Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
57 - 157
ہاں خوب یاد آیا علمائے شافعیہ کی کیوں سُنئے آپ اپنے ہی لکھے کو نہ دیکھئے مسئلہ وقت مستحب ظہر میں ف فرمائے گئے اگر ابراد اختیار کرے تو لازم ہے کہ ایسا ابراد نہ کرے کہ وقت ظہر کا خارج ہوجائے یا قریب آجائے حد میں ابراد کی علماء میں اختلاف ہے لیکن یہ سب کے نزدیک شرط ہے کہ ابراد اس مرتبہ کا نہ کرے کہ ظہر کے آخر وقت کو پہنچ جاوے کہا فتح الباری میں اختلف العلماء فی غایۃ الابراد؛
لکن یشترط ان لایمتدالی اخر الوقت ملخصاً
 (ابراد کی انتہاء میں علماء کا اختلاف ہے لیکن یہ شرط ہے کہ آخر وقت تک نہ پہنچے۔ ت)
 (ف معیارالحق مسئلہ سوم وقت مستحب ظہر    ص ۳۱۱، ۳۱۲)
جب آخر وقت کے قریب تک نہ آنا لازم وشرطِ ابراد ہے تو حکم ابراد کو خارج وقت پر حمل کرنا کیساعذر بارد ہے، ملّاجی! 

ایمان سے کہنا یہ حدیث سے جواب ہے یا اپنی سخن پروری کے لئے صراحۃً نص شرع کی تحریف حدیث صحیح کارد۔ شافعیہ حنفیہ کے مکالمات محض تفنن طبع کے لئے ہیں ورنہ مذاہب متقرر ہوچکے۔ 

علّامہ زرقانی مالکی شرح مواہب آخر جلد ہفتم میں فرماتے ہیں:
قداجاب الحافظ ابن حجر، عن ذلک وعن غیرہ من ادلۃ المانعین، وھی عشرۃ، بمایطول ذکرہ، مع انہ لاکبیر فائدۃ فیہ، اذالمذاھب تقررت، انما ھو تشحیذ اذھان ۱؎۔
ابن حجر نے اس دلیل کا بھی اور مانعین کی دیگر دس۱۰ دلیلوں کا بھی جواب دیا ہے مگر ان کے ذکر سے طوالت ہوتی ہے اور کوئی نمایاں فائدہ بھی نہیں ہے کیونکہ مذاہب تو مقرر ہوچکے ہیں (اور ایسے سوال جواب) محض ذہن کو تیز کرنے کا کام دیتے ہیں۔ (ت)
 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب    ذکر تہجد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر    ۷/۴۵۰)
آپ اپنی خبر لیجئے آپ تو محقق مجتہد ہیں سب ارباب مذاہب کی ضد ہیں آپ کیوں صحیح بخاری کی حدیث جلیل میں یوں کھلی تحریفیں کررہے ہیں دعوے باطلہ عمل بالحدیث کے چھلکے اُتررہے ہیں۔ ع

شرم بادت ازخدا وازرسول

(تم خدا اور رسول سے شرم کھاؤ)

لطیفہ ۹:    اقول ملّاجی خود جانتے تھے یہ تاویلیں نہیں محض مہمل پوچ تقریروں سے جیسے بنے حدیث کو رَد کرنا ہے لہذا عذر بدتر ازگناہ کیلئے ارشاد ہوتا ہے ف منشا تاویلات کا یہی ہے کہ احادیث صحیحہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد ایک مثل کے وقتِ ظہر نہیں رہتا ثابت ہیں پس جمیعا بین الادلہ یہ تاویلیں حقہ کی گئیں۔ ان تاویلوں کو حقہ کہنا تو دل میں خوب جانتے ہوگے کہ جھُوٹ کہہ رہے ہو خاک حقہ تھیں کہ ایک دم میں سُلفہ ہوگئیں مگر اس ڈھٹائی کا کہاں ٹھکانا کہ صحیح حدیث بخاری شریف کو بحیلہ جمع بین الادلہ یوں دانستہ بگاڑلے حالانکہ نہ قصد واحد نہ لفظ مساعد اور حدیث ابن عمر دربارہ غیبت شفق میں باوصف اتحاد قصہ جمع بین الا دلہ حرام اور رد احادیث صحاح واجب الالتزام۔
 (ف معیارالحق مسئلہ چہارم    ص ۳۵۴)
لطیفہ ۱۰: اقول جمع تقدیم کی نامندمل جراحت بھرنے کو حدیث ابوجحیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں وہ لَن ترانیاں تھیں کہ ظاہر پر حمل واجب ہے جب تک مانع قطعی نہ ہو اَب اپنے داؤں کو ظاہر نص صریح کے یوں ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے خیر بحمداللہ آپ ہی کی گواہی سے ثابت ہولیا کہ جمع بین الادلہ کے لئے ایسی رکیک وپوچ ولچر تاویلات تک روا ہیں تو یہ صاف ونظیف وشائع ولطیف معانی ومحامل کہ ہم نے جمعا بین الادلہ احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہم میں اختیار کیے ان میں اپنی چُون وچرا کی گلی آپ نے خود بند کرلی، واللہ الحمد، ع:
عدد شود سبب خیر گر خدا خواہد
طرفہ یہ کہ آپ مستدل ہیں اور ہم خصم جب آپ کو ایسے لچریات نفع دیں گے ہمیں یہ واضحات بدرجہ اولٰی نافع اور آپ کے تمام ہوا حس و وساوس کے قاطع ہوں گے۔
فائدہ عائدہ: سُنن میں ایک حدیث اور ہے جس سے ناواقف کو جمع تاخیر کا وہم ہوسکے فقیر نے کلامِ فرےقین میں اُس سے استناداً جواباً اصلاً تعرض نہ دیکھا، ملّاجی بہت دُور دُور کے چکّر لگاآئے، جہاں کچھ بھی لگتی پائی بلکہ نری بے لگاؤ بھی جمع کرلائے سُنن کچھ دُور نہ تھیں اُس کے آس پاس گھُوما کئے مگر اُس سے دہنے بائیں کترائے اسی سے اس کا نہایت نامفیدی میں ہونا ظاہر مگر شاید اَب کسی نئے متوہم یا خود حضرت ہی کو تازہ وہم جاگے لہذا اس سے تعرض کردینا مناسب،
ففی سنن ابی داود، حدثنا احمد بن صالح نایحیی بن محمد الجاری ۱؎، وفی سنن النسائی، اخبرنا المؤمل بن اھاب، قال: حدثنی یحیی بن محمدن الجاری ۲؎، وفی مصنف الطحاوی، حدثنا علی بن عبدالرحمٰن ثنا نعیم بن حماد ۳؎ قالا عــہ نا عبدالعزیز بن محمد (زاد نعیم) الدراوردی، عن مالک عن ابن الزبیر عن جابر، ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم غربت لہ الشمس بمکۃ، فجمع بینھما بسرف ۱؎ (زاد نعیم) یعنی الصلاۃ۔ ولفظ المؤمل: غابت الشمس ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بمکۃ، فجمع بین الصلاتین بسرف ۲؎۔ قال ابوداود: حدثنا محمد بن ھشام جار احمد بن حنبل ناجعفر بن عون عن ھشام بن سعد، قال: بینھما عشرۃ امیال، یعنی بین مکۃ وسرف ۳؎۔
سنن ابی داؤد میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے احمد ابن صالح نے، اس نے کہا کہ خبر دی ہمیں یحیٰی ابن محمد جاری نے۔ اور سنن نسائی میں ہے کہ خبر دی ہمیں مؤمل ابن الوہاب نے، اس نے کہا حدیث بیان کی مُجھ سے یحیٰی ابن محمد جاری نے۔ اور مصنّف طحاوی میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے علی ابن عبدالرحمن نے، اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے نعیم ابن حماد نے۔ دونوں نے کہا کہ خبر دی ہم کو عبدالعزیز ابن محمد نے (نعیم نے ''دراوردی'' کا اضافہ کیا ہے) مالک بن ابی الزبیر سے، اس نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے  کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکّہ میں تھے تو سُورج غائب ہوگیا چنانچہ جمع کیا آپ نے دونوں کو سَرِف میں (نعیم نے اضافہ کیا) یعنی نماز کو۔ اور مؤمل کے الفاظ یوں ہیں سُورج غائب ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکہ میں تھے تو آپ نے دونوں نمازوں کو سَرفِ میں جمع کیا۔ ابوداؤد نے کہا کہ مجھ کو احمد ابن حنبل کے ہمسائے محمد بن ہشام نے بتایا کہ جعفر ابن عون نے ہشام ابن سعد سے روایت کی ہے کہ دونوں کے درمیان دس۱۰ میل کا فاصلہ ہے یعنی مکّہ اور سَرِف کے درمیان۔ (ت)
عــہ ای یحیی عندالاولین ونعیم عندالطحاوی ۱۲ منہ (م)

یعنی یحیٰی سے پہلے دو۲ (ابوداؤد اور نسائی) کے ہاں اور نعیم طحاوی کے ہاں ۱۲ منہ (ت)
 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین        مطبوعہ مجتبائی لاہور        ۱/۱۷۱)

(۲؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۹)

(۳؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین الخ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

(۱؎ شرح معانی الاثار    باب الجمع بین الصلاتین الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

(۲؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع المقیم الخ        مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور    ۱/۶۹)

(۳؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۱)
Flag Counter