فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ) |
غرض یہاں دو۲ مطلب تھے ایک یہ کہ اجتماع خمس ہمارے سو ا کسی اُمت کو نہ ملا یہ حدیث معاذ رضی اللہ عنہ میں خود ارشاد اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دوسرے یہ کہ پانچوں نمازوں کا اجتماع انبیاء میں بھی صرف ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے یہ باعتماد علمائے کرام مانا جائے گا اگرچہ ہم اُس پر دلیل نہ پائیں کہ آخر کلمات علماء کا اطباق واتفاق بے چیزے نیست ہمارا دلیل نہ پانا دلیل نہ ہونے پر دلیل نہیں۔ اقول: شاید نظرِ علما اس طرف ہوکہ جب حدیث صحیح سے ثابت کہ اللہ عزوجل نے اس نعمتِ جلیلہ وفضیلتِ جلیلہ سے اس اُمتِ مرحومہ کو تمام اُمم پر تفضیل دی اور قطعاً ہمارے جس قدر فضل ہیں سب ہمارے آقا ومولٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور صدقہ میں ہیں تو مستبعد ہے کہ ہم تو اس خصوص نعمت سے سب اُمتوں پر فضیلت پائیں اور ہمارے مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام پر یہ تخصیص واختصاص نہ ہو اس تقدیر پر یہی حدیث معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ دلالۃً اس دعوے کی بھی مثبت ہوگی۔
اما حدیث السیدین ابرٰھیم واسمٰعیل، علی ابنھما الکریم ثم علیھم الصلاۃ والتسلیم، فلعلہ لم یثبت اذلوثبت لمارأینا تظافر کلماتھم علٰی خلافہ، علی انی اقول: الاختصاص بجھۃ الافتراض، اماھما صلی اللّٰہ تعالٰی علی ابنھما ثم علیھما وبارک وسلّم، فصلیا بمنی ماکتب اللّٰہ تعالٰی علیھما وتنفلافی بقیۃ الاوقات، فمن قبل وقوعھا فی ھذہ الاوقات، عبر عنھا باسماء ھذہ الصلوات، واللّٰہ تعالٰی اعلم بالخفیات۔ ھذا غایۃ ما عندی فی توجیہ المرام۔
رہی دو سرداروں یعنی ابراہیم واسمٰعیل ان کے کریم بیٹے پر پھر ان دونوں پر صلوٰۃ وسلام ہو والی حدیث، تو شاید وہ پایہ ثبوت تک نہیں پہنچی کیونکہ اگر ثابت ہوتی تو اتنی کثرت سے علماء کے اقوال اس کے خلاف نہ ہوتے علاوہ ازیں میں کہتا ہوں کہ خصوصیت، فرضیت کے اعتبار سے ہے (یعنی پانچ نمازیں فرض صرف رسول اللہ پر ہوئیں) ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام پر اُن میں سے جو فرض ہوں گی وہ انہوں نے بطور فرض مِنٰی میں پڑھی ہوں گی اور باقی اوقات میں نفل ادا کیے ہوں گے، لیکن وہ نفل چونکہ واقع انہی پانچ اوقات میں ہوئے تھے، اس لئے ان کی تعبیر نمازوں کے ناموں سے کردی گئی۔ اور اللہ ہی پوشیدہ باتوں کو بہتر جاننے والا ہے اس مقصد کی زیادہ سے زیادہ توجیہ میرے خیال میں یہی ہوسکتی ہے۔ (ت)
اقول: مگر استبعاد مذکور کا جواب واضح ہے کہ کچھ عجب نہیں کہ مولٰی عزوجل بعض نعمتیں بعض انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے اگلی اُمتوں میں نبی کے سوا کسی کو نہ ملتی ہوں مگر اس امت مرحومہ کیلئے اُنہیں عام فرمادے جیسے کتاب اللہ کا حافظ ہونا کہ اُمم سابقہ میں خاصہ انبیاء علیہم الصلاۃ والثناء تھا اس اُمت کے لئے رب عزوجل نے قرآن کریم حفظ کیلئے آسان فرمادیا کہ دس دس۱۰ برس کے بچّے حافظ ہوتے ہیں اور ہمارے مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فضل ظاہر ہے کہ اُن کی اُمت کو وہ ملا جو صرف انبیاء کو ملاکرتا تھا علیہ وعلیہم افضل الصلاۃ والثناء واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔ باقی رہا سوال کا دوسرا جُز کہ کون سی نماز کس نبی نے پہلے پڑھی، اس میں چار۴ قول ہیں: اوّل: قول امام عبیداللہ بن عائشہ ممدوح کہ جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ وقتِ فجر قبول ہُوئی انہوں نے دو۲ رکعتیں پڑھیں وہ نماز صبح ہُوئی۔ اور اسحٰق علیہ الصلاۃ والسلام کا فدیہ وقت ظہر آیا ابرہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے چار پڑھیں وہ ظہر مقرر ہوئی۔ عزیر علیہ السّلام سو۱۰۰ برس کے بعد عصر کے وقت زندہ کئے گئے انہوں نے چار پڑھیں وہ عصر ہُوئی۔ داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توبہ وقتِ مغرب قبول ہُوئی چار رکعتیں پڑھنے کھڑے ہوئے تھک کر تیسری پر بیٹھ گئے، مغرب کی تین ہی رہیں۔ اور عشاء سب سے پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی۔
رواہ کماذکرنا الامام الطحاوی قال: حدثنا القاسم بن جعفر قال سمعت بحر بن الحکم الکیسانی قال سمعت ابا عبدالرحمٰن بن محمد ابن عائشۃ یقول، فذکرہ ۱؎۔
جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے اسی کے مطابق اس کو طحاوی نے روایت کیا ہے کہ قاسم ابن جعفر نے بحر ابن حکم کیسانی سے، اس نے ابوعبدالرحمن عبداللہ ابن محمد ابن عائشہ سے سُنا اس کے بعد سابقہ روایت بیان کی ہے۔ (ت)
(۱؎ شرح معانی الآثار باب الصّلوٰۃ الوسطی مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۲۰)
دوم قول امام ابوالفضل کہ سب سے پہلے فجر کو دو۲ رکعتیں حضرت آدم، ظہر کو چار رکعتیں حضرت ابرہیم، عصر حضرت یونس، مغرب حضرت عیسٰی، عشاء حضرت موسٰی علیہم الصلاۃ والسلام نے پڑھی۔ ذکرہ الامام الزندوستی فی روضتہ قال سألت ابا الفضل فذکرہ (اس کو امام زندوستی نے اپنی روضہ میں ابو الفضل کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔ کہا میں نے ابو الفضل سے پُوچھا تو انہوں نے یہ ذکر کیا۔ ت) یہ حکایت ایک لطیف کلام پر مشتمل ہے لہذا اُس کا خلاصہ لکھیں امام زندوستی فرماتے ہیں میں نے امام ابوالفضل سے پوچھا صبح کی دو۲ رکعتیں ظہر وعصر وعشاء کی چار مغرب کی تین کیوں ہوئیں۔ فرمایا حکم۔ میں نے کہا مجھے اور ابھی افادہ کیجئے۔ کہا ہر نماز ایک نبی نے پڑھی ہے، آدم علیہ الصلوٰۃ والسّلام جب جنّت سے زمین پر تشریف لائے دنیا آنکھوں میں تاریک تھی اور ادھر رات کی اندھیری آئی، انہوں نے رات کہاں دیکھی تھی بہت خائف ہُوئے، جب صبح چمکی دو۲ رکعتیں شکرِ الٰہی کی پڑھیں، ایک اس کا شکر کہ تاریکی شب سے نجات ملی دوسرا اس کا کہ دن کی روشنی پائی انہوں نے نفل پڑھی تھیں ہم پر فرض کی گئیں کہ ہم سے گناہوں کی تاریکی دُور ہو اور طاعت کا نُور حاصل۔ زوال کے بعد سب سے پہلے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے چار رکعت پڑھیں جبکہ اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فدیہ اُترا ہے پہلی اس کے شکر میں کہ بیٹے کا غم دُور ہوا دوسری فدیہ آنے کے سبب، تیسری رضائے مولٰی سبحٰنہ وتعالٰی کا شکر، چوتھی اس کے شکر میں کہ اللہ عزوجل کے حکم پر اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے گردن رکھ دی، یہ ان کے نفل تھے ہم پر فرض ہُوئیں کہ مولٰی عــــہ تعالٰی ہمیں قتلِ نفس پر قدرت دے جیسی اُنہیں ذبحِ ولد پر قدرت دی اور ہمیں بھی غم سے نجات دے اور یہود ونصارٰی کو ہمارا فدیہ کرکے نار سے ہمیں بچالے اور ہم سے بھی راضی ہو۔
عــــہ لفظ الکتاب فامرنا بذلک لانہ تعالٰی وفقنا علی ابلیس کماوفقہ لذبح الولد وانجانامن الغم کماانجاہ وفدانا من النار کمافداہ ورضی عناکمارضی عنہ ۱؎ اھ اقول: وماذکرت احسن من ستۃ وجوہ لاتخفی علی المتأمل ۱۲ منہ غفرلہ (م)
کتاب (یعنی روضہ) کی عبارت یوں ہے: ''تو ہمیں ظہر کی چار رکعتوں کا حکم دیا گیا کیونکہ ہمیں بھی اللہ تعالٰی نے شیطان کے مقابلے کی توفیق عطا فرمائی جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا ذبح کرنے کی توفیق بخشی اور ہمیں بھی غم سے نجات دی جیسے ان کو دی تھی اور (یہود ونصارٰی کو جہنم میں) ہمارا فدیہ بنایا جس طرح ان کیلئے (جنتی دُنبے کو اسمٰعیل علیہ السلام کا) فدیہ بنایا اور ہم سے بھی اللہ تعالٰی راضی ہوا جیسے کہ ان سے ہوا اھ اقول (میں کہتا ہوں) ان الفاظ کی بنسبت میری ذکر کردہ عبارت چھ۶ وجوہ سے زیادہ عمدہ ہے اور یہ وجوہ سوچنے والے پر مخفی نہیں ہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
(۱؎ روضۃ العلماء للزندوستی)
نمازِ عصر سب سے پہلے یونس علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے پڑھی کہ اس وقت مولٰی تعالٰی نے انہیں چار۴ ظلمتوں سے نجات دی: ظلمتِ لغزش، ظلمتِ غم عــــہ ۱، ظلمتِ دریا، ظلمتِ شکمِ ماہی۔ یہ اُن کے نفل تھے ہم پر فرض ہوئی کہ ہمیں مولٰی تعالٰی ظلمتِ گناہ وظلمتِ قبر وظلمتِ قیامت وظلمتِ دوزخ سے پناہ دے۔
عــــہ۱ الذی فی الکتاب وظلمۃ اللیل ۲؎ اقول ان کانت تذھب بالنھار فقدذھبت قبل العصر والافلا اثرلھا ولذا ابدلتھا ۱۲ منہ غفرلہ (م) کتاب میں (ظلمتِ غم کی بجائے) ''ظلمتِ لیل'' مذکور ہے۔ میں کہتا ہوں اگر ظلمتِ لیل مراد ہوتو نہار کی وجہ سے ظلمتِ لیل ختم ہوجاتی ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ رات کا اندھیرا وقت عصر سے پہلے ہی ختم ہوچکا ورنہ لازم آئیگا کہ نہار کا کوئی اثر ہی نہ ہو اسی لئے میں نے اس کو ظلمتِ غم سے بدلا ہے ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
(۲؎ روضۃ العلماء للزندوستی)
مغرب سب سے پہلے عیسٰی علیہ الصّلوٰۃ والسلام نے پڑھی عـــہ۲ ، پہلی اپنے سے نفی الوہیت، دوسری اپنی ماں سے نفی الوہیت، تیسری اللہ عزوجل کے لئے اثباتِ الوہیت کیلئے۔ یہ ان کے نفل ہم پر فرض ہُوئے کہ روزِ قیامت ہم پر حساب آسان ہو، نار سے نجات ہو، اُس بڑی گھبراہٹ سے پناہ ہو۔
عـــہ۲: الذی فی الکتاب اول من صلی المغرب تطوعا شکرا عیسٰی علیہ الصّلٰوۃ والسلام حین خاطبہ اللّٰہ تعالٰی بقولہ أانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰھین من دُون اللّٰہ وکان ذلک بعد غروب الشمس ۳؎ الخ اقول المعروف ان ھذا الخطاب یوم الحساب الاتری الی قولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم ۱۲ منہ غفرلہ (م) کتاب میں یوں ہے کہ سب سے پہلے مغرب کی نماز بطور شکرانہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے پڑھی جب ان کو اللہ تعالٰی نے یوں مخاطب کیا تھا کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنالو؟ اور یہ خطاب غروبِ شمس کے بعد ہوا تھا، میں کہتا ہوں مشہور تو یہ ہے کہ یہ خطاب بروزِ حساب ہوگا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کے جواب میں عیسٰی علیہ السلام کا یہ قول مذکور ہے کہ جب تُونے مجھے پُورے طور پر اٹھالیا تو تُو ہی ان کا نگہبان تھا ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
(۳؎ روضۃ العلماء للزندوستی)
اقول: اور مقام سے مناسب تر یہ تھا کہ یوں فرماتے کہ ہم اپنی خودی اور فخرِ آبأ سے باہر آکر اللہ عزّوجل کے لئے خاص متواضع ہوں۔ سب سے پہلے عشاء مُوسٰی علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے پڑھی جب مدائن سے چل کر راستہ بھُول گئے۔ بی بی کا غم، اولاد کی فکر، بھائی پر اندیشہ، فرعون سے خوف، جب وادیِ ایمن میں رات کے وقت مولٰی تعالٰی نے اِن سب فکروں سے انہیں نجات بخشی، چار نفل شکرانے کے پڑھے ہم پر فرض ہُوئی کہ اللہ تعالٰی ہمیں بھی راہ دکھائے ہمارے بھی کام بنائے ہمیں اپنے محبوبوں سے ملائے دشمنوں پر فتح دے آمین! سوم قول بعض علماء کہ فجر آدم، ظہر ابراہیم، عصر سلیمان، مغرب عیسٰی علیہم الصلاۃ والسلام نے پڑھی اور عشا خاص اس اُمّت کو ملی کماتقدم عن الحلیۃ (جیسا کہ حلیہ کے حوالے سے گزرا ہے۔ ت)
چہارم وہ حدیث کہ امام اجل رافعی نے شرح مسند میں ذکر فرمائی کہ صبح آدم، ظہر داؤد، عصر سلیمٰن، مغرب یعقوب، عشاء یونس علیہم الصلاۃ والسلام سے ہے
ذکرہ عنہ الزرقانی فی شرح المواھب والحلبی تماما فی الحلیۃ قال واورد فی ذلک خبرا ۱؎
(اس کو زرقانی نے شرح مواہب میں رافعی کے حوالے سے بیان کیا ہے اور حلبی نے حلیہ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے، حلبی نے کہا کہ رافعی نے اس سلسلے میں ایک روایت پیش کی ہے۔ ت) غرض نماز صبح میں چاروں متفق ہیں باقی چار میں اختلاف۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)