جب خود ائمہ شافعیہ کی شہادت سے ثابت اور نیز مشاہدہ وعقل وقواعد علم ظل شاہد کہ ٹیلوں کے سائے کی ابتدا زوال سے بہت دیر کے بعد ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ سایہ ٹیلوں کے برابر اُس وقت پہنچے گا جب بلند چیزوں کا سایہ ایک مثل سے بہت گزر جائے گا اُس وقت تک حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گرمیوں میں ظہر ٹھنڈی کرنے کاحکم فرمایا اور اس کے بعد مؤذن کو اجازتِ اذان عطا ہوئی، تو بلاشُبہہ دوسرے مثل میں وقتِ ظہر باقی رہنا ثابت ہوا جیسا کہ ہمارے امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب ہے یہ دلیل ساطع بحمداللہ لاجواب تھی یہاں ملّاجی حالتِ اضطراب میں فرماگئے کہ مساوی کہنا راوی یعنی سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سایہ ٹیلوں کو ظاہر ہے کہ تخمیناً اور تقریباً ہے نہ باینطور کہ گزرکھ کر ناپ لیا تھا۔ کیوں حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو گزرکھ کر نہ ناپا تھا یونہی تخمیناً مساوات بتادی مگر انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا گز رکھ کر ناپ لینا آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا آخر دخول وقت عصر یونہی تو معلوم ہوگا کہ سایہ اس مقدار کو پہنچ جائے اُس کا علم بے ناپے کیوں کر ہوا بلکہ یہاں تو غالباً دو ناپوں کی ضرورت ہے ایک وقت نصف النہار کہ سایہ اصلی کی مقدار ناپیں دوسری اس وقت کہ سایہ بعد ظل اصلی مقدار مطلوب کو پہنچایا نہیں، جب انہوں نے ایک ناپ نہ کی یونہی تخمیناً فرمادیا انہوں نے دو۲ ناپیں کا ہے کوکی ہوں گی، یونہی تخمیناً فرمادیا ہوگا کہ عصر اوّل وقت داخل ہوگیا جیسے آپ وہاں احتمال نکالا چاہتے ہیں کہ واقع میں مساوی نہ ہوا ہوگا اور ظہر ایک مثل کے اندر ہُوئی یہاں بھی وہی احتمال پیدا رہے گا کہ واقع میں وقت عصر نہ آیا تھا ظہر اپنے ہی وقت پر ہُوئی یہ کیا حیا داری ومکابرہ ہے کہ جابجا جو باتیں خود اختیار کرتے جاؤ دُوسرا کرے تو آنکھیں دکھاؤ تحریف نصوص بتاؤ اس تحکم کی کوئی حد ہے۔
لطیفہ ۲: اقول خدا انصاف دے تو یہاں تخمینہ بھی اتنی ہی غلطی ہوگی جتنی دیر میں ظہر کی دو۲ رکعتیں پڑھی جائیں اور حدیث ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں سخت فاحش غلطی ماننی پڑے گی جسے ان کی طرف بے دلیل نسبت کردینا صراحۃً سُوءِ ادب ہے، خود امام شافعی کی تصریح سے واضح ہُوا کہ سایہ تلول کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب بلند چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا نصف مثل سے اکثر گزرجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ٹیلوں کا سایہ ابھی نصف مثل تک بھی نہ پہنچے گا کہ اور چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا ایک مثل سے گزرجائے گا کہ اول تو جس طرح ظہور ظل میں تفاوت شدید ہے کہ اتنی دیر کے بعد ان کا سایہ پیدا ہوتا ہے یونہی زیادت ظل میں فرق رہے گا بلند چیزوں کا سایہ اپنی نسبت پر جتنی دیر میں جتنا بڑھے گا ٹیلوں کا سایہ اپنی نسبت میں اُس سے کم بڑھے گا
کمالایخفی علی العارف بقواعد الفن
(جیسا کہ قواعدِ فن کے جاننے والے پر مخفی نہیں۔ ت)
(ف معیارالحق مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ مکتبہ نذیریہ لاہور ص ۳۵۳)
تو لاجرم جس وقت ٹیلوں کاسایہ پیدا ہوا اور بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ نصف مثل سے کم بڑھ کر ایک مثل ظل اصلی سے گزرگیا اُس وقت ٹیلوں کا سایہ اُس کم ازنصف سے بھی کم ہوگا اور اس تحفّظ نسبت تفاوت کو نہ بھی مانئے تو خیر کم ازنصف ہی جانئے پھر بہرحال اس سے اتنی دیر اور مجرا کیجئے جس میں اذان کا حکم ہوا اور اُس کے بعد جماعت فرمائی گئی تو حساب سے آپ کے طور پر اُس وقت ٹیلوں کا سایہ کوئی چہارم ہی کی قدر رہتا ہے اُسے ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمادینا کہ سایہ برابر ہوگیا تھا کس قدر بعید وناقابل قبول ہے، کیا اچھا انصاف ہے کہ یا تو تخمین میں اُتنی غلطی نامسموع کہ جس میں دو۲ رکعتیں پڑھ لیجائیں یا اپنے داؤں کو یہ بھاری غلطی مقبول کہ سیر میں پسیری کا دھوکا۔ بحمداللہ تعالٰی اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہاں تخمین سے جواب دینا محض مہمل وباطل تھا۔
لطیفہ ۳: اقول وہاں ایک ستم خوش ادائی یہ کی ہے ف۱ کہ وہ تخمیناً برابر ہونا بھی مع سایہ اصلی کے ہے نہ سایہ اصلی الگ کرکے
وھذا لایخفی من لہ ادنی عقل
(اور یہ ادنٰی سی عقل رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں۔ ت) تو دراصل سایہ ٹیلوں کا بعد نکالنے سایہ اصلی کے تخمیناً آدھی مثل ہوگا یا کچھ زیادہ اور مثل کے ختم ہونے میں اتنی دیر ہوگی کہ بخوبی فارغ ہُوئے ہوں گے۔
(ف۱ معیارالحق مسئلہ چہارم ص ۳۵۴ )
ملّاجی! ذرا کچھ دنوں جنگل کی ہوا کھاؤ ٹیلوں کی ہری ہری ڈوب ٹھنڈے وقت کی سنہری دھوپ دیکھو کہ آنکھوں کے تیور ٹھکانے آئیں علماء تو فرمارہے ہیں کہ ٹیلوں کا سایہ پڑتا ہی نہیں جب تک آدھے سے زیادہ وقت ظہر نہ نکل جائے ملّاجی ان کے لئے ٹھیک دوپہر کا سایہ بتارہے ہیں اور وہ بھی تھوڑا نہ بہت آدھی مثل جبھی تو کہتے ہیں کہ وہابی ہوکر آدمی کی عقل ٹیلوں کا سایہ زوال ہوجاتی ہے۔
لطیفہ ۴: اقول اور بڑھ کر نزاکت فرمائی ہے ف۲ کہ مساوات سایہ کے ٹیلوں سے مقدار میں مراد نہ ہو بلکہ ظہور میں یعنی پہلے سایہ جانب شرقی معدوم تھا اور مساوات نہ تھی ٹیلوں سے کیونکہ وہ موجود نہیں اور وقت اذان کے سایہ جانب شرقی بھی ظاہر ہوگیا پس برابر ہوگیا ٹیلوں کے ظاہر ہونے میں اور موجود ہونے میں نہ مقدار میں اس جواب کی قدر۔
(ف۲معیارالحق مسئلہ چہارم ص ۳۵۴ )
ملّاجی اپنے ہی ایمان سے بتادیں وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر آیا اس کے یہ معنی کہ ٹیلے بھی موجود تھے سایہ بھی موجود ہوگیا اگرچہ وہ دس۱۰ گز ہوں یہ جو برابر اے سبحٰن اللہ اسے کیوں تحریف نصوص کہے گا کہ یہ تو مطلب کی گھڑت ہے۔ ایسا لقب تو خاص بےچارے حنفیہ کا خلعت ہے۔ ملّاجی! اگر کوئی کہے میں مُلّاجی کے پاس رہا یہاں تک کہ اُن کی داڑھی بانس برابر ہوگئی تو اس کے معنی یہی ہوں گے نہ کہ ملّاجی کا سبزہ آغاز ہوا کہ پہلے بانس موجود تھا اور ملّاجی کی داڑھی معدوم، جب رُواں کچھ کچھ چمکا چمکتے ہی بانس برابر ہوگیا کہ اب بانس بھی موجود بال بھی موجود، ع
مرغک ازبےضہ بروں آید ودانہ طلبد
(مرغ جب انڈے سے باہر آتا ہے تو دانہ طلب کرتا ہے)
لطیفہ ۵: اقول یہ بکف چراغی وتحریف صریح قابل ملاحظہ کہ خود ہی حنفیہ وشافعیہ کے مسئلہ مختلف فیہا میں شافعیہ سے حجت لانے کو فتح الباری امام قسطلانی سے یہ عبارت نقل کی کہ:
یحتمل ان یراد بھذہ المساواۃ ظھور الظل بجنب التل بعد ان لم یکن ظاھرا ۱؎۔
ہوسکتا ہے اس مساوات سے مراد یہ ہوکہ ٹیلے کے پہلو میں سایہ ظاہر ہوگیا جبکہ پہلے ظاہر نہیں تھا۔ (ت)
(۱؎ فتح الباری شرح البخاری باب الابراد بالظہر فی السفر مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۲/۱۷)
جس میں ٹیلوں کے لئے سایہ اصلی ہونے کے صاف نفی تھی حضرت تو وہ د عوی کرچکے تھے کہ ان کا سایہ اصلی آدھے مثل کے قریب ہوتا ہے لاجرم معدوم ہونے میں جانب شرق کی قید بڑھائی کہ مشرق کی طرف معدوم تھا اور اسے فتح الباری کی طرف نسبت کردیا کہ جیسا کہ فتح الباری میں ویحتمل ان یراد الخ ملّاجی! دھرم سے کہنا یہ تحریف تو نہیں۔
لطیفہ ۶: اقول فتح الباری کے طور پر تو مشارکت فی الوجود غایت بن سکتی ہے کہ دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ اصلاً نہ تھا دیر فرمائی یہاں تک کہ موجود ہوا اگرچہ ٹیلوں سے سایہ متساوی ہونے کے ہرگز یہ معنی نہیں مگر آپ اپنی خبر لیجئے آپ کے نزدیک تو ٹھیک دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ آدھا مثل تھا تو ظہور ووجود میں برابری صبح سے شام تک دن بھر رہی اس غایت مقرر کرنے کے کیا معنی کہ وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ سایہ وجود میں ٹیلوں کے برابر ہوگیا اور جانب شرقی کی قید حدیث میں کہاں، یہ آپ کی نری من گھڑت ہے، تاویل گھڑی مساوات فی الظہور، تفریع کی مساوات فی الوجود، اور مفرع علیہ وجود شرقی، کیا جب تک وجود غربی شمالی تھا مساوات فی الوجود نہ تھی، اب کہ وجود شرقی ملا مساوات ہُوئی کچھ بھی ٹھکانے کی کہتے ہو۔
لطیفہ ۷:اقول ملّاجی! جب آپ کے دھرم میں سایہ وقت نصف النہار بھی موجود تھا تو زوال ہوتے ہی قطعاً معاً شرقی ہوا تو یہ مساوات خاص آغاز وقت ظہر پر پیدا ہوئی اور حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ مؤذن نے تین بار ارادہ اذان کیا ہر بار حکمِ ابراد وتاخیر ملا یہاں تک کہ سایہ مساوی ہواکیا یہ ارادہ ہائے اذان وحکم ہائے ابراد سب پیش اززوال ہولیے تھے شاید پہردن چڑھے ظہر کا وقت ہوجانا ہوگا، ملّاجی! تحریف نصوص اسے کہتے ہیں، ع
چھائی جاتی ہے یہ دیکھو تو سراپا کس پر
لطیفہ ۸: اقول جب کچھ نہ بنی تو ہارے درجے یہ تیسری نزاکت اس حدیث کے جواب میں ف فرمائی کہ یہ تاخیر آنحضرت عــہ۱ سے سفر میں ہوئی شاید آنحضرت عــہ۲ نے اس ارادہ سے کی ہوکہ ظہر کو عصر سے جمع کریں گے پس سفر پر حضر کو قیاس مع الفارق ہے۔ ملّاجی! ایمان سے کہنا یہ حدیث ابراد ظہر کی ہے یعنی وقت ٹھنڈا کرکے پڑھنا یا تفویت ظہر کی کہ وقت کھوکر پڑھنا، حدیث میں علّتِ حکم یہ ارشاد ہوئی ہے کہ شدتِ گرمی جوشِ جہنم سے ہے تو گرمی میں ظہر ٹھنڈا کردیا یہ کہ ابھی اذان نہ کہو ہم عصر سے ملاکر پڑھیں گے۔
(ف معیارالحق ص ۳۵۴)
عــہ۱وعــہ ۲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہٖ وبارک وسلم ۱۲ منہ
ملّاجی! اس حدیث کی شرح میں خود علمائے شافعیہ کا کلام سُنو کہ معنی ابراد میں آپ کی یہ گھڑت بھی ٹوٹے اور سفر وحضر سے فرق کی بھی قسمت پھُوٹے ارشاد الساری امام قسطلانی شافعی شرح صحیح بخاری باب الابراد بالظہر فی السفر میں اسی حدیث ابوذررضی اللہ تعالٰی عنہ کے نیچے ہے:
(قال: کنا مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی سفر) قیدہ ھنا بالسفر، واطلقہ فی السابقۃ، مشیرا بذلک الی ان تلک الروایۃ المطلقۃ محمولۃ علی ھذہ المقیدۃ، لان المراد من الابراد التسھیل ودفع المشقۃ، فلاتفاوت بین السفر والحضر ۱؎۔
(کہا: ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ تھے سفر میں) یہاں سفر کے ساتھ مقید کیا ہے اور سابقہ روایت میں مطلق رکھا ہے یہ بتانے کے لئے کہ سابقہ مطلق روایت اسی مقید پر محمول ہے کیونکہ ٹھنڈا کرنے کا مقصد آسانی پیدا کرنا اور مشقت دُور کرنا ہے اور اس میں سفر حضر کا کوئی فرق نہیں۔ (ت)
(۱؎ ارشاد الساری شرح البخاری باب الابراد بالظہر فی السفر مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت ۱/۴۸۸)
اسی میں ہے:(فقال لہ: ابرد، حتی رأینا فیئ التلول) وغایۃ الابراد حتی یصیر الظل ذراعا بعد ظل الزوال، اوربع قامۃ اوثلثھا اونصفھا، وقیل غیر ذلک۔ ویختلف باختلاف الاوقات: لکن یشترط ان لایمتد الی اٰخر الوقت ۲؎۔
(اس کو کہا ٹھنڈا کر، یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا) ابراد کی انتہا یہ ہے کہ سایہ ایک گز ہوجائے زوال کے سائے کے بغیر، یا قد کا چوتھائی یا تہائی یا نصف ہوجائے، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ اور اختلاف اوقات کے ساتھ ابراد میں بھی اختلاف واقع ہوتا رہتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ابراد اتنا زیادہ نہ ہوکہ وقت آکر ہوجائے۔ (ت)
(۲؎ ارشاد الساری شرح البخاری باب الابراد بالظہر فی السفر مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت ۱/۴۸۸)