲۶۷)
ہشتم:  امام طحاوی حدثنا حسین بن نصرثنا قبیصۃ بن عقبۃ والفریابی قالا ثنا سفیٰن عن الاعمش عن عمارۃ بن عمیر ۳؎ الخ۔
 (۳؎ شرح معانی الاثار    الجمع بین اصلاتین        مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۱۱۳)
یہ امام اعمش اجل ثقہ ثبت حجت حافظ ضابط کبیر القدر جلیل الفخر اجلہ ائمہ تابعین ورجال صحاح ستّہ سے ہیں جن کی وثاقت عدالت جلالت آفتاب نیمروز سے روشن تر ان کا اہم مبارک سلیمٰن ہے وہی یہاں مراد، کاش تضعیف ابن ارقم دیکھ پانے کی خوشی ملّاجی کی آنکھیں بند نہ کردیتی تو آگے سُوجھتا کہ دنیا میں ایک یہی سلیمٰن نہیں دو۲ ورق لوٹتے تو اسی تقریب میں تھا:
سلیمٰن بن مھران الاعمش ثقۃ حافظ عارف بالقراء ات ورع ۴؎
 (سلیمٰن ابن مہران اعمش، ثقہ ہے، حافظ ہے، قرأۃ کو جاننے والا ہے، متقی ہے۔ ت)
 (۴؎ تقریب التہذیب ترجمہ نمبر ۲۶۲۳    دارالکتب العلمیہ بیروت  ۱/۳۹۲)
جن حضرات کا جوشِ تمیز اس حد تک پہنچا ہو اُن سے کیا کہا جائے کہ ان سلیمٰن سے راوی بھی آپ نے دیکھے کون ہیں امیرالمومنین فی الحدیث امام شعبہ بن الحجاج جنہیں التزام تھا کہ ضعیف لوگوں سے حدیث روایت نہ کریں گے جس کی تفصیل فقیر کے رسالہ منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین میں مذکور وہ اور ابن ارقم سے روایت مگر ناواقفوں سے ان باتوں کی کیا شکایت!

خامساً حضرت کو اپنی پرانی مشق صاف کرنے کو اُسی طرح کا ایک اور نام ہاتھ لگایعنی خالد امام نسائی نے فرمایا تھا: اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود عن خالد عن شعبۃ بیدھڑک حکم لگادیا کہ اس سے مراد خالد بن مخلد رافضی ہے ملّاجی! پانچ پیسے کی شیرینی تو ہم بھی چڑھائیں گے اگر ثبوت دوکہ یہاں خالد سے یہ شخص مراد ہے، مُلّاجی! تم کیا جانو کہ ائمہ محدثین کس حالت میں اپنے شیخ کے مجرد نام بے ذکر ممیز پر اکتفا کرتے ہیں، ملّاجی صحابہ کرام میں عبداللہ کتنے بکثرت ہیں خصوصاً عبادلہ خمسہ رضی اللہ تعالٰی عنہم، پھر کیا وجہ ہے کہ جب بصری عن عبداللّٰہ کہے تو عبداللہ بن عمرو بن عاص مفہوم ہوں گے، اور کوئی کہے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہم، پھر رواۃ مابعد میں تو عبداللہ صدہا ہیں مگر جب سوید کہیں حدثنا عبداللّٰہ تو خواہ مخواہ ابن المبارک ہیں، محمدین کا شمار کون کرسکتا ہے مگر جب بندار کہیں عن محمد عن شعبۃ تو غندر کے سوا کسی طرف ذہن نہ جائے گا وعلٰی ہذا القیاس صدہا مثالیں ہیں جنہیں ادنٰی ادنٰی خدامِ حدیث جانتے سمجھتے پہچانتے ہیں۔ مُلّاجی! یہخالد امام اجل ثقہ ثبت حافظ جلیل الشان خالد بن حارث بصری ہیں کہ امام شعبہ بن الحجاج بصری کے خُلّص تلامذۃ اور امام اسمٰعیل بن مسعود بصری کے اجل اساتذہ اور رجال صحاح ستّہ سے ہیں اسمٰعیل بن مسعود کو اُن سے اور اُنہیں شعبہ سے اکثار روایت بدرجہ غایت ہے، اسی سنن نسائی میں اسمٰعیل کی بیسیوں روایات اُن سے موجود، ان میں بہت خاص اسی طریق سے ہیں کہ اسمٰعیل خالد بن حارث سے اور خالد شعبہ بن الحجاج سے ان میں بہت جگہ خود اسمٰعیل نے نسبِ خالد مصرحاً بیان کیا ہے۔ بہت جگہ اُنہوں نے حسبِ عادت مطلق چھوڑا۔ امام نسائی نے واضح فرمادیا ہے بہت جگہ سابق ولاحق بیانوں کے اعتماد پر یوں ہی مطلق باقی رکھا ہے میں آپ کا حجاب ناواقفی توڑنے کو ہر قسم کی مصرح روایات سے بہ نشان کتاب وباب کچھ حاضر کروں۔
طریق شعبۃ: (۱) کتاب الافتتاح باب التطبیق اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ عن سلیمٰن ۱؎ الخ۔
 (۱؎ النسائی    باب التطبیق    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۱۲۳)
 (۲)    کتاب الطہارۃ باب النضح اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ۲؎ الخ۔
 (۲؎ النسائی    باب النضح        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۱۹)
 (۳)    کتاب المواقیت الرخصہ فی الصلاۃ بعد العصر اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود عن خالد بن الحارث عن شعبۃ ۳؎ الخ۔
 (۳؎ النسائی    الرخصۃ فی الصلٰوۃ بعد العصر    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۶۷)
 (۴)    کتاب الامامۃ، الجماعۃ اذاکانوا اثنین اخبرنا اسمعیل بن مسعود ثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ۴؎ الخ۔
 (۴؎ النسائی    الجماعۃ اذاکانوا اثنین    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۹۷)
 (۵)    کتاب السہو باب التحری اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ۵؎ الخ۔
 (  ۵؎ النسائی    باب التحری        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۱۴۶)
(تصریح اسمعیل سوی مامر)
 (۶)    کتاب الامامۃ الرخصۃ للامام فی التطویل اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد بن الحارث ۶؎ الخ۔
 (۶؎ النسائی    الرخصۃ للامام فی التطویل    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۹۴)
 (۷)    کتاب قیام اللیل، باب وقت رکعتی الفجر اخبرنا اسمعیل بن مسعود قال ثنا خالد بن الحارث ۱؎ الخ۔
 (۱؎ سنن النسائی    باب وقت رکعتی الفجر        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۲۰۶)
Flag Counter