Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۵(کتاب الصلٰوۃ)
55 - 157
حدیث ۶:بخاری ونسائی بطریق قتادہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:
ان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم،  وزید بن ثابت تسحرا، فلما فرغا من سحورھما قام نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الی الصلاۃ فصلی، قلت لانس: کم کان بین فراغھما من سحورھما ودخولھما فی الصلاۃ؟  قال: قدر  مایقرء  الرجل خمسین اٰیۃ ۲؎۔
یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وزید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سحری تناول فرمائی جب کھانے سے فارغ ہوئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نمازِ صبح کے لئے کھڑے ہوگئے نماز پڑھ لی میں نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے  پُوچھا سحری سے فارغ اور نماز میں داخل ہونے میں کتنا فصل ہوا، کہا اس قدر کہ آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔
 (۲؎ صحیح البخاری    باب وقت الفجر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۸۲)
امام طور پشتی حنفی پھر علامہ طیبی شافعی پھر علامہ علی قاری شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں:
ھذا تقدیر لایجوز لعموم المؤمنین الاخذ بہ، وانما اخذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاطلاع اللّٰہ تعالٰی ایاہ، وکان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم معصوما عن الخطأ فی الدین ۳؎۔
یہ اندازہ ہے کہ عام اُمّت کو اسے اختیار کرنا جائز نہیں سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُسے اس لئے اختیار فرمایا کہ رب العزۃ جل وعلا نے حضور کو وقت حقیقی پر اطلاع فرمائی تھی اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دین میں خطا سے معصوم تھے۔
 (۳؎ مرقاۃ المفاتیح    شرح مشکوٰۃ المصابیح     الفصل الاول من باب تعجیل الصلوات     مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان	۲/۱۳۳)
حدیث ۷نسائی وطحاوی  زِرّ بن حبیش سے راوی:قال: قلنا لحذیفۃ، ای ساعۃ تسحرت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم؟ قال: ھو النھار، الا ان الشمس لم تطلع ۱؎۔
ہم نے حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پُوچھا آپ نےحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کس وقت سحری کھائی تھی؟ کہا دن ہی تھا مگر یہ کہ سورج نہ چمکا تھا۔
 (۱؎ سنن النسائی    الحدث علی السحو رذکر الاختلاف الخ    مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی    ۱/۳۰۳)
امام طحاوی کی روایت میں یوں صاف تر ہے : قلت: بعد الصبح؟ قال: بعد الصبح، غیران الشمس لم تطلع ۲؎۔
میں نے کہا بعد صبح کے، کہا ہاں بعد صبح کے مگر آفتاب نہ نکلا تھا۔
 (۲؎ شرح معانی الآثار    کتاب الصیام        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۳۷۸)
رائے فقیر میں ان روایات کا عمدہ محل یہی ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے علم نبوت کے مطابق حقیقی منتہائے لیل پر سحری تناول فرمائی کہ فراغ کے ساتھ ہی صبح چمک آئی حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گمان ہُوا کہ سحری دن میں کھائی بعد صبح اور واقعی جو شخص سحری کا پچھلا نوالہ کھاکر آسمان پر نظر اُٹھائے تو صبح طالع پائے وہ سوا اس کے کیا گمان کرسکتا ہے۔
حدیث ۸:ابوداؤد نے اپنی سُنن میں باب وضع کیا: باب المسافر وھو یشک فی الوقت ۳؎۔
اور اس میں انہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جن کی حدیث میں ہم یہاں کلام کررہے ہیں روایت کی:
 (۳؎ سنن ابی داؤد    باب المسافر یصلی الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور        ۱/۱۷۰)
قال: کنا اذاکنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی السفر، فقلنا: زالت الشمس اولم تزل، صلی الظھر ثم ارتحل ۴؎۔
جب ہم حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب سفر میں ہوتے تھے ہم کہتے سورج ڈھلا یا ابھی ڈھلا بھی نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُس وقت نمازِ ظہر پڑھ کر کُوچ فرمادیتے۔
 (۴؎سنن ابی داؤد    باب المسافر یصلی الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۰)
حدیث ۹:ابوداؤد اسی باب میں اور نیز نسائی وطحاوی انہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذانزل منزلا لم یرتحل حتی یصلی الظھر، فقال لہ رجل: وان کان نصف النھار؟ قال: وان کان نصف النھار ۵؎۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب کسی منزل میں اُترتے بے ظہر پڑھے کُوچ نہ فرماتے۔ کسی نے کہا اگرچہ دوپہر کو، فرمایا: اگرچہ دوپہر کو
 (۵؎سنن ابی داؤد    باب المسافر یصلی الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۰)
نسائی کے لفظ یوں ہیں: فقال رجل وان کانت بنصف النھار قال وان کانت بنصف النھار ۱؎۔
یعنی کسی نے پوچھا اگرچہ وہ نماز دوپہر میں ہوتی فرمایا اگرچہ دوپہر میں ہوتی۔
 (۱؎ سنن النسائی     اول وقت ظہر     حدیث ۴۹۹    مطبوعہ المکتبہ سلفیہ لاہور    ۱/۵۸)
لطیفہ۱:  اقول ملّاجی کو تو یہ منظور ہے کہ جہاں جےسے بنے اپنا مطلب بنائیں یہاں تو قول انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہ وقت عصر کا آغاز ہوجاتا ایسی تحقیق یقینی پر عمل کیا جس میں اصلاً گنجائش تاویل نہیں اور مسئلہ وقت ظہر میں جب علمائے حنفیہ نے حدیث صحیح جلیل صحیح بخاری شریف سے استدلال کیا کہ ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ایک سفر میں ہم حاضر رکاب سعادت سلطان رسالت علیہ افضل الصلاۃ والتحیۃ تھے مؤذن نے ظہر کی اذان دینی چاہی فرمایا وقت ٹھنڈا کر، دیر کے بعد انہوں نے پھر اذان کا قصد کیا، پھر فرمایا وقت ٹھنڈا کر، ایک دیر کے بعد انہوں نے پھر ارادہ کیا، فرمایا ٹھنڈا کر،
حتی ساوی الظل التلول
 (یہاں تک کہ ٹےلوں کا سایہ ان کے برابر آگیا) سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
ان شدۃ الحرمن فیح جھنم ۲؎
 (گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہے) تو اس میں نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو، ظاہر ہے کہ ٹھیک دوپہر خصوصاً موسم گرما میں کہ وہی زمانہ ابراد ہے ٹےلوں کا سایہ اصلا نہیں ہوتا بہت دیر کے بعد ظاہر ہوتا ہے، امام اجل ابوزکریا نووی شافعی شرح مسلم شریف میں فرماتے ہیں:
التلول منبطحۃ غیر منتصبۃ، ولایصیرلھا فیئ فی العادۃ، الابعد زوال الشمس بکثیر ۳؎۔
ٹیلے زمین پر پھیلے ہوتے ہیں نہ بلند عادۃً ان کا سایہ نہیں پڑتا مگر سورج ڈھلنے سے بہت دیر کے بعد۔
 (۲؎ صحیح البخاری    باب الابراد بالظہر فی السفر دارالمعرفۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۷۷)

(۳؎ شرح الصحیح لمسلم مع مسلم    باب استحباب الابراد بالظہر الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۴)
امام ابن اثیر جزری شافعی نہایہ میں فرماتے ہیں :
ھی منبطحۃ لایظھر لھا ظل، الا اذا ذھب اکثر وقت الظھر ۴؎۔
ٹیلے پست ہوتے ہیں ان کے لئے سایہ ظاہر ہی نہیں ہوتا مگر جب ظہر کا اکثر وقت جاتا رہے۔
 (۴؎ فتح الباری شرح البخاری    باب الابراد بالظہر فی السفر    بیروت        ۲/۱۷)

نوٹ:    یہ حوالہ سعیِ بسیار کے باوجود نہایہ سے نہیں مل سکا اس لئے فتح الباری سے نقل کیا ہے۔ نذیر احمد سعیدی۲
Flag Counter