Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
58 - 157
یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو مکّہ معظمہ میں آفتاب ڈوباپس مغرب وعشا موضع سَرِف میں جمع فرمائیں ابوداؤد نے ہشام بن سعد سے (کہ ملّاجی کے حسابوں رافضی مجروح مردود الروایہ متروک الحدیث ہے تقریب میں کہا صدوق، لہ اوھام، ورمی بالتشیع) نقل کی کہ مکّہ وسَرِف میں دس۱۰ میل کا فاصلہ ہے۔

اقول وباللہ التوفیق اصول حدیث ونیز اصول محدثہ ملاجی پر یہ حدیث ہرگز قابل حجت نہیں اصولِ حدیث پر اُس کی سند ضعیف اور اصولِ مُلّائیہ پر ضعف درضعف درضعف کیا جانیے کتنے ضعفوں کی طومار اور نری مردود متروک ہے۔

اولاً دو طریق پیشین میں یحیٰی بن محمد جاری ہے تقریب میں کہا: صدوق ویخطیئ (سچّا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) امام بخاری نے فرمایا: یتکلمون فیہ (ائمہ محدثین اُس پر طعن کرتے ہیں۔ ت) میزان میں یہی حدیث اس کے ترجمہ میں داخل کی اور کتب ضعفا میں زیر ترجمہ ضعفا اُن کی منکر حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ طریق دوم میں مؤمل بن اہاب ہے تقریب میں کہا: صدوق لہ اوھام (سچّا ہے، اس کو اوہام ہیں۔ ت) طریق ثالث میں نعیم بن حماد ہے یہ اگرچہ فقیہ وفرائض وان تھا مگر حدیثی حالت میں یحیٰی سے بھی بدتر ہے تقریب میں کہا صدوق یخطئ کثیرا (سچّا ہے مگر خطا بہت کرتا ہے۔ ت) یہاں تک کہ ابوالفتح ازدی نے کہا: حدیثیں اپنے جی سے گھڑتا اور امام ابوحنیفہ کے مطاعن میں جھوٹی حکایتیں وضع کرتا تھا یہ اگرچہ مجازفات ازدی سے ہو مگر ذہبی نے طبقات الحفاظ ومیزان الاعتدال دونوں میں اُس کے حق میں قول اخیریہ قرار دیا کہ وہ باوصف امامت منکر الحدیث ہے قابل احتجاج نہیں جامع صحیح میں اس کی روایت مقرونہ ہے نہ بطور حجیت، امام جلال الدین سیوطی ذیل اللالی میں اُس کی حدیث
اذا  اراداللّٰہ ان ینزل الی السماء الدنیا نزل عن عرشہ بذاتہ
(جبب اللہ تعالٰی آسمانِ دنیا پر اُترنا چاہتا ہے تو بذاتہٖ عرش سے اُترآتا ہے۔ ت) ذکر کرکے فرماتے ہیں: اتعبنا نعیم بن حماد، من کثرۃ مایاتی بھذہ الطامات، وکم ندرؤ عنہ وعن الطرطوسی الراوی عنہ؟ فلاادری، البلاء فی الحدیث منہ، اومن شیخہ نعیم ۱؎! اھ ملخصا یعنی نعیم بن حماد اس کی کثرت سے یہ طامّات روایتیں لاتا ہے کہ ہم تھک گئے کہاں تک اُس کا اور اس کے شاگرد طرطوسی کا بچاؤ کریں مجھے نہیں معلوم کہ اس حدیث میں بَلا اُس کی طرف سے اُٹھی یا اُس کے اُستاد نعیم سے۔
 (۱؎ ذیل اللالی        کتاب التوحید     مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل        ص ۲ و ۳)
ثانیا پھر ان سب طرق میں عبدالعزیز بن محمد دراوردی ہے تقریب میں کہاـ صدوق،
کان یحدث من کتب غیرہ فیخطیئ ۲؎
 (سچّا ہے، مگر دوسروں کی کتابوں سے حدیثیں بیان کرتا ہے اس لئے خطا کرتا ہے۔ ت) تو ہر طریق میں دو۲ راوی صدوق یخطیئ (سچّا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) ہوئے خصوصاً ثالث میں تو ایک کثیر الخطاء اور ثانی میں تیسرا صدوق لہ اوھام (سچّا ہے، اس کو اوہام ہیں۔ ت) اور ملّاجی کے اصول پر ایسے رواۃ کی حدیثیں مردود ومتروک وواہیات ہیں۔
 (۲؎ تقریب التہذیب    ترجمہ عبدالعزیز بن محمد    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص ۲۱۶)
ثالثا مدار حدیث ابوالزبیر عن جابر پر ہے ابوالزبیر کی نسبت خود ملّاجی کہہ گئے کہ وہ فقط صدوق ہے اور اس کے ساتھ مدلس
قال فی التقریب صدوق الا انہ یدلس ۳؎
 (تقریب میں کہا کہ سچّا ہے مگر مدلس ہے۔ ت)
 (۳؎ تقریب التہذیب    محمد بن مسلم     مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص ۳۱۸)
اور یہاں اُن عــہ سے راوی لیث بن سعد نہیں اور روایت میں عنعنہ کیا اور عنعنہ مدلس اصولِ محدثین پر نامقبول۔
عــہ قید بھذا، لان الرادی عنہ اذاکان اللیث، زال مایخشی من تدلیسہ، کماافادہ فی فتح المغیث وغیرہ، فلیحفظ فانھا فائدۃ نفیسۃ۔ وقد بین السبب فی ذلک فی المیزان فراجعہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

یہ قید اس لئے لگائی ہے کہ اگر اس سے روایت کرنے والا لیث ہوتو پھر اس کی تدلیس کا خطرہ باقی نہیں رہتا، جیسا کہ فتح المغیث اور دوسری کتابوں میں افادہ کیا گیا ہے۔ اس کو یاد رکھو، کیونکہ یہ ایک نفیس فائدہ ہے۔ تدلیس کا خطرہ نہ ہونے کا سبب میزان میں مذکور ہے اس کا مطالعہ کرو۔ (ت)
رابعا میلوں کی گنتی حدیث میں نہیں نہ زید وعمرو کی ایسی حکایات پر وہ اعتماد ضرور جس کے سبب توقیت صلاۃ کا حکم معروف ومشہور ثابت بالقرآن العظیم والاحادیث الصحاح چھوڑ دیا جائے خصوصاً ملّاجی کے نزدیک تو یہ دس میل بتانے والا رافی متروک ہے زمینوں کا ناپنا میلوں کا گننا ان حملہ ورواۃ کا کام نہ تھا بلکہ سرے سے ان اعصار وامصار میں اس طریقہ کا اصلاً نام نہ تھا یونہی ہر شخص اپنے تخمینہ سے یا کسی اور کی سُنی سنائی بتادیتا ولہذا شمار میں اس قدر شدت سے اختلاف پڑتا ہے کہ ان گنتیوں سے امان اٹھائے دیتا ہے۔ ذوالحلیفہ کہ مکہ معظمہ کے راستے پر مدینہ طیبہ کے قریب ایک مشہور ومعروف مقام ہے اُس کے اختلاف دیکھئے امام اجل رافعی احد شیخین مذہب شافعی اور اُن سے پہلے امام ابوالمحاسن عبدالواحد بن اسمٰعیل بن احمد شافعی معاصر امام غزالی اور اُن سے بھی پہلے امام ابونصر عبدالسید بن محمد شافعی نے فرمایا: مدینہ سے ایک میل ہے۔ امام قسطلانی شافعی نے فرمایا: یہ وہم ہے بشہادت مشاہدہ مردود۔ بعض نے کہا دو۲ ایک میل۔ امام عینی نے فرمایا: چار۴ میل۔ امام حجۃ الاسلام شافعی نے فرمایا: چھ۶ میل ہے۔ اسی طرح امام مجد شافعی نے قاموس میں کہا۔ امام اجل ابوزکریا نووی شافعی نے فرمایا: یہی صحیح ہے۔ بعض علما نے کہا: سات میل۔ امام جمال اسنوی شافعی نے فرمایا: حق یہ کہ تین میل ہے یا کچھ قدرے قلیل زیادہ ہو مشاہد اس پر گواہ ہے۔ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ہے:
بعدہ من المدینۃ میل، کماعندالرافعی، لکن فی البسیط انھا علٰی ستّۃ امیال، وصححہ فی المجموع، وھو الذی قالہ فی القاموس۔ وقیل: سبعۃ۔ وفی المھمات: الصواب، المعروف بالمشاھدۃ انھا علی ثلثۃ امیال اوتزید قلیلا ۱؎۔
 (۱؎ ارشاد الساری شرح البخاری    کتاب المواقیت    باب فرض مواقیت الحج والعمرۃ    مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ 

بیروت۳/۹۸)
اُسی میں ہے: وقول من قال، کابن الصباغ فی الشامل، والرویانی فی البحر، انہ علی میل من المدینۃ وھم، یردہ الحس ۲؎۔
 (۲؎ ارشاد الساری شرح البخاری    باب مہل اہل مکہ للحج والعمرۃ    مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت    ۳/۹۹)
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے: من المدینۃ علی اربعۃ امیال ومن مکۃ علی مائتی میل، غیر میلین وقیل: بینھما وبین المدینۃ میل اومیلان ۳؎
دیکھئے ایسے معروف مقام میں کہ شارع نے اُسے اہلِ مدینہ کے لئے میقات احرام مقرر فرمایا ایسے اجلہ ائمہ میں ایسے شدید اختلاف ہیں جنہیں ترازوئے تخمینہ کی جھونک کسی طرح نہیں سہار سکتی ایک۱ دو۲ تین۳ چار۴ چھ۶ سات۷ میل تک اقوال مختلف، پھر تصحیحوں میں بھی دونا دون کا تفاوت، ایک فرمائے چھ۶ میل صحیح ہے دوسری فرمائے تین میل حق ہے۔
 (۳؎ عمدۃ القاری شرح البخاری     باب قول اللہ تعالٰی یاتوک رجالا الخ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۹/۱۳۰)
موطائے امام مالک میں بسند صحیح علٰی شرط الشیخین ہے: عن یحیی بن سعید انہ قال لسالم بن عبداللّٰہ مااشد مارأیت اباک اخر المغرب فی السفر فقال سالم غربت الشمس ونحن بذات الجیش فصلی المغرب المغرب بالعقیق ۱؎
(یعنی یحیٰی بن سعید انصاری نے امام سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے پُوچھا آپ نے اپنے والد ماجد کو سفر میں مغرب کی تاخیر زیادہ سے زیادہ کس قدر کرتے دیکھا فرمایا ذات الجیش میں ہمیں سورج ڈُوبا اور مغرب عقیق میں پڑھی)
 (۱؎ مؤطا امام مالک    قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی    ص ۱۲۹)
اب رواۃ مؤطا تلامذہ امام مالک میں ان دونوں مقاموں کے فاصلہ میں اختلاف پڑا۔ یحیٰی کی روایت میں ہے دو میل یا کچھ زائد، عبداللہ بن وہب نے کہا چھ۶ میل، محمد بن وضاح اندلسی تلمیذ التلمیذ امام مالک نے کہا سات میل، عبدالرحمن بن قاسم نے کہا دس۱۰ میل، علامہ زرقانی نے جزم کیا کہ بارہ۱۲ میل شرح مؤطا میں فرمایا:
بینھما اثنا عشرمیلا، وقال ابن وضاح: سبعۃ امیال، وقال ابن وھب: ستۃ، وقال القعنبی: ذات الجیش علی بریدین من المدینۃ، وقال البونی فی روایۃ یحیٰی: وبینھما میلان اواکثر قلیلا، وفی روایۃ ابن القاسم: عشرۃ امیال ۲؎۔
ان اختلافات کو خیال کیجئے کہاں دو۲ میل کہاں بارہ۱۲ میل۔
 (۲؎ شرح الزرقانی علی المؤطا    قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر        ۱/۲۹۷)
خامساًیہ واقعہ عین ہے اور وقائع عین مساغ ہرگونہ احتمالات سرعت سیر کے لئے کوئی حد محدود نہیں کہ اس سے زائد نامتصور ہو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا سہ منزلہ کرنا اُوپر گزرا ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث میں ہے :
اصبح النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بملل ثم راح وتعشی بسرف ۔
سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ملل میں صبح ہوئی پھر تشریف لے چلے اور شام کا کھانا سرف میں تناول فرمایا۔

فصل اول میں گزرچکا کہ مَلل مدینہ طیبہ سے سترہ۱۷ میل ہے اور یہیں کلام امام بدر محمود عینی سے منقول ہوا کہ مدینہ طیبہ مکہ معظمہ سے دو کم دو سومیل ہے اب سترہ وہ اور دس میل سرف کے نکال لیجئے تو ایک دن میں ایک سو اکہتر میل راہ طے ہوئی پھر غروب شمس سے اتنے قرب عشا تک کہ ہنوز بقدر تین رکعت پڑھ لینے کے مغرب کا وقت باقی ہو دس میل قطع ہوجانا کیا جائے عجب ہے خصوصاً اواخر جوزا و ا و ا ئل سرطان میں کہ ان دنوں حوالیِ مکّہ معظمہ میں وقت مغرب عــہ کم وبیش ڈےڑھ گھنٹا ہوتا ہے اعتبار نہ آئے تو آزما دیکھئے کہ عمدہ گھوڑے تیز ناقے ڈےڑھ چھوڑ ایک ہی گھنٹے میں دس۱۰ میل بلکہ زائد قطع کرلیں گے
عــہ اقول لتکن الشمس عنددخول العشاء فی اول السرطان میلہ الح الرتمام
عرض المکۃ المکرمۃ سح ک غایۃ الانحطاط بالتفریق مدفح جیبہ ک الدظل عرض مکۃ الح ماح لح * ظل المیل الوالہ الہ لامنحطا= ی حہ ک الح جیب تعدیل النھار قوسہ ط حہ نہ الح - صہ حہ = ف حہ ء لر نصف قوس اللیل سہمہ مط حہ لط لر* جیب انحطاط الوقت ح حہ الح= ع ک مہ الدح سو÷ ک الد= کا حہ مدمح- مط لطالر= الرحہ ندمط سھم فضل الدائر قوسہ نرحہ م ف حہ ء لر= حہ الدک دائر* ع قہ= ا ت الط لرھذا تقریب ووجوہ التدقیق تعلم ان شاء اللّٰہ تعالٰی من کتابنا زیج الاوقات للصوم والصلٰوۃ وفقنا اللّٰہ تعالٰی لاکمالہ ونفعنا والمسلمین باعمالہ اٰمین ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ (م)
حدیث مؤطا میں کہ ابھی مذکور ہوئی جزم علّامہ زرقانی اور نیز روایت ابن القاسم تلمیذ امام مالک پر اس کی نظیر یہیں پیش نظر اوپر ثابت ہوچکا کہ سالم قائل جمع نہیں وہ تصریحاً فرماچکے کہ اُن کے والد ماجد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ فرمائی تو لاجرم غروب آفتاب کے بعد دس بارہ میل چلے اور مغرب وقت میں پڑھی ولہذا ابوالولید باجی مالکی نے اس حدیث کی شرح میں کہا: ارادان یعرف اخر وقتھا المختار ۱؎ یحیٰی بن سعید انصاری کا اس سوال سے یہ ارادہ تھا کہ مغرب کا آخر وقت مختار معلوم کریں۔
 (۱؎بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۲۹۷)
نتقی میں کہا: وحمل ذلک علی المعروف من سیر من جد ۲؎
خروج وقت پر پڑھنا ہوتا تو کوشش سیر پر حمل کی کیا حاجت تھی بالجملہ حدیث برتقدیر صحت بھی اصلا جمع حقیقی کی مفید نہ جمع صوری سے جدا وبعید والحمداللہ العلی المجید۔
 (۲؎ بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۲۹۷)
الحمد للہ کلام اپنے ذروہ اقصے کو پہنچا اور جمع تقدیم وتاخیر دونوں میں ملّاجی کا ہاتھ بالکل خالی رہ گیا، ایک حدیث سے بھی جمع حقیقی اصلاً ثابت نہ ہوسکی وللہ الحجۃ السامیہ امید کرتا ہوں کہ اس فصل بلکہ تمام رسالہ میں ایسا کلام شافی ومتین وکافی ومبین برکات قدسیہ روح زکیہ طیبہ علیہ امام الائمہ مالک الازمہ کاشف الغمہ سراج الامہ سیدنا امام اعظم واقدم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حصّہ خاصہ فقیر مہین ہو والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔
Flag Counter