Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
63 - 157
حدیث ۲۱:    طحاوی بطریق عطاء بن ابی رباح بعض صحابہ یعنی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اور امام عیسٰی بن ابان بلفظ عن عطاء بن ابی رباح قال بلغنی ان رجلا  اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم راوی حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
بین صلاتی فی ھذین الوقتین کلہ ۳؎
 (جن دو۲ وقتوں پر میں نے نمازیں پڑھیں ان کے اندر اندر سب وقت ہے)
ولفظ الحجج ثم قال مابینھما وقت ۴؎
 (اور کتاب الحجج کے الفاظ یہ ہیں: پھر فرمایا ان دونوں کے درمیان وقت ہے)۔
 (۳؎ شرح معانی الاثار    باب مواقیت الصلوات    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۱۰۲)

(۴؎ کتاب الحجۃ اختلاف اہل الکوفتہ والمدینۃ فی الصلواۃ        دارالمعارف نعمانیہ لاہور    ص ۱۲)
حدیث ۲۲:    مالک ونسائی وبزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
مابین ھذین وقت ۵؎
(ان دو۲ کے درمیان وقت ہے)۔
 (۵؎ النسائی ،کتاب المواقیت  ،  مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور     ۱/۶۲)
وفیہ الاقتصار علی ذکر الفجر فکانہ مختصر قلت فقد رواہ  الدار قطنی فی سننہ من حدیث قتادۃ  عن انس  مطولا واللّٰہ تعالٰی اعلم
 (اس روایت میں صرف فجر کا ذکر ہے، شاید اس میں اختصار ہے میں نے کہا دارقطنی نے اپنے سنن میں سے انس سے بروایت قتادہ مفصل ذکر کیا ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

(نوعِ آخر) حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیشگوئی کہ کچھ لوگ وقت گزار کر نماز پڑھیں گے تم اُن کا اتباع نہ کرنا اسے مطلق فرمایا کچھ سفر وحضر کی تخصیص ارشاد نہ ہوئی۔
حدیث ۲۳: مسلم ابوداؤد ترمذی نسائی احمد دارمی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال قال رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وضرب فخذی کیف انت اذابقیت فی قوم یؤخرون الصلاۃ عن وقتھا قال قلت ماتامرنی قال صل الصلاۃ لوقتھا الحدیث ۱؎۔
حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا تیرا کیا حال ہوگا جب تُو ایسے لوگوں میں رہ جائے گا جو نماز کو اس کے وقت سے تاخیرکریں گے، میں نے عرض کی حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں، فرمایا تُو وقت پر پڑھ لینا۔
 (۱؎ صحیح مسلم     باب کراھۃ تاخیر الصلوات    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ اصح المطالع کراچی    ۱/۲۳۱)
حدیث ۲۴:    احمد ابوداود ابن ماجہ بسند صحیح عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ستکون علیکم بعدی امراء تشغلھم اشیاء عن الصلاۃ لوقتھا حتی یذھب وقتھا فصلوا الصلاۃ لوقتھا ۲؎ الحدیث۔
میرے بعد تم پر کُچھ حاکم ہوں گے کہ اُن کے کام وقت پر انہیں نماز سے روکیں گے یہاں تک کہ وقت نکل جائے گا تم وقت پر نماز پڑھنا۔
 (۲؎ سنن ابنِ ماجہ    باب ماجاء فی اذااخر والصلواۃ عن وقتہا    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۹۰)
حدیث ۲۵:    ابوداؤد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال قال لی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کیف بکم اذااتت علیکم امراء یصلون الصلاۃ لغیر میقاتھا قلت فماتامرنی اذاادرکنی ذلک یارسول اللّٰہ قال صلی الصلاۃ لمیقاتھا واجعل صلاتک معھم سبحۃ ۳؎۔
 (۳؎ سنن ابی داؤد ، اذا اخر الامام الصلواۃ عن الوقت ، مطبوعہ مجتبائی دہلی، ۱/۶۲)
فرمایا مجھ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں کا کیا حال ہوگا جب تم پر وہ حکام آئینگے کہ غیر وقت پر نماز پڑھیں گے۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ! جب میں ایسا وقت پاؤں تو حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں۔ فرمایا نماز وقت پر پڑھ اور اُن کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجا۔

(نوع آخر) ارشادِ صریح کہ جب ایک نماز کا وقت آیا دوسری کا وقت جاتا رہا قضا ہوگئی اور اس کی ممانعت ومذمّت۔
حدیث ۲۶: مسلم وابوداؤد ونسائی وعیسٰی بن ابان حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
وقت الظھر مالم یحضر العصر ووقت المغرب مالم یسقط ثور الشفق ۴؎۔
ھذا مختصرظہر کا وقت جب تک ہے کہ عصر کا وقت نہ آئے اور مغرب کا وقت جب تک ہے کہ شفق نہ ڈوبے۔
 (۴؎ صحیح المسلم باب اوقات الصلوات الخمس        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۳)
حدیث ۲۷: ترمذی وطحاوی بسند صحیح بطریق محمد بن فضیل عن الاعمش عن ابی صالح ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان للصلاۃ اولا واٰخرا وان اول وقت صلاۃ الظھر حین تزول الشمس واٰخر وقتھا حین یدخل وقت العصر وفیہ ان اول وقت المغرب حین تغرب الشمس وان اٰخر وقتھا حین ےغیب الشفق ۱؎۔
بیشک نماز کے لئے اوّل وآخر ہے اور بیشک آغاز وقت ظہر کا سورج ڈھلے سے اور ختم وقت ظہر کا وقتِ عصر آنے پر ہے اور بیشک ابتدا وقت مغرب کی سورج چھُپے ہے اور بیشک انتہا اُس کے وقت کی شفق ڈوبے۔
حدیث ۲۸:    مسلم واحمد وابوداود وابن ماجہ وطحاوی وابنِ حبان حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس فی النوم تفریط انما التفریط فی الیقظۃ ان تؤخر صلاۃ حتی یدخل وقت صلاۃ اخری ۱؎۔
سوتے میں کچھ تقصیر نہیں تقصیر تو جاگتے میں ہے کہ تُو ایک نماز کو اتنا پیچھے ہٹائے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔
 (۱؎ جامع ترمذی    باب ماجاء فی مواقیت الصلواۃ    مطبوعہ مطبع رشیدیہ     امین کمپنی دہلی        ۱/۲۲)
یہ حدیث خود حالتِ سفر میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی
حین فاتتھم صلاۃ الصبح لیلۃ التعریس وھو عند ابی داود و ابن ماجۃ من دون قولہ ان توخر
(جب ''لیلۃ التعریس'' کی صبح کو ان سے فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ یہ روایت ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے مگر اس میں '' ان تؤخر'' کا لفظ نہیں۔ ت)یہ حدیث نص صریح ہے کہ ایک نماز کی یہاں تک تاخیر کرنی کہ دوسری کا وقت آ جائے تقصیرہ گناہ ہے۔
 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب فی من نام الخ            مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور        ۱/۶۴)
حدیث ۲۹:    بزار ومحی السنۃ بغوی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :قال سألت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن قول اللّٰہ عزّوجل الذین ھم عن صلٰوتھم ساھونo قال ھم الذین یؤخرون الصلاۃ عن وقتھا ۳؎۔
فرمایا میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پُوچھا وہ کون لوگ ہیں جنہیں اللہ عزوجل قرآن مجید میں فرماتا ہے خرابی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں، ارشاد فرمایا وہ لوگ جو نماز کو اس کے وقت سے ہٹا کر پڑھیں۔
 (۳؎ کشف الاستار عن زوائد البزار     ،باب فی الذین یؤخرون الصلٰوۃ عن وقتہا، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱/۱۹۸)
بغوی کی روایت یوں ہے : اخبرنا احمد بن عبداللّٰہ الصالحی (فساق بسندہ) عن مصعب بن سعد عن ابیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما انہ قال سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن الذین ھم فی صلوٰتھم ساھون قال اضاعۃ الوقت ۱؎۔
ہمیں احمد بن عبداللہ الصالحی نے خبر دی (پُوری سند کو ذکر کیا) مصعب بن سعد سے وہ اپنے باپ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا، فرمایا اس سے مراد وقت کھونا ہے۔
 (۱؎ شرح السنۃ للامام البغوی        باب مراعاۃ الوقت    مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت    ۱/۲۳۶)
حدیث ۳۰:    امام ابن ابان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: قال وقت الظھر الی وقت العصر ووقت العصر الی المغرب وقت المغرب الی العشاء و العشاء الی الفجر ۲؎۔
فرمایا ظہر کا وقت عصر تک ہے اور عصر کا وقت مغرب تک اور مغرب کا عشاء اور عشاء کا فجر تک۔
 (۲؎ کتاب الحجۃ اختلاف اہل الکوفۃ والمدینۃ فی الصلوات الخ دارالمعارف النعمانیۃ لاہور    ۱/۱۰،۱۱)
حدیث ۳۱:    امام طحاوی شرح معانی الاثار میں راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سوال ہُوا :
ماالتفریط فی الصلاۃ
 (نماز میں تفریط کیا ہے؟) فرمایا:
ان تؤخر حتی یجیئ وقت الاخری ۳؎
 (یہ کہ تُو ایک نماز کی تاخیر کرے یہاں تک کہ دوسری کا وقت آجائے)
 (۳؎ شرح معانی الاثار        باب جمع بین الصلاتین    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۴)
حدیث ۳۲:     نیز اُسی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:
قال تفوت صلاۃ حتی یجیئ وقت الاخری ۴؎
(فرمایا نماز فوت نہیں ہوتی جب تک دُوسری کا وقت نہ آجائے) یعنی جب دوسری کا وقت آیا پہلے قضا ہوگئی۔
 (۴؎ شرح معانی الاثار        باب جمع بین الصلاتین    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۴)
تنبیہ: ان آیات واحادیث سے جواب میں قائلین جمع کی غایت سعی ادعائے تخصیص ہے جسے ملّاجی نے کئی ورق کی طولانی تقریر میں بہت ہی چمک کر بیان کیا جس کا مآل یہ کہ اگرچہ متکاثرہ واحادیث متواترہ ہر نماز کے لے جُدا وقت بتارہی ہیں محافظت وقت کی نہایت تاکید شدید فرمارہی ہیں وقت ضائع کرنے کو گناہِ عظیم وموجبِ عذابِ الیم ٹھہرا رہی ہیں مگر ہمیں سفر وغیرہ حالات میں ظہر وعصر ومغرب وعشاء چا ر نمازوں کی پابندیِ وقت کچھ ضرور نہیں چاہے وقت سے پہلے پڑھ لیں چاہیں وقت کھوکر پڑھیں اصلاً محذور نہیں کہ دو چار روایتیں ہمارے خیال کے مطابق قرآن عظیم واحادیث متواترہ کے مخالف آگئیں وہ ہمیں بے قیدی بناگئی ہیں یہاں ملّاجی نے بہت کچھ ابحاثِ اصول کو خرچ کیا ہے جس کا جواب ایسا ہی عریض وطویل دیا گیا ہے وانا اقول (اور میں کہتا ہوں۔ ت) ثبّت العرش ثم انقش ارشاداتِ صریحہ قرآن عظیم واحادیث متواترہ کے مقابل ایسا ہی سامان جمع کرلیا ہوتا تو ان کے مقابلہ کا نام لینا تھا سبحـٰن اللہ چند محتمل روایات جن میں روایۃ درایۃ سو۱۰۰ احتمالات، نہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اُن کے ثبوت ہی پر یقین نہ بعد تسلیم ثبوت خواہی نخواہی معنی جمع حقیقی کی تعیین، احتمالی باتوں پر خدا ورسول کے صریح احکام کیونکر اُٹھادےے جائیں ایسے حکموں کے مقابلہ کو اُنہیں کے پایہ کاجلی واضح ثبوت درکار تھا نہ یہ کہ بزورِ زبان ابتداء میں کہہ دیجئے وہ حدیثیں جن میں تاویل کو مخالف کی دخل نہیں انتہا میں لکھ دیجئے احادیث صحاح جو جمع پر قطعاً ویقینا دلالت کرتی ہیں اور بس آپ کے فرمائے سے وہ نصوص قاطعہ یقینیہ مفسرہ ہوگئیں ملّاجی بس اسی ایک نکتہ پر بحث کا فیصلہ ہے ان روایات کا اثبات جمع حقیقی تقدیم وتاخیر میں نص قطعی یقینی مفسر ناقابلِ تاویل ہونا ثابت کردیجئے یا قرآن عظیم واحادیث متواترہ کے مقابل نری زباں زوریوں سے کام نکالنے کا اقرار کیجئے میں صرف نصوص قرآن وحدیث کا نام لیتا ہوں اے حضرت نمازوں کی توقیت اُن کے لئے اوقات کی تعیین تو ضروریاتِ دین سے ہے اور ہمارا آپ کا تمام اُمتِ مرحومہ کا اجماع قائم کہ وقت سے پہلے نماز باطل اور عمداً قضا کردینا وقت کھودینا حرام تو اب ظنیت وقطعیت عمومات کی بحث سے کچھ علاقہ نہ رہا۔ اس فعل جمع کا جو حاصل ہے یعنی نماز پیش ازوقت یا تفویت وقت اُس کی حرمت پر تو ہم اور آپ سب متفق ہولئے اب آپ مدعی ہیں کہ اس حرام قطعی کی یہ صورت خاص حلال ہے جیسا وہ حرام قطعی ہے ویسا ہی قطعی ثبوت اس کی حلّت کا دیجئے ورنہ یقینی کے حضور ظنی محتمل کا نام نہ لیجئے خدا کی شان اور تو اور جمع تقدیم میں بھی یہی جرأت کے ادعاکہ تاویل کو دخل نہیں احادیث صحاح قطعاً دلالت کرتی ہیں حالانکہ مفسر ویقینی ہونا درکنار ابوداؤد سا امام جلیل الشان تصریح فرماگیا کہ اس کے بارے میں اصلاً کوئی حدیث صحیح بھی نہ ہوئی مگر ہاں یہ کہے کہ اپنی زبان اپنا دعوٰی ہے ثبوت مانگنے والے کا کچھ دینا دہرایا ہے ولاحول ولاقوۃ الّا باللہ العلی العظیم۔
 (ف۱ معیارالحق    ص ۴۰۳)
Flag Counter