جواب ثانی، اقول وقت ظہر دو مثل سمجھو خواہ ایک اُس کی حقیقت واقعیہ کا ادراک طاقت بشری سے خارج ہے آسمان بھی صاف ہو زمین بھی ہموار تاہم پیمائش اقدام یا کوئی چیز زمین میں کھڑی کرکے ناپنا تو ہرگز غایت تخمین مقدور تک بھی بالغ نہیں نہایت تصحیح عمل امثال دائرہ ہندیہ ہے وہ بھی حقیقت امر ہرگز نہیں بتاسکتا۔
اولا دائرے کی صحتِ سطح کا اسطوا سطحِ دائرۃ الافق سے اُس کی پوری موازات مقیاس کا سطحِ دائرہ نصف النہار سے ذرہ بھر مائل نہ ہونا مدخل ومخرج کے نقاط نامتجزیہ کی صحیح تعیین قوس محصورہ کی ٹھیک تنصیف پھر ظل کا خط نامتجزی پر واقعی انطباق پھر اُس کی حقیقی مقدار پھر اس پر مثل یا مثلین کی بے کمی بیشی زیادت ان میں سے کسی پر جزم متیسر نہیں۔
ثانیا بفرض محال عادی یہ سب حق حقیقت پر صحیح بھی ہوجائیں تاہم خط نصف النہار کا سطح عظیمہ نصف النہار میں ہونا معلوم نہیں بلکہ نہ ہونا ثابت ومعلوم ہے کہ شمس بوجہ تقاطعِ معدّل ومنطقہ اپنی سیر خاص سے لمحہ بھر بھی ایک مدار پر نہیں رہتا تو منتصف مابین المدخل والمخرج ہمیشہ خط نصف النہار سے شرقی یا غربی ہے مگر جبکہ دائرۃ الزوال پر مرکز نیّر کا انطباق اور احد الانقلابین میں حلول آنِ واحد میں ہو اور وہ نہایت نادر ہے۔
ثالثا اس نادر کو بھی فرض کرلیجئے تاہم علم کی طرف اصلا سبیل نہیں کہ حلولِ انقلاب یا وصول دائرہ جاننے کے طرق جوزیجات میں موضوع ہیں سب ظنی وتخمینی ہیں کسی کو کب کی تقویم حقیقی معلوم کرنا نہ حساب کا کام ہے نہ ارصاد کا، جداول جیوب وظلال ومیول واوساط وتعاویل مراکز ومواضع اوجات وتفاوت ایام حقیقیہ ووسطیہ وفصل مابین المرکزین وعروض واطوال بلاد درج واجزائے استوائیہ وطوالع ومطالع بلدیہ وغیرہا امور کہ اس ادراک کے ذرائع ہیں سب فی انفسہا محض تخمین ہیں اور اس پر اثباتِ زیجات برفع واسقاط حصصِ کسرات تخمین بالائے تخمین، پاکی ہے اسے جس نے بہر نقیر وقطمیر میں عجز وجہل بشرکو طاہر کیا اور ذرہ ذرہ عالم سے اپنے کمال علم وقدرت کو جلوہ دیا،
سبحٰنک لاعلم لنا الاماعلّمتنا انک انت العلیم الحکیم ۱؎۔
تُو پاک ہے ہمیں علم نہیں مگر جتنے کی تُونے تعلیم دی ہے تُو ہی علیم حکیم ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن ۲/۳۲)
ولہذا ملتقی وقتین سے کچھ پہلے اور کچھ بعد تک عامہ خلق کے نزدیک وقت مشکوک ہے اسی کو وقت بین الوقتین کہتے ہیں اس میں نظرِ ناظر کبھی حالتِ شک میں رہتی ہے کبھی بقائے وقتِ اول کبھی دخولِ وقت آخر گمان کرتی ہے اور واقع وہ ہے جو رب العزۃ جل وعلا کے علم میں ہے صاحبِ وحی خصوصاً
عالم علوم الاولین والآخرین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب بحکم نبأنی العلیم الخبیر
(آگاہ کیا ہے مجھے علم والے اور خبر والے نے۔ ت) عین وقت حقیقی پر مطلع ہوکر نمازِ ظہر ایسے اخیر وقت میں ادا فرمائے اور سلام پھیرتے ہی معاً وقت عصر کی ابتدائے حقیقی جو خاص علمِ الٰہی میں تھی شروع ہوجائے اور دیگر ناظرین کو وحی سے بہرہ نہیں رکھتے براہِ اشتباہ اسے وقت آخر میں گمان کریں اصلا محل تعجب نہیں نہ معاذاللہ اس میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی کسرِ شان کہ علومِ خاصہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حضور کا شریک نہ ہونا کچھ منافِی صحابیت نہیں بلکہ واجب ولازم ہے فقیر غفرلہ المولی القدیر احادیث کثیرہ سے خاص اس جزئیہ کی نظیریں پیش کرسکتا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسے وقت نمازیں پڑھیں یا سحری تناول فرمائی کہ ناظرین کو بقائے وقت میں شک یا خروجِ وقت کا گمان گزرتا بلکہ اجلہ حذاقِ صحابہ کی تمیز ومعرفت میں دیگر ناظرین شریک نہ ہُوئے علم محمدی تو علم محمدی ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، مثلاً:
حدیث ۱ : حدیث سائل کہ صحیح مسلم وسُنن ابی داؤد وسنن نسائی ومسند امام احمد وحجج امام ابن ابان ومصنّف طحاوی میں سیدنا ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی اُس میں ظہر روزِ اوّل کی نسبت مسلم ونسائی کی روایت یوں ہے:
کہنے والا کہتا دوپہر ہے یا ابھی دوپہر بھی نہ ہوا اور حضور کے علم سے اُن کے علموں کو کیا نسبت تھی۔
(۳؎ شرح معانی الآثار باب مواقیت الصلوات مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۰۳)
حدیث ۲صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وکتاب طحاوی میں پارہئ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ دربارہئ انکار جمع بین الصلاتین کہ عنقریب اِن شاء اللہ القریب المجیب مذکور ہوگی یہ ہے:
یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ذی الحجہ کی دسویں تارےخ مزدلفہ میں صبح کی نماز اُس کے وقت سے پہلے پڑھی بے وقت پڑھی۔
(۶؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلاتین مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۱۳)
امام بدر عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
قولہ قبل میقاتھا، بان قدم علی وقت ظھورطلوع الصبح للعامۃ، وقد ظھر لہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم طلوعہ، اِمّا بالوحی اوبغیرہ ۱؎۔
یعنی قبل وقت پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ اور لوگوں پر صبح کاطلوع کرنا ظاہر نہ ہوا تھا حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو وحی وغیرہ سے معلوم ہوگیا۔
(۱؎ عمدۃ القاری شرح بخاری باب صلاۃ الفجر بالمزدلفۃ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۱۰/۲۰)
حدیث ۳صحیح بخاری شریف میں عبدالرحمن بن زید نخعی سے خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت ہے :
ثم صلی الفجر حین طلع الفجر، قائل یقول: طلع الفجر، وقائل یقول: لم یطلع الفجر، واولہ، قال: خرجنا مع عبداللّٰہ الی مکۃ، ثم قدمنا جمعا الحدیث ۲؎۔
یعنی ہم حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ حج کو چلے مزدلفہ پہنچے وہاں حضرت عبداللہ نے نمازِ فجرطلوع فجر ہوتے ہی پڑھی کوئی کہتا فجر ہوگئی ہے کوئی کہتا ابھی نہیں۔
حدیث ۴امام ابوجعفر طحاوی انہیں عبدالرحمن نخعی سے راوی:
قال صلی عبداللّٰہ باصحابہ صلاۃ المغرب، فقام اصحابہ یتراء ون الشمس، فقال: ماتنظرون؟ قالوا: ننظر اغابت الشمس! فقال عبداللّٰہ: ھذا، واللّٰہ الذی لاالٰہ الّا ھو، وقت ھذہ الصلاۃ الحدیث ۳؎۔
یعنی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اصحاب کو نمازِ مغرب پڑھائی اُن کے اصحاب اُٹھ کر سورج دیکھنے لگے، فرمایا: کیا دیکھتے ہو؟ عرض کی: یہ دیکھتے ہیں کہ سُورج ڈوبا یا نہیں! فرمایا: قسم اللہ کی جس کے سوا کوئی سچّا معبود نہیں کہ یہ عین وقت اس نماز کا ہے۔
نماز سے فارغ ہوکر بھی اُن کے اصحاب کو شبہہ تھا کہ سورج اب بھی غروب ہوا یا نہیں
فان صلی حقیقۃً فی الفعل دون الارادۃ والفاء للتعقیب
(کیونکہ صلّٰی کا حقیقی معنی نماز پڑھنا ہے نہ کہ ارادہ کرنا اور فاء تعقیب کےلئے ہے۔ ت)
(۳؎ شرح معانی الآثار باب مواقیت الصلٰوۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۰۷)
حدیث ۵: بخاری مسلم ترمذی نسائی ابن ماجہ طحاوی بطریق انس رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال: تسحرنا مع رسول للّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ثمّ قمنا الی الصلاۃ، قلت: کم کان قدرما بینھما؟ قال: خمسین اٰیۃ ۱؎۔
ہم نے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر نمازِ فجر کے لئے کھڑے ہوگئے میں نے پُوچھا بیچ میں کتنا فاصلہ دیا، کہا پچاس آیتیں پڑھنے کا۔
(۱؎ صحیح البخاری باب وقت الفجر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۸۱)