لطیفہ: مُلّاجی نے ایک مثل پر انتہائے ظہر کے اثبات میں حدیث سائل بروایت نسائی عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ وحدیث امامت جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام سے استدلال کیا جن میں تھا کہ پہلے دن کی ظہر حضور اعلی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سُورج ڈھلتے ہی پڑھی اور دُوسرے دن کی اُس وقت کہ سایہ ایک مثل کو پہنچ گیا اس تمسک پر اعتراض ہوتا تھا کہ ان حدیثوں میں کل کی عصر بھی تو اسی وقت پڑھنی آئی ہے تو ایک مثل پر وقتِ ظہر ختم ہوجانا نہ نکلا بلکہ بعد مثل ظہر وعصر دونوں نمازوں میں وقت مشترک ہونا مستفاد ہوا ملّاجی اُس کے دفع میں فرماتے ہیں روایت نسائی کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت عــہ نے پہلے دن عصر جب پڑھی کہ ایک مثل سایہ آگیا اور دوسرے دن ظہر سے ایک مثل پر فارغ ہو لئے یہ معنے نہیں کہ کچھ وقت بطور چار رکعت دونوں نمازوں میں مشترک ہے دلیل مرجح باعث اختیار کرنے معنی اوّل کی یہ ہے کہ روایت کی ہے مسلم نے عبداللہ بن عمرو سے ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال وقت الظھر الی ان یحضر العصر اور کہا اللہ تعالٰی نے ان الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا موقوتا یعنی ہر نماز کا وقت علیحدٰہ علیحٰدہ ہے اسی واسطے فرمایا آنحضرت عــہ نے انما التفریط علی من لم یصل حتی یجیئ وقت الصلاۃ الاخری رواہ مسلم وغیرہ تو مقتضا احادیث اور اس آیت کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا نہیں ہوسکتی پھر اگر حدیث جابر میں معنی وہ نہ کریں جو ہم نے کئے ہیں کہ پڑھ چکے ایک مثل میں بلکہ یہ کریں کہ پڑھنی شروع کی جب کہ ایک مثل ہوئی تو تعارض ہوگا درمیان ان احادیث کے جن سے امتیاز اوقات ہر نماز کی معلوم ہوتی ہے اور اس حدیث جابر میں جس سے اشتراک نکالتے ہیں اور وقت تعارض موافقت کرنی چاہے اور صورت موافقت کی یہ ہے جو ہم نے بیان کی اور شاہد اس کی حدیث جبریل ہے معنی اس کے بھی وہی ہیں بعینہٖ اُسی دلیل سے جو گزری حدیث نسائی میں ۱؎ اھ ملخصا۔
(۱؎ معیارالحق مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر مکتبہ نذیریہ لاہور ص ۳۱۶ تا ۳۲۱)
عــہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ
عــہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ
الحمداللہ یہ تو آیہ کریمہ اور ہماری حدیثوں سے حدیث ۲۶ و ۲۸ کی نسبت ملّاجی کی شہادت ہے کہ مقتضی احادیث وآیات کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت میں دوسری ادا نہیں ہوسکتی مگر مجھے یہاں ملّاجی کا ظلم ظاہر کرنا ہے فاقول وباللہ التوفیق اوّلاً ۲؎
(۲؎ واضح رہے کہ ''اوّلاً'' کے ذیل میں مذکور تمام روایات کا ترجمہ پہلے گزرچکا ہے۔ اگر ضرورت ہوتو صفحہ ۲۷۸ کی طرف رجوع کریں۔ دائم )
حدیث جبریل وحدیث سائل میں یہ معنے کہ ملّاجی نے شافعیہ کی تقلید جامد سے سیکھ کر جمائے ہرگز نہیں جمتے حدیث جبریل بروایت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں نسائی کے یہاں یوں ہے:
ان جبریل اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حین کان الظل مثل شخصہ فصلی العصر ثم اتاہ فی الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی الظھر ۳؎۔
(۳؎ النسائی کتاب المواقیت آخر وقت العصر مطبوعہ سلفیہ لاہور ۱/۶۰)
دوسری روایت میں ہے: ثم مکث حتی اذاکان فیئ الرجل مثلہ جاء ہ للعصر فقال قم یامحمد فصلی العصر ثم جاء ہ من الغدحین کان فیئ الرجل مثلہ فقال قم یاٰمحمد فصل فصلی الظھر ۴؎۔
(۴؎ النسائی کتاب المواقیت اوّل وقت العشاء، مطبوعہ سلفیہ لاہور ۱/۶۲)
مسند اسحٰق میں ابی مسعود بدری رضی اللہ تعالٰی عنہ یوں ہے: اتاہ حین کان ظلہ مثلہ فقال قم فصل فقام فصلی العصر اربعا ثم اتاہ من الغدحین کان ظلہ مثلہ فقال لہ قم فصل فقام فصلی الظھر اربعا ۱؎۔
(۱؎ نصب الرایۃ بحوالہ سند اسحٰق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسلامیہ ریاض الشیخ ۱/۲۲۳)
دارقطنی وطبرانی وابوعمر کے یہاں بروایت عقبہ بن عمرو وبشیر بن عقبہ رضی اللہ تعالٰی عنہما یوں ہے : جاء ہ حین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال یامحمد صلی العصر فصلی ثم جاء ہ الغدحین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال صلی الظھر فصلی ۲؎
(۲؎ دارقطنی بحوالہ سند اسحٰق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسلامیہ ریاض الشیخ ۱/۲۵۶)
یہ سب حدیثیں تصریح صریح ہیں کہ روحِ امیں علیہ الصلاۃ والتسلیم ظہر کے لئے حاضر اس وقت ہُوئے جب سایہ ایک مثل کو پہنچ چکا تھا اس وقت نماز پڑھنے کے لئے عرض کی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پڑھی اس کے یہ معنی کیونکر ممکن کہ ختمِ مثل تک نماز سے فارغ ہولےے تھے۔ حدیث سائل بروایت عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ابوداؤد کے یہاں یوں ہے:
امربلالافاقام الفجر حین انشق (الی قولہ) فاقام الظھر فی وقت العصر الذی کان قبلہ ۳؎۔
(۳؎ ترمذی باب المواقیت مطبوعہ رشیدیہ دہلی ۱/۲۵)
اس میں تصریح ہے کہ ایک مثل ہونے پر بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ظہر کی تکبیر کہی تو مثل تک فراغ کیسا۔
ثانیا آیہ کریمہ تو آپ کے نزدیک عام ہے اور احادیث جبریل وسائل خاص اور آپ کے اصول میں عام وخاص متعارض نہیں بلکہ عام اُس خاص سے مخصص ہوجائے گا ولہذا خود بھی یہاں معارضہ صرف احادیث میں مانا نہ آیت وحدیث میں پھر اُن حدیثوں کے مقابل آیت کا پیش کرنا کیا معنی، کیا آپ کے داؤں کو آیت عام نہیں رہتی تخصیص حرام ہوجاتی ہے۔
ثالثاً احادیث میں دفع معارضہ یوں بھی ممکن کہ حدیث تفریط میں وقت الصلاۃ الاخرٰی ۴؎ سے اُس کا وقت خاص مراد لیجئے یعنی نماز قضا جب ہوتی ہے کہ دوسری نماز کا وقتِ خاص آجائے جب تک وقتِ مشترک باقی ہے قضا نہ ہُوئی اور حدیث عبداللہ بن عمرو میں ظہر خواہ عصر دونوں سے جس میں چاہے وقت خاص لے لیجئے اور دوسری میں وقت مطلق یعنی ظہر کا وقت خاص وقت عصر آنے تک ہے جب عصر کا وقت آیا ظہر کا خاص وقت نہ رہا اگرچہ مشترک باقی ہو یا ظہر کا وقت عصر کے وقت خاص آنے تک ہے کہ اس کے بعد ظہر کا وقت خاص خواہ مشترک اصلاً نہیں رہتا تو صورت موافقت اسی میں منحصر نہ تھی جس سے آپ احتمالِ اشتراک عــہ کو دفع کرسکیں، ملّاجی مدعی بننا آسان ہے مگر اقامت دلیل کے گر انبار عہدوں سے سلامت نکل جانا مشکل۔
عــہ اقول ظاہر ہے کہ احتمال اشتراک مسئلہ مجمع میں قائل جمع کو اصلاً نافع نہیں جمع تقدیم سے تو اُسے مس ہی نہیں اور جمع تاخیر بھی اس کے قائل کے نزدیک صرف آغاز وابتدائے وقت آخر بقدر چار رکعت سے مخصوص نہیں معہذا جب وقت مشترک ٹھہرا پہلی نماز بھی اپنے وقت پر ہُوئی اور اس کے بعد دُوسری بھی اپنے وقت میں، یہ جمع صوری ہے نہ حقیقی کہ ایک نماز اپنے وقت سے خارج ہوکر دُوسری کے وقت میں پڑھی جائے کمالایخفی ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)
اب اس صریح ظلم وناانصافی کو دیکھےے کہ مسئلہ وقتِ ظہر میں آیت واحادیث توقیت کے عموم وظواہر پر وہ ایمان کہ نہ آیت صالح تخصیص نہ یہ حدیثیں لائق تاویل نہ ان کے مقابل صحاح حدیث قابل قبول بلکہ واجب کہ وہ حدیثیں تاویلوں کی گھڑت سے موافق کرلی جائیں اگرچہ وہ اُس تاویل سے صاف ابا کرتی ہوں اور ان میں ہرگز تاویل نہ کی جائے اگرچہ بے دقّت اُسے جگہ دیتی ہوں۔ اور جب مسئلہ جمع کی باری آئے فوراً نگاہ پلٹ جائے اب آیت واحادیث واجب التخصیص، اور اُن کے مقابل نری احتمالی چند روایات واجب الاعتماد وقطعی التنصیص، اور ان کے لئے آیات واحادیث کے مطابق صاف ونظیف محامل مردود وباطل، غرض شریعت اپنے گھر کی ہے، اجتہاد کی کوٹھری دوہرے درکی ہے۔ دیانت کا ٹٹّو دونوں باگوں کستا ہے، پورب کی سڑک میں پچھم کا رستہ ہے
ع :گر میں گیا اِدھر سے اُدھر سے نکل گیا
لطیفہ حدیث بست وہشتم مروی صحیح مسلم شریف کے جواب میں ملّاجی کی نزاکتیں قابلِ تماشا۔
اوّلاً : ف۱ یہ حدیث اُسی شخص کے حق میں ہے کہ بلاعذر تاخیر کرے نہ اُس کے حق میں جو مسافر ہو، یہ وہی دعوٰی باطلہ تخصیص بے مخصص ہے۔
(ف۱ معیارالحق مسئلہ پنجم جمع بین الصلاتین ص ۴۱۷ )
(ف۲ معیارالحق ص ۴۱۷)
اقول: ملّاجی! کسی پڑھے لکھے سے ظرف وسبب کا فرق سیکھو یہ نہیں کہا جاتا کہ حدیث سفر میں فرمائی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ نمازِ سفر کا قضا ہونا سببِ ارشاد ہوا تو خود سببِ نص حکم نص سے کیونکر جُدا رہے گا کیا ظلم ہے کہ نص کا خاص جس مورد میں ورود وہی خارج ونامقصود، اور نص اس کے مباین پر مقصور ومحدود۔
رابعاً : قیامت دلربا نزاکت تو یہ کی کہ فرماتے ف۱ ہیں اگر ظرف کو دخل ہوتو کہا جائے گا کہ یہ قول آنحضرت عــہ نے وقت نماز فجر کے اور فوت ہوجانے نماز فجر کے نیند میں فرمایا تھا پس حکم سفر فجر ہی کا بیان کیا جس کا جمع کرنا کسی نماز سے ممکن نہ تھا نہ ظہر وعصر مغرب عشا سفر کی کا۔
عــہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)
(ف۱ معیارالحق ص ۴۱۷) ( ف۲ معیارالحق ص ۴۱۷)
اقول: بھئی یہ تو خوب ہی کِیکا، ہاں مُلّاجی! حدیث میں کا ہے کا ارشاد ہورہا ہے فجر سفر کی کا نہ اور نمازوں سفر کی کایعنی صبح کی نماز میں تقصیر اُس وقت ہوگی کہ تُو اُسے نہ پڑھے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آجائے بہت معقول سورج نکلے پہر دن چڑھے ٹھیک دوپہر ہو جب تک نمازِ فجر اُٹھا رکھئے کچھ تقصیر نہیں جب ظہر کا وقت آئے اس وقت تقصیر ہوگی انّا اللّٰہ وانّا الیہ راجعونo مُلّاجی! دِلّی میں تو اچھّے اچھے حکیم سُنے گئے ہیں، لکھنے چلے تھے تو پہلے دماغ کی نبض دکھالی ہوتی، نمازیں پانچ ہیں اُن میں چار متوالی الاوقات اور فجر جُدا سب کا حکم بیان کیجئے تو بطور تغلیب یہ کلمہ صحیح جیسا کہ حدیث ۳۱ و ۳۲ میں اقوالِ حضرت ابوہریرہ وابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے گزرا کہ خاص فجر کا حکم ان لفظوں سے ارشاد ہوکہ جب تک ظہر نہ آئے فجر نہ پڑھنے میں تقصیر نہیں۔
خامسا: اقول ملّاجی! اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ خصوص سبب کا تو اخراج ظہر وعصر ومغرب وعشا کے کیا معنے، یہ کیا ستم جہالت ہے کہ آپ کا خصم اطلاق نص وشمول مورد سے تمسک کرے آپ جواب میں اقتصار علی المورد پیش کردیں یا وہ بے نمکی کہ دخول موردے سے راساً انکار یا یہ شورا شوری کہ اُسی پر انقطاع اُسی میں انحصار غرض سیدھا چلنا ہر طرح ناگوار۔
سادساً: اب اور آنکھیں کھُلیں تو علاوہ کی پوٹ باندھی ف۲ کہ مسافر جمع کرنے والے کو ضرور ہے کہ ارادہ جمع کا پہلی نماز کے وقت کے اندراندر کررکھے جس نے ارادہ نہ کیا اُس کی جمع درست نہ ہوگی پس اگر مسافر کو بھی شامل کرو تو ایسا مسافر مورد ومحمل حدیث کا ہوگا۔
(ف۲ معیار الحق صــ ۴۱۷)
اقول: یہ ایسا ویسا تم کہہ رہے ہو یا حدیث ارشاد فرمارہی ہے حدیث میں تو ایسے ویسے کی کہیں بُو بھی نہیں کہا اپنی ہوائے نفس پر احادیث کا ڈھال لانا ہی عمل بالحدیث ہے۔
سابعاً: اقول خود مسافر کو شامل کہہ رہے ہو نہ مسافر سے خاص تو لاجرم حدیث وہ حکم فرمارہی ہے جو مسافر ومقیم سب کو شامل کیا بھلا چنگا مقیم بھی اگر وقت کے اندر اندر نیت رکھے کہ یہ نماز وقت گزر جانے کے بعد پڑھ لوں گا تو تقصیر نہیں کھُلا کھُلا رافضیوں کا مذہب کیوں نہیں لکھ دیتے اور بعد خرابی بصرہ نہیں بلکہ تباہی کوفہ اگر حاصل ٹھہرے گا تو وہی کہ حدیث احادیث جمع سے مخصوص یہ شامت امام سے وہی آپ کا عذر معمولی جابجا ہے پھر اُسے علاوہ کس منہ سے کہہ رہے ہو، مُلّاجی! کبھی کسی کرّے سے پالا نہ پڑا ہوگا کہ عمل بالحدیث کا دعوٰی بھُلا دیتا، سبحٰن اللہ تحریف احادیث اور اُس کا نام عمل بالحدیث اسمٌ طیب وعملٌ خبیث، ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔