فائدہ: یہ معنی نفیس فیض فتاح علیم جل مجدہ سے قلبِ فقیر پر القاء ہوئے پھر ارکانِ اربعہ ملک العلماء بحرالعلوم قدس سرّہ مطالعہ میں آئی دیکھا تو بعینہٖ یہی معنی افادہ فرمائے ہیں والحمدللّٰہ علی حسن التفھیم ارشاد فرماتے ہیں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ:
وایضا،خبرالجمع انما نقلوا فی غزوۃ تبوک،وکان فی تلک الغزوۃ الاف من الرجال، و کان کل صلوا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ولم یخبر منھم الاواحد اواثنان، ولم یشتھر، ولم یروغیرہ، بل بعض الحاضرین انکروا ذلک، حتی قال ابن مسعود: مارأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتھا؛ الاصلی صلٰوتین جمع بین المغرب والعشاء بجمع، وصلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا، رواہ الشیخان وابوداود والنسائی، فنفی ابن مسعود، الذی قال فیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم: تمسکوا بعھد ابن اُمّ عبد، تقدیم صلاۃ عن الوقت وتاخیرھا، واخبر بانہ لم یقع الافی صلاتین، بین احدھما، وھو المغرب بجمع اخرھا الٰی وقت العشاء ، ولم یبین الاخر، وھو العصر یوم عرفۃ، بتقدیمہ فی وقت الظھر، لشھرتہ، ولیعلم بالمقایسۃ، واخبر خبرا اٰخر، وھو تقدیم الفجر عن الوقت المسنون المعتاد عندہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ واذا کان حال خبر الجمع ماذکرنا وجب ردہ اوتاویلہ ۱؎۔
نیز دو نمازوں کو جمع کرنے کی خبر صرف غزوہ تبوک میں منقول ہے اور اس غزوے میں ہزاروں لوگ شامل تھے اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں تھیں، مگر ایک یا دو کے علاوہ کسی نے جمع کرنے کا ذکر نہیں کیا، نہ یہ بات مشہور ہُوئی، اس روایت کے علاوہ جمع کی کوئی روایت نہیں آئی ہے، بلکہ بعض حاضرین تبوک نے اس جمع سے صاف انکار کیا ہے، حتی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن ام عبد (یعنی ابن مسعود) کی باتوں سے تمسک کیا کرو نے فرمایا ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی نماز بغیر وقت کے پڑھی ہو مگر دو۲ نمازیں، مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو جمع کیا اور اس دن فجر کی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی۔ بحوالہ بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی اس طرح ابن مسعود نے نماز کی اپنے وقت سے تقدیم وتاخیر کی نفی کردی ہے اور بتادیا ہے کہ ایسا صرف دو۲ نمازوں میں ہُوا تھا، جن میں سے ایک نماز کا تو انہوں نے ذکر کردیا، یعنی مزدلفہ کی مغرب، کہ اس کو عشاء تک مؤخر کیا تھا، مگر دوسری نماز کا ذکر نہیں کیا، یعنی عرفہ کی عصر کا، کہ اس کے ظہر کے وقت میں مقدم کرکے پڑھاتھا، عدمِ ذکر کی وجہ، اس کا مشہور ہونا ہے، نیز یہ بات قیاس سے بھی معلوم ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس کی بجائے انہوں نے دوسرا واقعہ بیان کردیا کہ فجر کو، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسنون اور اپنے معتاد وقت سے پہلے پڑھا، تو جب جمع کی روایت کا حال یہ ہے جو ہم نے ذکر کیا، توضروری ہے کہ یاتو اس کو رَد کردیا جائے یا کوئی تاویل کی جائے۔ (ت)
(۱؎ ارکان اربعہ لبحر العلوم تتمہ فی الجمع بین اصلاتین مطبوعہ مطبع علوی انڈیا ص ۱۴۶)
اور اس کے مطالعہ سے بحمداللہ تعالٰی ایک اور توارد حسن معلوم ہوا فقیر غفرلہ نے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے پہلے جواب میں غروب شفق کو قرب غروب پر حمل اور اس محتمل کو اُن نصوص صریحہ مفسرہ کی طرف رد کیا اور قصہ مرویہ ابن عمر کو واحد بتایا تھا بعینہٖ یہی مسلک ملک العلماء نے اختیار فرمایا، فرماتے ہیں:
بل المراد بغروب الشفق، قرب غروبہ، لان القصۃ واحدۃ، وماذکرنا من قبل مفسرلا یقبل التاویل، فیاوّل بقرب غروب الشفق، اویقال: ھذا من وھم بعض الرواۃ، واماما ذکرنا اولا، فھو مطابقللامر المتقرر فی الشرع من تعیین الاوقات ۱؎۔
غروبِ شفق سے مراد غروب کے قریب ہونا ہے کیونکہ قصّہ ایک ہی ہے اور ہم نے پہلے جو روایت بیان کی ہے وہ مفسّر ہے، تاویل کا احتمال نہیں رکھتی، اس لئے یا تو غروب شفق کی، قربِ غروب سے تاویل کرنی پڑے گی، یا یہ کہا جائے گا کہ یہ کسی راوی کا وہم ہے اور پہلی جو ہم نے روایت ذکر کی ہے، وہ شرع میں جو کچھ مقرر ہوچکا ہے یعنی تعیین اوقات، اس کے مطابق ہے۔ (ت)
(۱؎ رسائل الارکان تتمہ فی الجمع بین اصلاتین مطبوعہ مطبع علوی ص ۱۴۷ و ۱۴۸)
بحمداللہ تعالٰی تیسرا توارد اور واضح ہوا حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ میں کلامِ فقیر یاد کیجئے کہ اس روایت میں اسی طرح مقال واقع ہوئی مگر فقیر کہتا ہے اس کا کون سا حرف جمع حقیقی میں نص ہے الخ بعینہٖ یہی طریقہ مع شی زائد مولانا بحر قدس سرہ، چلے بعد عبارت مذکور فرماتے ہیں:
اما جمع التقدیم فلم یرو الافی الروایات الشاذۃ لا اعتداد بھا عند سطوع شمس القاطع ثم لیس فی روایۃ ابی داود عن معاذ مایدل علی تقدیم العصر عن وقتھا؛ وانما فیہ، اذازاغت الشمس قبل ان یرتحل جمع بین الظھر والعصر، ویجوز انیکون الجمع بان یؤخر الظھر الٰی اٰخر وقتھا ویعجل العصر اول وقتھا۔ او ان المراد بالجمع، الجمع فی نزول واحد؛ وانکانتا ادیتا فی وقتیھا فافھم۔ ھکذا ینبغی ان یفھم المقام ۲؎۔
رہی جمع تقدیم، تو اس کا ذکر صرف شاذ روایات میں ہے اور قطعی دلیل کا سورج طلوع ہونے کے بعد ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ پھر ابوداود کی روایت میں ایسا لفظ ہے بھی نہیں جو عصر کی اپنے وقت سے تقدیم پر دلالت کرتا ہو۔ اس میں تو صرف اتنا ہے کہ اگر روانگی سے پہلے سُورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر کو جمع کرلیتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ جمع اسی طرح کرتے ہوں کہ ظہر کو آخر وقت تک مؤخر کردیتے ہوں اور عصر اوّل وقت میں پڑھ لیتے ہوں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جمع سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو پڑھنے کیلئے ایک ہی مرتبہ اُترتے تھے، اگرچہ ادا اپنے اپنے وقت میں کرتے تھے۔ اس کو سمجھو۔ اسی طرح اس مقام کو سمجھنا چاہے۔ (ت)
اور واقعی بحمداللہ تعالٰی یہ تینوں مطالب عالیہ وہ جواہر غالیہ ہیں جن کی قدر اہلِ انصاف ہی جانیں گے علامہ بحر قدس سرہ، سا فاضل جامع اجل واغر دقیق النظر اگر ایک بیان مسلسل مجمل مختصر میں اُنہیں افادہ فرماجائے ان کی شان تدقیق سے کیا مستبعد پھر بھی ایک رنگ افتخار اُن کے کلام سے مترشح کہ فرماتے ہیں ھکذا ینبغی ان یفھم المقام مگر فقیر حقیر قاصر فاتر پر ان جلائل قدسیہ زاہرہ اور اُن کے ساتھ اور دقائق وحقائق باہرہ مذکورہ کثیرہ وافرہ کا افادہ محض عطیہ علیہ حضرت وہاب جواد بے سبقت استحقاق وتقدم استعداد ہے
ذلک فضل اللّٰہ علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس لایشکرونo ربی لک الحمد کماینبغی لجلال وجھک وکمال الائک ودفور نعمائک صل وسلم وبارک علی اکرم انبیائک محمد واٰلہ وسائراصفیائک اٰمین۔ مولانا قدس سرہ، ان نفائس عزیزہ کو بیان کرکے فرماتے ہیں: انظر ماادق نظر ائمتنا حیث لاتفوت عنھم دقیقۃ ۱؎۔
دیکھ تو ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی نظر کیسی دقیق ہے کہ کوئی دقیقہ ان سے فروگزاشت نہیں ہوتا۔ (ت)
(۱؎ ارکان اربعہ لبحر العلوم تتمہ فی الجمع بین اصلاتین مطبوعہ مطبع علوی انڈیا ص ۱۴۸)
فقیر کہتا ہے ہاں واللہ آپ کے ائمہ اور کیا جانا کیسے ائمہ مالکان ازمہ وکاشفانِ غُمہ ایسے ہی دقیق النظر وعالی مدارک وشاہان بزم وشیرانِ معارک ہیں کہ منازل دقیق اجتہاد میں اوروں کے مساعی جمیلہ اُن کے توسن برق رفتار کی گرد کونہ پہنچے اور کیوں نہ ہو کہ آخر وہ وہی ہیں کہ اگر ایمان وعلم ثریا پر معلق ہوتا لے آتے آج کل کے کو رانِ بے بصر اُن کے معارج علیہ سے بے خبر، اگر آئینہ عالمتاب میں اپنا منہ دیکھ کر طعن وتشنیع سے پیش آئیں کیا کیجئے ؎
مہ فشاند نوروسگ عوعو کند
کر کسے برخلقت خودمے تند
(چاند روشنی پھیلاتا ہے اور کتّا بھونکتا ہے ہر کوئی اپنی فطرت کے مطابق چلتا ہے)
ان حضرات کی طویل وعریض بدزبانیوں کا نمونہ یہیں دیکھ لیجئے مسئلہ جمع میں مُلّاجی کے دعوے تھے کہ وہ دلائل قطعیہ سے ثابت ہے اور اُس کا خلاف کسی حدیث سے ثابت نہیں نہ جمع صوری پر اصلاً کوئی دلیل حنفیہ کے پاس ہے اب بحول وقوت رب قدیر سب اہلِ انصاف نے دیکھ لیا کہ کس ہستی پر یہ لن ترانی کس بِرتے پر تتّا پانی ولاحول ولاقوۃ الّا باللہ العلی العظیم۔
ثانیا اقول وباللہ التوفیق اگر نظر تتبّع کو رخصت جولاں دیجئے تو بعونہٖ تعالٰی واضح ہوکہ یہ جواب علما محض تنزّلی تھا ورنہ اسی حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ جمع عرفات بھی ذکر فرماچکے، یہی حدیث سُنن نسائی کتاب المناسک باب الجمع بین الظہر والعصر بعرفہ میں یوں ہے:
اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود عن خالد عن شعبۃ عن سلیمٰن عن عمارۃ بن عمیر عن عبدالرحمٰن بن یزید عن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یصلی الصلاۃ لوقتھا الا بجمع فی مزدلفۃ وعرفات ۲؎۔
ہمیں خبر دی اسمٰعیل بن مسعود نے خالد سے شعبہ سے عمارہ بن عمیر سے عبدالرحمن بن یزید سے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر نماز اس کے وقت ہی میں پڑھتے تھے مگر مزدلفہ وعرفات میں۔
(۲؎ النسائی کتاب الجمع بین الظہر والعصر بعرفۃ مکتبہ سلفیہ لاہور ۲/۳۹)
مُلّاجی! اب کہے مصیبت کا پہاڑ کس پر ٹوٹا! مُلّاجی! ابھی آپ کی نازک چھاتی پر دلّی کی پہاڑی آئی ہے سخت جانی کے آسرے پر سانس باقی ہوتو سر بچائےے کہ عنقریب مکّہ کا پہاڑ ابوقبیس آتا ہے۔ ملّاجی! دعوٰی اجتہاد پر ادھار کھائے پھرتے ہو اور علمِ حدیث کی ہوا نہ لگی احادیث مرویہ بالمعنی صحیحین وغیرہما صحاح وسنن مسانید ومعاجیم وجوامع واجزا وغیرہما میں دیکھےے صدہا مثالیں اس کے پائےے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور سے روایت کرتے ہیں کوئی پُوری کوئی ایک ٹکڑا کوئی دُوسرا کوئی کسی طرح کوئی کسی طرح جمع طرق سے پُوری بات کا پتا چلتا ہے ولہذا امام الشان ابوحاتم رازی معاصر امام بخاری فرماتے ہیں ہم جب تک حدیث کو ساٹھ۶۰ وجہ سے نہ لکھتے اُس کی حقیقت نہ پہچانتے۔ یہاں بھی مخرج حدیث اعمش بن عمارۃ عن عبدالرحمٰن عن عبداللّٰہ ہے اعمش کے بعد حدیث منتشر ہُوئی اُن سے حفص بن غیاث وابومعٰویہ وابوعوانہ وعبدالواحد بن زیاد وجریر وسفیان وداؤد وشعبہ وغیرہم اجلّہ نے روایت کی یہ روایتیں الفاظ واطوار وبسط واختصار وذکر واقتصار میں طرق شتی پر آئیں کسی میں مغرب وفجر کا ذکر ہے ظہر عرفہ مذکور نہیں کروایۃ الصّححین کسی میں ظہر عرفہ ومغرب کا بیان ہے فجر مزدلفہ ماثور نہیں کروایۃ النسائی کسی میں صرف مغرب کا تذکرہ ہے ظہر وفجر وصےغہ مارأیت وغیرہ کچھ مسطور نہیں
کحدیث النسائی ایضا فی المناسک، باب جمع الصلاتین بالمزدلفۃ، اخبرنا القاسم بن زکریا ثنا مصعب بن المقدام عن داود عن الاعمش عن عمارۃ عن عبدالرحمٰن بن یزید عن ابن مسعود ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم جمع بین المغرب والعشاء بجمع ۱؎۔
جیسا کہ نسائی کی حدیث جو کتاب المناسک، باب جمع الصلاتین بمزدلفہ میں ہے حدیث بیان کی ہم سے قاسم ابن زکریا نے مصعب ابن مقدام سے، اس نے داؤد سے، اس نے اعمش سے، اس نے عمارہ سے، اس نے عبدالرحمن ابن یزید سے، اس نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا۔ (ت)
(سوائے جریر کے، اعمش کے جتنے راوی ہم نے ذکر کےے ہیں وہ اسی طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ ت) کسی میں لفظ بغلس مفید واقع ومصرح مرام کی تصریح ہے
کمامر لمسلم من حدیث الضبی
(جیسا کہ مسلم کے حوالے سے ضبی کی حدیث گزری ہے۔ ت) ان تنوعات سے نہ وہ حدیثیں متعدد ہوجائیں گی نہ ایک طریق دوسرے کا نافی ومنافی ہوگا بلکہ ان کے اجتماع سے جو حاصل ہو وہ حدیث تام قرار پائے گا۔ اب خواہ یہ اختلاف رواۃ اعمش کی روایت بالمعنی سے ناشَے ہُوا خواہ خود اعمش نے مختلف اوقات میں مختلف طور پر روایت بالمعنی کی اور ہر راوی نے اپنی مسموع پہنچائی چاہے یہ تنویع اعمش نے خود کی چاہے عمارہ یا عبدالرحمن سے ہوئی اور وہ سب اعمش نے سُنی یا اعمش کو پہنچی خواہ اصل منتہائے سند سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اوقات عدیدہ میں حسبِ حاجت مختلف طوروں پر ارشاد فرمائی مثلاً شبِ مزدلفہ راہِ مزدلفہ میں یا وہاں پہنچ کر آج کی مغرب وفجر کا مسئلہ ارشاد کرنے کیلئے صرف اُنہیں دو۲ کا ذکر فرمایا عصر تو سب کے سامنے ابھی جمع کرچکے تھے اُس کے بیان کی حاجت کیا تھی دوسرے وقت جمع بین الصلاتین کا مسئلہ پیش ہو وہاں ذکرِ فجر کی حاجت نہ تھی عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کے ذکر پر قناعت کی کہ سوا ان دو۲ نمازوں کے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی جمع نہ فرمائی اور کسی وقت مغرب وعشائے مزدلفہ کا ذکر ہوکہ ان میں سنّت کیا ہے اس وقت یہ پچھلی حدیث مختصر افادہ کی۔
ثم اقول لطف یہ کہ یہی حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ دوسرے مخرج مروی صحیح بخاری وسنن نسائی سے سیدنا امام محمد نے آثار مرویہ کتاب الحجج میں بسندِ جلیل وصحیح جس کے سب رواۃ اجلّہ ثقات وائمہ اثبات ورجال صحیحین بلکہ صحاح ستّہ سے ہیں یوں روایت فرمائی:
اخبرنا سلام بن سلیم الحنفی عن ابی اسحٰق السبیعی عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن علقمۃ بن قیس والاسود بن یزید قالا کان عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ یقول لاجمع بین الصلاتین الابعرفۃ الظھر والعصر ۱؎۔
(۱؎ کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصلاتین دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۱/۱۶۵)
سلام بن سلیمٰن الحنفی ابواسحاق سبیعی سے وہ عبدالرحمن بن اسود سے وہ علقمہ بن قیس اور اسود بن یزید سے راوی ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے جمع بین الصلاتین جائز نہیں مگر عرفہ میں ظہر وعصر۔
کیوں مُلّاجی! اب یہاں کہہ دینا کہ ابن مسعود نے فقط جمع عرفات دیکھی جمع مزدلفہ خارج رہی حالانکہ ہرگز نہ اس سے اعراض نہ اس پر اعتراض بلکہ ہر محل وموقع کلام میں وہاں کی قدر حاجت پر اقتصار ہے یہاں مسافر کے جمع بین الظہر والعصر کا ذکر ہوگا اُس پر فرمایا کہ ان میں جمع صرف روز عرفہ عرفات میں ہے اس کے سوا ناجائز، ولہذا الصلاتین معرف بلام فرمایا جس میں اصل عہد ہے۔ مُلّاجی! کُتبِ حدیث آنکھ کھول کر دیکھو روایات بالمعنٰی کے یہی انداز آتے ہیں خصوصاً امام بخاری تو بذاتِ خود اپنی جامع صحیح میں اس کے عادی ہیں حدیث کو ابواب مختلفہ میں بقدر حاجت پارہ پارہ کرکے لاتے ہیں اس سے ایک پارہ دوسرے کو رَد نہیں کرتا بلکہ وہ مجموع حدیث کامل ٹھہرتی ہے۔
اس سے بحمداللہ تعالٰی واضح وآشکار ہوا کہ یہ حدیث بھی تمام وکمال یوں ہے کہ میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو۲ نمازیں جمع فرمائی ہوں کبھی کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے یا وقت کے بعد پڑھی ہو مگر صرف دو۲ عصر عرفہ وقت ظہر اور مغرب مزدلفہ وقت عشائ، اور اُس دن فجر کو بھی وقت مسنون ومعمول سے پہلے طلوعِ فجر کے بعد ہی تاریکی میں پڑھ لیا تھا اُس دن کے سوا کبھی ایسا بھی نہ کیا۔ الحمدللہ کہ آفتابِ حق وصواب بے پردہ وحجاب رابعۃ النہار پر پہنچا، اب اس حدیث نسائی جامع ذکر عرفہ ومزدلفہ پر مُلّاجی نے بکمال مکابرہ جو چوٹیں کی ہیں اُن کی خدمت گزاری کیجئے اور ماہ ضیا پناہ رسالہ کو باذنہٖ تعالٰی شب تمام کامثر د ہ دیجئے واللہ المعین وبہ نستعین۔
لطیفہ: یارب جہل جاہلین سے تیری پناہ، مُلّاجی تورَدِ احادیث وجرح ثقات وقدح صحاح کے دھنی ہیں۔ عمل بالحدیث کے ادعائی راج میں انہیں مکابروں کی دیواریں چُنی ہیں۔ حدیث صحیح نسائی شریف کو دیکھا کہ انہیں مصیبت کا پہاڑ توڑے گی۔ حضرت نے گُلِ سرسبد کو گِل تہ گلخن بنا چھوڑے گی لہذا نیامِ حیا سے تےغِ ادا نکالی اور احادیث صحاح میں تکمیل مضمون فریقا تکذبون وفریقا تقتلون کی یوں بناڈالی ف۱ حدیث نسائی کی نامقبول اور مجروح اور متروک ہے دو۲ راوی اس کے مجروح ہیں ایک سلیمٰن بن ارقم کہ اُس کی توثیق کسی نے نہیں کی بلکہ ضعیف کہا اس کو تقریب میں سلیمٰن بن ارقم ضعیف اور ایک خالد بن مخلد کہ یہ شخص رافضی تھا اور صاحبِ احادیث افراد کا کہا تقریب میں خالد بن مخلد صدوق متشیع ولہ افراد۔
(ف ۱ معیارالحق ص ۳۸۴)
اقول: اوّلاً وہی مُلّاجی کی قدیمی سفاہت تشیع ورفض کے فرق سے جہالت۔
ثانیا: صحیحین سے وہی پُرانی عداوت خالد بن مخلد نہ صرف نسائی بلکہ بخاری ومسلم وغیرہما جملہ صحاح ستہ کے رجال سے ہے امام بخاری کا خاص اُستاذ اور مسلم وغیرہ کا اُستاذ الاستاذ۔
ثالثاً : مُلّاجی! تم نے تو علم ِ حدیث کی الف بے بھی نہ پڑھی اور ادعائے اجتہاد کی یوں بے وقت چڑھی ذرا کسی پڑھے لکھے سے ضعیف ومتشیع وصاحبِ افراد اور متروک الحدیث میں فرق سیکھو، متشیع وصاحبِ افراد ہونا تو اصلاً موجبِ ضعف نہیں، صحیحین دیکھئے ان کے رواۃ میں کتنے متشیع عــہ۱ موجود ہیں اور لہ عــہ۲ افراد والوں کی کیا گنتی جبکہ ہم حواشی فصل اول میں بکثرت لہ اوھام یھم، ربما وھم، یخطیئ، یخطیئ کثیرا، کثیرالخطائ، کثیرالغلط وغیرہا والے ذکرکر آئے،
عــہ۱ مثل ابان خ بن یزید العطار، یزیدع بن ابی انیسۃ، عبدالرحمٰن خ بن غزوان وغیرہم ۱۲ منہ (م)
عــہ۲ جن میں تیس۳۰ سے زیادہ حواشی فصل اول پر مذکور ہوئے ۱۲ منہ (م)