Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
66 - 157
اقول: یہ حدیث اعلٰی درجہ کی صحیح ہے اس کے سب رجال اسمٰعیل بن ابراہیم ابن علیہ سے آخر تک ائمہ ثقات عدول رجال صحیح مسلم سے ہیں وللہ الحمد۔

لطیفہ: حدیث مؤطا کے جواب میں تو ملّاجی کو وہی اُن کا عذر معمولی عارض ہواکہ منع کرنا عمر کا حالت اقامت میں بلاعذر تھا۔

اقول: اگر ہرجگہ ایسی ہی تخصیص تراش لینے کا دروازہ کھُلے تو تمام احکام شرعیہ سے بے قیدوں کو سہل چھٹی ملے جہاں چاہیں کہہ دیں یہ حکم خاص فلاں لوگوں کے لئے ہے، حدیث صحیحین کو تین طرح رد کرنا چاہا:

اوّل : انکار جمع اس سے بطور مفہوم نکلتا ہے اور حنفیہ قائل مفہوم نہیں، اس جواب کی حکایت خود اُس کے رَد میں کفایت ہے اُس سے اگر بطور مفہوم نکلتی ہے تو مزدلفہ کی جمع کہ مابعد الا ہمارے نزدیک مسکوت عنہ ہے انکار جمع تو اس کا صریح منطوق ومدلول مطابقی ومنصوص عبارۃ النص ہے۔

اقول:  اولا اُس کی نسبت اگر بعض اجلہ شافعیہ کے قلم سے براہ بشریت لفظ مفہوم نکل گیا مُلّاجی مدعی اجتہاد وحُرمت تقلید ابوحنیفہ وشافعی کو کیا لائق تھا کہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم رَد کرنے کیلئے ایسی بدیہی غلطی میں ایک متأخر مقلد کی تقلید جامد کرتے شاید ردِ احادیث صحیحہ میں یہ شرک صریح جائز وصحیح ہوگا اب نہ اُس میں شائبہ نصرانیت ہے نہ
 اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللّٰہ ۲؎
 (انہوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنالیا۔ ت) کی آفت
کبر مقتا عنداللّٰہ ان تقولوا مالاتفعلون ۳؎
(اللہ کے نزدیک بڑا جُرم ہے کہ تم اس کام کا کہو جو خود نہیں کرتے۔ ت)
 (۲؎ القرآن    ۹/۳۱    ۳؎ القرآن    ۶۱/۳)
ثانیا: بفرض غلط مفہوم ہی سہی اب یہ نامسلّم کہ حنفیہ اس کے قائل نہیں صرف عبارات شارع غیر متعلقہ بعقوبات میں اس کی نفی کرتے ہیں کلام صحابہ ومن بعدہم من العلماء میں مفہوم مخالف بے خلاف مرعی ومعتبر
کمانص علیہ فی تحریر الاصول والنھر الفائق والدرالمختار وغیرھا من الاسفار قد ذکرنا نصوصھا فی رسالتنا القطوف الدانیۃ لمن احسن الجماعۃ الثانیۃ ۱۳۔
دوم: ایک رام پوری ملّا سے نقل کیا کہ ابنِ مسعود سے مسند ابی یعلی میں یہ روایت بھی ہے کہ
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجمع بین الصلاتین فی السفر ۱؎
 (رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں دو نمازیں جمع کرتے تھے۔ ت)
 (۱؎ مسند ابویعلی    مسند ابن مسعود    حدیث ۵۳۹۱    مطبوعہ علوم القرآن بیروت    ۵/۱۸۱)
تو موجہ ہے کہ حدیث صحیحین کو حالت نزول منزل اور روایت ابی یعلی کو حالت سیر پر حمل کریں یہ مذہب امام مالک کی طرف عود کرجائے گا۔

اوّلاً ملّاجی خود ہی اسی بحث میں کہہ چکے ف۱ ہوکہ شاہ صاحب نے مسند ابی یعلی کو طبقہ ثالثہ میں جس میں سب اقسام کی حدیثیں صحیح حسن غریب معروف شاذ منکر مقلوب موجود ہیں ٹھہرایا ہے، پھر خود ہی اس طبقے کی کتاب کو کہا ف۲ اس کتاب کی حدیث بدون تصحیح کسی محدّث کے یا پیش کرنے سند کے کیونکر تسلیم کی جاوے یہ کتاب اُس طبقے کی ہے جس میں سب اقسام کی حدیثیں صحیح اور سقیم مختلط ہیں یہ کیا دھرم ہے کہ اوروں پر منہ آؤ اور اپنے لیے ایک رام پوری ملّا کی تقلید سے حلال بتاؤ
اتخذوا احبارھم ورھبانھم ۲؎۔
 (۲؎ القرآن    ۹/۳۱)

(ف۱ معیارالحق    ص ۳۹۷        ف۲ معیارالحق     ص ۴۰۰    )
ثانیا:  اقول:  مُلّاجی! کسی ذی علم سے التجا کرو تو وہ تمہیں صریح ومجمل ومتعین ومحتمل کا فرق سکھائے حدیث صحیحین انکار جمع حقیقی میں نص صریح ہے اور روایت ابویعلٰی حقیقی جمع کا اصلاً پتا نہیں دیتی بلکہ احادیث جمع صوری میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیثیں صاف صاف جمع صوری بتارہی ہیں تمہاری ذی ہوشی کہ نص ومحتمل کو لڑاکر اختلاف محامل سے راہِ توفیق ڈھونڈتے ہو۔

لطیفہ: اقول مُلّاجی کا اضطراب قابلِ تماشا ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہیں راوی جمع ٹھہرا کر عدد رواۃ پندرہ بتاتے ہیں کہیں نافی سمجھ کر چودہ صدر کلام میں جہاں راویان جمع گنائے صاف صاف کہا ابن مسعود فی احدی الروایتین اب رامپوری ملّا کی تقلید سے وہ احدی الروایتین بھی گئی ابنِ مسعود خاصے مبثتان جمع میں ٹھہرگئے۔

سوم: جسے مُلّاجی بہت ہی علق نفیس سمجھے ہُوئے ہیں اُن دو کو عربی میں بولے تھے یہاں چمک چمک کر اردو میں چہک رہے ف۳ ہیں کہ اگر کہو جس جمع کو ابن مسعود نے نہیں دیکھا وہ درست نہیں تو تم پر یہ پہاڑ مصیبت کا ٹوٹے گاکہ جمع بین الظہر اور عصر کو عرفات میں کیوں درست کہتے ہو باوجودیکہ اس قول ابن مسعود کے سے تو نفی جمع فی العرفات کی بھی مفہوم ہوتی ہے پس جو تم جواب رکھتے ہو اُسی کو ہماری طرف سے سمجھو یعنی اگر کہو نہ ذکر کرنا ابنِ مسعود کا جمع فی العرفات کو بنا بر شہرت عرفات کے تھا تو ہم کہیں گے کہ جمع فی السفر بھی قرن صحابہ میں مشہور تھی کیونکہ چودہ صحابی سوا ابن مسعود کے اُس کے ناقل ہیں تو اسی واسطے ابنِ مسعود نے اس کا استشنا نہ کیا اور اب محمل نفی کا جمع بلاعذر ہوگی اور اگر کہو کہ جمع فی العرفات بالمقائسہ معلوم ہوتی ہے تو ہم کو کون مانع ہے مقائسہ سے وعلٰی ہذا القیاس جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا ہے۔
 (ف۳ معیارالحق    ص ۴۱۶ )
اس جواب کو مُلّاجی نے گُلِ سرسَبد بناکر سب سے اوّل ذکر کیا اُن دو کی تو امام نووی وسلام اللہ رامپوری کی طرف نسبت کی مگر اسے بہت پسند کرکے بلانقل ونسبت اپنے نامہ اعمال میں ثبت رکھا حالانکہ یہ بھی کلام امام نووی میں مذکور اور فتح الباری وغیرہ میں ماثور تھا شہرت جمع عرفات سے جو جواب امام محقق علی الاطلاق محمد بن الہمام وغیرہ علمائے اعلام حنفیہ کرام نے افادہ فرمایا اُس کا نفیس وجلیل مطلب ملّاجی کی فہم تنگ میں اصلاً نہ دھنسا اجتہاد کے نشہ میں ادعائے باطل شہرت جمع سفر کا آوازہ کسا، اب فقیر غفرلہ المولی القدیر سے تحقیق حق سُنےے فاقو ل وبحو ل ربی اصول اوّلاً ملّاجی جواب علماء کا یہ مطلب سمجھے کہ سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھیں تو تین نمازیں غیر وقت میں مگر دو۲ ذکر کیں مغرب وصبح مزدلفہ ا ور تیسری یعنی عصر عرفہ کو بوجہ شہرت ذکر نہ فرمایا جس پر آپ نے یہ کہنے کی گنجائش سمجھی کہ یونہی جمع سفر بھی بوجہ شہرت ترک کی اس ادعائے باطل کا لفافہ تو بحمداللہ تعالٰی اوپر کھل چکا کہ شہرت درکنار نفس ثبوت کے لالے پڑے ہیں حضرت نے چودہ۱۴ صحابہ کرام کا نام لیا پھر آپ ہی دس۱۰ سے دست بردار ہوئے چار۴ باقی ماندہ میں دو۲ کی روایتیں نِری بے علاقہ اُتر گئیں، رہے دو۲، وہاں بعونہٖ تعالٰی وہ قاہر باہر جواب پائے کہ جی ہی جانتا ہوگا، اگر بالفرض دو۲ سے ثبوت ہوبھی جاتا تو کیا صرف دوکی روایت قرنِ صحابہ میں شہرت ہے، مگر یہاں تو کلامِ علماء کا وہ مطلب ہی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے صرف انہیں دو۲ نمازوں عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کا غیر وقت میں پڑھنا ثابت، انہیں دو۲ کو ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھا انہیں دونوں کو صلاتین کہہ کر یہاں شمار فرمایا اگرچہ تفصیل میں بوجہ شہرت عامہ تامہ ایک کا نام لیا صرف ذکر مغرب پر اقتصار فرمایا ایسا اکتفا کلام صحیح میں شائع،
قال عزوجل:وجعل لکم سرابیل تقیکم الحر ۱؎
 (اور تمہارے لےے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں۔ ت)
(۱؎ القرآن    ۱۶/۸۱)
خود انہیں نمازوں کے بارے میں امام سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم کا ارشاد دیکھئے کہ پوچھا گیا کیا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سفر میں کوئی نماز جمع کرتے تھے؟ فرمایا: لا الابجمع (نہ مگر مزدلفہ میں) کماقدمنا عن سنن النسائی۔ ملّاجی! یہاں بھی کہہ دیجیو کہ جمع سفر کو شہرۃً چھوڑ دیا ہے، اور سُنےے امام ترمذی اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:
العمل علی ھذا عند اھل العلم ان لایجمع بین الصلاتین الا فی السفر اوبعرفۃ ۱؎۔
اہل علم کے ہاں عمل اسی پر ہے کہ بغیر سفر کے اور یومِ عرفہ کے دو۲ نمازیں جمع نہ کرے۔ (ت)
 (۱؎ جامع ترمذی    ابواب الصلوٰہ باب ماجاء فی الجمع بین اصلاتین    مطبوعہ رشیدیہ دہلی    ۱/۲۶)
ترمذی نے صرف نماز عرفہ کا استشناء کیا نماز مزدلفہ کو چھوڑ دیا تو ہے یہ کہ دونوں جمعیں متلازم ہیں اور ایک کا ذکر دُوسری کا یقینا مذِکّر خصوصاً نمازِ عرفہ کہ اظہر واشہر تو مزدلفہ کا ذکر دونوں کا ذکر ہے غرض ان صلاتین کی دوسری نمازِ ظہر عرفہ ہے نہ فجر نحر وہ مسئلہ جُداگانہ کا افادہ ہے کہ دو۲ نمازیں تو غیر وقت میں پڑھیں اور فجر وقت معمول سے پیشتر تاریکی میں اور بلاشُبہہ اجماعِ اُمّت ہے کہ فجر حقیقۃً وقت سے پہلے نہ تھی نہ ہرگز کہیں کبھی اس کا جواز، اور خود اسی حدیث ابومسعود کے لفظ مسلم کے یہاں
بروایت جریر عن الاعمش قال قبل وقتھا بغلس ۲؎
اُس پر شاہد، اگر رات میں پڑھی جاتی ذکر غلس کے کیا معنی تھے
 (۲؎ صحیح مسلم    استحباب زیادۃ التغلیس الخ        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۴۱۷)
صحیح بخاری میں تو تصریح صریح ہے کہ فجر بعد طلوع فجر پڑھی۔
اذقال حدثنا عبداللّٰہ بن رجاء ثنا اسرائیل عن ابی اسحٰق عن عبدالرحمٰن بن یزید قال خرجنا مع عبداللّٰہ الی مکۃ ثم قدمنا جمعا (وفیہ) ثم صلی الفجر حین طلع الفجر الحدیث ۳؎
کہا، حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ ابن رجاء نے اسرائیل سے، اس نے ابواسحٰق سے، اس نے عبدالرحمن سے کہ ہم عبداللہ کے ساتھ مکّہ آئے، پھر مزدلفہ آئے۔ اس روایت میں ہے کہ پھر فجر پڑھی جب فجر طلوع ہُوئی، الحدیث۔
 (۳؎ بخاری شریف    کتاب المناسک باب متی یصلی الفجر بجمع    مطبوعہ قدیمی اصح المطابع کراچی    ۱/۲۲۸)
وقال حدثنا عمروبن خالد ثنا زھیر ثنا ابواسحٰق سمعت عبدالرحمٰن بن یزید یقول حج عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فاتینا المزدلفۃ (وفیہ) فلما طلع الفجر قال ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان لایصلی ھذہ الساعۃ الاھذہ الصلاۃ فی ھذا المکان من ھذا الیوم الحدیث ۴؎۔
اور کہا، حدیث بیان کی عمر بن خالد نے زہیر سے، اس نے ابواسحاق سے کہ میں نے عبدالرحمن ابن یزید سے سُنا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حج کیا تو ہم مزدلفہ کو آئے۔ اس میں ہے جب فجر طلوع ہُوئی تو کہا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس وقت میں کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے مگر یہ نماز، اِسی جگہ، اِسی دن، الحدیث۔ (ت)
 (۴؎ بخاری شریف    باب من اذن واقام لکل واحدۃ منہما    مطبوعہ قدیمی اصح المطابع کراچی    ۱/۲۲۷)
اور یہ بھی اجماع موافق ومخالف ہے کہ عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ حقیقۃً غیر وقت میں پڑھیں تو فجر نحر ومغرب مزدلفہ کا حکم یقینا مختلف ہے ہاں عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ متحد الحکم اور غیر وقت میں پڑھنے کے حقیقی معنی انہیں کے ساتھ خاص اور جب تک حقیقت بنتی ہو مجاز کی طرف عدول جائز نہیں نہ جمع بین الحقیقۃ والمجاز ممکن خصوصاً ملّاجی کے نزدیک تو جب تک مانع قطعی موجود نہ ہو ظاہر پر حمل واجب اور شک نہیں کہ بے وقت پڑھنے سے ظاہر ومتبادر وہی معنی ہیں جو اُن عصر ومغرب میں حاصل نہ وہ کہ فجر میں واقع تو واجب ہوا کہ جملہ صلّی الفجر اُن صلاتین کا بیان نہ ہو بلکہ یہ جملہ مستقلہ ہے اور صلاتَین سے وہی عصر ومغرب مراد تو اُن میں اصلاً کسی کا ذکر ہرگز متروک نہیں، ہاں تفصیل میں پتے کیلئے ایک ہی کا نام لیا بوجہ کمال اشتہار دوسری کا ذکر مطوی کیا بحمداللہ یہ معنی ہیں جواب علماء کے جس سے ملّاجی کی فہم بمیس اور ناحق آنچہ انسان میکند کی ہوس، مُلاّجی! اب اُس برابری کے بڑے بول کی خبریں کہے کہ جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا سمجھئے خدا کی شان ؎
اوگمان بردہ کہ من کردم چواو

فرق راکے بیند آں استیزہ جو
Flag Counter