حدیث ۳۳: صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی ومصنّف طحاوی میں بطرق عدیدہ والفاظ مجملہ ومفصلہ مختصرہ ومطولہ مروی وھذا لفظ البخاری حدثنا عمر بن حفص بن غیاث ثنا ابی ثنا الاعمش ثنی عمارۃ عن عبدالرحمٰن عن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال مارأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتھا الاصلاتین جمع بین المغرب والعشاء وصلی الفجر قبل میقاتھا ۱؎
ولمسلم حدثنا یحیی بن یحیی وابوبکر بن ابی شیبۃ وابوکریب جمیعا عن ابی معویۃ قال یحیٰی اخبرنا ابومعویۃ عن الاعمش عن عمارۃ عن عبدالرحمٰن بن یزید عن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال مارأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلی صلاۃ الالمیقاتھا الاصلاتین صلاۃ المغرب والعشاء بجمع وصلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا ۲؎
(۲؎ صحیح مسلم باب استحباب زیادۃ التغلیس بصلٰوۃ الصبح مطبوعہ اصح المطابع کراچی ۱/۴۱۷)
وحدثناہ عثمٰن بن ابی شیبۃ واسحٰق بن ابرھیم جمیعا عن جریر عن الاعمش بھذا الاسناد قال قبل وقتھا بغلس ۳؎
(۳؎ صحیح مسلم باب استحباب زیادۃ التغلیس بصلٰوۃ الصبح مطبوعہ اصح المطابع کراچی ۱/۴۱۷)
(یعنی حضرتِ حاضر سفر وحضر ومصاحب وملازم جلوت وخلوتِ سید البشر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ سابقین اوّلین فی الاسلام وملازمین خاص حضور سید الانام علیہ افضل الصلاۃ والسلام سے تھے بوجہ کمال قرب بارگاہ اہلبیت عــہ ۱ رسالت سے سمجھے جاتے اور سفر وحضرمیں خدمت عــہ۲ والا منزلت منزلت بسترگستری ومسواک ومطہرہ داری وکفش برداری محبوب باری صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے معزز وممتاز رہتے، ارشاد فرماتے ہیں میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کوئی نماز اُس کے غیر وقت میں پڑھی ہو مگر دو۲ نمازیں کہ ایک اُن میں سے نماز مغرب ہے جسے مزدلفہ میں عشاء کے وقت پڑھا تھا اور وہاں فجر بھی روز کے معمولی وقت سے پیشتر تاریکی میں پڑھی)
عــہ۱ بخاری مسلم ترمذی نسائی ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے: قال قدمت اناواخی من الیمن فمکثنا حینا مانری الا ان عبداللّٰہ بن مسعود رجل من اھلبیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لما نری من دخولہ ودخول امّہ علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎۔ (م)
فرمایا: میں اور میرے بھائی یمن سے آئے تو مدت تک ہم سمجھا کئے کہ عبداللہ بن مسعود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اہلبیت سے ہیں اُنہیں اور اُن کی ماں کو جو بکثرت کا شانہ رسالت میں آتے جاتے دیکھتے تھے۔ ۱۲ منہ
عــہ۲ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت علقمہ سے مروی مَیں ملک شام میں گیا دو۲ رکعت پڑھ کر دعا مانگی: الٰہی! مجھے کوئی نیک ہم نشین میسر فرما۔ پھر ایک قوم کی طرف گیا اُن کے پاس بیٹھا تو ایک شیخ تشریف لائے میرے برابر آکر بیٹھ گئے میں نے پُوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا ابودردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ میں نے کہا میں نے اللہ عزوجل سے دُعا کی تھی کہ کوئی نیک ہم نشین مجھے میسر کرے، اللہ تعالٰی نے آپ ملادئیے۔ فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا اہلِ کوفہ سے۔ فرمایا:اولیس عندکم ابن ام عبد صاحب النعلین والوسادۃ والمطھرۃ ۲؎۔ کیا تمہارے پاس عبداللہ بن مسعود نہیں وہ نعلین ومسند خواب وظروف وضو وطہارت والے۔
یعنی جن کے متعلق یہ خدمتیں تھیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جس مجلس میں تشریف فرما ہوں نعلین اُٹھا کر رکھیں اُٹھتے وقت سامنے حاضر کریں سوتے وقت بچھونا بچھائیں اوقاتِ نماز پر پانی حاضر لائیں ظاہر ہے کہ انہیں خلوت وجلوت ہر حالت میں کیسی ملازمت دائمی کی دولت عطا فرمائی پھر ان کے علم کے بعد کسی کی کیا حاجت ہے قالہ القاضی کمانقلہ فی المرقاۃ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)
حدیث ۳۴: سنن ابی داؤد میں ہے: حدثنا قتیبۃ ناعبداللّٰہ بن نافع عن ابی مودود عن سلیمن بن ابی یحیٰیعن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا قال ما جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بین المغرب والعشاء قط فی السفر الا مرۃ ۱؎
(یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کسی سفر میں مغرب وعشاء ملاکر نہ پڑھی سوا ایک بار کے) ظاہر ہے کہ وہ بار وہی سفر حجۃ الوداع ہے کہ شب نہم ذی الحجہ مزدلفہ میں جمع فرمائی جس پر سب کا اتفاق ہے۔
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الصلٰوۃ باب الجمع بین الصلاتین آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۱۷۱)
اقول: اس حدیث کی سند حسن جید ہے، قتیبہ توقتیبہ ہیں ثقہ ثبت رجال ستّہ سے، اور عبداللہ بن نافع ثقہ صحیح الکتاب رجال صحیح مسلم سے اور سلیمٰن بن ابی یحیٰی لاباس بہ (اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ت) ابن حبان نے اُنہیں ثقات تابعین میں ذکر کیا، رہے ابومودود وہ عبدالعزیز بن ابی سلیمن مدنی ہذلی مقبول ہیں کمافی التقریب۔ حافظ الشان نے تہذیب التہذیب میں فرمایا:
سلیمٰن بن ابی یحیٰی حجازی روی عن ابی ھریرۃ وابن عمر، وعنہ ابن عجلان وداؤد بن قیس وابومودود عبدالعزیز بن ابی سلیمٰن، قال ابوحاتم، مابحدیثہ باس، وذکرہ ابن حبان فی الثقات، روی لہ ابوداود حدیثا واحدا فی الجمع بین المغرب والعشاء ۱؎۔
(۱؎ تہذیب التہذیب را وی ۳۷۹ مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد ۴/۲۲۸)
ثمّ اقول: بعد نظافت سند مثل حدیث کا بروایت ایوب عن نافع عن ابن عمر بلفظ لم یرابن عمر جمع بینھما قط الاتلک اللیلۃ
(ابن عمر کو نہیں دیکھا کہ دو۲ نمازوں کو جمع کیا ہو سوائے اس رات کے۔ ت) مروی ہونا کچھ مضر نہیں اگر یہاں نافع فعل ابن عمر اور وہاں ابن عمر فعل سیدالبشر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روایت کریں کیا منافات ہے خصوصاً یروی عن ایوب معضل ہے اور معضل ملّاجی کے نزدیک محض مردود ومہل اور وہ بھی بصےغہ مجہول کو غالباً مشیر ضعف ہے تو ایسی تعلیق حدیث سند متصل کے کب معارض ہوسکتی ہے۔
حدیث ۳۵: مؤطائے امام محمد میں ہے: قال محمد بلغنا عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ کتب فی الاٰفاق یناھھم ان یجمعوا بین الصلاۃ واخبرھم ان الجمع بین الصلاتین فی وقت واحد کبیرۃ من الکبائر اخبرنا بذلک الثقات عن العلاء بن الحارث عن مکحول ۲؎۔
(یعنی امیرالمؤمنین امام العادلین ناطق بالحق والصواب عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام آفاق میں فرمان واجب الاذعان نافذ فرمائے کہ کوئی شخص دو۲ نمازیں جمع نہ کرنے پائے اور اُن میں ارشاد فرمادیا کہ ایک وقت میں دو۲ نمازیں ملانا گناہِ کبیرہ ہے)
(۲؎ مؤطا امام احمد باب الجمع بین اصلاتین فی السفر والمطر مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ص ۱۳۲)
الحمد للہ امام عادل فاروق الحق والباطل نے حق واضح فرمادیا اور اُن کے فرمانوں پر کہیں سے انکار نہ آنے نے گویا مسئلے کو درجہ اجماع تک مترقی کیا۔
اقول: یہ حدیث بھی ہمارے اصول پر حسن جید حجّت ہے علاء بن الحارث تابعی صدوق حقیہ رجال صحیح مسلم وسنن اربعہ سے ہیں۔
واختلاطہ لایضر عندنا مالم یثبت الاخذ بعدہ فقد ذکر المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر کتاب الصلاۃ باب الشھید حدیث احمد ثنا عفان بن مسلم ثنا حماد بن سلمۃ ثنا عطاء بن السائب ومعلوم ان عطاء بن السائب ممن اختلط فقال ارجوان حماد بن سلمۃ ممن اخذ منہ قبل التغیر ثم ذکر الدلیل علیہ ثم قال وعلی الابھام لاینزل علی الحسن ۱؎۔ (ملخصاً)
علاء کا مختلط ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ یہ روایت اس سے اختلاط سے بعد لی گئی ہے۔ کیونکہ شیخ ابن ہمام نے فتح القدیر کی کتاب الصلٰوۃ باب الشہید میں احمد کی روایت ذکر کی ہے جس کا ایک راوی عطاء ابن سائب ہے۔ اور عطاء ابن سائب کا مختلط ہونا سب کو معلوم ہے، مگر ابن ہمام نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت عطاء کے اختلاط میں مبتلا ہونے سے پہلے اس سے اخذ کی ہوگی۔ پھر اس کی دلیل بیان کی اور کہا کہ اگر ابہام پایا بھی جائے تو حسن کے درجے سے کم نہیں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب الصلٰوۃ باب الشہید مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/۱۰۴)
اور امام مکحول ثقہ فقیہ حافظ جلیل القدر بھی رجال مسلم واربعہ سے ہیں۔
والمرسل حجۃ عندنا وعند الجمھور اما ابھام شیوخ محمد فتوثیق المبھم مقبول عندنا کمافی المسلم وغیرہ لاسیما من مثل الامام محمد ومع قطع النظر عنہ فلقائل ان یقول قدانجبر بالتعدد فی فتح المغیث فی ذکر الملقوب رونیاھا فی مشایخ البخاری لابی احمد بن عدی قال سمعت عدۃ مشایخ یحکون وذکرھا ومن طریق ابن عدی رواھا الخطیب فی تاریخہ وغیرہ ولایضر جھالۃ شیوخ ابن عدی فیھا فانھم عدد ینجبر بہ جھالتھم ۲؎۔
مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ رہا محمد کے اساتذہ کا مبہم ہونا، تو مبہم کی توثیق ہمارے نزدیک نزدیک مقبول ہے، جیسا کہ مسلم وغیرہ میں ہے، خصوصاً جب توثیق کرنے والی امام محمد جیسی ہستی ہو، اور اس سے قطع نظر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ متعدد اسنادوں سے مروی ہونے کی وجہ سے اس کی یہ خامی دور ہوگئی ہے۔ فتح المغیث میں مقلوب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مشائخ البخاری'' میں احمد ابن عدی سے مروی ہے کہ میں نے متعدد مشائخ کو یہ حدیث بیان کرتے سنا ہے۔ ابن عدی ہی کے واسطے سے یہ بات خطیب نے بھی اپنی تاریخ میں ذکر کی ہے اور دےگر علماء نے بھی۔ اور ابن عدی کے اساتذہ کا مبہم ہونا مضر نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ مجہول نہیں رہتے۔ (ت)
(۲؎ فتح المغیث المقلوب دارالامام الطبری مطبوعہ بیروت ۱/۳۲۱)
حدیث ۳۶: امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ آثار ماثورہ کتاب الحجج عیسٰی بن ابان میں روایت فرماتے ہیں: اخبرنا اسمٰعیل بن ابرھیم البصری عن خالد الحذاء عن حمید بن ھلال عن ابی قتادۃ العدوی قال سمعت قراء ۃ کتاب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ثلث من الکبائر الجمع بین الصلاتین والفرار من الزجف والنھبۃ ۱؎
(یعنی حضرت ابوقتادہ عدوی کہ اجلہ اکابر وثقات تابعین سے ہیں بلکہ بعض نے اُنہیں صحابہ میں گنا، فرماتے ہیں میں نے امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا شقّہ وفرمان سنا کہ تین۳ باتیں کبیرہ گناہوں سے ہیں: دو۲ نمازیں جمع کرنا اور جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا اور کسی کا مال لُوٹ لینا)
(۱؎ کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصلاتین دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۱/۱۶۵)