جلالین شریف امام جلال الملّۃ والدّین شافعی میں ہے:
یحافظون، بادائھا فی اوقاتھا ۳؎
(محافظت کرتے ہیں یعنی وقت پر ادا کرتے ہیں۔ ت)
(۳؎ تفسیر جلالین آیہ مذکورہ کے تحت مطبوعہ مجتبائی دہلی ۲/۴۷۲)
نسفی شریف میں ہے :المحافظۃ علیھا ان لاتضیع عن مواقیتھا ۴؎۔
نماز کی محافظت یہ ہے کہ اپنے اوقات سے ضائع نہ ہو۔ (ت)
(۴؎ تفسیر النسفی آیہ مذکورہ کے تحت مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ۴/۲۹۲)
آیت ۵ قال المولی تقدس وتعالٰی: والذین یؤمنون بالاٰخرۃ یؤمنون بہ وھم علی صلاتھم یحافظون ۵؎o
اور جنہیں آخرت پر یقین ہے وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
ہ وقت سے باہر نہ ہوجائیں۔
(۵؎ القرآن ۶/۹۲)
تفسیر کبیر عــہ میں ہے : المراد بالمحافظۃ التعھد لشروطھا من وقت وطھارۃ وغیرھما والقیام علی ارکانھا واتمامھا حتی یکون ذلک دابہ فی کل وقت ۶؎۔
محافظت سے مراد یہ ہے کہ وقت اور طہارت وغیرہ تمام شروط کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے ارکان کو قائم کیا جائے اور اسے مکمل کیا جائے یہاں تک کہ جب نماز کا وقت آئے تو آدمی ان کاموں کو بطور عادت کرنے لگے۔ (ت)
عــہ: ذکرہ تحت ایۃ المؤمنون ۱۲ منہ (م) یہ انہوں نے سورۃ مومنون ۲۳ کی آیۃ ۹ کے تحت ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
(۶؎ التفسیر الکبیر والذین ہم علٰی صلوٰتہم یحافظون کے تحت مطبوعہ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۲۳/۸۱)
محافظتِ وقت کے یہ معنی جو ہم نے علمائے حنفیہ کے سوا ہر آیت میں علمائے شافعیہ سے نقل کئے کہ ہر نماز اپنے ہی وقت پر ہو خود احادیث میں ارشاد ہوئے جن کا ذکر عنقریب آتا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔
آیت ۶ قال رب العلی عزّوعلا : ثم خلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلٰوۃ ۱؎۔
پھر آئے ان کے بعد وہ برے پسماندہ جنہوں نے نمازیں ضائع کیں۔
(۱؎ القرآن ۱۹/۵۹)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اخروھا عن مواقیتھا وصلوھا لغیر وقتھا ۲؎۔
(یہ لوگ جن کی مذمّت اس آیہ کریمہ میں فرمائی گئی وہ ہیں جو نمازوں کو اُن کے وقت سے ہٹاتے اور غیر وقت پر پڑھتے ہیں)
ذکرہ الامام البدر فی عمدۃ القاری باب تضییع الصلوات عن وقتھا والامام البغوی فی المعالم۔
(۲؎ عمدۃ القاری شرح البخاری باب تضییع الصلواۃ حدیث ۸ مطبوعۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۵/۱۷)
افضل التابعین سیدنا سعید بن المسیب رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: ھو ان لایصلی الظھر حتی اتی العصر ۳؎
(نماز کا ضائع کرنا یہ ہے کہ ظہر نہ پڑھی یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا) اثرہ محی السنۃ۔
(۳؎ تفسیر البغوی المعروف بمالم التنزیل مع الخازن تحت آیۃ مذکورہ مطبوعۃ مصطفی البابی مصر ۴/۲۵۲)
تفسیر انوار التنزیل میں ہے: اضاعوا الصلٰوۃ ترکوھا اواخروھا عن وقتھا ۴؎۔
(۴؎ انوار التنزیل المعروف بالبیضاوی تحت آیۃ مذکورہ مطبوعۃ مجتبائی دہلی نصف ثانی ص۹)
آیت ۷ قال سبحٰنہ امام اعظم شانہ،: فویل للمصلّینo الذین ھم عن صلاتھم ساھون ۵؎o
خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں (کہ وقت نکال کر پڑھتے ہیں)
(۵؎ القرآن ۱۰۷/۴)
تفسیر جلالین میں ہے: ساھون غافلون یؤخرونھا عن وقتھا ۶؎۔
(۶؎ تفسیر جلالین تحت آیت مذکورہ مطبوعہ مجتبائی دہلی نصف ثانی ص ۵۰۵ )
تفسیر مفاتیح الغیب میں ہے: ساھون یفید امرین اخراجھا عن الوقت وکون الانسان غافلا فیھا ۷؎
(۷؎ مفاتیح الغیب تفسیر کبیر ، میدان جامع ازہر۔ مصر ۳۲/۱۱۵)
اس آیہ کریمہ کی یہ تفسیر خودحدیث میں وارد ہُوئی کماسیاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔
(الاحادیث) اقول وباللہ التوفیق ملّاجی نے تو جھُوٹ ہی کہہ دیا تھا کہ احادیث جمع چودہ۱۴ صحابیوں سے مروی ہیں جنہیں خود بھی نہ گِنا سکے بلکہ صراحۃً تسلیم کرگئے کہ ان میں اکثر کی روایات اُن کیلئے مفید نہیں صرف چار مفید سمجھیں جن کا حال بتوفیقہ تعالٰی واضح ہوگیا کہ اصلاً انہیں مفید نہ تھیں اب فقیر اللہ تعالٰی کہتا ہے کہ اس مبحث میں ہمارے مفید حدیثیں جو اس وقت نظر میں جلوہ فرماہیں چالیس۴۰ سے زائد ہیں کہ تئیس۲۳ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مروی ہوئیں، (۱) عمر فاروق (۲) علی مرتضٰی (۳) سعد ابن وقاص (۴) عبداللہ بن مسعود (۵) عبداللہ بن عباس (۶) عبداللہ بن عمر (۷) عبداللہ بن عمرو (۸) جابر بن عبداللہ (۹) ابوذرغفاری (۱۰) ابوقتادہ انصاری (۱۱) ابودردأ (۱۲) ابوسعید خدری (۱۳) ابومسعود بدری (۱۴) بشیر بن عقبہ بن عمرو مدنی (۱۵) ابوموسٰی اشعری (۱۶) بریدہ اسلمی (۱۷) عبادہ بن صامت (۱۸) کعب بن عجرہ (۱۹) فضالہ زہرانی (۲۰) حنظلہ بن الربیع (۲۱) انس بن مالک (۲۲) ابوہریرہ (۲۳) ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق صلی اللہ تعالٰی علی بعلہا وابیہا وعلیہا وعلیہم اجمعین وبارک وسلم۔ ان میں سات۷ حدیثیں اور مولی المسلمین ومحبوبہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روایتیں تو جمع صوری میں گزریں باقی اکیس۲۱ صحابہ سے چھتیس۳۶ حدیثیں بتوفیقہٖ تعالٰی یہاں سُنےے، مُلّاجی کی طرح اگر مجملات کو بھی شامل کرلیجئے اور واقعی ہمیں اس کا استحقاق بروجہ حق وصحیح حاصل تو معاذ(۲۴) بن جبل واسامہ(۲۵) بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہم کو ملاکر عدد صحابہ پچیس۲۵ اور احادیث مجملہ شامل کرکے شمارِ احادیث پچاس۵۰ سے زائد ہوگا، خیر یہاں جو حدیثیں ہمیں لکھنی ہیں وہ چند نوع ہیں:
نوع اوّل: احادیث محافظتِ وقت اور اس کی ترغیب اور اس کے ترک سے ترہیب۔
حدیث ۱:امام احمد بسند صحیح حضرت حنظلہ کاتب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال:
سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یقول: من حافظ علی الصلوات الخمس رکوعھن وسجودھن ومواقیتھن، وعلم انھن حق من عنداللّٰہ، دخل الجنۃ، اوقال: وجبت لہ الجنۃ، اوقال: حرم علی النار ۱؎۔
(یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سُنا کہ جو شخص ان پانچوں نمازوں کی ان کے رکوع وسجود واوقات پر محافظت کرے اور یقین جانے کہ وہ اللہ جل وعلا کی طرف سے ہیں جنت میں جائے یا فرمایا جنّت اس کے لئے واجب ہوجائے یا فرمایا دوزخ پر حرام ہوجائے)
(۱؎ مسند امام احمد بن حنبل حدیث حنظلہ کاتب الاسدی مطبوعہ دارالفکر بیروت ۴/۲۶۷)